حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ جاپان کی نیشنل مجلس عاملہ کی (آن لائن) ملاقات

مورخہ۲۵؍جون۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ جاپان کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ ممبران مجلس عاملہ نے مسجد بیت الاحد، Tsushimaسے آن لائن شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز دعا سے ہوا جس کے بعد تمام ممبران کو تعارف نیز اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے حضور انور سےشرف گفتگو کا موقع ملا۔

جنرل سیکرٹری و سیکرٹری وقف نو نے بتایا کہ جاپان میں دو جماعتیں ٹوکیو اور ناگویا ہیں۔حضور انورنے ان جماعتوں میں احمدیوں کی کل تعداد کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ۲۳۰؍کے قریب احمدی ہیں۔

سیکرٹری تبلیغ سے حضور انور نے امسال بیعتوں کے ٹارگٹ کے بارے میں دریافت فرمایا جس پرموصوف نے جواب دیا کہ امسال دس بیعتوں کا ٹارگٹ ہے اور اب تک وہ ایک بیعت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ بیعت کنندہ کے پس منظر کے بارے میں پوچھنے پر حضور انور کو بتایا گیا کہ وہ شخص جاپانی نژاد اورتقریباًپچاس سال کی عمر کا ہے نیز ایک انڈونیشین احمدی خاتون سے شادی شدہ ہے۔

سیکرٹری تبلیغ نے مزید بتایا کہ امسال ہم نے یہاں پر کچھactivity کی ہے جس میں نئے پمفلٹس شائع کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر تقریباً ۲۹؍ہزار پمفلٹ تقسیم کیے اور اس کے علاوہ قرآن کریم کے نسخے بھی تقسیم کیے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ جو بڑے بڑے شہر ہیں وہاں کے لوگوں کو دنیا داری کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے۔ان کو دین سے کوئی ایسی رغبت نہیں ہے۔نہ خدا سے کوئی تعلق ہے۔پھر جاپانیوں میں،ہمارے بعض واقف بھی، کہتے ہیں کہ باقی تو سب ٹھیک ہے پر یہ جو تم کہتے ہو کہ پانچ نمازیں پڑھو اور شراب نہ پیو، یہ بڑا مشکل کام ہے۔ہم شراب نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لیے ایسے علاقوں میں جہاں تھوڑا بہت دین کی رغبت ہو، دنیا داری کی طرف رجحان کم ہو، وہاں جا کر تبلیغ کریں گے تو آپ کو شاید کامیابیاں حاصل ہوں۔آپ صرف شہر میں کھڑے ہو کے پمفلٹ بانٹ دیتے ہیں، اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔یہاں کے مختلف علاقے ہیں جن علاقوں میں جا سکتے ہیں وہاں جا کر ایسی جگہ تلاش کریںجہاں دین کی طرف کچھ تھوڑا بہت رجحان ہو، خدا کا خوف بھی ہو، ان کو تبلیغ کی جائے۔ جو بڑے شہر ہیں وہاں اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کریں۔

یہاں پروگرام میں دکھاتے ہیںکہ یہ صاحب پاکستانی ہیں۔جاپانی اور پاکستانی کھانوں کا کوئی ریسٹورنٹ کھولا ہوا ہے۔غیر احمدی ہے،اور وہ اس کے مفت پمفلٹ بھی تقسیم کرتے رہتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا کھانا کھاؤ۔وہ لوگ اپنا کھانا بیچنے کے لیے اتنا خرچ کرتے ہیں تو آپ روحانی مائدہ بیچنے کے لیے اسی طرح کاپروگرام آرگنائز کیوں نہیں کر سکتے؟

سیکرٹری تبلیغ نے بتایا کہ دو ہفتے پہلے اس سلسلہ میں ایک پروگرام منعقد کیاتھا جس میں ہماری جماعت کے تمام ممبران کے ساتھ یہ discussion ہوئی ہے کہ مختلف جگہوں میں جاپان کے جو ken prefectures (کین صوبہ جات) ہیں انareas میں وقف عارضی کے طور پر جایا جائے اور پمفلٹdistributionکے علاوہ وہاں تقریباًہفتہ کے قریب رہ کرتبلیغ کی جائے۔

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ سوال یہ ہے کہ ایک دفعہ وہاں جا کے آپ چھوڑ دیں اور پھر نہیں جائیں گے تو کوئی فائدہ نہیں ۔ اس کا ایک فائدہ تو تب ہے جب آپ تابڑ توڑ حملہ کریں۔ایک وفد جائے، پھر دوسرا اور پھر تیسرا جائے۔ ایک علاقے کو فوکس (focus)کر لیں اور وہاں بار بار جاتے رہیں۔چھ مہینے کے لیے ایک علاقے کو لیا پھر اس کے لیے وہاں ایک دو بندوں کا ایک گروپ بنا دیا جو وقتاً فوقتاً جاتا رہے۔اسی طرح دوسرے علاقے کو لے لیا پھر وہاں بار بار جائیں۔آپ تعداد میں تھوڑے ہیں اس تھوڑی تعداد کے لحاظ سے ایک پلاننگ کرنی ہو گی کہ کس طرح ہم ان تھوڑے لوگوں کو زیادہ سے زیادہutiliseکر سکتے ہیں۔

تبلیغ کے کاموں کے لیے ان میں شوق اور جذبہ پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔جذبہ بھی تو ایک چیز ہے۔اصل چیز یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد کرتے ہیں تو پھر اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے ۔ یہ چیزیں پیدا کریں، یہ شعبہ تربیت کا بھی کام ہے ان سے مل کے ایک coordinatedپروگرام ہونا چاہیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپس میں اتفاق ، محبت اور اعتماد کی فضا پیدا ہو۔ عاملہ کے ممبران کا آپس میں ایک دوسرےپربھی اعتماد ہونا چاہیے اور افراد جماعت کا عاملہ پر اعتماد ہونا چاہیے، عاملہ کا افراد جماعت پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ہر قسم کے شکوے، شکایتیں، گلے دور ہونے چاہئیں، ایک ہو کر رہیں، ہمیشہ کامیابی اس وقت ملتی ہے جب ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح آپ کھڑے ہو جائیں۔اس کے بغیر کامیابیاں حاصل نہیں ہوا کرتیں۔

ربوہ سے تعلق رکھنے والے صدر مجلس انصار اللہ جاپان سے حضور انور نے معلوم فرمایا کہ کیا تمام اراکین فعال طور پر شامل ہیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ کل پچاس انصار ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ سرگرم عمل ہیں۔

سیکرٹری تربیت سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور ایدہ الله نے فرمایا کہ تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ ہر ایک تربیتی لحاظ سے ایسا ہو جو پانچ نمازوں کا پابند نیز باجماعت نمازیں پڑھنے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور خطبات کو باقاعدہ سننے والا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے والا اور آپ جو درس دیتے ہیں ان کو سننے والا اور اخلاقی لحاظ سے بلند اخلاق کا حامل ہو۔ آپس میں محبت اور پیار پیدا کرنے والا ہو، پیار کی فضا کو نہ صرف آپس میں بلکہ ارد گرد کے ماحول میں بھی پیدا کرنے والا ہو، جتنی چھوٹی جماعت ہے اتنا زیادہ پیار و محبت ہونا چاہیےاور یہی سیکرٹری تربیت کا کام ہے، اس لیے جماعت میں یہ چیزیں پیدا کریں۔

اپنی انانیت کو چھوڑیں اور ہر ایک احمدی، احمدی بن کے رہے۔ اپنے اندر وہ روح پیدا کرےجس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے تھے۔ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے۔حقوق العباد میں ایک بنیادی چیز آپس کی محبت اور پیار ہے جو ہم نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تو ایک سال جلسہ اس لیے منعقد نہیں کروایا تھا کہ جو نمونہ آپ دیکھنا چاہتے تھے وہ پیدا نہیں ہوا اور مثال آپ نے کیا دی کہ ایک بندہ اپنے بھائی کو اس چارپائی پر بیٹھنے نہیں دیتا یا چارپائی پہ لیٹنے نہیں دیتا جو اس کی چارپائی ہے۔اس کا اتنا معیار قربانی کا ہونا چاہیے تھا کہ اپنا بستر خالی کر کے اسے دے دیتاکیونکہ بستر خالی کر کے نہیں دیا اس لیے تم لوگوں میں یہ روح پیدا نہیں ہوئی اس لیے میں جلسہ ہی نہیں کرتا۔تم لوگ اس قابل ہی نہیں کہ جلسہ کرو۔یہ مثالیں حضرت مسیح موعودؑ کےارشادات میں سے نکالا کریں ۔

اورپھر کس طرح ہم نے تربیت کرنی ہے؟ بات یہ ہے کہ دوسرے کے قصور نکالنے کے بجائے صرف یہ بتانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہم سے کیا چاہتا ہے۔ہم سے اس زمانے میں مسیح موعود علیہ السلام کیا چاہتے ہیں اور کس طرح ہماری جماعتی ترقی ہو سکتی ہے اور اس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اپنی ذاتی اناؤں، عزتوں، سب کچھ کو پرے چھوڑنا پڑے گا۔

صدر مجلس خدام الاحمدیہ نےبتایا کہ جاپان میں کل ۸۲؍خدام اور ۱۹؍اطفال ہیں۔ ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے جہاں شمالی کوریا نے جاپان پر میزائل فائر کیا، جس سے رہائشیوں کو محفوظ رہنے کے لیے متنبہ کیا گیا، حضور نے دریافت کیا کہ کیا وہ کبھی وہاں تبلیغ، نمائش یا دورے کے لیےگئے ہیں؟ اس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔

حضور انور نے موصوف کو ہدایت فرمائی کہ خدام کو اپنے ساتھattachکریں اور خدام کی عمر کے لحاظ سے ان کے لیے پروگرام بنائیں۔ان کو جماعت کی اہمیت کا بتائیں اور ان کو بتائیں کہ ان ملکوں میں آ کر ہمیں صرف دنیا داری میں نہیں پڑنا چاہیے، دین کی طرف بھی ہماری رغبت یا رجحان ہوناچاہیے۔اللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔یہ روح خدام کے اندرپیدا کریں ، دنیا تو مل ہی جائے گی، دین کو حاصل کرنےکی کوشش کرو۔

ایک مبلغ سلسلہ سے یوکے میں گزرےہوئے وقت کی بابت بات کرتے ہوئے حضورانور نے پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی قیمتی تجربہ حاصل کیا اور کیا آپ نے ان تجربات کو جاپان میں نافذ العمل کیا ہے؟ اس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ واقعی میں نے برطانیہ میں اپنے گزرے وقت کے دوران بہت کچھ سیکھا اور عرض کیا کہ وہ جاپان میں اپنے کام میں ان تجربات سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

ٹوکیو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک مبلغ کو حضور انور نے یاددہانی کرواتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ ان کا مقصد صرف یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا نہیں بلکہ اس میں تبلیغ بھی شامل ہے نیز اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنی یونیورسٹی میں اسلام احمدیت کی تعلیمات کو متعارف کروائیں۔

سیکرٹری امور عامہ نے بتایا کہ ان کی ذمہ داریاں بنیادی طور پر تنازعات کو حل کرنے کے گرد گھومتی ہیں۔

اس پرحضور انور نے شعبہ امور عامہ کی متفرق ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ باقی کام امور عامہ کا کیا ہے؟ جماعت کے افراد کی بہتری کے لیے کوشش کرنا، جو کوئی نئے لوگ آتے ہیں ان کے لیے کوئیemploymentوغیرہ کا حساب کتاب رکھنا، ان کی مدد کرنا اوراگر افراد جماعت کو کوئی مشکلات ہیں تو ان کی مشکلات کو دور کرنا۔ امور عامہ کا کام صرف جھگڑے نپٹانا نہیں ہے۔یہ ایک ضمنی کام ہے۔ اصل کام یہ ہے جماعت کی بہتری کے لیے آپ کیا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیےآپ نے کیاplanبنایا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کو اچھیjobمل جائے یا ہر بچےکی پڑھائی کی طرف توجہ ہو اور جو پڑھ لکھ جائیں ان کے لیے اچھے جاب کی تلاش ہو، ان کی مدد کی جائے۔ یا اگر کوئی جاپان میں نئے آنے والے لوگ ہیں، اوّل تو بہت کم آتے ہیں ، اگر کوئی آتے بھی ہیں تو ان کے لیے آپ کیا مدد کر سکتے ہیں اور اسی طرح جماعت کا تعارف مختلف جگہوں پر کروانے کے لیے آپ اپنے اپنے علاقے میں کتنا activeکردار ادا کر سکتے ہیں۔

لاہور سے ۲۰۱۸ء میں ہجرت کر کے جاپان میں مقیم ہونے والےسیکرٹری مال نے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ تحریک جدید اور وقف جدید کے سیکرٹری بھی ہیں، ان کو تفویض کردہ متعدد ذمہ داریوں کے بارے میں سن کرحضور انور نے تبصرہ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک اہم کام کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔

حضور انور کے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ جاپان میں ایک برگر تقریباًدو سوYenسے start ہوتا ہے، جس پر حضور انورنے فرمایاکہ سستے سے سستا برگر بھی دو سو Yen کا آتا ہے تو بچوں کو کھلا دیتے ہیں۔ بچوں کو یہ تحریک کیوں نہیں کرتے کہ تم اس میں سے پچاس Yen چندہ تحریک جدید یا وقف جدید دے دو۔بچوں کو مالی قربانی کی عادت ڈالو تو تمہارے مال میں برکت پڑے گی۔یہ کوئی ٹیکس نہیں ہے، نہ جماعت احمدیہ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کسی کے پیسے کا محتاج ہےلیکن اس سے ان کے مال میں برکت پڑتی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اسی طرح وقف جدید بچوں کے سپرد کیا ہوتا ہے تو ناصرات اور اطفال کے سپرد کریں۔خدام سے coordinateکر کے ان کو تحریک کریں کہ چاہے تھوڑا لیکن اپنی خوشی سے دیں تا کہ ان کو چندہ دینے کی عادت پڑے۔

حضور انور نے سیکرٹری سمعی و بصری سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے پیشے کے بارے دریافت کیا جس پر موصوف نےجواب دیا کہ وہ گاڑیوں کا کام کرتےہیں۔ حضورانور نے پھر استفہامیہ انداز میں مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیا گاڑیوں میں کام کرتے وقت داڑھی رکھنے پر کوئی پابندی یا ممانعت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ سن کر حضور مسکرائے اور انہیں داڑھی رکھنے کی نصیحت فرمائی۔

بطورسیکرٹری سمعی و بصری اپنے کام کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مسجد میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا جس میں مقامی لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان تقریبات کے ذریعےجماعت کا ان سے تعارف ہوا نیز بتایا گیا کہ ایک عوامی نشریاتی ادارے NHK نے اس تقریب کی کوریج بھی کی۔

حضور انور نے سیکرٹری امور خارجیہ سے استفسار فرمایا کہ آپ کے کتنے ایم پیز ، ممبر آف پارلیمنٹ ، کونسلرز اور میئرز سے روابط ہیں نیز کن کن جگہوں کے میئر سے آپ کے تعلقات استوارہو چکے ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں یہاں سترہ نئے میئرز منتخب ہوئے تھے ان کو جماعت کی طرف سےcongratulatory messageبھیجا۔ اس کے علاوہ سفارت خانوں کے ساتھ کافی ریگولر رابطہ رہتا ہے۔جب بھی کوئیeventآتا ہے تو ان کو ضرور خط لکھتے ہیں۔ برکینا فاسو میں شہادتوں کے واقعہ پرہم لوگوں نے خط لکھا اور جماعت کی طرف سےcondemnationکی۔

اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ان لوگوں سے مستقل رابطے رکھنے پڑتے ہیں، مستقل رابطے یہ نہیں کہ کوئی واقعہ ہو گیا تو اس وقت تعلق رکھ لیا۔اس طرح وہ بھول جاتے ہیں۔جب آپ کا خط جاتا ہے اس کے بعد بھی بھول جاتے ہیں۔ اگر آپ ان لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں تو ان کے مختلف events پران کو مبارکبادیں دے دیا کریں۔ مستقل رابطہ رکھیں جس سے جماعت کا تعارف ہو۔ تھوڑے سے لوگ بھی اگر چاہیں تو بہت سارا تعارف کروا سکتے ہیں۔

سیکرٹری وصایا جو کہ خود بھی موصی ہیں ان سے گفتگو کے دوران کل جماعتی تجنید میں سے ۷۸؍کمانے والے افراد جماعت کے تناسب سےحضور انور نے ہدایت فرمائی کہ کم از کم ۳۹؍موصی ہونے چاہئیں۔

سیکرٹری اشاعت و جائیداد نے جائیدادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہTsushima میں ایک مسجد بیت الاحد اور ایک قبرستان ہے۔ حضور انورنے حاصل کی گئی جائیدادوں میں سے ایک ایسی جائیداد(جس کا نہ تو کوئی فائدہ ہوا اور نہ نقصان) کےبارے میں دریافت کیا کہ کیا وہ اسے بیچنے یا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ جگہ باعتبار محل وقوع آسانی سے قابل رسائی نہیں اور اس کے لیے کچھ چیلنجز کا سامنا ہےنیزاگر سونامی آئے تو نقشے کی بنیاد پر یہ علاقہ اس کے بہت قریب ہوگا۔

ٹوکیو جماعت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئےحضور انور نے فرمایا کہ چونکہ وہاں ایک بڑی جماعت ہے، اس لیے وہاں ایک مرکزی مقام ہونا چاہیے جہاں نماز کے لیےآنے والے افراد جماعت کے لیےآسانی ہو۔

حضور انور نے فرمایا کہ ٹوکیو کے ان علاقوں پر غور کیا جائے جہاں زیادہ تر احمدی رہتے ہیں اور اگر اس مخصوص علاقے میں قابل ذکر تعداد موجود ہے تو قریبی جگہ حاصل کرنے کے امکانات تلاش کریں۔ حضور انور نے مزید ہدایت فرمائی کہ اس پر ایک feasibility رپورٹ تیار کی جائے نیز ٹوکیو(انتظامیہ) اور اراکین عاملہ سے بھی بات کی جائے۔

حضور انور نے صدر جماعت و مشنری انچارج جاپان سے ٹوکیو میں مقیم جماعت کے ارکان کی تعداد کے بارے میں دریافت کیا،جس پرانہوں نے بتایا کہ یہ تعداد تقریباً ایک سو یا اس سے زیادہ ہے۔ حضورانور نے مزید استفسار فرمایا کہ کیا ٹوکیو میں کوئی خاص جگہ ہے جہاں احمدیوں کی ایک خاصی تعداد رہتی ہے؟ اس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا اور عرض کیا کہ مذکورہ جگہ کافی مہنگی اور ان کے بجٹ سے باہر ہے۔

حضور انور کی جانب سے ہفتہ وار نفلی روزہ اور روزانہ دو نوافل کی ادائیگی کی تحریک کے ضمن میں ایک ممبر مجلس عاملہ نے عرض کیا کہ ان کے ذہن میں یہ تجویز ہے کہ اس کا اہتمام مرکزی سطح پر کیا جائے اور تمام جماعتوں میں جلسہ جات اور اجتماعات منعقد کر کے احباب کو اس طرف توجہ دلائی جائے۔

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ وقتی طور پر اس وقت ضرورت تھی اس لیےکہہ دیا۔اس کے بعد بھی جن لوگوں نے جاری رکھنا ہوتا ہے وہ کرتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں اور نفل بھی پڑھتے ہیں۔

جماعتی طور پر کیا کیا جائے؟ آپ لوگوں کو ہے کہ بس دن منائے جائیں اور ان دنوں ، سال میں، چار دن عمل کر لو اس کے بعد ختم ۔حالانکہ دعاؤں ، عبادات اور نیک کاموں کے لیے ایسا نہیں ہوتا۔دن تو صرف عادت ڈالنے کے لیے ہوتے ہیں۔وہ عادت ڈالنے کے لیے کہہ دیا تھا، اس کے بعد آپ لوگوں کا فرض ہے اس پر قائم رہیں۔

حضور انور سے راہنمائی طلب فرمائی گئی کہ جماعتی یا ذیلی تنظیموں کے انتخابات یا شوریٰ میں شرکت کے لیے بقایا داران کی لسٹ بنانی ہوتی ہے تو اس میں ہم کوئی مدت لے لیں کہ پچھلے تین سال سے جوcontinuouslyچندہ دے رہا ہے، بقایا دار نہیں، ہم اس کو شامل کر سکتے ہیں یا پھر لانگ ٹرم کے لیے اگر کوئی آٹھ دس سال پہلے کچھ عرصہ کے لیے بقایا داررہا ہے اوراس کے بعد اب وہ دو تین سال سےregularly دے رہا ہے، کیا ہم اس کو انتخابات میں شامل کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ یہ ساری باتیں آپ کے قواعد میں لکھی ہوئی ہیں،آپ نے قواعد پڑھے ہیں؟ قواعد میں لکھا ہوا ہے کہ جو جماعتی چندوں میں چھ مہینے کا بقایا دار ہے یا ذیلی تنظیموں کے چندوں میں ایک سال کا بقایا دار ہے اس کو بقایا دار شمار کرنا ہے ۔

تو اس کا مطلب ہے جب مرکز پچھلی باتوں کوignoreکر رہا ہے اور یہ دیکھ رہا ہے کہ ایک بندہregularچندہ دیتا آ رہا ہے اس سال کا اس نے چندہ دے دیا یا دو سال کا چندہ دے دیا اس کی پہلے کوئی شکایت نہیں ہوئی اگر وہ اتنا بقایا دار تھا تو اس کے بارے میں کبھی آپ کی جماعت نے پوچھا نہیں کہ یہ اتنا بقایا دار ہے اس کو بقایا دار شمار کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اب جب اس نے ایک سال کےچندہ میں سے چھ مہینے کا چندہ دے دیا اور صرف چھ مہینے کا بقایا دار ہے تو وہ قواعد کی رو سے حصہ نہیں لے سکتا۔ ہاں اگر وہ دو تین مہینے کا بقایا دار ہے اور چار سال پہلے اگر اس نے چندہ نہیں بھی دیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ شامل ہو سکتا ہے۔لیکن یہ غلط ہے کہ آپ کسی بقایا دار کو پھر بھی انتخابات میں شامل کر لیں اور بعد میں اس کو کہہ دیں کہ اچھا اپنا بقایا چندہ ادا کر دو، وہ غلط ہے۔

ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے چندہ اصل میں ایک قربانی ہے، کوئی ٹیکس نہیں ۔ اگر کوئی بندہ کسی وجہ سے چندہ ادا نہیں کر سکا اور اس کے حالات بھی ایسے ہیں کہ وہ چندہ ادا نہیں کر سکتا تو اس سے کہیں پھر تم لکھ کے مرکز سے، خلیفۂ وقت سے اجازت لے لو کہ میں یہ چندہ نہیں ادا کر سکتا مجھےwrite offکردیں۔ حسن ظن رکھتے ہوئے قواعد بنائے گئے ہیں، قواعد کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ کم از کم یہ معیار ہیں ان پر ضرور پورا اترو، کسی کو پکڑنا مقصد نہیں ہے۔

آخر پر حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ اللہ کے فضل سے لنگر خانے کا بہت اچھا ڈائننگ ہال ۶x۱۰میٹرہے۔باہر صحن میں ٹینس کورٹ کی سائیڈپر بن گیا ہے نیز اس کے علاوہ ایک بہت اچھا اور خوبصورت کچن بھی اس کے ساتھ ہی بنایا گیاہے۔

اس پر حضور انور نے اظہار تشکرکرتے ہوئے تصویر بھجوانے کی تلقین فرمائی۔

از راہ شفقت اس کا کوئی نام تجویز کرنے کی درخواست پر حضور انور نے فرمایا کہ جیسا کہ پہلے ہی لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے یہ معروف ہے، لہٰذا اس نام کی موجودگی میں کوئی اور مخصوص نام دینے کی کیا ضرورت ہے؟

ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ چلو پھراللہ حافظ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button