از مرکز

قربانیاں اس وقت قبول کی جاتی ہیں جب تقویٰ کے پیش نظر کی جائیں۔ خطبہ عیدالاضحیٰ حضورِ انور ایّدہ اللہ

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتدا میں نماز عید کی ادائیگی اور پُر معارف خطبہ عید پر مشتمل ایک رپورٹ

(اسلام آباد، ۲۹؍ جون ۲۰۲۳ء۔ ٹیم الفضل انٹرنیشنل) آج ۱۰؍ ذو الحجہ ۱۴۴۴ھ بمطابق ۲۹؍ جون ۲۰۲۳ء بروز جمعرات عید الاضحی ہے۔ اس مبارک موقع پر ایک کثیر تعداد میں احمدیوں نے اسلام آباد ٹلفورڈ کا رخ کیا جہاں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک میں نمازِعید پڑھائی اور پُرمعارف خطبہ عید الاضحی ارشاد فرمایا۔

انتظامیہ نے کچھ دن قبل ہی اس حوالے سے تیاریاں شروع کر دیں تھیں تاکہ آنے والے مخلصین کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی جا سکے۔ مسجد مبارک، ایوان مسرور اور اس کے سامنے برآمدے کے علاوہ مزارِمبارک حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے سامنے ایک بڑا اوورفلو شامیانہ بھی نصب کیا گیا تھا جہاں پردے کی رعایت سے مرد و خواتین کے لیے نماز عید ادا کرنے کا انتظام تھا۔ اسی طرح شعبہ ضیافت کے تحت ڈیوٹی پر موجود خدام کے لیے روایتی سویّاں اور چائے کا بھی انتظام تھا۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ دس بج کر۳۱ منٹ پر مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نمازِعید کی امامت کروائی۔ سنت نبویﷺ کی پیروی میں حضورِ انور نے پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ جبکہ دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمائی۔ اسی طرح نماز عید کے اختتام پر تین مرتبہ بلند آواز میں تکبیرات کا ورد کیا۔

دس بج کر ۴۳ منٹ پر حضورِانور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایم ٹی اے کے توسط سے دنیا بھر کے تمام احمدیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور خطبہ عید ارشاد فرمایا۔

خطبہ عید الاضحی

تشہد، تعوذ، سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ آیتِ کریمہ کا ترجمہ پیش فرمایا:

ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے انہیں تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی اور احسان کرنے والوں کو خوش خبری دے دے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آج یہاں عید الاضحی ہے۔ پاکستان اور بہت سے دیگر ممالک میں بھی عید منائی جا رہی ہے۔ بعض جگہ کل عید ہو چکی ہے۔ یہ عید قربانی کی عید بھی کہلاتی ہے۔ پاکستان میں تو احمدیوں کو اس عید پر جذبات کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کو مالی قربانی کی تو عادت ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں جان کی قربانی کا بھی جتنا ادراک احمدیوں کو ہے کسی اور کو شاید ہی ہو۔ اس لیے جانوروں کی قربانی پیش کرنے پرجس قدرخوشی احمدیوں کو ہوتی ہے کسی اور کو نہیں ہوسکتی۔ جو احمدی اس قربانی کو ادا نہیں کرسکتے ان کی کیا جذباتی کیفیت ہوتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ لیکن پاکستان میں نام نہاد ملاں کے کہنے پر قانون کی آڑ لے کر احمدیوں کو ان جانوروں کی قربانی سے روکا جاتا ہے۔ گذشتہ دو تین سالوں سے پولیس اور انتظامیہ اس عمل کو ایک خطرناک جرم ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور اس سال بھی یہی ہورہا ہے۔ اپنے گھر میں بھی قربانی کرنے پر مقدمہ کرکے قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب تو یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ عید کی نماز پڑھنا بھی جرم ہے۔ پس بعض جگہ اس قربانی کے نہ کرنے سے جذبات کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ انتہائی خوف و ہراس سے گزرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ اس قانون کے متعلق ان کی ہی اعلیٰ عدلیہ نے یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ چار دیواری کے اندر احمدی اپنے مناسک بجا لا سکتے ہیں۔

انتظامیہ کے افسران کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ بندوں کا خوف ہے۔ نہیں جانتے کہ ظلم زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ جو زیادتیاں کر رہے ہیں یہ ایک روز خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ بہرحال احمدیوں کو چاہیے کہ اپنے جذبات کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ دعا میں بڑی طاقت ہے۔ حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی، دعا اور توکل ہی تھا جس نے ان کی مشکل کو دور کردیا۔ پس ہمارا کام یہی ہے کہ عیدِ قربان سے قربانی کی روح اور اس کے پیچھے کار فرما خدا کی رضا کے متلاشی رہیں۔ تقویٰ ہی ہے جو ہماری ہر طرح کی قربانیوں میں کام آئے گا۔ یہی وہ سبق ہے جو حضرت ابرہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی سے ہمیں ملتا ہے۔ عید اور حج پر جانوروں کی ظاہری قربانیاں رکھ کر اللہ تعالیٰ نے یہی پیغام دیا کہ یہ قربانیاں تب قبول ہوں گی جب تقویٰ کے ساتھ یہ قربانیاں کی جائیں۔

قربانی کا فلسفہ اور مقصد بیان کرتے ہوئے سورۃ الحج کی آیت ۳۸ کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری کام کے لیے نمونے قائم کیے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لیے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خدا تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون مگر تمہارا تقویٰ خدا تک پہنچتا ہے۔ گویا خدا سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ۔

پس اسلام جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے اس پر بھی ان مذہب کے ٹھیکیداروں نے اجارہ داری قائم کرلی ہے اور کوئی احمدی اسلامی شعائر کی انجام دہی نہیں کرسکتا کیونکہ ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ بہرحال اگر احمدی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی حالتوں کے جائزے لینے ہوں گے۔ اگر ہمارے اندر تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہمارا ہر فعل ہے تو اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال اور کیفیت جانتا ہے وہ جانوروں کی قربانیوں کے بغیر بھی ہمیں قربانیوں کا اجر دے سکتا ہے۔

دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عید کی قربانیوں کی بھی توفیق عطا فرمائے آمین۔ اگر ہم تقویٰ کے وہ اعلیٰ معیار حاصل کرلیں جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سکھائے ہیں تو یہ مخالفتیں دیکھتے دیکھتے دور ہوسکتی ہیں۔

اب تو احمدی دنیا بھر میں آباد ہیں اور تمام مناسک آزادی سے ادا کرتے ہیں۔ حج پر بھی اب بکثرت احمدی جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے تقویٰ کے معیاروں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔

ایوان مسرور، اسلام آباد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کوئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالیٰ نہ بنادے۔ جب خدا تعالیٰ کے دروازے پر عجز سے انسان کی رُوح گرے گی تو خدا تعالیٰ اُسے متقی بنادے گا اور وہ اس قابل ہوسکے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکے۔ اس کے علاوہ اگر وہ دین دین کرتا ہے تو وہ رسمی کلمات ہیں اور کوئی حقیقت اور روحانیت اس کے اندر نہیں ہوسکتی۔ پس یہ وہ تقویٰ کا معیار ہے جسے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب یہ معیارحاصل ہوگا تو پھر ہی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکتے ہیں ۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہمارے مخالفین تو تکبر، رعونت اور طاقت کے بل بوتے پر ہم پر ظلم کرتے ہیں اور اپنے زعم میں یہ سب ظلم وہ ناموس رسالت کے نام پر کرتے ہیں جس کا انہیں ذرا سا بھی ادراک نہیں ہے۔ اگر ان کی عملی حالتیں دیکھیں تو اسلام کی تعلیم سے ان کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن ہم نے اگر زمانے کے امام کو مانا ہے تو ہمارے ہر عمل میں اس کا اظہار ہونا چاہیےجس کی تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی اور جس کا ادراک ہمیں عطا فرمایا اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادقؑ نے ہمیں اس تعلیم کی روشنی دی۔ اس عاجزی اور تذلل کے ساتھ رُوح کا گرنا ہی تھا جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہؑ کو وہ درجہ دیا جن کی مقبول دعاؤں کا پھل ہم آج تک کھا رہے ہیں اور جن کی اتباع کرنے سے خدا تعالیٰ ملتا ہے۔

ایوان مسرور، اسلام آباد

ہمارے مخالف تو صرف اپنے آباء کی تقلید میں مسلمان ہیں لیکن اگر ہم نے حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومانا ہے تو ہمارا کام ہے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا ادراک پیدا کریں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا ہے اور دشمن کے منصوبے ہوا میں اُڑتے ہیں۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قربانیوں کا گوشت اور خون خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچتا بلکہ اعمال صالحہ اور تقویٰ کی روح خدا تعالیٰ تک پہنچتی ہے۔ اعمال صالحہ ہی انسان کی نجات کا ذریعہ بنتے ہیں اور اعمال صالحہ وہی ہیں جس میں خدا تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہے۔ اگر ایسے لوگ جو خدا اور اُس کے رسولﷺ کے نام پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔ پس ان کے ظلم تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلانے والے ہونے چاہئیں ۔

نجات کے لیے ہم نہ تو کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب اور نہ کسی کفارے کے بلکہ ہم اپنے نفس کی قربانی کے محتاج ہیں اور اسی قربانی کا نام ہی اسلام ہے۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی رُوح کو خدا کے آستانے پر رکھ دینا۔ کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے بلکہ اسلام کا لفظ حقیقی قربانی کے لیے کامل محبت اور کامل قربانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری قربانی کے نہ تو گوشت مجھ تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ ہی خون بلکہ یہ قربانی مجھ تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ یہ قربانی انسان کی دنیا و آخرت سنوارنے والی ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جسے خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جائے اور اس کے ماپنے کا معیار یہ ہے کہ ہر گناہ سے انسان بچے اور اگر کبھی بشری تقاضے کی وجہ سے کمزوری ظاہر ہوجائے تو فوراً توبہ و استغفار کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ ایک مومن کبھی بے باکی سے غلطی نہیں کرتا بلکہ اس پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی محبت غالب رہتی ہے اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اُسے دیکھ رہا ہے اور میرا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو خدا تعالیٰ کو ناپسند ہو۔ پس جب یہ حالت ہو تو یہی اصل اسلام ہے جس پر ایک مومن کو چلناچاہیے۔ جب یہ حالت ہو تو یہ حقیقی اسماعیلی قربانی کانمونہ ہے۔ پس یہ عید ہمیں اس کامل محبت اور کامل عشق کا سبق دینے کےلیےہے۔

اوور فلو مارکی

خدا نے ظاہری قربانیاں بند نہیں کیں اس کا اصل فلسفہ دلوں کی قربانی ہے لیکن ظاہری قربانی بھی ضروری ہے۔ اسی طرح ظاہری نماز اور روزہ کے ساتھ اگر اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی فائدہ نہیں کہ جوگی اور سنیاسی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں لیکن ان کو کوئی نور نہیں ملتا اور روحانیت نہیں ملتی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ خدا کو ان قربانیوں کاگوشت اور خون نہیں بلکہ صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔

خدا مغز چاہتاہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ اگر خدا مغز ہی چاہتاہے تو ظاہری اعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر جسم کو اس حالت میں نہ ڈھالو گے تو روح بھی اثر نہ لے گی اور عبودیت پیدا نہیں ہو گی اسی طرح وہ لوگ ہیں جو روح کو مشقت میں نہیں ڈالتے اور صرف جسمانی ریاضتیں کرتے ہیں تو ان کو کوئی روحانیت نہیں ملتی۔ اس لیے دونوں کا آپس میں تعلق ہے۔ روح کا تعلق جسم اور جسم کا روح سے ہے اور یہ ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ جانور کی قربانی کی کیا ضرورت ہے یہ پیسے دوسروں کو دے کر مدد کی جا سکتی ہے، حضور انور نے فرمایا کہ اکثر ایسا سوال ان لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے جو کہ ان امیر ملکوں میں بستے ہیں اور جنہیں بھوک یا ان لوگوں کا علم ہی نہیں جن کو کھانے کو بھی کچھ نہیں ملتا۔ جس کو استطاعت ہو وہ لازمی دوسروں کی مدد کریں بلکہ یہ بہت ضروری ہے۔ اس قربانی سے یہ مراد نہیں کہ دوسروں کی مدد نہ کی جائے لیکن جو اس ظاہری قربانی کے فوائد ہیں اس کے لیے یہ جانور کی ظاہری قربانی بجا لانا ضروری ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اوراس کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ ظالموں سے نجات کے سامان پیدا فرمائے اور ان کو ظلم سے روکے۔

اوور فلو مارکی

وہ لوگ جو کہ قربانی نہیں کر سکتے اللہ ان کی نیت کو قبول فرمائے اور ان کو بہترین اجر عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ توفیق دے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کو پہچان کر اس جماعت میں شامل ہوں۔

اسیران راہ مولیٰ جو کہ بلا وجہ قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔

شہداء کے خاندانوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ جو جان کی قربانیاں ان کے باپ بیٹوں اوربھائیوں نے دیں تو وہ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں خدا کے قرب میں بڑھنے والے ہو ں اور اس سے دور نہ ہوجائیں۔ اسی طرح دنیا میں فتنہ اورفساد کےختم ہونے اور امن کے لیے دعا کریں۔

پاکستان، برکینا فاسو، بنگلہ دیش اور الجزائز کے ممالک میں حالات کی بہتری اوران کی حکومتوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ ان کو عقل دے اور یہ احمدیوں کی مخالفت سے باز آجائیں اور ان ممالک میں رہنے والے احمدیوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ان کو ہر شر سے بچا کر رکھے۔

تمام دنیا کے احمدیوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ سب کو اپنے فضل اوررحم کی چادر تلے رکھے اوراحمدی خدا کی خالص توحید کا جھنڈا لہرانے کے لیے ہرقسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے،آمین۔

گیارہ بج کر ۲۷ منٹ پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو بھی عید مبارک ہو اوردنیا میں تمام احمدیوں کو بھی عید مبارک ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

راؤنڈ

عید کے اجتماع کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احاطہ مسجد مبارک کا راؤنڈ فرمایا۔ حضورپُرنور مسجد مبارک کے دروازے سے نکل کر دائیں جانب گھومتے ہوئے مسجد مبارک اور ایوانِ مسرور کے درمیانی برآمدے کی جانب تشریف لائے جہاں راستے میں ایک حفاظتی دروازے کو لگے ہوئے تالے کے کھلنے کا کھڑے ہو کر انتظار فرمایا۔ حضور مذکورہ برآمدے میں نمازِعید ادا کرنے والے احباب کی جانب تشریف لائے اور انہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرمایا۔ احباب نے بھی والہانہ انداز سے اپنے پیارے امام کے سلام کا ہاتھ اٹھا کر جواب دیا اور عید مبارک پیارے حضور عرض کی۔ یہاں سے گزرتے ہوئے پیارے حضور ایوانِ مسرور تشریف لے گئے جہاں پہلے مردانہ حصے اور پھر زنانہ حصے میں تشریف لائے اور احباب و خواتین نے اپنے پیارے امام کا دیدار کیا۔ حضورِ انور ایوانِ مسرور کی راہداری سے ہوتے ہوئے خواتین کی جانب کھلنے والے دروازے سے باہر تشریف لے گئے اور پھر احاطہ مسجد مبارک کا چکر لگاتے ہوئے صدر دروازے پر قائم کردہ خصوصی گیٹ سے گزرتے ہوئے بیرونی سڑک پر تشریف لے گئے جہاں ایک طرف بڑی اوورفلو مارکی لگائی گئی تھی۔ حضورِ انور نے کچھ دیر یہاں کھڑے ہو کر احباب کو السلام علیکم کہا۔ احباب نے بھی اپنے پیارے امام کی خدمت میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ پیارے حضور اور عید مبارک کا تحفہ پیش کیا۔ حضور حلمی الشافعی روڈ پر چلتے ہوئے مارکی کے خواتین والے حصے کے سامنے پہنچے تو خواتین اور بچیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ سب ہاتھ ہلا ہلا کر حضور کو السلام علیکم اور عید مبارک عرض کر رہی تھیں۔ بعد ازاں حضور دروازے سے احاطے کے اندر داخل ہوئے جہاں کچھ روز قبل ایک نیا حفاظتی بیریئر نصب کیا گیا تھا۔ حضورِ انور نے کھڑے ہو کر اس کا معائنہ فرمایا اور محترم میجر محمود احمد صاحب افسر حفاظتِ خاص سے اس کی بابت کچھ امور دریافت فرمائے۔ بعد ازاں گیارہ بج کر ۳۹؍ منٹ پر پیارے حضور اپنی رہائشگاہ میں تشریف لے گئے۔

یاد رہے کہ آج صبح سے ہی بوندا باندی ہو رہی تھی تاہم نماز عید سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل بارش تھم گئی اور موسم نہایت ہی خوشگوار ہو گیا۔ اس موقع پر کل حاضری ۲۹۰۰ کے قریب تھی۔

ادارہ الفضل انٹرنیشنل کی جانب سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور تمام احبابِ جماعت احمدیہ عالمگیر کو عید کی مبارکباد پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنے پیارے امام کے ارشادات کی روشنی میں حقیقی عید کرنے کی توفیق پائیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button