متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)

(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات۔ حصہ ہشتم)

حضورِانور کیStockholm میں مہمانوں سے ملاقات

۱۸؍مئی ۲۰۱۶ءکے روز حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ اور آپ کا قافلہStockholm میں تھے اور ہم حضورِانور کےScandinavia کے دورے کے آخری ایام میں داخل ہو چکے تھے۔ اس دن پچھلے پہر قافلہ کو دورہ کے آخری مراحل کے لیےGothenburgجانا تھا۔ اگرچہ روانگی سے قبل حضورِانور کی چند سویڈش مہمانوں اور اعلیٰ افسران سے ملاقات بھی اسی ہوٹل میں ہوئی جہاں ہم قیام پذیر تھے۔

حضورِانور کے آداب گفتگو

ایک موقع پر حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوان مبلغ کاشف ورک صاحب سے مخاطب ہوئے جن کا تقرر Stockholm میں ہے اور ان سے اردو میں ایک سوال پوچھا۔ بعد ازاں حضورِانور نے مہمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ براہ کرم میری معذرت قبول کریں۔ جیساکہ میں اپنی (مادری )زبان میں بات کر رہا تھا۔ میں کاشف صاحب سے پوچھ رہا تھا کہ ان کا گھر یہاں سے کتنا دور ہے۔

یہ ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی اور حضورِانور نے صرف تیس سیکنڈ کے لیے اردو میں کاشف صاحب سے گفتگو فرمائی تاہم حضورِانور کے اخلاق اور آداب کا معیار ایسا بلند ہے کہ آپ نے اس مختصر دورانیہ کے لیے بھی مہمانوں سے معذرت کی۔ یہاں تک کہ حضورِانور نے ان کو یہ بھی بتایا کہ آپ نے کیا گفتگو فرمائی ہے تاکہ انہیں کوئی فکر یا پریشانی نہ رہے کہ شاید ان کے بارے میں کوئی بات کہی گئی ہے۔ یقینی طور پر یہ ہم سب کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔

مقامی مبلغ کے گھر کا دورہ

اس میٹنگ کے اختتام پر ہم کچھ لمحات کے لیے اپنے کمروں میں واپس گئے اور ہوٹل لابی میں واپس آنے سے پہلے اپنا سامان اکٹھا کیا۔ چند منٹ بعد حضورِانور اور محترمہ خالہ سبوحی صاحبہ (حضرم محترم حضورِ انور) اپنے کمرے سے نیچے تشریف لائے اور قافلہ صدر جماعت Stockholm خالد محمود چیمہ صاحب کے گھر پہنچا۔ جماعت کا مجوزہ پروگرام تھا کہ حضورِانور اور قافلہ ممبران صدر صاحب کے گھر دوپہر کا کھانا تناول فرمائیں اور حضورِانور نے ازراہ شفقت اس دعوت کو منظور فرمایا تھا ۔تاہم کھانا پیش کیے جانے سے قبل حضورِانور اپنی گاڑی میں تشریف لائے اور قافلہ کاشف ورک صاحب کے گھر پہنچا جو ایک نوجوان مبلغ ہیں جنہیں جامعہ احمدیہ یوکے سے پاس ہونے والی پہلی شاہد کلاس کا طالب علم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اب ان کا تقرر سویڈن میں ہوا ہے جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔حضورِانور واقفین زندگی کے ساتھ جو شفقت کا سلوک فرماتے ہیں وہ غیر معمولی ہے۔ یہ ایسی ہی شفقت کی ایک اَور مثال تھی جہاں حضورِانور نے آدھے گھنٹے کا وقت ایک مبلغ سلسلہ کے گھر کو برکت بخشنے کے لیے مرحمت فرمایا۔

بعد ازاں کاشف صاحب اور ان کی فیملی نے حضورِانور کی اپنے گھر میں تشریف آوری پر اپنے جذبات اور خوشی کا اظہار اس طرح کیا۔ کاشف صاحب نے بتایا کہ حضورِانور کی ہمارے گھر تشریف آوری ایک سعادت عظمیٰ ہے اور ہمارے لیے نہایت بابرکت ہے۔ ہمارے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہیں۔ میں پورے عالَم میں پھیلے ہوئے احمدی بہنوں اور بھائیوں کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے خلیفہ نہایت محبت کرنے والے اور شفیق ہیں، جنہیں ہماری بے حد فکر رہتی ہے۔

کاشف صاحب کی اہلیہ نمودِ سحر صاحبہ نے بتایاالحمدللہ!آج اللہ تعالیٰ نے ہم پر بے حد فضل فرمایا ہے اور ہماری عاجزانہ تضرعات کو سنا ہے۔ ہمارے پیارے خلیفہ نے اس قدر محبت اور شفقت سے ہمارے ساتھ وقت گزارا ہےکہ ہمارے جذبات اور احساسات کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہم کچھ بھی نہیں ہیں، اس لیے آج کی برکات اور فیوض محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کا نتیجہ ہیں۔

کاشف ورک صاحب کے والد محمود ورک صاحب نے بھی مجھے حضورِانور کی تشریف آوری کے متعلق بتایا۔ یہ بات میرے لیے دلچسپ تھی کہ محمود صاحب اپنے بیٹے کو ان کے نام سے نہیں پکارتے بلکہ انہیں مربی صاحب کہتے ہیں۔ محمود صاحب نے بتایا کہ آج حضورِانور کوخوش آمدید کہنا میرے لیے ایک بڑی سعادت تھی۔ حضورِانور نے ازراہ شفقت چند خشک میوہ جات تناول فرمائے، جو ہم نے پیش کیے تھے۔ بعد ازاں حضورِانور نے مربی صاحب کے ساتھ حالیہ دورہ کی بابت میڈیا کوریج پر گفتگو فرمائی۔ حضورِانور نے ہمارے گھر کے ہر کمرے کو بھی ملاحظہ فرمایا جو ہم سب کے لیے اور خاص طور پر میری بہو کے لیے نہایت خوشی کا باعث تھا ۔

ایک خوش نصیب احمدی کے گھر کا دورہ

حضورِانور پھر Stockholm کے صدر صاحب کے گھر واپس تشریف لے گئے جہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام ہو چکا تھا۔ تاہم جب حضورِانور صدرصاحب کے گھر میں داخل ہونے لگے تو ایک احمدی دوست دوڑتے ہوئے حضورِانور کی طرف بڑھے اور حضورِانور کو اپنے گھر تشریف لانے کی درخواست کی۔

باوجود اس کے کہ حضورِانور اپنی گاڑی سے باہر تشریف لا چکے تھے حضورِانور نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور اپنی گاڑی میں واپس تشریف لے گئے اور قافلہ ایک احمدی دوست کے گھر پہنچا۔ حضورِانور نے ان کے گھر میں چند منٹ قیام فرمایا جبکہ باقی احباب باہر کھڑے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ حضورِانور کس قدر محبت کرنے والے اور شفیق ہیں۔ بار بار حضورِانور جماعت کی خاطر اپنے آرام اور وقت کو قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

Stockholm میں بیت العا فیت کا دورہ

نماز ظہر اور عصر کا انتظام مقامی جماعت نے بیت العافیت میں کیا تھا جو صدر صاحب کے گھر سے چند منٹ کے فاصلے پر تھی۔ اس لیے کھانا کھاتے ہی میں اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا۔ میں ابھی جا ہی رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ حضورِانور اپنی رہائش گاہ سےتشریف لا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حضورِانور شاید وقت سے کچھ پہلے تشریف لے آئے تھے کیونکہ کئی قافلہ ممبران ابھی وضو کر رہے تھے۔ مجھے دیکھنے پر حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ کیا میں نے کھانا کھا لیا ہے۔ حضورِانور نے اس قدر محبت سے پوچھا تھا کہ اگر میں نے کھانا نہ کھایا ہوتا تو حضورِانور ضرور مجھے فرماتے کہ کھانا کھا لو اور چند منٹ مزید انتظار فرماتے۔ میں نے حضورِانور کو بتایا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے جس پر حضورِانور اپنی گاڑی میں تشریف فرما ہوئے اور قافلہ بیت العافیت پہنچا جہاں حضورِانور نے نماز کی امامت فرمائی۔

ایک ناخوشگوار واقعہ

محترمہ خالہ سبوحی صاحبہ، صدر صاحب کے گھر لجنہ کی ممبرات کے ساتھ قیام فرما تھیں اس لیے نماز کی ادائیگی کے بعد قافلہ کی رضا صاحب کے گھر واپسی ہونی تھی۔ پلان یہ تھا کہ قافلہ صدر صاحب کے گھر سے Gothenburgروانہ ہو گا جس کا فاصلہ چار سو کلومیٹر سے زائد تھا۔ صدر صاحب کے گھر واپسی کا سفر تین سے چار منٹ کا تھا تاہم ہمیں سفر میں دس منٹ سے بھی زیادہ گزر چکے تھے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔ مسجد کی طرف سفر شہر کی چھوٹی گلیوں میں سے گزر کر طے ہوا تھا لیکن اچانک ایسا لگا جیسے ہم موٹروے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس موقع پر حضورِانور کی گاڑی سے میسج موصول ہوا کہ کیا ہم درست سمت میں ہیں اور صدر صاحب کے گھر جا رہے ہیں؟

مجھے یاد ہے کہ ریڈیو سے آواز آئی تھی کہ سویڈن جماعت صدر صاحب کے گھر واپس جانا بھول گئی ہے اور ہم سیدھے Gothenburgکی طرف جا رہے ہیں۔ یہ ایسا شاذ و نادر پیش آنے والا لمحہ تھا جہاں مجھے شدید پریشانی ہوئی کہ جو قافلہ کی راہنمائی کرنے والے ہیں وہ کس طرح یہ بات بھول گئے کہ خالہ سبوحی صدر صاحب کے گھر منتظر تھیں اور حضورِانور نے میسج نہ بھیجا ہوتا تو ہم Gothenburgکی طرف روانہ ہو چکے ہوتے۔اپنی غلطی کا احساس ہونے پر قافلے نے فوری طور پر واپسی کی اور صدر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچے۔

گذشتہ برسوں میں خاکسار کو حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت کی سعادت ملتی رہی ہے،میں نے شاذ و نادر ہی حضورِانور کو ناراض دیکھا ہے اور عوام میں تو حضورِانور کو ناراضگی کا اظہار کرتے تو بہت ہی کم دیکھا ہے۔ تاہم اس موقع پر حضورِانور مقامی انتظامیہ سے کافی ناراض تھے، خاص طور پر صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن سے، جن کے فرائض میں قافلہ کی گاڑیوں کی تنظیم اور راستوں کے تعین کا فریضہ تھا۔

اپنی گاڑی سے نکلتے ہوئے حضورِانور نے صدر صاحب اور امیر جماعت سویڈن کو طلب فرمایا۔ اتفاق سے میں پیچھے ہی کھڑا تھا اس لیے میں نے حضورِانور کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ صرف میرے توجہ دلانے پر کہ ہم کہاں جا رہے ہیں قافلہ نے واپسی کی ہے،ورنہ آپ ہمیں سیدھے Gothenburg لے جا رہے تھے۔یہ لاپروائی کی انتہا ہے۔

حضورِانور نے مزید فرمایاکہ آئندہ سب سے آگے چلنے والی گاڑی( صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کی گاڑی) قافلہ میں سب سے پیچھے چلے گی اور راستے کا تعین نہیں کرے گی۔

پھر حضورِانور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔میں چند میٹر کے فاصلے پر تھا اور جس دوران حضورِانور اندر تشریف لے جا رہے تھے میں نے آپ کو اپنا نام لیتے ہوئے سنا۔ عام طور پر جب حضورِانور کسی کا نام لیتے ہیں تو یہ خوشی کا باعث ہوتا ہے لیکن مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ گذشتہ لمحات کے بعد مجھے شدید فکر پیدا ہوئی کہ کہیں میرے سے بھی تو کوئی غلطی سرزد نہیں ہو گئی۔ میں نے حضورِانور کی سمت میں دیکھا تو تسلی ہوئی کیونکہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آپ نے فرمایاکہ عابد! اگر تم یا کوئی اور باتھ روم جانا چاہتا ہے تو تمہارے پاس پانچ منٹ ہیں، پھر ہم نکل رہے ہیں۔

میں حضورِانور کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر باتھ روم کی طرف بھاگ گیا کیونکہ وقت کم تھا۔ شکر ہے کہ میں وقت پر تیار تھا۔

اس دوران مجھے خیال آیا کہ بلا شبہ یہ ایک نہایت سنجیدہ نوعیت کی غلطی تھی کہ قافلہ کی راہنمائی کرنے والے(خدام) حضورِانور کی اہلیہ محترمہ کو صدر صاحب کے گھر سے قافلہ میں شامل کرنا بھول گئے تھے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button