الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے زرّیں اقوال

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ21؍جنوری2014ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے چند زرّیں اقوال شامل اشاعت ہیں۔ ان میں سے انتخاب پیش ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں:

٭… قرب الٰہی کے لئے نہایت ضرورت ہے:

۱۔اتباع نبی کریم ﷺ کی جاوے۔

۲۔کبر اور کسل سے کلی اجتناب۔

۳۔استغفار و استقلال کے ساتھ درود شریف۔

٭…ماہ رمضان کی شب کو:

۱۔باربار تہجد پڑھے تا کہ بار بار عرض کا موقعہ ملے۔

۲۔ایسے اضطراب سے کہ گویا آخری فیصلہ ہے۔

۳۔پورے ابال اور جوش سے۔

۴۔خلوت رمضان میں گریہ، خشیت، دعا، غذا میں تغیر کرو تاکہ آسمان سے تمہارے لیے برکات کا نزول ہو۔ میرے نزدیک…بڑا بد نصیب ہے جس نے رمضان پایا اور تغیر نہ پایا۔

٭…اللہ تعالیٰ پر میرا بھروسہ اتنا ہے کہ الہام کشف اور رؤیا اور ان کا تو اتر جو یقین تام کا موجب ہے نہ ہو اور میں قسم کھالوں تو اللہ تعالیٰ کو اگر زمین کا تختہ الٹنا پڑے تو الٹ دے۔

٭…طب میں اضطراب، دعا، توجہ الی اللہ، اخلاص، تضرع اور اپنی کم علمی،کم فہمی سمجھنے کا خوب موقع ملتا ہے اس لئے علاج کی جستجو میں الہام الٰہی بھی ہو جاتا ہے۔اگر تقویٰ،رحم،فکر،اسباب و علامات کی جستجو جو ضروری ہے ساتھ مل جاویں تو موجب نجات ہے اورایک ہی علاج دین میں اور ایک ہی دنیا کے لیے کفایت کر جاتا ہے۔

قرآن کریم کے اس علم کے اصول پر علماء اور خاتم الانبیاءﷺ نے عملاً توجہ دلائی۔بڑے بڑے ڈاکٹروں میں معالج بننا معیوب نہیں۔ وہ خود پسندی کے باعث پیچھے اور منکسر متوجہ الی اللہ آگے نکل جاتا ہے۔

طبیب اگر کامیابی تک نہ پہنچے تو مت گھبراوے کیونکہ طبیب کا کام تقدیر کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ ہمدردی اور غمخواری ہے۔

٭… عقل کو کافی سمجھنے والا اور نیچر کا محقق اللہ پر اس کی دریافت کا احسان کرتا ہے بخلاف اس کے ملہم اللہ تعالیٰ کا احسان مانتا ہے۔

٭… لوگ دنیوی ترقی کو مقصود بالذات بناتے مگر ضروری غیر محدود ترقی سے بے پروا ہیں۔

لوگ دنیو ی آرام کے لیے جان دینے کو تیار ہیں مگر آخرت کے لیے کاہل و سست ہیں۔

لوگ اگر ان کے والدین کو کوئی گالی دیوے ان کی حقارت کرے تو آگ بگولا ہو کر کیا نہیں کرتے مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق گالیاں سن کر کہتے ہیں۔ بکنے دو احمق ہے۔

لوگ ایک انجمن کا نام فرضی رکھتے ہیں اور اس کے کاموں میں عزت، فخر،خوشی وغیر وغیرہ یقین کرتے ہیں مگر تعجب کہ قرآن مجید جیسی نور،رحمت، فضل، روح،ہدایت کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو آگ ہو جاتے ہیں۔

٭… بدی کو انسان بدی مانتا ہے اس لئے ممکن ہے کہ کبھی نجات پاوے مگر اعتقاد فاسدہ کو برا نہیں جانتا اس لیے اس سے امیدِ نجات کیونکر ہو!۔ (الحکم31؍اگست 1907ء)

………٭………٭………٭………

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا دورۂ سیرالیون

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍ستمبر 2013ء میں مکرم مبارک احمد طاہر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے دورۂ سیرالیون کے حوالے سے چند چشم دید واقعات پیش کیے گئے ہیں۔

مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک سیرالیون ہے جس کی آبادی اندازاً ساٹھ لاکھ ہے۔ اس کے بارہ اضلاع ہیں۔ ضلع Kambia کے ایک قصبے روکوپُر (Rokupr) میں جماعت احمدیہ کے نظام کا مرکز ہے اور یہاں احمدیہ مسجد اور مرکز تبلیغ، احمدیہ پرائمری سکول، احمدیہ سیکنڈری سکول اور احمدیہ ہسپتال واقع ہیں۔ سیرالیون کے پہلے مستقل مبلغ سلسلہ حضرت الحاج نذیر احمد علی صاحب نے جولائی1938ء میں فری ٹاؤن سے یہاں کا بذریعہ لانچ سفر کیااور چند سعادت مند روحیں احمدیت میں شامل ہوئیں۔خاکسار نے 1975ء میں وقف عارضی کیا اور دس سال بعد زندگی وقف کردی۔ چنانچہ 1990ء تک خاکسار کواحمدیہ سیکنڈری سکول کے پرنسپل اور مبلغ سلسلہ روکوپُر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔اس دوران جنوری 1988ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ روکوپُر میں تشریف لائے۔ جس کی صورت اس طرح ہوئی کہ جب حضورؒ سیرالیون کے Lungi ایئرپورٹ پر پہنچے اور آتے ہی پریس کانفرنس فرمائی تو اس موقع پر بی بی سی کے نمائندے مسٹر خلیل کمارا نے عرض کیا کہ 1970ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سیرالیون تشریف لائے تھے تو اُس وقت بھی حضورؒ Bo اور Kenema کے علاقے میں تشریف لے گئے تھے اور اب آپؒ کا دورہ بھی انہیں علاقوں کی طرف ہے۔ حضورؒ روکوپُر تشریف لاکر ہمیں بھی برکت بخشیں۔ اس پر حضورؒ نے اُس وقت کے امیر مکرم مولانا خلیل احمد مبشر صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیا مَیں روکوپُر نہیں جارہا؟ جواباً عرض کیا گیا کہ روکوپُر جانے والی سڑک بہت خراب ہے اور سفر بہت مشکل ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ سندھ کی خراب سڑکوں پر مَیں نے بےشمار سفر کیے ہیں اور اگر یہی وجہ ہے تو روکوپُر بھی اس دورے میں شامل کرلیا جائے۔ نیز فرمایا کہ یہ ابتدائی جماعت ہے اور ان لوگوں کو سخت ابتلاؤں سے گزرنا پڑا تھا اس لیے اگر مَیں روکوپُر نہیں جاتا تو میرا سیرالیون کا دورہ نامکمل رہے گا۔ چنانچہ فری ٹاؤن کا ایک پروگرام منسوخ کرکے روکوپُر کو بھی دورے میں شامل کرلیا گیا اور حضورؒ کی زیرہدایت وہاں مجلس سوال و جواب کا بھی انتظام کیا گیا۔

روکوپُر شہر شروع ہوتے ہی احمدیہ سیکنڈری سکول ہے۔ حضورؒ اسی جگہ گاڑی سے اُتر گئے اور استقبال کے لیے آنے والوں میں شامل ہوکر اپنی قیامگاہ تک پیدل تشریف لائے۔ حضورؒ کا قیام مختصر تھا اور اس کا انتظام مکرم ڈاکٹر نصیرالدین صاحب کے ہاں تھا۔ اُن کی اہلیہ نے بڑی محنت سے دوپہر کا کھانا تیار کیا تھا۔ حضورؒ نے کھانا پسند فرمایا اور کھانے کے بعد کچن میں جاکر کھانے کی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ اتنی محنت سے پکایا ہے بہت تھک گئی ہوں گی۔ دلجوئی کے اس ایک فقرے سے محترمہ کی ساری تھکن کافور ہوگئی۔

اس کے بعد حضورؒ مسجد احمد میں تشریف لے گئے۔ اس مسجد کا نام حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے رکھا تھا۔ نمازیں پڑھانے کے بعد حضورؒ نے پروگرام پوچھا تو عرض کیا گیا کہ یہ مسجد اور مرکز جس پلاٹ پر تعمیر کیے گئے ہیں یہ سابق صدر جماعت احمدیہ روکوپُر ’’پاالحاجی یحییٰ کمارا‘‘ صاحب نے دیا تھا۔ اُن کی قبر مسجد کے قریب ہی ہے اور اُن کے خاندان والوں کی درخواست ہے کہ حضورؒ اُن کے مزار پر جاکر مرحوم کے لیے دعا کریں۔ حضورؒ نے یہ درخواست قبول فرمائی اور قبر پر جاکر لمبی دعا کروائی۔ حضورؒ آب دیدہ ہوگئے اور بعد میں ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھے پرانے واقفین زندگی، مبلغین اور ان کی قربانیاں یاد آگئیں جنہیں سوچ کر مَیں آب دیدہ ہوگیا۔

اس کے بعد کلب ہاؤس کے ایک بڑے ہال میں مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی۔ جس کے بعد حضورؒ واپس فری ٹاؤن تشریف لے گئے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضورؒ کے دورے کے چند ماہ بعد احمدیہ صد سالہ تقریبات کا آغاز ہوا تو ہماری درخواست پر پیراماؤنٹ چیف نے قبائلی عمائدین کا اجلاس بلایا اور اُن کے سامنے ہماری تجویز رکھی کہ روکوپُر شہر کی ایک سڑک کو یہاں آنے والے پہلے احمدی مبلغ کے نام کردیا جائے۔ سب نے بخوشی اس تجویز سے اتفاق کیا اور اس طرح ایک معروف سڑک کو ’’الحاج نذیرعلی سٹریٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ ایک خصوصی تقریب میں پیراماؤنٹ چیف نے خود تشریف لاکر اس کا اعلان کیا اور فیتہ کاٹا۔ یہ سڑک شہر کی مرکزی سڑک سے احمدیہ مسجد کی طرف جاتی ہے۔

………٭………٭………٭………

چاند (Moon)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اگست 2013ء میں چاند کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون مکرم عطاءالحی منصور صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

چاند ہماری زمین کا ایک سیارہ ہے جو زمین کے اردگرد چکّر لگاتا رہتا ہے۔ اس کا زمین سے فاصلہ قریباً دو لاکھ چالیس ہزار میل یعنی تین لاکھ پچاسی ہزار کلومیٹر ہے۔

چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گیلیلیو نے 1609ء میں کیں۔ اُس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرّہ ہے جس پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ اس میں ہوا اور پانی نہیں ہے اس لیے چاند پر زندگی کے آثار نہیں پائے جاتے۔ چاند پر دن کے وقت گرمی اور رات کو سردی ہوتی ہے۔

چاند کا ایک دن زمین کے پندرہ دن کے برابر ہوتا ہے اور یہ زمین کے گرد اپنا ایک چکر 29 تا 30 دن میں مکمل کرتا ہے۔ چاند صرف ہمیں روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی کشش سے سمندر میں مدّوجذر بھی پیدا ہوتا ہے۔

چاند کے بننے کی ایک پرانی تھیوری اب ردّ کی جاچکی ہے جس کے مطابق چاند ایسا سیارہ تھا جو کسی طرح زمین کے قریب آیا تو زمین کی کشش سے اس کے گرد چکّر لگانے لگ گیا۔ نئی تھیوری کے مطابق 4.6بلین سال پہلے ایک دم دار ستارہ زمین سے ٹکرایا تو بہت سا مادہ زمین سے علیحدہ ہوگیا جو آہستہ آہستہ اکٹھا ہوکر چاند بن گیا۔

زمین سے ہمیں چاند کا ایک ہی رُخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کی زمین کے گرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ چنانچہ اگر چاند سے بھی زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔

یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ جب چاند پورا ہو تو بھی ہم زمین سے چاند کا زیادہ سے زیادہ 41% رقبہ دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ دیگر مختلف دنوں میں چاند کے کچھ مزید حصے بھی نظر آتے ہیں۔ اس طرح ہمیں نظر آنے والا چاند 59% ہے جس میں سے ایک وقت میں 41% سے زیادہ نظر نہیں آسکتا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button