متفرق مضامین

عیدا لاضحی کے مسائل (قسط اوّل)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

ہر مذہب و قوم میں مذہبی اور تمدنی تہوار منانے کے طریق جُدا جُدا ہیں۔ اسلام نے بھی اس فطرتی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا، لیکن اس کی اصلاح کردی۔ اسلام میں خوشیاں منانے کے طریق دوسرے مذاہب سے کئی پہلوؤں سے مختلف ہیں۔ ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ اسلام کے تہوار یعنی عیدین وغیرہ کی حکمت دیگر ایسی تقریبات سے مختلف ہے۔مثلاً عیدالفطر رمضان کی مشقت کے بعد آتی ہے اور عیدالاضحیہ کا پس منظر قربانیوں سے منسلک ہے۔چنانچہ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو دن کھیل کود کے لیے منایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا:ان دو دنوں کی کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بھی ان دنوں میں کھیل کودکیا کرتے تھے۔ آپﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے دو دن عطا فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔ ایک عید الاضحی دوسرا عیدالفطر۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ العیدین)

سوال:آج کل دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ کیا عیدین کے لیے کوئی ایسا نظام ممکن ہے کہ سعودی عرب میں چاند نظر آجانے پر دوسرے تمام ممالک میں بھی عیدین اور دوسرے اسلامی تہوار منائے جائیں؟

جواب :ہر علاقے میں مقدس اسلامی ایام کا آغاز اور اختتام اس علاقے کے افق کے مطابق ہوتا ہے۔صحیح مسلم میں ایک باب کا عنوان ہی یہ ہے کہأَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ وَأَنَّہُمْ إِذَا رَأَوُا الْہِلَالَ بِبَلَدٍ لَا یَثْبُتُ حُکْمُہُ لِمَا بَعُدَ عَنْہُ(صحیح مسلم کتاب الصیام باب بیان أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ…)ہر علاقے کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے اوریہ کہ جب لوگ کسی علاقے میں نیا چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم جو ان سے دور ہیں اُن پر نافذ نہیں ہوگا۔

چنانچہ حضر ت کریب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ امّ فضل بنت حارث نے انہیں امیر معاویہ ؓکے پاس شام بھیجا۔وہ کہتے ہیں مَیں شام آیا اور ان کا کام مکمل کیا۔مَیں شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند طلوع ہوگیا۔مَیں نے چاندجمعہ کے دن دیکھا،پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ آگیا۔

حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے (حال احوال)پوچھا پھر نئے چاند کا ذکر کیا اور کہا کہ تم نے نیا چاند کب دیکھا؟مَیں نے کہا ہم نے اسے جمعہ کی رات دیکھا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا تم نے خود اسے دیکھا؟میں نے کہا ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی اسے دیکھااور انہوں نے روزہ رکھااور امیر معاویہ ؓ نے بھی روزہ رکھا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہم نے اسے ہفتہ کی رات دیکھا ہم روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس پورے کرلیںیا ہم اسے(چاندکو)دیکھ لیں۔میں نے کہا کیا آپ ؓکے لیے امیر معاویہؓ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں تو انہوں نے کہا نہیں،ہمیں رسول اللہﷺنے ایسا ہی حکم دیا تھا۔(صحیح مسلم کتاب الصیام باب بیان أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ…)

چونکہ زمین گھوم رہی ہے اس لیے چاند مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت میں ایک جگہ دن ہے تو دوسری جگہ رات ہے یا عصر کا وقت ہے۔ اسی طرح بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے،پس اُفق مختلف ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ سب ممالک کے لوگ ایک ہی وقت میں چاند دیکھنے پر قادر ہو سکیں۔ اس لیے ایسا نظام نا ممکن ہے کہ ایک ملک میں چاند نظرآجا نے پر تمام ممالک کے لوگ ایک ہی دن رمضان وعیدین وغیرہ اسلامی تہوارمنائیں۔

عیدا لاضحی کی تکبیرات کب سے کب تک ؟

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ۔( البقرہ:۲۰۴)اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔ان ’’اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ‘‘ کی تشریح میں حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں:الْأَیَّامُ الْمَعْدُوْدَاتُ: أَیَّامُ التَّشْرِیْقِ(بخاری کتاب العیدین باب فضل العمل فی ایام التشریق)یعنی اس آیت میں ایّام معدودات سے مراد ایّام تشریق ہیں۔ایّام تشریق سے مراد ذوالحجہ کی گیارہ،بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔تشریق کے معنی گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنے کے ہیں۔عید الاضحی کے بعد کے تین ایّام کو اس لیے ایّام تشریق کہا جاتا ہے کیو نکہ ان ایام میں لوگ قربانیوں کا گوشت خشک کیا کرتے تھے تاکہ بعد میں استعمال کیا جاسکے۔ چنانچہ احادیث میں لکھا ہے کہ حضورﷺ نو۹ ذوالحجہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن یعنی تیرہ۱۳ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تمام فرض نمازوں کے بعد تکبیرات پڑھتے تھے۔

چنانچہ حضرت علیؓ اور حضرت عمار ؓسے روایت ہے کہ اَنَّ النَّبِیَّ کَانَ یُکَبِّرُ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ صَلٰوۃَ الْغَدَاۃِ وَ یَقْطَعُہَا صَلٰوۃَ الْعَصْرِ آخِرَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ۔(المستدرک للحاکم کتاب العیدین باب تکبیرات التشریق)ترجمہ نبی کریمؐ نو ذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ یُکَبِّرُ فِیْ صَلَاۃِالْفَجْرِ یَوْمَ عَرَفَۃَ اِلٰی صَلَاۃِ الْعَصْرِ مِنْ اٰخِرِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ حِیْنَ یُسَلِّمُ مِنَ الْمَکْتُوْبَاتِ (دار قطنی کتاب العیدین حدیث نمبر ۲۷) حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نو ذوالحجہ کی نماز فجر سے آخری ایام تشریق یعنی تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات کہا کرتے تھے۔

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آیت قرآنی وَاذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ (البقرہ: ۲۰۴) یعنی اور اللہ کو (بہت) ىاد کرو، خصوصاً اِن گنتى کے چند دنوں مىں کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس آیت میں جن مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے وہ ایام تشریق ہیں۔یعنی ۱۱۔۱۲۔۱۳ ذوالحجہ یا ایام منٰی ہیں۔ جو دسویں تاریخ سے شروع ہوتے ہیں اور ۱۳ کو ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ۴۴۸)حضورؓ نے فرمایا: ’’ہم عید کی نماز میں جو بہت سی تکبیریں کرتے ہیں بلکہ ایام تشریق میں برابر تکبیر بلند کرتے رہتے ہیں تو گویا ابراہیم کی قربانی کےلئے اپنے جذبات استحسان کا ہدیہ پیش کرتے ہیں۔‘‘(خطبات محمود جلد دوم صفحہ۲۰۴) نیز فرمایا:’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ان دنوں میں تیسرے دن تک تکبیر و تحمید کیا کرتے تھے اور اس کے مختلف کلمات ہیں اصل غرض تکبیر وتحمید ہے خواہ کسی طرح ہو اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیر کہتی تھیں۔ مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے۔ اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے۔ کام میں لگتے تو تکبیر کہتے لیکن ہمارے ملک میں یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت میں کوئی ثابت نہیں اور یہ غلط طریق رائج ہوگیا۔ باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پر منحصر ہے جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کہے جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز نکلنی چاہئے۔‘‘(الفضل۱۷؍اگست۱۹۲۲ء، الفضل۱۱؍ستمبر۱۹۵۱ء)

حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ نے ’’سنت احمدیہ‘‘ کے نام سے ۱۹۱۰ء میں ایک کتاب لکھی جس کی بابت حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں نے اس کتاب کو پڑھا۔ کتاب ہر ایک پہلو میں مجھے پسند ہے۔‘‘(سنت احمدیہ صفحہ ۸۴)اس میں وہ لکھتے ہیں:’’عیدالاضحی میں نویں حج کی صبح سے لیکر تیرہویں کی عصر تک ۲۳نمازوں میں بعد فرض پڑھنے کے بھی تکبیریں آئی ہیں۔ جو سنت ہیں۔‘‘(سنت احمدیہ صفحہ۵۴ مطبوعہ بدر پریس قادیان،اپریل ۱۹۱۰ء بار اوّل)

مجلس افتاء کی رائے:’’آنحضرت ﷺ اور اکثر صحابہ کے معمول سے نو ذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تکبیرات ثابت ہیں۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ، مفتیان سلسلہ احمدیہ اور جماعتی لٹریچر بھی اسی امر کا مصدق ہے۔‘‘حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۲۰۰۱۔۷۔۴ کو مجلس افتاء کی سفارش کو منظور فرمایا اور اپنے دستخط ثبت فرمائے۔(بحوالہ:الفضل آن لائن لندن ایڈیشن۔۱۷؍جولائی ۲۰۲۱ء۔عید الاضحی نمبر۔صفحہ نمبر ۵)

عیدین کی تکبیرات کی حکمت:ایک بچی نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ نماز عیدین کی تکبیرات کی کیا حکمت ہوتی ہے؟حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ نے ہمیں کر کے دکھایا ہے ہم نے کرنا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ان دنوں میں الله تعالیٰ کی بڑائی کو زیادہ سے زیادہ بیان کرو۔ اس لئے تکبیرات میں بھی الله اکبر بڑی کثرت سے کہتے ہیں۔ نماز عید کی پہلی رکعت میں سات دفعہ اور دوسری رکعت میں پانچ دفعہ زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو اور اس کی بڑائی بیان کرو۔(كلاس واقفات نو ۹؍اکتوبر۲۰۱۵ء بحوالہ تشحیذ الاذہان جولائی ۲۰۱۶ء صفحہ۱۴۔۱۵)

عیدین کی صبح کب کھانا سنت ہے

عبداللہ اپنے والدبُرَیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ عید الفطر کے دن عید کے لیےکچھ کھائے بغیر نہ جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک کہ نماز عید نہ پڑھ لیتے کچھ نہ کھاتے۔ (ترمذی کتاب العیدین۔ باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج)

عید گاہ میں مختلف راستوں سے آنا اور جانا

محمد بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ عید کے لیے پیدل جایا کرتے تھے اور جس راستے سے تشریف لے جاتے اس سے مختلف راستے سے واپس لوٹتے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا)

نماز عید سے پہلے اور بعد میں نفل نہیں پڑھے جاتے

حضرت سعید بن جُبِیْرؓ،حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ يَوْمَ عِيدٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، لَمْ يُصَلِّ قَبْلُ وَلَا بَعْدُ، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ، فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ المَرْأَةُ تَصَدَّقُ بِخُرْصِهَا وَسِخَابِهَا (بخاری ، کتاب اللباس ، باب القلائد و السخاب للنساء یعنی قلادۃ من طیب وسک) رسول اللہ ﷺ عید کے دن نکلے اور دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ اور ان سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہ پڑھی۔ پھر عورتوں کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں صدقہ کرنے کی نصیحت فرمائی۔ تو عورتیں اپنے کانوں اور گلے کے زیور صدقہ میں دینے لگیں۔

عیدین کے مواقع پر بعض لوگ مساجد میں آکر عید سے پہلے یا بعد میں نوافل ادا کرتے ہیں۔ اس بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب: نماز عید سے پہلے نوافل کی ادائیگی منع ہے جیساکہ احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے، لیکن بعد میں اگر وقت ممنوعہ شروع نہ ہوا ہو تو گھر جا کر نوافل پڑھے جا سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔میں نے جنرل سیکرٹری صاحب کو بھی ہدایت کر دی ہے کہ جو لوگ عید والے دن نماز عید سے قبل مساجد میں آکر نوافل ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں انہیں اس کی ممانعت کی بابت توجہ دلانے کےلیے نماز عید سے قبل مساجد میں باقاعدہ اعلان کروایا کریں۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍دسمبر ۲۰۲۰ء۔زیر عنوان بنیادی مسائل کے جوابات نمبر ۴)

نماز عید کس وقت تک ادا کی جاسکتی ہے

نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ برابر بلند ہونے سے لے کر زوال سے قبل تک رہتا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت ہے :أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ کَتَبَ إِلَی عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَہُوَ بِنَجْرَانَ عَجِّلِ الْأَضْحَی، وَأَخِّرِ الْفِطْرَ، وَذَکَّرِ النَّاسَ۔(السنن الکبری للبیہقی کِتَابُ صَلَاۃِ الْعِیدَیْنِ بَابُ الْغُدُوِّ إِلَی الْعِیدَیْنِ) ترجمہ:رسول کریم ؐنے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھا جو کہ نجران میں تھے عید الاضحی جلدی پڑھا کرو،اور عید الفطرقدرے تأخیر سے ادا کیا کرواور لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرو۔

’’اتفق الفقہاء علی أن وقت صلاۃ العید ھو مابعد طلوع الشمس قدر رمح أو رمحین،أی بعد حوالی نصف ساعۃ من الطلوع الی قبیل الزوال أی قبل دخول وقت الظہر‘‘(الفقہ الاسلامی وأدلتہ تألیف الدکتور وھبۃ الزحیلی۔جلد نمبر ۲صفحہ نمبر۳۶۶صلاۃ العیدین۔وقتھا) فقہاء کا اتفاق ہے کہ نماز عید کا وقت سورج کے ایک یا دو نیزے بلند ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔یعنی طلوع کے تقریباً نصف گھنٹے کے بعد اور یہ زوال سے کچھ پہلے تک یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تک رہتا ہے

عیدین کی نماز پڑھتے وقت پہلی اور دوسری رکعت میں کتنی کتنی تکبیرات کہی جاتی ہیں ؟

جواب : نماز عید کی تکبیرات کی تعداد اور کیفیت کے متعلق فقہائے امت میں اختلاف ہے بعض ہر رکعت میں تین تین زائد تکبیرات کہنے کے قائل ہیں اور بعض پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات کہنے کے قائل ہیں۔ عید کی تکبیروں کے بارےمیں جماعت احمدیہ کا مسلک فقہ احمدیہ میں یوں درج ہے: ’’نماز عید کی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور تعوذ سے پہلے امام سات تکبیریںبلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے یہ تکبیرات کہیں۔ امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور کھلے چھوڑ دیں۔ تکبیرات کے بعد امام اَعُوذ اور بسم اللہ پڑھے۔ اس کے بعد سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کا کوئی حصہ بالجہر پڑھ کر پہلی رکعت مکمل کرے۔ پھر دوسری رکعت کے لئے اٹھتے ہی پانچ تکبیریں پہلی تکبیرات کی طرح کہے اور پھر یہ رکعت مکمل ہونے پر تشہد،درود شریف اور مسنون دعاؤں کے بعد سلام پھیرے۔‘‘(فقہ احمدیہ حصہ عبادات صفحہ ۱۷۹ )

تکبیرات کی بابت جماعت احمدیہ کا مسلک درج ذیل احادیث کی بنا پر ہے۔ حدثنا کثیر بن عبداللّٰہ عن ابیہ، عن جدہ، ان رسول اللّٰہ ﷺ کبر فی العیدین فی الاولیٰ سبعًا قبل القراء ۃ، وفی الآخرۃ خمسًا قبل القراءۃ۔ (ترمذی کتاب العیدین باب فی التکبیر فی العیدین ) کثیر بن عبداللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قراءت سے قبل سات تکبیرات کہیں اور دوسری رکعت میں قراءت سے قبل پانچ تکبیرات کہیں۔

عن عبداللّٰہ بن عمر و بن العاص، قال : قال نبی اللّٰہ ﷺ :التکبیر فی الفطر سبع فی الاولیٰ، وخمس فی الآخرۃ، والقر اء ۃ بعدھما کلتیھما۔ (ابو داؤد کتاب تفریع ابواب الجمعۃ باب التکبیر فی العیدین ) عبداللہ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیرات ہیں اور دوسری میں پانچ۔ اور دونوں رکعات میں تکبیرات کے بعد قراءت ہے۔ عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ : ان النبی ﷺ کبر فی عید ثنتی عشرۃ تکبیرۃ، سبعًا فی الاولیٰ، وخمسًا فی الآخرۃ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر :۶۶۸۸ ) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عید کی نماز میں ۱۲ تکبیرات کہیں۔ سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری میں۔

حضرت ابن عمؓرکا قول ہے کہ شہدت الاضحی والفطر مع ابی ھریرۃ، فکبر فی الرکعۃ الاولیٰ سبع تکبیرات قبل القراءۃ وفی الآخرۃ خمس تکبیرات قبل القرا ء ۃ۔ (مؤطا امام مالک،کتاب العیدین باب ما جاء فی التکبیر والقراء ۃ فی صلاۃ العیدین) میں نے عید الاضحی اور عید الفطر ابو ہریرۃ ؓکے ساتھ ادا کی۔ ابو ہریرہ ؓ نے پہلی رکعت میں قراءت سے قبل سات تکبیرات کہیں اور دوسری رکعت میں قراءت سے قبل پانچ تکبیرات کہیں۔

یکم جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان میں عید الفطر کی نماز ادا کی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید حضرت حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں ادا کی۔ اس نماز کے متعلق اخبار ’’البدر ‘‘میں درج ذیل رپورٹ شائع ہوئی: ’’گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جری اللہ فی حلل الانبیاء سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا۔ جس قدر احباب تھے انہوںنے دوڑ دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی اور عید کی مبارکباد دی۔ اتنے میں حکیم نور الدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نماز عید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گوش مبارک تک حسبِ دستور اپنے ہاتھ اٹھائے۔ ‘‘(بدر نمبر ۱۱جلد ۱۔۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۸۵)

حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ نے ’’سنت احمدیہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اور چاہیئے کہ دونوں رکعتوں میں قراءت سے پہلے تکبیریں اللہ اکبر کہے۔ پہلی میں سوائے تکبیر تحریمہ سات بار اور دوسری رکوع میں سوائے تکبیر سجدہ سے اٹھنے کے پانچ بار۔ ہر تکبیر میں بالاتفاق رفع یدین کرے اور ہاتھ لٹکائے رکھے۔ (عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ )کہا نبی کریم ﷺ نے التکبیر فی الفطر سبع فی الاولیٰ و خمس فی الآخرۃ والقراء ۃ بعدھما کلتیھما۔ (ابو داؤد) ‘‘(سنت احمدیہ صفحہ ۵۵)

حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓاپنی کتاب فقہ احمدیہ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’جب امام تکبیر تحریمہ کہے تو اس کے بعد ثنا پڑھے پھر سات تکبیریں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے کہے اور پانچ دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے۔ ہر تکبیر کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھانے چاہئیں۔ پھر قراءت فاتحہ اور سورۃ چاہیے اور یہ قراءت بلند آواز سے پڑھی جائے۔ ‘‘(فقہ احمدیہ صفحہ ۵۹)

نماز عید کی ادائیگی کے دوران اگر کچھ بھول ہوجائے تو؟

ایک دوست نے عیدین کی نماز کے واجب ہونے نیز عید کی نماز میں امام کے کسی رکعت میں تکبیرات بھول جانے اور اس کے تدارک میں سجدہ سہو کرنے کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی خدمت اقدس میں راہنمائی فرمانے کی درخواست کی۔جس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب:’’عیدین کی نماز سنت مؤکدہ ہے۔ حضورﷺ نے ایسی خواتین جن پر ان کے خاص ایام ہونے کی وجہ سے نماز فرض نہیں، انہیں بھی عید گاہ میں آ کر مسلمانوں کی دعا میں شامل ہونے کا پابند فرمایا ہے۔اور جہاں تک امام کے تکبیرات بھول جانے کا سوال ہے تو ایسی صورت میں مقتدی اسے یاد کروا دیں، لیکن مقتدیوں کے یادکروانے کے باوجود اگر امام کچھ تکبیرات نہ کہہ سکے تو مقتدی امام کی ہی اتباع کرتے ہوئے عید کی نماز ادا کریں۔ تکبیرات بھولنے کے نتیجہ میں امام کو سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۱۸؍دسمبر ۲۰۲۰ء۔زیر عنوان بنیادی مسائل کے جوابات نمبر ۴)

عید کی نماز میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ پڑھنا

عَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِیْرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْعِیْدَیْنِ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی) وَ(ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ) (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا باب ماجاء فی القراء ۃ فی صلاۃ العیدین )حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نمازوں میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے۔

نماز عیدکی ادائیگی کا طریق،نیز اگر کوئی نماز عید کی دوسری رکعت میں شامل ہو تو؟

نماز عید سنت مؤکّدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہاں اگر کسی کی نماز عید رہ جائے تو حنفی اور مالکی مسلک کے مطابق نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی، نہ انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر۔ لیکن اگر کوئی شخص نماز عید میں اس حال میں شامل ہوا ہے کہ امام ایک رکعت پڑھا چکا ہے تو پھر مقتدی اپنی رہ جانے والی رکعت ویسے ہی ادا کرے گا جیسا کہ امام نے ادا کی تھی۔ یعنی امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی رہ جانے والی رکعت مکمل کرے گا اور ویسے ہی تکبیرات بھی کہے گا جیسا کہ امام نے کہی تھیں۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:مَآاَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا، وَ مَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا۔(بخاری کتاب الاذان باب لا یسعی الی الصلاۃ)یعنی امام کی جو نماز تمہیں ملے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے مکمل کرو۔

مجلس افتاء کی رائے:’’اگر عید کی ایک رکعت رہ جائے تو مقتدی اپنی رکعت کس طرح ادا کرے گا؟‘‘ یہ معاملہ مجلس افتاء میں پیش ہوا تھا۔ مجلس افتاء نے درج ذیل رائے دی:’’جو شخص نماز عید میں پہلی رکعت کا رکوع گزرنے کے بعد شامل ہو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام کے ساتھ نہ پڑھی جا سکنے والی نماز کو اسی طرح مکمل کرے گا جس طرح اس نے اس حصہ نماز کو امام کی اقتداء میں ادا کرنا تھا۔‘‘حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰۰۰۔۰۷۔۱۵ کو مجلس افتاء کی سفارش کو منظور فرمایا اور اپنے دستخط ثبت فرمائے۔(بحوالہ:الفضل آن لائن لندن ایڈیشن۔۱۷؍جولائی ۲۰۲۱ء۔عید الاضحی نمبر۔صفحہ نمبر ۵)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button