الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ آصفہ احمد صاحبہ کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت و سوانح پر مضمون شامل اشاعت ہے۔

حضرت الحاج حکیم مو لانا نورالدین صاحبؓ بھیرہ ضلع سرگودھا میں۱۸۴۱ء میںمکرم حا فظ غلام رسول صاحب اور مکرمہ نوربخت صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ اپنے سات بھائیوں اور دو بہنوںمیں سب سے چھوٹے تھے۔ سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔خاندان میں بہت سے اولیاء اور مشائخ گذرے۔گیارہ پشت سے حفّاظ کا سلسلہ بھی چلا آرہا تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی جس کے بعدحصول علم کے لیے لاہور، راولپنڈی، رامپور، لکھنؤ، میرٹھ اور بھوپال کے علاوہ مکہ اور مدینہ کے سفر اختیار کیے اور عربی، فارسی،منطق،فلسفہ اور طب غرض ہر قسم کے مروّجہ علوم سیکھے۔ پہلی شادی ۳۰سال کی عمر میں بمقام بھیرہ مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی بھیروی کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہؓ کے ساتھ ہوئی۔ یہ اہلیہ ۱۹۰۵ء میں وفات پاگئیں۔ دوسری شادی ۱۸۸۹ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی تحریک پر لدھیانہ میں صوفی احمد جان صاحبؓ کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ سے ہوئی جن کی وفات ۱۹۵۵ء میں بمقام ربوہ ہوئی۔

حضورؓ کا رنگ گندمی،قد لمبا اور داڑھی گھنی تھی، شکل و صورت سے نہایت وجیہ تھے۔ آپؓ کے ایک بچے کا نام اسامہ تھا جس کی وجہ سے آپؓ کی کنیت ابواسامہ ہوئی۔

حضرت مسیح موعودؑ سے آپؓ کا غائبانہ تعارف جموں میں ایک شاگرد کے ذریعہ ہوا۔ آپؓ کو بیعتِ اولیٰ کے وقت سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت ملی۔ آپؓ کی سیرت کے چند منتخب پہلو ہدیۂ قارئین ہیں:

٭…آپؓ کی زندگی کا بے مثال پہلو تو کّل علی اللہ ہے۔ آپؓ ریاست جموں کشمیر میں ایک معقول تنخواہ پانے کے علاوہ بہت سے انعام واکرام سے بھی نوازے جا تے تھے مگریہ ساری رقم طلبا، بیوگان،یتامیٰ اور دیگر ضرورتمندوں کی فلاح وبہبودکے لیے خرچ کر دیتے تھے۔ آپؓ تحریرفرماتے ہیں:جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری تھا وہ مجھ سے ہمیشہ نصیحتاً کہا کرتا تھا کہ ہر مہینہ میں ایک سو روپیہ پس انداز کرلیا کریںیہاں مشکلات پیش آجاتی ہیں۔میں ہمیشہ یہی کہہ دیا کرتاکہ ایسے خیالات کرنا اللہ تعالیٰ پر بدظنّی ہے، ہم پر ان شاءاللہ تعالیٰ کبھی مشکلات نہ آ ئیں گے۔جس دن مَیں وہاںسے علیحدہ ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہا آج شاید آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی۔ میں نے کہا میں تمہاری نصیحت کو جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں۔ابھی وہ مجھ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے ۴۸۰ روپیہ میرے پاس آئے کہ یہ آپ کی تنخواہ ہے۔ اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ نور دین تم پر نالش تھوڑا ہی کرنے لگاتھا۔ ابھی وہ اپنے غصّہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے بہت سا روپیہ بھجوایا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس جس قدر روپیہ موجود تھاسب حاضر خدمت ہے۔ پھر تو اس کا غضب بہت ہی بڑھ گیا۔ مجھ کو ایک شخص کا ایک لاکھ ۹۵ ہزار روپیہ دینا تھا۔ پنساری نے کہا جن کا آپ کو قریباً دو لاکھ روپیہ دینا ہے وہ آپ کو بدوں اس کے کہ اپنا اطمینان کر لیںکیسے جانے دیںگے؟ اتنے میںانہی کا آ دمی آیااور بڑے ادب سے کہنے لگا کہ میرے آقا فرماتے ہیںکہ مولوی صاحب کو تو جانا ہے۔ ان کے پاس روپیہ نہ ہوگا اس لیے تم ان کاسب سامان گھر جانے کا کر دو اور جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو دے دو۔ اور اسباب کو اگر وہ ساتھ نہ لے جاسکیںتو تم اپنے اہتمام سے بحفاظت پہنچوا دو۔ مَیں نے کہا کہ میرے پاس کافی روپیہ آگیا ہے، مزید کی ضرورت نہیں۔

حضورؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ایک بھتیجے کو ہمراہ لے کرجموںکے ارادہ سے گھر سے نکلا۔میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا۔مَیں نے ارادہ کیا کہ بیوی سے کچھ روپیہ قرض لے لوں لیکن طبیعت نے مضائقہ کیا اور ویسے ہی چل دیا۔ ہم دونوں گھوڑوں پر سوارتھے۔ایک آدمی نے مجھے ایک روپیہ اور کچھ بتاشے دیے۔ایک اَور آدمی نے ایک اٹھنی دی۔ آوان نام ایک گاؤں کے قریب پہنچے تو لڑکے نے کہا کہ بتاشے ہمارے پاس ہیں۔گرمی ہے۔ اگر آپ فرمائیں تومَیں کنویں پر جاکر شربت پی لوں۔چنانچہ وہ لڑکا تھوڑی دور جا کر پھر واپس ہوا اور مجھ سے کہا کہ آپ بھی آجائیں۔ہم دونوں گاؤں میں پہنچے توکنویں والے نے کہا کہ ذرا ٹھہر جائیں کیونکہ نمبردارنے دُور سے آپ کو دیکھا تھا۔ وہ دودھ لینے کے واسطے گیا ہے۔ نمبردار آیا اور اس نے ایک روپیہ مجھ کو نذر دیا۔اس کابیٹا کبھی میرے پاس علاج کے واسطے آیا تھااور اچھا ہوگیا تھا۔خیر ہم نے دودھ پیا۔ تھوڑی دیر میں گاؤں کے بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ مسجد کا مُلّا بھی آیا اور اس نے ایک روپیہ دیا۔چونکہ وہ غریب حالت میں تھا۔میں نے اس سے روپیہ لینا پسند نہ کیا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا یہ روپیہ توضرور لے لیں۔مَیں نے سبب پوچھا تو کہا کہ یہ شخص بہت دنوں سے بیمار تھا اور اس نے آپ سے بذریعہ ڈاک جموں سے دوائی منگوائی تھی۔یہ اس کے استعمال سے اچھا ہو گیا۔ہم سب کہتے تھے کہ تُو نے دوا مفت منگوائی اور کوئی شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔اس نے کہا کہ اگر نوردین ہمارے گا ؤں میں آئے تو روپیہ دے دوں گا۔ یہ کبھی روپیہ دینے والا نہیںآج اتفاق سے ہی یہ قابو چڑھا ہے۔ عجیب بات ہے کہ میں اس سے پیشتر کبھی اس گاؤں میں نہیں گیا تھا (حالانکہ صرف ساڑھے چار میل کے فاصلے پر ہوگا) اور نہ اس کے بعد کبھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔

اب میرے پاس ساڑھے تین روپیہ ہو گئے تو ریل اسٹیشن پر پہنچ کرمیرے دل میں خیال آیا کہ اس لڑکے کو لاہور دکھا دیں۔مَیں نے اسٹیشن پر دیکھا کہ لاہور تک کا دو آدمیوں کا کرایہ تین روپیہ ہے۔ ہم نے ٹکٹ لیے اور لاہور پہنچ گئے۔آٹھ آنے باقی تھے۔ اسٹیشن پر اترے۔ایک گاڑی بان سے کہا کہ انارکلی میں شیخ رحیم بخش کی کوٹھی پر اترنا ہے کیا لو گے؟ اس نے کہا کہ ایک روپیہ سے کم نہ لوں گا۔ہم نے کہا کہ ہمارے پاس توایک اٹھنی ہے۔ چاہو تو لے لو۔اس نے ہنس کراٹھنی لے لی اور شیخ صاحب کے مکان پر پہنچا دیا۔ کچھ دن بعد جب ہم واپس چلنے لگے تو شیخ صاحب نے اپنی گاڑی میرے لیے منگوا دی ا ور آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ ہمارے نوکر کو آپ انعام نہ دیں۔ اسٹیشن پر مجھے یقین تھا کہ میںابھی کی گاڑی میں جائوں گا۔ پیسہ تو پاس ایک بھی نہ تھالیکن یقین ایسا کامل تھاکہ اس میںذرّہ بھی تزلزل نہ تھا۔ میرے سامنے ٹکٹ تقسیم ہوئے۔ ٹرین آئی، مسافر سوار ہوئے۔ انجن نے روانگی کی سیٹی دی تو بھی مجھ کو یقین تھا کہ اسی گاڑی پرجاؤں گا۔ اچانک ایک آدمی نوردین نوردین پکارتا ہوا دُور تک چلا گیا۔اور گاڑی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ وہ چل کر پھر رک گئی۔اُس نے مجھے دیکھ لیا تو دوڑتا ہواگیا اور تین ٹکٹ لایا۔ ایک اپنا اور دو ہمارے۔ہم تینوں سوار ہوگئے تو ٹرین چل دی۔ اس نے کہا کہ مجھ کو آپ سے ایک نسخہ لکھوانا ہے میںنے نسخہ لکھ دیااور پھر ٹکٹوں کو دیکھنے لگا کہ یہ کہاں تک کے ہیں اور کیا کرایہ دیا گیا ہے۔وہ خود ہی فوراً بولاکہ میں ان ٹکٹوں کے دام ہر گز نہ لوں گا۔میں بھی خاموش ہوگیا۔ٹکٹ وہیں کے تھے جہاں ہم کو جانا تھایعنی وزیرآباد۔ وہ تو نسخہ لکھواکر شاہدرہ اتر گیا۔ ہم وزیر آباد پہنچے۔ میں نے لڑکے سے کہا کہ بیگ لے کر تم جموں جانے کے لیے اڈّہ پر پہنچو۔پیچھے پیچھے میں بھی آتا ہوں۔ راستہ میں ایک شخص ملا اور کہنے لگا کہ میری ماں بیمار ہے، آپ اس کو دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ مجھ کو جانے کی جلدی ہے۔اس نے کہا کہ میرا بھائی آگے اڈّے پر جاتا ہے اور یکہ کرایہ کرتا ہے اتنے میں آپ میری ماں کو دیکھ لیں۔چنانچہ میں نے اس کی ماں کو دیکھا اور نسخہ لکھا۔اس شخص نے میری جیب میں کچھ روپے ڈال دیے جن کو میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر گن لیا۔ معلوم ہوا کہ دس روپیہ ہیں۔اڈّے پر پہنچے تو اس کابھائی اور یکہ والا آپس میں جھگڑ رہے تھے۔یکہ والا کہتا کہ دس روپیہ لوں گا اور وہ کہتا تھا کہ کم۔مَیںنے کہا جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں، دس روپیہ کرایہ ٹھیک ہے۔

٭…حضورؓ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلواسوئہ رسولﷺ پر عمل کرناہے۔آپؓ فرماتے ہیںکہ میں نے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں۔پھر میرے کان میں کہاکہ تُو ہم کو محبوب ہے۔

ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’قر آ ن کریم کی تعلیم اور رسول اللہ ﷺ کے پاک نمونہ سے ایک قوم تیار ہورہی ہے جو داؤد علیہ السلام کی پیشگوئی کے موافق ارض مقدس کی وارث ہوگی مگر ہاں اس کے لیے راہ یہی ہے کہ عابد اور فرمانبردار بن جاؤ۔رسول کے آگے پست ہو جاؤ اور وہ تقویٰ جو خیال بناوٹ، اپنی تجویز سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہﷺ کے پاک نمونہ اور خدا تعالیٰ کے فرمودہ نقشہ کے موافق ہے وہ اختیار کرو۔ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء۱۰۸) اس کے ضمن میں نکلتا ہے کہ اگر اس رحمت کو اختیار نہ کرو گے اور اس کے نقشِ قدم پر چل کراپنا چال چلن، صلاح و تقویٰ نہ بناؤ گے تو ذلیل ہو کر ہلاک ہو جاؤ گے۔…بہت سے لوگ اپنی نحوستوں اور فلاکتوں، اپنے فقر و فاقہ کے متعلق چلّاتے ہیں اور واویلا مچاتے ہیں۔وہ یاد رکھیں کہ تنگ دستیوں اور فلاکتوں کے دُور کرنے کے لیے یہی اور ہا ں یہی ایک مجرب نسخہ ہے کہ حضرت رسول اﷲﷺ کی سچی اطاعت کی جاوے اور صلاح و تقویٰ جو اس اطاعت کی غایت اور منشاء ہے اپنا شعار بنا لیا جا وے پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ صادق ہے کہ یَرْ زُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق:۴)۔ بےشک بےشک! یہ سچی بات ہے کہ ممکن نہیں رحمت کی اطاعت میں زحمت آئے۔پس رسول اﷲﷺکی کامل اطاعت کرو کہ اس سے تمام نحوستیں اور ہر قسم کے حزن و ہموم دُور ہو جاتے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ۸؍دسمبر۱۸۹۹ء)

ایک مرتبہ رئویا میں آنحضرت ﷺ نے آپؓ کو فرمایا کہ تمہارا کھاناتو ہمارے گھر میں ہے لیکن نبی بخش کا ہم کو بہت فکر ہے۔ اس پرآپؓ نے نبی بخش کو بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکے۔بہت دنوں کے بعد جب ملاقات ہوئی تو آپؓ نے پوچھا کہ کوئی تکلیف ہو تو بتائیں ۔ کہا کہ مجھ کو بہت شدّت کی تکلیف تھی مگر آج مجھ کو چونا اٹھانے کی مزدوری مل گئی ہے اور پیسے مزدوری کے ہاتھ آگئے ہیں اس لیے ضرورت نہیں۔

٭…حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاوّلؓ کی زندگی قرآن کریم کی عملی تصویر تھی۔ آپؓ نے اپنی والدہ سے قرآن پڑھا، پنجابی زبان اور فقہ کی کتابیں پڑھیں اور سنیں۔ فرماتے ہیں: ’’میری والدہ کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی شوق تھا … میںنے اپنی ماںکے پیٹ میں قرآن مجید سنا پھر گود میںسنااور پھر ان سے ہی پڑھا۔‘‘ قرآن کریم کا کچھ حصہ اپنے والد صاحب سے پڑھا۔ خود گھنٹوں تلاوت کرتے ہوئے غورو فکر کرتے۔ فرمایا: ’’مَیں نے دنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیںمگر ایسی کتاب دنیا کی دلربا، راحت بخش، لذت دینے والی جس کا نتیجہ دکھ نہ ہو، نہیں دیکھی۔جس کو بار بار پڑھتے ہو ئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فکر کرنے سے جی نہ اُکتائے، طبیعت نہ بھر جائے …میری عمر، میری مطالعہ پسند طبیعت،کتابوں کا شوق ،اس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر کہنے کے لیے جرأت دلاتے ہیں کہ ہر گز ہر گز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں …کہ اس کو جتنی بار پڑھو،جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرواسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے گی۔ طبیعت اکتانے کی بجائے چاہے گی کہ اَور وقت اس پر صرف کرو۔عمل کرنے کے لیے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان، یقین اور عرفان کی لہریں اٹھتی ہیں۔‘‘

ایک مرتبہ آپؓ درس قرآن دینے مسجد کی طرف جارہے تھے کہ کسی نے بتایا کہ صوفی غلام محمد صاحب نے قرآن حفظ کرلیا ہے۔ یہ سنتے ہی آپؓ نے وہیں سجدۂ شکر ادا کیا۔

آپؓ نے اپنی بیٹی حفصہؓ کو رخصتی کے موقع پر مروّجہ جہیز کے علاوہ ایک صندوق کتابوں کا بھی دیا اور رخصتی کے وقت دیگر نصائح کے علاوہ یہ نصیحت بھی لکھ کر فرمائی کہ قرآن کریم ہمیشہ پڑھنا اور چھوٹی لڑکیوں کو پڑھانا۔

محترم قریشی ضیاءالدین صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے قرآن کریم پر دوات رکھ دی تو آپؓ اس کی حرکت کو دیکھ کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا میاں ! اگر تمہارے منہ پر کوئی شخص گوبر اٹھا کر مار دے تو تمہیں کیسا برا لگے !قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ہمیشہ اس کا ادب ملحوظ رکھا کرو اور اس کے اوپر کوئی چیز نہ رکھا کرو۔

ایک مرتبہ آپؓ نے فر مایا: ’’خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور حشر میں نعمتیں دے تو مَیں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا حشر کے میدان میںاور بہشت میں بھی قرآن پڑھوں،پڑھائوںاور سنائوں۔‘‘ وفات کے وقت اپنے بیٹے عبدالحئی کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنا ،پڑھانا اور عمل کرنا۔میں نے بہت کچھ دیکھا پر قرآن جیسی چیز نہ دیکھی۔ پھر وفات سے چند روز قبل حضورؓ نے جماعت کے نام جو وصیت تحریر فرمائی اس کے آخری الفاظ یہ تھے: ’’قرآن و حدیث کا درس جاری رہے۔‘‘

حضورؓ کے دل میں اپنے محبوب آقا حضرت مسیح موعودؑ کی اطاعت و محبت کا کیسا جذبہ موجزن تھا، اس بارہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں حضرت مولوی صاحبؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ وہاں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کوارشاد فرمایامگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقاً اس وقت مرحومہ امۃ الحئی صاحبہ (جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں)سامنے آگئیں۔حضرت مولوی صاحبؓ محبت کے جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی اس لڑکی کو نہالی (ایک مہترانی تھی)کے لڑکے کو دے دو تو مَیں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا مگر نتیجہ دیکھ لیں کہ بالآخر وہی لڑکی حضورؑ کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو حضرت مسیح موعود ؑکا حسن واحسان میں نظیر ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا حضرت مسیح موعودؑکی محبت میں لذت و سرشاری سے معمور ایک غیر معمولی واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضورعلیہ السلام دہلی تشریف لے گئے اور وہاں سے آپؓ کو تار دیا کہ فوراًبلاتوقف پہنچ جائو۔ تار ملا تو آپؓ مطب میں بیٹھے مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ تار ملتے ہی بٹالہ کی طرف چل پڑے۔ پگڑی بھی چلتے چلتے باندھی۔ گھر جانے کا تو خیال بھی دل میں نہ آیا۔جیب میں کرایہ بھی نہیں تھا مگر رُک کر کسی سے نہیں لیا۔ کوئی کپڑا ساتھ نہیں لیا۔ بٹالہ اسٹیشن پر پہنچے تو ٹرین کی آمدمیں چند منٹ باقی تھے۔انتظار اور بےقراری میں پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگ گئے۔ایک ہندو واقف کار کی نظر پڑی تو اُس نے آکر درخواست کی کہ اُس کی بیمار بیوی کو دیکھ لیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ٹرین آنے میں چند منٹ باقی ہیں۔ وہ منت کرتا ہے کہ میرا گھر اسٹیشن کے بالکل پاس ہے۔آپ بروقت واپس آجائیں گے۔یہ یقین دہانی سن کر آپؓ جاکر مریضہ کو دیکھتے ہیں۔ واپس اسٹیشن پر پہنچتے ہیں تو وہ ہندو آپؓ کو ٹکٹ اور کچھ رقم نذرانے کے طور پر دیتا ہے جو زاد راہ کے لیے کافی ہے۔آپؓ بے نیازی سے قبول کرتے ہیں اور ٹرین میں سوار ہوکر اپنے محبوب کے قدموں میں دلّی پہنچ جاتے ہیں۔

٭…حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضورعلیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کرنے کے لیے بےمثال کوشش فرمائی اور اس راہ میں کسی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ منکرینِ خلافت سے ایک بار فرمایا: ’’مَیں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا کام ہے آدمؑ کو خلیفہ بنایا کس نے۔ بارہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ اس خلافت آدم ؑپر فرشتوں نے اعتراض کیا …مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا۔ تم قرآن مجید میں پڑھ لو آخر انہیں آدم کے لیے سجدہ کرنا پڑا۔ پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم ؑکی خلافت کے سامنے سر بسجود ہو جائو تو بہتر ہے۔…اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنادیا جو اس کی مخالفت کرتا ہو وہ جھوٹا اور فاسق ہے۔فرشتے بن کر اطاعت و فرماں برداری اختیار کرو۔ ابلیس نہ بنو …تم خلافت کا نام نہ لو۔نہ تم کو کسی نے خلیفہ بناناہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ میں جب مر جائوں گا تو پھروہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر ے گا۔ تم نے میرے ہاتھ پر اقرار کیے ہیںتم خلافت کا نام نہ لو۔مجھے خدا نے خلیفہ بنادیا ہے اوراب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔‘‘

٭…آپؓ کی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ یہ عجیب مماثلت ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکرؓ آنحضرت ﷺ سے عمر میں اتنے ہی چھوٹے تھے جتنی مدت آپؓ خلیفہ رہےاور آپؐ کے برابر یعنی ۶۳؍سال عمر پاکر وفات پائی۔اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بھی حضرت مسیح موعودؑ سے اتنے ہی چھوٹے تھے جتنی مدت آپؓ خلیفہ رہےاور حضرت مسیح موعودؑ کے برابر یعنی ۷۴؍سال عمر پاکروفات پائی۔

(باقی آئندہ سوموار کے شمارے میں ان شاءاللہ)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button