متفرق مضامین

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (ذہن کے متعلق نمبر۴) (قسط ۲۹)

(ڈاکٹر شاہد اقبال)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

بیلاڈونا

Belladonna

(Deadly Night Shade)

٭…بیلاڈونا کی علامات رکھنے والی بیماریوں میں اچانک پن تو بالکل ایکونائٹ کی طرح ہی ہےلیکن اس میں کوئی خاص خوف نہیں پایا جاتا۔مریض دبے لفظوں میں تکلیف کا اظہار کرتاہے۔ورنہ خاموش رہتا ہے،زیادہ بولنا پسند نہیں کرتا۔سوائے اس کے کہ رات کو ڈراؤنی خوابیں آنے لگیں تو شورمچا کر اٹھ جاتا ہے۔ورنہ چادر لےکر الگ تھلگ پڑا رہنے والا مریض ہے۔ (صفحہ ۱۳۳)

٭…بیلا ڈونا میں دماغی علامتیں ایکونائٹ کے مقابل پر بہت زیادہ ہوتی ہیں۔بیلاڈونا دماغ پر بھی حملہ کرتی ہےاور شدید پاگل پن کا دورہ پڑ سکتا ہے۔بیلاڈونا کا پاگل بہت متشدد پاگل ہوتا ہے۔اگر کسی پاگل میں بے انتہا جوش ہو،کسی کو مارنے یا خود کشی کی کوشش کرے،غصہ میں بہت تیز ہو اور سنبھالنے والوں کو بھی مارےتو اسے فوراً بیلاڈونا دینی چاہیے۔لیکن اگرمرض مزمن ہو جائے تو پھر بیلاڈونا کام نہیں کرے گی۔ہاں کسی کو اچانک پاگل پن کا دورہ پڑے۔ جیسا کہ بعض بیماریوں میں سرسام کے نتیجہ میں ہوجاتا ہے۔تو بیلاڈونا فوری اثر دکھا سکتی ہے۔اگر مستقل مریض ہو تو سلفر اور سٹرامونیم وغیرہ زیادہ مؤ ثر ہیں۔بعض پاگل اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انہیں زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے۔یہ خاص بیلاڈونا کی علامت ہے لیکن بیلاڈونا دے کر وقتی آرام ہو تو مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ دیرپا اثر والی دوا تلاش کرنی چاہیے۔مزمن پاگل پن میں ضرور کوئی مزاجی دوا ڈھونڈنی پڑے گی۔ ایکونائٹ اور بیلاڈونا بہت دیرپا اثر کرنے والی دوائیں نہیں ہیں۔بعض دفعہ بیماری کا حملہ عارضی ہوتا ہے لیکن مستقل بیماری وقتی طور پر ٹھیک ہونے کے باوجود موجود رہتی ہے اور بار بار لوٹ آتی ہے۔ سٹرامونیم بیلاڈونا سے زیادہ لمبا اثر کرنے والی دواہے۔(صفحہ۱۳۴-۱۳۵)

٭…ٹائیفائیڈ میں بھی بعض دفعہ بیلاڈونا کی علامات پیدا ہوجاتی ہیں،دماغ کو بخار چڑھ جاتا ہے اور مریض ہذیان بکنے لگتا ہے۔اگر اس میں بیلاڈونا دیں تو وقتی افاقہ تو ضرور ہوگا لیکن کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔کیونکہ ٹائیفائیڈ کا بیلاڈونا سے مزاجی تعلق نہیں ہے۔ سٹرامونیم بیلاڈونا کی نسبت ٹائیفائیڈ سے زیادہ قریب ہے۔کیونکہ یہ کسی حد تک مزمن دوا ہے۔اس لیے یہ ٹائیفائیڈ میں دماغ کی ہذیانی کیفیت کو بھی دور کر سکتی ہے۔اور ٹائیفائیڈ سے شفا کا موجب بھی بن سکتی ہے۔دماغی مریضوں کو سٹرامونیم اور سلفر فائدہ پہنچاتی ہیں خواہ انہیں ٹائیفائیڈ ہو یا نہ ہو۔ بعض دفعہ پاگلوں میں تشدد کے علاوہ فحش گوئی کا رجحان بھی ملتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اندرونی جنسی عضلات میں کوئی سوزش ہے۔ اسے ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ بعض لوگوں کے ذہن پر پرانے صدموں کا اثر ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ پاگل ہوجاتے ہیں۔بعض غم اور مالی نقصان کے اثر سے ذہنی توازن کھوبیٹھتے ہیں۔ پاگل پن کے علاج میں بہت گہرائی میں جاکر مرض کی تشخیص ضروری ہے لیکن بعض اوقات معالجین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا اس لیے روزمرہ کے نسخہ کے طور پر سٹرامونیم اور سلفر سے کچھ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ (صفحہ۱۳۵)

٭…بیلاڈونا میں مریض کے دماغ پر خون کا دباؤ زیادہ ہو جائے تو اسے طرح طرح کے نظارے اور جن بھوت نظر آتے ہیں۔ڈراؤنے خواب مثلاً آگ لگنے کے خواب بھی آتے ہیں۔ایسے مریض کو بیلاڈونا دیں تو آگ لگنے کے خواب آنے بند ہو جائیں گے۔ (صفحہ۱۳۷-۱۳۸)

٭…خیالات کے ہجوم اور ہیجانی کیفیت کی وجہ سے نیند اڑ جائے تو بیلاڈونا،کافیا اور فاسفورس سب مفید ہیں۔اعصابی ہیجان کی وجہ سے نیند اڑ جائےتو ذرا سے شوریا بستر کو ٹھوکر لگنے سے سخت اذیت پہنچتی ہے۔اور مرض میں ایک دم اضافہ ہوجاتا ہے۔ نکس وامیکا میں بھی شور سے تکلیف بڑھتی ہے۔ چونکہ نکس وامیکا میں بیلاڈونا کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے نکس وامیکا کی کئی علامتیں بیلاڈونا سے ملتی ہیں۔(صفحہ۱۳۸)

٭…اگر دماغ کے اعصابی ہیجان کی وجہ سے جسم کانپنے لگےیا خون کا دباؤ بہت بڑھ جائےاس وقت اس دباؤ کوکم کرنے کے لیے بیلا ڈونا استعمال ہوتی ہے۔(صفحہ۱۴۰)

بنزوئیکم ایسڈم

Benzoicum acidum

(Benzoic Acid)

٭…بنزوئیک ایسڈ کا مریض لکھتے ہوئے لفظ چھوڑ دیتا ہے۔وقتی طور پر تحریر کی غلطی ذہنی الجھاؤ کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ذہن بہت تیز کام کرتا ہے لیکن ہاتھ کی رفتار اس نسبت سے ذہنی رفتار کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہ علامت بعض اور دواؤں میں بھی موجود ہے۔ اسے کسی خاص دوا سے منسلک کرنا درست نہیں ہے۔ جب بھی تحریر میں لفظ چھوٹ رہے ہوں یا ایک لفظ کی بجائے کوئی دوسرا لفظ لکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ذہن الفا ظ سے زیادہ معانی کی طرف متوجہ ہے اس لیے بیک وقت دونوں میں اعتدال قائم نہیں رکھ سکتا۔ ایسے لوگوں کی تحریروں میں جہاں سوچ کی رفتار لکھنے کی رفتارسے بہت زیادہ ہوجائے ایسی غلطیاں ہوجایا کرتی ہیں۔ اس لیے خوامخواہ ان لوگوں پر بنزوئیک ایسڈ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ذہنی پریشانی اور پیشاب کی علامتیں بنزوئیک ایسڈ والی ہوں اور پھر تحریر میں غلطیاں بھی ہوں تو بنزوئیک ایسڈ سے آرام آئے گا۔ (صفحہ۱۴۵۔،۱۴۶-)

بسمتھم

Bismuthum

٭…ہومیوپیتھی میں اس کی دماغی علامات بہت نمایاں ہوتی ہیں۔ مریض ایک منٹ کے لیے بھی تنہا نہیں رہنا چاہتا۔ہر وقت کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔بڑھاپے میں اکثر ایسے مریض ملتے ہیں جن کے پاس ہر وقت ضرور کوئی نہ کوئی ہونا چاہیے۔انہیں اپنی کہانی سناتے رہنے کی تمنا ہوتی ہے۔ (صفحہ ۱۵۳)

٭…بسمتھم میں ہائیوسمس کی طرح پر تشدد جنسی خوابوں کا رجحان ملتا ہے۔ بسمتھم کے اسہال میں ضرور کوئی فاسد مادہ ایسا ہوتا ہے جو نیند کے دوران انتڑیوں سے خون میں مل کر دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے اورپریشان خوابیں اس کےنتیجہ میں آتی ہیں۔(صفحہ۱۵۴)

برائیونیا ایلبا

Bryonia alba

٭…برائیونیا میں آہستہ آہستہ تکلیفیں بڑھتی ہیں اور آخر اتنی شدت اختیار کر لیتی ہیں کہ ہر قسم کی حرکت،آواز اور شور سے تکلیف ہونے لگتی ہے۔اور پھر ایسا مریض تیمارداری کے لیے آنے والوں کو بھی ناپسند کرتا ہے۔اور چڑنے لگتا ہے۔اس غصہ اور چڑچڑاہٹ کی وجہ یہ ہے کہ مریض کو ہر حرکت سے تکلیف ہوتی ہے۔منہ کی حرکت سے بھی اسے تکلیف ہوتی ہے۔اور وہ بولنا نہیں چاہتا۔اور وہ کمزوری بھی محسوس کرتا ہے۔اگر ایسے مریض کو نمونیہ ہو یا سر میں درد ہو تو اسے ہرگز بلانا نہیں چاہیے۔ وہ ایک غنودگی کی کیفیت میں رہتا ہے۔ اگر مرض لمبا ہو جائے تو مستقل بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے لیکن حرکت کرنا اور بولنا بالکل فائدہ نہیں دیتا۔(صفحہ۱۶۵-۱۶۶)

٭…بخار کی حالت میں بعض دفعہ درد کے ساتھ ہذیان بھی شروع ہوجاتا ہے۔اور مریض اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتا ہے۔ویسے برائیونیا کے ہذیان میں مریض زیادہ باتیں نہیں کرتا۔ ہائیوسمس، سٹرامونیم،سلفر اور بیلاڈونا کے ہذیان شدت میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اور بخاروں کے زہریلے مادوں کے نتیجے میں پیدا ہوتےہیں۔ (صفحہ۱۶۸)

٭…اگر سر درد کی دوا پہچانی جائے تو مرض کی شناخت بھی ہوجاتی ہے۔بیلاڈونا کا سر درد خواہ ٹائیفائیڈ میں ہو یا کسی اور بیماری میں، اچانک ہوگا۔ سر درد کے ساتھ چہرہ تمتمانے لگے گا خواہ جسم میں خون کی کمی ہی کیوں نہ ہو۔ خوف کی بجائے تشدد کا رجحان پایاجاتا ہے۔کمزور ہونے کے باوجود غیر معمولی طاقت آجاتی ہے۔اور ایسے مریض کوقابو میں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ہائیوسمس (Hyoscyamus)میں مریض ہذیان کے نتیجے میں گند بکنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ علامت اتنی نمایاں ہے کہ گھر والوں کے علاوہ ڈاکٹر بیچارہ بھی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔ مریض کے اخلاق اور رجحانات میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔لیکن ایسا صرف اعضائے تناسل میں سوزش کی وجہ سے ہوتا ہے۔جس سے دماغ میں بھی تیزی پیدا ہوجاتی ہے۔یہ سب علامات مل کر ہذیان کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ہائیوسمس کے مریض کی ایک اور خاص علامت یہ ہے کہ وہ چٹکیاں بھر بھر کے جسم اور کپڑوں کو چنتا اور نوچتا رہتا ہے۔ایسی کوئی علامت برائیونیا میں نہیں پائی جاتی۔(صفحہ۱۶۸)

بوفو

Bufo

٭…یہ خاص طور پر ذہنی صلاحیتوں اور دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے مریض کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔ذہن دھندلاجاتا ہے۔اور سخت ذہنی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔(صفحہ ۱۷۳)

٭…بوفو میں جلد میں زخم پیدا کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اکثر عام ٹکسالی کے ہومیو پیتھ معالجین اسے جنسی امراض میں تو استعمال کرتے ہیں مگر جلدی امراض اور عضلاتی تشنجات میں اسے شاذ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجائے تو اس کی دوا بوفو ہے اور یہ جلق (Self –abuse ) کو روکتی اور اس کے بداثرات کو دور کرتی ہے۔بعض نوجوان جنہوں نے اپنی بیوقوفیوں سے اپنی جان پر ظلم کیا ہو اور وہ مرگی کا شکار ہوجائیں تو ان کے لیے بھی بوفو بہت مفید دوا ہے۔یہ جلق کو روکتی اور اس کے بد اثرات کو دور کرتی ہے۔ایسے مرگی کے مریض کو پہلے بوفو دینی چاہیے پھر اس کی ناکامی کی صورت میں دوسری دوائیں تلاش کرنی چاہئیں۔(صفحہ۱۷۳)

٭… بوفو میں بھی سارسپریلا (Sarsaparilla) کی طرح بڑھاپے کا وقت سے پہلے آنا پایا جاتا ہے۔ برائیٹا کارب میں بھی یہ علامت ہے لیکن بوفو کا عمر سے پہلے کا بڑھاپا جلد کے سکڑنے یا جھریوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دماغی کیفیت سے تعلق رکھتا ہے۔یعنی دماغ میں پاگل پن کی بجائے بھولا پن آجاتا ہے۔اگر ساٹھ سال کا بوڑھا آدمی پندرہ سولہ سال کے لڑکوں کی طرح باتیں کرنے لگےتو اسے بھی بوفو دینی چاہیے۔اگر وقت پر علاج نہ ہو تو ایسا مریض مجہول سا ہوجاتا ہے۔اس میں لوگوں سے بات کرنے اور اسے دوسروں کو سمجھانے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ (صفحہ۱۷۳-۱۷۴)

٭…بوفو میں تضادات پائے جاتے ہیں۔مریض تنہائی پسند ہوتا ہے۔لوگوں سے گھبراتا ہے۔لیکن تنہائی میں ڈرتا ہے۔اس کے نتیجے میں اسے بہت غصہ آتا ہے۔اور غصہ میں آکر چیزوں کو دانت سے کاٹنے لگتا ہے۔گویا اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا اظہار اس طریقہ سے کرتا ہے۔مگر دوسرے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔مریض ہنستا بھی ہے، رونے بھی لگ جاتا ہے۔اور بچوں کی طرح اچھل کود بھی کرتا ہے۔ بوفو کے مریض کا کردار اس کی معصومیت اور بچپنے سے پہچانا جاتا ہے۔شاذ کے طور پر یہ کیفیت بڑھ کر پاگل پن میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔بوفو اس سلسلہ میں بہت گہری دواہے اور لمبے عرصہ تک مسلسل اثر کرتی ہے۔(صفحہ۱۷۴)

٭…بوفو میں ایمبراگریسا کی طرح موسیقی سے نفرت ہوجاتی ہے۔ مریض میں رفتہ رفتہ ہکلانے اور تھتھلانے کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے۔ مریض کی بات سمجھنی مشکل ہوجاتی ہے جو اسے غصہ دلاتی ہے۔ ایسا مریض جس میں مرگی کی معروف علامتیں نہ پائی جاتی ہوں لیکن مریض بیٹھے بیٹھے ساکت و جامد ہو جاتا ہو، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہوں اور مریض ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہو۔بوفو اس کیفیت کے لیے بہترین دوا ہے۔ یہ کیفیت وقتی طور پر ہوتی ہے۔ جب مریض کے ہوش و حواس بحال ہوجائیں تو اسے علم نہیں ہوتا کہ اسے کیا ہوا تھا۔ مرگی کا جنسی کمزوری سے بھی تعلق ہے۔اس لیے بعض مریضوں کو ہم بستری کے وقت بھی مرگی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ (صفحہ ۱۷۴-۱۷۵)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button