متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)

اے چھاؤں چھاؤں شخص !تری عمر ہو دراز

(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات حصہ ہفتم)

ایک نایاب منظر

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں قافلہ Gothenburgکی طرف رواں دواں تھا اور دوران سفر مکرم مبارک ظفر صاحب نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ ہمارے دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند نظر آ رہا ہے۔ دن کے وقت چاند شاذ و نا در ہی نظر آتا ہے اور سورج اور چاند دونوں کا بیک وقت نظر آنا تو بالکل شاذ کی بات ہے۔

مکرم مبارک صاحب نے نہایت دلچسپ طور پر اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے شاعرانہ انداز میں کہا کہ Gothenburgجاتے ہوئے قافلہ کے ایک طرف سورج ہے اور دوسری طرف ہم چاند کو دیکھ سکتے ہیں جیسا کہ دونوں مل کر خلافتِ احمدیہ کے پانچویں ستارے (مظہر) کو بطور حفاظتی دستہ تحفظ اور روشنی فراہم کر رہے ہیں۔

احمدیوں کے جذبات

۱۹؍مئی ۲۰۱۶ء کو حضور انور نے مقامی افراد جماعت کو فیملی ملاقات کا شرف بخشا اور مجھے چند احمدیوں سے بات کرنے کا موقع ملا جنہیں حضور انور سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔

ایک دوست جن سے میری ملاقات ہوئی وہ ایک معمر بزرگ مکرم بشیر الدین احمد صاحب (عمر ۸۲ سال) تھے جو ۱۹۶۹ءسے سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اس طرح حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کے عزیز ہیں کہ ام ناصرؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ ان کی آنٹی ہیں۔ حضرت امّ ناصر صاحبہ رحمھا اللّٰہ حضور انور کی نانی جان بھی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے مجھے اپنی رشتہ داری سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ پھر بھی میں الجھن کا شکار تھا۔ اس لیے بعد میں مَیںنے حضور انور سے عرض کی تو آپ کے سمجھانے پر مجھے حضور انور اور ان بزرگ کا رشتہ سمجھ آیا۔

ماشاءاللہ، حضور انور کا اپنی فیملی میں، رشتہ داروں اور پھر جماعت کے احباب کے بارے میں علم نہایت گہرا ہے۔ حضور انور کے بارے میں مکرم بشیر الدین صاحب نے بتایا کہ میں حضور انور کو بچپن سے جانتا ہوں اور خلافت کے بعد جو تبدیلی آپ میں رونما ہوئی ہے وہ غیر معمولی ہے۔ قبل ازیں آپ بہت خاموش طبع تھے اور منظر عام پر آنا پسند نہ کرتے تھے اور اس کے باوجود کہ آپ سادہ مزاج اور عاجز ہیں، آپ کے اندر واضح تبدیلی اور وجاہت رونما ہوئی ہے۔

میری ملاقات ایک بوسنین نومبائع مکرمہ Sabina Bengtssan صاحبہ سے ہوئی۔ جن سے خاکسار کا تعارف مکرم امیر صاحب سویڈن نے کروایا تھا۔ عام طور پر میں خواتین سے عمر کے بارے میں سوال نہیں کرتا مگر اس موقع پر مکرمہ Sabinaصاحبہ نے خود ہی بتایا کہ یہ لکھ لیں کہ میری عمر ۷۶؍ سال ہے اور میں۱۹۹۱ء سے احمدی مسلمان ہوں ۔

مکرمہ Sabina صاحبہ نہایت خوش اخلاق، شفیق اور ملنسار تھیں اور میں ان کے ساتھ گفتگو سے خوب محظوظ ہوا۔ مکرمہ Sabina صاحبہ نے بتایا کہ خلیفہ(خلیفة المسیح)جو بھی فرماتے ہیں وہ درست ہے۔آپ نہایت پاک اور نیک شخصیت کے مالک ہیں۔ میں حضور انور کی اہلیہ محترمہ سے بھی ملی ہوں اور ان کے چہرے سے شفقت اور محبت جھلک رہی تھی اور ان سے ملاقات میرے لیے بے پایاں خوشی کا موجب بنی۔

اپنے نومبائع ہونے کے تجربات کے متعلق مکرمہ Sabina صاحبہ نے بتایا کہ اپنے دل میں ساری زندگی مَیں احمدی ہی تھی اگرچہ مجھے اس کا تعارف صرف چند دہائیاں قبل ہوا۔ ساری زندگی میری خواہش رہی کہ مخلص اور شفیق لوگوں سے ملوں اور جب میں احمدیوں سے ملی تو لگا ایسے لوگوں سے ملاقات ہو گئی جن کی مجھے تلاش تھی۔ پچیس سال سے بطور احمدی زندگی گزارتے ہوئے میں یہ شہادت دے سکتی ہوں کہ احمدی بہترین قوم ہیں۔

جب میں نے انہیں خدا حافظ کہا تو وہ میری طرف دیکھ کر یوں مسکرائیں جیسے ایک دادی اپنے پوتے کو دیکھ کر مسکراتی ہیں۔ جہاں تک مجھے اندازہ تھا ،ان کے ذہن میں اس سے بھی قریبی ایک رشتہ تھا۔ چنانچہ جاتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں میرے پیارے بیٹے! آج سے میں تمہیں اپنا پیارا بیٹا سمجھوں گی۔

غیروں کے لیےایک تنبیہ

اس دن پچھلے پہر میں نے خبروں میں دیکھا کہ Egypt Air Flightجو پیرس سے قاہرہ جا رہی تھی ،حادثہ کا شکار ہوگئی ہے۔ ابتدائی چند گھنٹوں میں مصر کی حکومت اور جملہ میڈیا یہ بیان دے رہا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ فلائٹ ایک دہشت گرد حملے کا شکار ہوئی ہے۔ میں نے حضور انور کی خدمت میں یہ بات عرض کی جس پر حضور انور نے فرمایا :’’ان شرارتی اور پراگندہ لوگوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے، کوئی لیڈر نہیں ہے۔ اس لیے یہ ایسے نفرت آمیز کام کرتے رہیں گے۔ یہ غلط طریق پر اسلام کے نام پر ایسی ظالمانہ کارروائیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس لیے یقینی طور پر اللہ ایک دن ان کو ختم کر دے گا۔ ہمیں انتظار کرنا چاہیے کہ وہ وقت کب آئے گا۔‘‘

حضور انور کے الفاظ نہایت پُر شوکت تھے اور میں نے دعا کی کہ حضور انور نے جس پکڑ والے دن کا ذکر فرمایا ہے وہ جلد ہی آن پہنچے۔

احمدیوں کے جذبات

پچھلے پہر، حضور انور نےایک نشست میں احمدی فیملیز کے ساتھ فیملی ملاقات کی۔حضور انور کو ملنے والوں میں ایک خادم مکرم عمر ملک خان صاحب(عمر۳۰سال) تھے۔ میں نے ان سے ملاقات کے بعد بات کی تو انہوں نے بتایا کہ حضور انور کو دیکھنا اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنا ایک منفرد تجربہ ہے جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔ حضور انور کی تلاوت سے میںنماز کے دوران بہت زیادہ جذباتی ہوگیاتھا۔

حضور انور کے دورے کے وسیع اثرات کے بارے میں مکرم عمر صاحب نے بتایا کہ سویڈن میں ہماری جماعت کا بہت زیادہ تعارف نہ تھا۔ اس لیے میں حیران ہوں کہ حضور انور نے چند دنوں میں ایسا حیران کن اثر کیسے ڈال دیا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور نے اکیلے ہی جماعت کو سویڈش لوگوں میں متعارف کروا دیا ہے۔ جب بھی میں اخبار اٹھاتا ہوں یا ٹی وی آن کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری جماعت کے بارے میں کوئی نئی خبر چل رہی ہے۔

میری ملاقات ایک میاں بیوی سے بھی ہوئی، مکرم عبدالجبار صاحب (عمر۳۶سال) اور ان کی اہلیہ مکرمہDalia Jabbar صاحبہ جو ایک لیتھوینین نو مبائع ہیں۔ ملاقات کے بعد مکرم عبدالجبار صاحب کہنے لگے کہ میری پرورش پاکستان میں ہوئی ہے اور میں ان لوگوں میں سے تھا جو اکثر سوچتے ہیں کہ کیا انہیں کبھی اپنے خلیفہ سے ملنے کا موقع ملے گا۔ صرف پاکستان میں رہنے والے احمدی ہی سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستانی احمدی حضور انور سے ملنے کے لیے کس قدر بےتاب رہتے ہیں۔

ان کی اہلیہ مکرمہ Daliaصاحبہ نے بتایا کہ میں نے ۲۰۰۷ءمیں احمدیت قبول کی تھی اور آج پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی ہے۔ یہ بہت زبردست (ملاقات) تھی اور میری زندگی کے بہترین لمحات میں سے تھی۔ میں نہایت مطمئن اور جذبات سے مغلوب تھی۔ یہ دیکھنا کہ حضور انور کس قدر محبت کرنے والے اور شفیق ہیں، میرے ایمان کے لیے مزید تقویت کا باعث بنا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ احمدیت قبول کرنا میری زندگی کا ایک بہترین فیصلہ تھا ۔ مجھ میں احمدیت قبول کرنے کے بعد بہت تبدیلی آئی ہے اور گویا میں ایک بالکل مختلف وجود ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ میں اب ایک بہتر وجود ہوں کیونکہ مجھے سیدھا راستہ دکھایا گیا ہے۔

حضور انور کے ساتھ چند لمحات

ملاقاتوں کے اختتام پر حضور انور نے خاکسار کو اپنے دفتر میں چند منٹ کے لیے طلب فرمایا اور اس انٹرویو کا ذکر فرمایا جو اس جمعہ کے بعد ہوا تھا۔ حضور انور نے فرمایا کہ وہ جرنلسٹ بہت ناتجربہ کار تھی اور اس کے اکثر سوالات غیر معیاری تھے۔میں نے عرض کی کہ میں حیران ہوں کہ اس نے حضور انور کو اپنے الفاظ مختصر رکھنے کا کہا تھا۔ میں نے عرض کی کہ مجھے زیادہ حیرت اس بات پر ہےکہ جب میں نے ٹی وی پر اس کی رپورٹ دیکھی جو چند منٹ قبل نشر ہوئی تھی تو اس نے حضور انور کے انٹرویو کو دکھایا ہی نہیں بلکہ جمعہ (کی ادائیگی ) کے متعلق ایک رپورٹ دکھائی جس میں انہوں نے ذکر کیا کہ حضور انور نے Gothenburg کا سفر کیا ہے اور اس clip میں چند جماعت کے ممبران کی آواز میں تبصرے شامل تھے۔

حضور انور کی عاجزی غیر معمولی ہے اور ہم سب کے لیے مثالی نمونہ ہے۔ یہ سن کر کہ اس خاتون جرنلسٹ نے آپ کی footage اپنے انٹرویو میں شامل نہیں کی حضورانور نے فرمایا:’’کم از کم جماعت کا پیغام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام تو ایک بڑی تعداد تک پہنچا ہے ۔یہی اصل مقصد ہے۔‘‘

میں نے عرض کی کہ اس شام ایک غیر مسلم سویڈش آدمی جو مسجد کے قریب رہتا تھا غصہ سے ایک خادم کے پاس آیا جو سیکیورٹی کی ڈیوٹی کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی ٹی وی کی نشریات میں دیکھا ہے اور اس میں بتایا جا رہا ہے کہ ایک خلیفہ یہاں کا دورہ کر رہا ہے۔ وہ کون ہے؟ وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ وہ یہاں کیوں آیا ہے؟

اس خادم نے انہیں حضور انور کے بارے میں تفصیلاً آگاہ کیا اور جماعت کی پُر امن تعلیمات کے بارے میں بھی بتایا اور انہیں کہاکہ اگر وہ پسند کریں تو انہیں مسجد میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ یہ سننے پر اس ہمسائے کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا اور فضا کچھ سازگار ہوئی۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ’’ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا پیغام آج کم از کم ایک آدمی تک تو پہنچا ہے۔‘‘

اس تبصرے نے مجھے باور کروایا کہ حضور انور ہر فرد واحد کی ہمدردی کے لیے تیار رہتے ہیں اور آپ کی خواہش ہے کہ اسلام کے بارے میں غلط نظریات ہر انسان کے دل سے محو ہو جائیں۔

حضور انور نے مجھ سےاستفسار فرمایا کہ کیا ان دنوں امریکہ میں میراکسی سے رابطہ ہوا ہے ؟کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میرے وہاں کئی دوست احباب ہیں۔ میں نے عرض کی کہ امریکہ جماعت کے میرے اکثر دوست بہت خوش ہیں ۔حضور انور نے انتخابات کے بعد صاحبزادہ مرزا مغفور احمدصاحب کی منظوری بطور امیر (جماعت امریکہ) کے مرحمت فرمائی ہے۔

میرا دل اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ سب سے بڑی وجہ امریکہ کی جماعت کی خوشی کی یہ تھی کہ نئے امیر صاحب امریکہ کا حضور انور سے اس قدر قریبی تعلق ہے۔

حضور انور کی بابرکت راہنمائی

بعد ازاں حضور انور نے استفسار فرمایا کہ میری اہلیہ مالا اور ہمارے بچوں کا لندن میں کیا حال ہے۔ حضور انور نے خاص طور پر استفسار فرمایا کہ میرا بڑا بیٹا ماہد کیسا ہے اور یہ کہ کیا اس نے بولنا شروع کیا ہے۔ حضور انور کا یہ استفسار فرمانا آپ کی نہایت شفقت کی وجہ سے تھا کیونکہ آپ کو علم تھا کہ میں گذشتہ ایک سال سے اس مسئلہ کی وجہ سے پریشان تھا۔

دراصل جب کبھی بھی خاکسار نے اس پریشانی کی بابت حضور انور سے بات کی تو آپ نے مجھے چند ہدایات سے نوازا تھا۔ نیز ماہد کی بولنے کی صلاحیت میں بہتری کے لیے دعا کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی مرتبہ میں نے اپنی پریشانی حضور انور سے عرض کی تو آپ نے فرمایا: تمہیں ماہد سے زیادہ سے زیادہ باتیں کرنی چاہئیں اور اس کے ساتھ باقاعدہ گفتگو کرنی چاہیے۔ تم فطرتًا زیادہ بولنے کے عادی نہیں ہو ،اس لیے خاص محنت کرنی پڑے گی۔ ہر شام کم از کم تیس منٹ اس کے ساتھ باتیں کیا کرو۔ آہستہ آہستہ وہ بولنا شروع کر دے گا۔

چند ہفتے بعد میں ایک پروفیشنل speech and language therapist (خاتون) سے پہلی بار ملا اور ان سے اپنی پریشانی بیان کی۔ میں ان کے مشورے کو کبھی بھلا نہیں پاؤں گا۔ انہوں نے بھی یہی کہا آپ کو ماہد سے زیادہ سے زیادہ بات کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ باقاعدہ گفتگو کرنی چاہیے۔ کوشش کریں کہ ہر روز کم از کم تیس منٹ اس کے ساتھ بات کریں اور آپ جلدہی بہتری دیکھیں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button