متفرق مضامین

قربانی کا تصوّر

(’الف۔ الف۔ مغل‘)

عید الاضحی کے موقع پر لاکھوں مسلمان جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور اس قربانی کا حقیقی مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے اور اس ذریعہ سے بےشمار افضال و انعامات کو سمیٹنا ہے۔

خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں قربانی سے متعلق یوں ارشاد فرمایا ہے کہ لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ(الحج:۳۸)ترجمہ:خدا تعالیٰ کو ان قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ قربانی کرنے والوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔خدا تعالیٰ ایک اور موقع پر یہ فرماتا ہے کہ یُطعِمُ ولَا یُطعَم وہ تو خود کھلاتا ہے نہ اُس کو کھلایا جاتا ہے۔وہ پاک اور عظیم الشان بادشاہ نہ تو کھانوں کا محتاج ہے نہ گوشت کے چڑھاوے اور خون کا،بلکہ وہ تمہیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور اسی طرح قربان ہو جاؤ جیسے ادنیٰ اعلیٰ کے لیے قربان ہوتا ہے۔

آج کل جہاں مسلمان حقیقی اسلام سے دور ہیں وہاں نیکیوں سے بھی دور ہوتے جاتے ہیں۔انہوں نے خدا کی ذات اور محمد مصطفیٰﷺ کو صرف اپنے لیے خاص کرلیا ہے جس طرح یہود و نصاریٰ یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی(سورۃالبقرۃ:۱۱۲)یعنی یہود و نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔اسی طرح مسلمانوں نے رسول کریم ﷺ کے متعلق خیال کر لیا ہے بلکہ اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ صرف انہی کے نبی ہیںاور قربانی کرنا صرف مسلمان کا حق ہے۔ جبکہ یہ خود جانتے ہیں کہ یہ سنت ابراہیمی ہے۔اور تمام عیدگاہوں میں عید الاضحی کے موقع پر سنت ابراہیمی کے خطبات بھی دیتے ہیں۔ پھر نہ جانے کیوں قربانی کو صرف مسلمانوں کے لیے خاص کرتے ہیں۔

ایک موقع پر آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یہ قربانیاں کیا چیز ہیں یعنی ان کی کیا حیثیت ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم ؑکی سنت ہے۔ (ابن ماجہ ابواب الاضاحیٰ باب ثواب الاضحیۃ حدیث نمبر ۳۱۲۷)جانوروں کو قربان کرنے کی تعلیم صدیوں پرانی ہے اور سب مذاہب میں قربانی کا وجود پایا جاتا ہےاور خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے ہمیشہ جانوروں کی قربانی کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ اس آیت قرآنی میں ذکر موجود ہے وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ(سورۃ الحج آیت :۳۵)یہودیت میں قربانی کا واضح تصور موجود ہے اور حضرت عیسیٰؑ کوئی الگ سے شریعت نہیں لائے تھے ان کا عمل بھی یہودی شریعت پر تھا۔بعد میں پولوس نے عیسائیت میں تحریفات کیں جس کے نتیجہ میں قربانی کا وہ تصور جو کہ حضرت ابراہیمؑ سے وابستہ تھا باقی نہیں رہا۔ بہرحال حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑکے واقعہ قربانی کو یہود حضرت اسحاقؑ سے منسوب کرتے ہیں اور ان کو ہی ذبیح اللہ قرار دیتے ہیں۔ وہ تقرب خداوندی کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں چنانچہ بائبل میں ذکر موجود ہے کہ ’’وہاں ابراہام نے قربان گاہ بنائی اور اس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اسحاق کو باندھا اور اسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپررکھا اور ابراہام نے ہاتھ بڑھا کر چُھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے تب خداوند کے فرشتے نے اسے آسمان سے پکارا کہ اے ابراہام۔ اے ابراہام! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔ پھر اس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیوں کہ میں اب جان گیا کہ تو خدا سے ڈرتا ہے۔ اس لیے کہ تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔اور ابراہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھادیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں ٹکے تھے۔ تب ابراہام نے جا کر اس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا۔(پیدائش باب ۲۲ آیت ۹ تا ۱۳)

ہندوؤں میں بھی قربانی کا تصور موجود ہے۔ منوسمرتی ہندو قانون کی بنیادی اور مسلمہ کتاب ہے اس میں مردہ بزرگوں کی فاتحہ کا ذکر ہے۔ یہ کھانا برہمنوں کو کھلایا جاتا ہے۔

اور برہمنوں کے کھانے کے بعد عزیزوں اور رشتے داروں کو دیا جاتا ہے…اس کے ادھیائے تین میں ہے کہ مچھلی کے گوشت سے دو مہینے تک،ہرن کے گوشت سے تین مہینے تک،بھیڑ کے گوشت سے چار مہینے تک،مردہ بزرگ آسودہ رہتے ہیں۔(منوسمرتی ادھیائے ۲۲۔۲۳)

گائے کا گوشت پیش کرنے سے ایک سال تک اور بڑے بیل کے گوشت سے بارہ سال تک بزرگوں کی روحوں کو سکھ شانتی پراپت ہوتی ہے۔(مہابھارت انوشاسن پرو،ادھیائے:۸۸شلوک:۵)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہ (الحج:۔۳۷) اور تو ان کو بتا دے کہ قربانیوں کو ہم نے شعائراللہ قرار دیا ہے یعنی وہ انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور اُن کے ذریعہ سے دینی اور دنیوی بھلائی ملتی ہے۔ پس قربانی کے دنوں میں قربانیوں کو صف در صف کھڑا کر کے اُن پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو،تاکہ وہ خدا تعالیٰ کے بندوں کے کام آئیں چنانچہ جب وہ ذبح ہو کر اپنے پہلوؤں پر گر جائیں تو خود بھی ان کا گوشت کھاؤ اور صابر غریب اور مضطر غریب کو بھی کھلاؤ۔یہ سب مال ہم نے تم کو دیا ہے تا کہ ان کو غریبوں پر خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۵۳)

اسلام پر اعتراض کرنے والے اپنے زعم میں ایک بڑا اعتراض یہ پیش کرتے ہیں کہ لاکھوں جانوروں کا خون بہانے سے بہتر ہے کہ کسی غریب کی مدد کر دی جائے کوئی فلاحی کام کر دیا جائے؟

جواب:اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا جانوروں کو ذبح لوگ خود سے کرتے ہیں اور انجانے طور پر بیک وقت تمام لوگوں کے دل میں تحریک ہوتی ہے کہ قربانی کر دو اور وہ جانور ذبح کر دیتے ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے۔یہ جانور ذبح کرنا حکم خداوندی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ(الحج :۳۸) پس جس نے پیدا کیا،شریعت عطا کی،لاکھوں احسانات کیے جن کو شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔جس نے پیدائش کا مقصد ہی عبادت کو قرار دیا اور جس نے آخری زمانہ کے لیے اپنے دین کا نام اسلام رکھا اور اسلام جس کے معنی ہی فرمانبرداری کے ہیں کس طرح سے ممکن ہے کہ اس کی ذات کی طرف سے حکم موصول ہو اور اُس پر عمل نہ کیا جائے۔اور پھر محمد مصطفیٰ ﷺ نے اِس حکم پر بار بار عمل کر کے ہمارے لیے سنت کو جاری فرمایا۔

ایک عام انسان جب کسی دوسرے شخص پر احسان کرتا ہے تو دل میں گمان پیدا ہو جاتا ہے کہ ا ب یہ شخص میرے خلاف نہیں جائے گا اور میری بات مانے گا اور دنیا دار ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔یہاں تو ان گنت احسان کرنے والے خدا کے حکم کی بات ہو رہی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ کہنا کہ قربانیوں کے بجائے عربوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے اور مکہ مکرمہ میں کالج اور سکول وغیرہ جاری کر دیے جائیں۔ فرمایا کہ میں ہمیشہ ان کو یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ بعض دفعہ قوم پر ایسے اوقات بھی آیا کرتے ہیں جب اُسے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو بظاہر بے فائدہ نظر آتی ہیں انہی قربانیوں کی ٹریننگ کے لئے اسلام نے یہ سلسلہ جاری کیا ہے تا کہ ایسے مواقع پر خواہ انہیں کوئی حکمت نظر آئے یا نہ آئے وہ قربانی کرتے چلے جائیں…

جب رسول کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں دعویٰ فرمایا تو اُس وقت جن صحابہؓ نے قربانیاں کیںوہ بظاہر کیسی بےفائدہ اور کیسی بےنتیجہ نظر آتی ہیں۔مگر پھر انہی قربانیوں کے نتیجے میں مکہ فتح ہوا اور سارا عرب اسلامی جھنڈے کے نیچے آگیا۔جب صحابہ ؓمکہ میں قربانیاں کر رہے تھے اس وقت کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک دن انہی قربانیوں کے نتیجے میں رسول کریم ﷺ کو عظیم الشان شوکت ملنے والی ہے۔

اگر مکہ کے ابتدائی دور میں صحابہ اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو مسلمان وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے بدر اور اُحد کے موقعہ پر پیش کیں۔وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے احزاب کے موقعہ پر پیش کیں۔یہی قربانیاں تھیں جنہوں نے اُن کے اندر جوش پیدا کیا اُن کے اندر اخلاص پیدا کیا اور اُنہیں قربانیوں کے نہایت اعلیٰ مقام پر لا کھڑا کیا۔اِسی طرح بے شک وہاں ہزاروں بکرے ذبح ہوتے ہیں جن کا گوشت بظاہر ضائع چلا جاتا ہےاور اُس کو کھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتامگر اسلام پھر بھی قربانیوں کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ(الحج: ۳۷) تمہارے لیے اس میں خیر اور برکت رکھی گئی ہے۔تمہیں اِن قربانیوں کے تسلسل کوہمیشہ جاری رکھنا چاہیے اور ان دُور رَس نتائج پر نظر رکھنی چاہیے جو ان قربانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۵۴۔۵۵)

قربانی کے حوالے سے ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا انسانی ہمدردی اور فلاحی کام صرف ان تین دنوں کے لیے مخصوص ہیں؟ انسانی ہمدردی اور غریبوں کی مدد تو سارا سال ہونی چاہیے؟

یہ بات بالکل غلط ہے کہ فلاحی کام صرف تین دن ہوتے ہیں پس جو قربانی کی استطاعت رکھتے ہیں وہ غرباء کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں تو سارا سال بلکہ ساری عمر مخلوق خدا کی خدمت کا کہا ہے اور حقیقی مسلمان اپنے دائرے میں رہتے ہوئے مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے۔خاص طور پر ا حمدی احباب جو کہ سارا سال ہی مالی قربانی کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے ہر قسم کے غریب شخص کی مدد کی جاتی ہے۔ چاہے وہ بیوہ ہو، یتیم ہو، بے گھر ہو، بیمار ہو، تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہو، بچیوں کی شادیاں ہوں۔پھر بھی اعتراض کرنے والے باز نہیں آتے اور کہہ دیتے ہیں کہ دیکھو سارا سال چندہ مانگتے ہیں اور بے شمار مدات ہیں۔ لوگوں کے اوپر بوجھ ہے۔ جبکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ دینے والے دلی خوشی سے مالی قربانی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کیا قربانی کرنا ضروری ہے؟

جواب: جانور قربان کرنا ہر شخص پر واجب نہیں ہے۔آپ ﷺ نے فرمایاہے کہ ہر وہ شخص قربانی کرے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔بلکہ آپ ﷺ نے دو جانور عید الاضحی کےموقع پر قربان کیے اور فرمایا کہ ایک جانور میرے اہل و عیال کی طرف سے اور دوسرا جانور میری امت کے اُن غریب لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہیں کر سکتے۔پس جس کی استطاعت ہے وہی قربانی کرے گا۔

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ تمام حلال جانور کیوں نہیں ذبح کر سکتے ؟

جواب : اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جب ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکو خدا تعالیٰ کا سچا نبی مان لیا۔ خدا تعالیٰ کا پیارا مان لیا۔ اور آپ ﷺنے بطور نمونہ ہمارے سامنے جانور ذبح کر کے دکھا دیا، اور خداتعالیٰ کا ایک بہت ہی پیارا حکم ہمارے لیے بیان کر دیا کہ دین تمہارے لیے آسانی پیدا کرتا ہے نہ کہ مشکل۔پھر ہم پر واجب ہے کہ اِسی تعلیم پر عمل کریں۔ حدیث کے مطابق قربانی کے لیے اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ، دنبہ ان میں سے کوئی بھی جانور ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اونٹ اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے اور بھیڑ،بکری وغیرہ ایک آدمی کی طرف سے کافی ہے۔

گائے، بکری، بھیڑ، اونٹ وغیرہ جن کی قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کے بارے میں ایک یہ پہلو بھی ہے کہ یہ وہ جانور ہیں جو کہ گھریلو جانور ہیں آسانی سے انسان کو میسر آجاتے ہیں اور پھر لوگوں کو قربانی سے قبل اُن سے اُنس ہو جاتا ہےاور اِن جانوروں سے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ جبکہ ان کے بالمقابل باقی جانوروں سے انسان کو خوف رہتا ہےاور یہ حکم فطرت کے بھی بالکل قریب ہےاور انسانی عقل بھی اس حکم کو تسلیم کرتی ہے۔ تب ہی حقیقتاًمسلمان خدا تعالیٰ کے راستے میں اپنی پیاری چیز کو قربان کرتے ہیں۔

ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا قربانی پورا ماہ بھی کی جا سکتی ہے ؟ اور اگر قربانی کی رقم چندہ کی مد میں دے دی جائے ؟

جواب : یہ دونوں سوال آپس میں تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو اکٹھا رکھا گیا ہے۔ پس جس شخص کی استطاعت ہے اُس کو تو چاہیے کہ وہ قربانی کے پہلے تین دن میں ہی جانور قربان کرے۔ جس طرح نماز اول وقت میں ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اگر کوئی بامر مجبوری دیر بھی کر دیتا ہے تو وہ ادا کر سکتا ہے۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ اگر سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحبؑ کا بھی اور بعض اَور بزرگوں کا بھی یہی خیال تھاکہ سارے مہینہ میں قربانی ہو سکتی ہے۔(خطبات محمود جلد دوم صفحہ ۷۲-۷۳)

لیکن اگر ایسے حالات پیدا کر دیےگئے ہیں کہ عید الاضحی سے قبل ہی آپ کے خلاف ایسی درخواستیں پولیس کو دی جا چکی ہوں کہ اگر تم نے قربانی کی تو جیل جاؤ گے۔ ایسے مشکل حالات میں جہاں خدا کے حکم پر عمل کرنے پر سزائیں ملتی ہوں وہاں احتیاط اور حکمت سے کام لو اور صبر کرو۔ ہم تو ان حالات میں خلیفۃ المسیح کی طرف ہی دیکھتے ہیں چنانچہ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۱۰؍جولائی ۲۰۲۲ء کے عید الاضحی کے خطبہ میں فرمایا کہ

’’اب تو پاکستان میں باقاعدہ انتظامیہ کی طرف سے بھی بعض جگہ اعلان کیا گیا ہے کہ عید کے تین دن کوئی احمدی کسی جانور کو ذبح نہیں کر سکتا چاہے قربانی کے لیے ہو یا کسی بھی مقصد کے لیے ہو کیونکہ اگر احمدی قربانیاں کرتے ہیں تواس طرح اسلامی شعائر کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ نعوذ باللہ۔یہ قربانی صرف ان نام نہاد مسلمان علماء کا حق ہے، صرف ان لوگوں کا حق ہے جن پر یہ علماء مسلمان ہونے کی مہر ثبت کریں۔ ان لوگوں کے لیے اس مہر کی کوئی حقیقت نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک شخص کو مسلمان بنانے اور کہنے کی مہر ہے۔ بہرحال جب ایسے حالات اپنےانتہا کو پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بھی چلتی ہے اور پھر وہ ہر ایک سے چاہے وہ بڑا عالم ہے نام نہاد عالم یا سب سے بڑا لیڈر ہے یا کوئی بہت بڑا افسر ہے جو بھی ظلم و تعدی میں بڑھتا ہے اسے پیس کر رکھ دیتی ہے، اس کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ ہم احمدی تو قربانی کرنے والے ہیں۔ ان عیدوں اور اپنی تاریخ سے ہم نے قربانیوں کے سبق سیکھے ہیں اور جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے ہم نے عہد بھی کیے ہیں لیکن بعض کمزور طبع بھی ہوتے ہیں۔ ان احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ صبر اور دعاؤں سے کام لیں۔ یقیناً یہ دعائیں ایک دن پھل لائیں گی ان شاء اللہ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ علیہا السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیاں بھی پھل لائی تھیں لیکن انہوں نے صبر اور دعا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔‘‘ (خطبہ عید الاضحی فرمودہ ۱۰؍جولائی ۲۰۲۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۵؍اکتوبر ۲۰۲۲ء)

خدا کرے کہ ہم اپنا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو چاہنے کے لیے کرنے والے ہوں۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button