متفرق مضامین

برلن میں ۱۶ ویں سپیشل اولمپک

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

ہر چار سال بعد منعقد ہونے والی ورلڈ اولمپک کی شہرت تو دنیا بھر میں ہے اور کھیلوں کے دلدادہ اس کا بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر افراد کے لیے بھی علیحدہ سے سپیشل اولمپک کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کو S O I یعنی سپیشل اولمپک انٹرنیشنل کا نام دیا گیا ہے۔ سپورٹس کے یہ وہ واحد عالمی مقابلے ہیں جن کے ساتھ اولمپک کمیٹی نے اولمپک کا نام استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن اس کے انعقاد اور انتظامی معاملات کی ورلڈ اولمپک کمیٹی سے اجازت لینا اور مطلع رکھنا ضروری ہے۔ وقت کے ساتھ سپیشل اولمپک بھی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے اس میں کھلاڑیوں اور دیکھنے والے شائقین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

برلن نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا کا ایک اہم تاریخی شہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے دوبارہ متحد ہونے پر جو فوری اہم سیاسی فیصلے کیے ان میں ۲۰؍جون ۱۹۹۱ء کو جرمن پارلیمنٹ کا وہ ریزولوشن بھی شامل تھا جس کے مطابق جرمنی کا کیپٹل بون سے برلن منتقل ہونا تھا۔ گو اس میں آٹھ سال کا عرصہ لگا اور ۱۹۹۹ء میں برلن جرمنی کا دارالحکومت بن سکا۔ برلن نے دار الحکومت بننے کے بعد ہر جہت سے بہت تیزی سے ترقی کی اور دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ آج برلن میں ۲۱۸؍پالیسی پلاننگ ادارے اور تھنک ٹینک ہیں جو ہمہ وقت عالمی صورت حال پر نظر رکھتے اور حکومت کو مشورہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایوان صدر سے چند میٹر دور ورلڈ کلچرل ہاؤس ہے جہاں ہر شام ایک نئی رونق لگی ہوتی ہے۔
امسال ۱۷تا ۲۵؍ جون تک برلن میں ۱۶ ویں سپیشل اولمپک کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ۱۷؍جون کو جو افتتاحی تقریب منعقد ہوئی وہ برلن کے اس سٹیڈیم میں تھی جہاں ۱۹۳۶ء کا ورلڈ اولمپک منعقد ہوا۔ جرمنی کے صدر اور چانسلر ۷۶؍ہزار شہریوں کے ساتھ معذور افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ اس سپیشل اولمپک میں دو صد ممالک سے سات ہزار کھلاڑی، تین ہزار کوچز، نو ہزار کھلاڑیوں کے فیملی ممبرز اور مددگار شامل ہیں۔ سپیشل اولمپک میں چھبیس۲۶ کھیلوں کے لیے ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ۲۰؍ہزار ورکرز نے اپنی خدمات سپیشل اولمپک کے انعقاد کے لیے پیش کی ہیں۔
سپیشل اولمپک کو میونخ میں منعقد ہونے والے ۱۹۷۲ءکے ورلڈ اولمپک کے بعد جرمنی کا سب سے بڑا سپورٹس Event بتایا جا رہا ہے۔

سپیشل اولمپک میں شرکت کرنے والے سات ہزار کھلاڑیوں میں ۱۳۷؍رکنی پاکستانی سکواڈ بھی شامل ہے جس نے اپنے مخصوص خو بصورت ثقافتی لباس میں افتتاحی مارچ پاسٹ میں شرکت کی۔ میرپور خاص سے تعلق رکھنے والی اتھلیٹ ثناء افتتاحی تقریب کے اٹھ مشعل بردار کھلاڑیوں میں شامل تھیں۔ پاکستانی وفد میں ۵۴؍مرد،۳۳؍خواتین کھلاڑی بشمول کوچز و آفیشل شامل ہیں۔ وفد کے برلن پہنچنے کے بعد سفیر پاکستان جناب ڈاکٹر فیصل چودھری نے پاکستان ہاؤس میں کھلاڑیوں کے اعزاز میں ڈنر دیا۔ کھلاڑیوں کے جوش و خروش نے تقریب کو ثقافتی تقریب میں بدل کے رکھ دیا۔ کلچرل اور پریس اتاشی حنا ملک پاکستانی وفد کی خبر گیری بہت احسن طور پر کر رہی ہیں۔ افتتاحی تقریب میں سفیر پاکستان اور کلچرل اتاشی دونوں موجود تھے۔ پاکستانی کھلاڑی گیارہ کھیلوں جن میں ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن، باسکٹ بال، سائیکلنگ، فٹ بال، ہاکی، پاور لفٹنگ، تیراکی، ٹینس،اور ٹیبل ٹینس میں حصہ لے رہے ہیں۔ اب تک جو مقابلے ہوئے ہیں ان میں دس پاکستانی کھلاڑیوں نے کوالیفائی کیا ہے۔ سپیشل اولمپک مقابلے ۲۵؍جون تک جاری رہیں گے
سپیشل اولمپک کا خیال کس کو آیا اور اس کو پروان چڑھنے میں جس نے شب و روز محنت کی وہ امریکن صدر جان ایف کینیڈی کی بہن Eunice Kennedy Shriver ہیں۔ جو ۱۰؍جولائی ۱۹۲۱ء کو Brookline میں پیدا ہوئیں۔ آپ اپنی معذور بہن روز میری کے ساتھ پروان چڑھیں۔ دونوں بہنیں آپس میں کھیلتی تھیں۔ وہ خود کالج کی بہترین اتھلیٹ قرار پایں لیکن روز میری اپنی معذوری کی وجہ سے ایک حد سے آگے نہ جا سکتی تھی۔ Eu nice نے محسوس کیا کہ کھیل لوگوں کے درمیان تعلق بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور میری بہن وسائل کی کمی کے سبب اس سے بھی معذور ہے۔ چنانچہ انہوں نے ۱۹۶۲ء میں اپنے اس خیال کو حقیقت کا روپ دینے کا عمل شروع کیا۔ انہوں نے ۱۹۶۲ءکے موسم گرما میں اپنے گھر کے بیک یارڈ میں معذور افراد کو جمع کیا اور اس کو Camp Shriver کا نام دیا۔ یہ وہ ابتدا تھی جس نے ۱۹۶۸ءمیں پہلی سپیشل اولمپک کا روپ دھارا۔ اس دوران انہوں نے گریجوشن کے بعد امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سپیشل وار پروبلم ڈویژن میں نوکری کی۔ لیکن دل و دماغ اپنے اس آئیڈیا کی تکمیل میں مصروف رہا جس کو وہ آئیڈیل بنا چکی تھیں۔ ۲۳؍ مئی ۱۹۵۳ء کو Eunice Kennedy کی شادی Robert Sargent Shriver کے ساتھ ہوئی۔ جس کے بعد دونوں نے مل کر ۱۹۵۷ء میں Joseph p. Kennedy jr.Foundation کی بنیاد رکھی۔ Joseph jr ان کے وہ بڑے بھائی تھے جو ۱۹۴۶ء میں دوسری عالمی جنگ میں مارے گئے۔ اس فاونڈیشن نے ذہنی و جسمانی طور پر متاثرین افراد کے لیے پورے امریکہ میں ادارے سکول اور ہسپتال کھولے۔ سپیشل اولمپک کو رواج دیا۔ Mr. Shriverکو ان کی سماجی خدمات پر امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ صدارتی میڈل آف فریڈم بھی دیا گیا۔ ان میاں بیوی کا نام آج بھی امریکہ میں بہت عزت سے لیا جاتا ہے۔

Eunice Kennedy Shriver کی وفات ۱۱؍اگست ۲۰۰۹ء کو جبکہ ان کے خاوند Robert Sargent Shriver کی وفات ۱۸؍ جنوری ۲۰۱۱ء کو ہوئی۔ ان کے پانچ بچے اپنے والدین کی بنائی فاونڈیشن اور ان کے مشن کو اگے بڑھا رہے ہیں۔ سپیشل اولمپک جس کو S O I کے نام سے پکارا جاتا ہے اس کے دفاتر ۱۷۴؍ممالک میں قائم ہیں اور پچاس لاکھ سپیشل افراد اس ادارے کی چھتری تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جرمنی میں اس ادارے کا نام SOG سپیشل اولمپک جرمنی ہے جس کا مرکزی دفتر برلن میں لیکن ساتھ ہر صوبہ میں اس کا صوبائی دفتر موجود ہے۔ جرمنی میں چالیس ہزار افراد اس ادارے سے وابستہ ہیں جن میں سے ۴۴۰؍کھلاڑیوں کا دستہ سپیشل اولمپک میں حصہ لے رہا ہے۔

سپیشل اولمپک کی رنگا رنگ اختتامی تقریب اتوار کے روز منعقد ہو گی۔جمعہ کے روز تک ہونے والے فائنل راؤنڈ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثر کن ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عثمان قمر نے پانچ کلو میٹر سائیکلنگ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ واہ کینٹ کے عمر کیانی نے جیولین تھروئنگ میں گولڈ میڈل اور عمیمہ افتخار نے سلور میڈل حاصل کیا۔ زینب علی رضا نے بھی سائیکلنگ میں گولڈ میڈل جیت کر دکھایا۔سیف اللہ سولنگی پاور لفٹنگ میں دو گولڈ ایک سلور اور ایک برنز جیت کر چار میڈل اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔ سپیشل ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ ربوہ کے حیدر احمد نے ویٹ لفٹنگ میں دو سلور اور دو برانز میڈل حاصل کیے۔

برلن سپیشل اولمپک کے دوران ایک خاص اہمیت کا حامل ایونٹ یہ بھی تھا کہ سپیشل ورلڈ گیمز برلن کی جانب سے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد شارٹ فلم As Far as They can Runبھی دکھائی گئی۔ اس فلم کی کہانی تین پاکستانی خصوصی بچوں غلام ، ثناء ، اور سجاول کی زندگیوں سے متعلق ہے۔جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے سپیشل اولمپکس پاکستان کی ٹیم ان بچوں کو سندھ کے دور دراز پسماندہ علاقوں سے تلاش کر کے ان کو محنت سے تیار کر کے ان کے خاندانوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان بچوں کو معاشرے میں بہتر زندگی کی جانب راغب کیا۔ میرپور خاص کے گاوں جھڈو کی ثناء جو چند سال پہلے زنجیروں سے بندھی زندگی گزار رہی تھی آج ان اٹھ خوش قسمت کھلاڑیوں میں شامل ہے جن کو ۱۶ویں سپیشل اولمپک گیم کی مشعل اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ فلم سکریننگ کے موقع سفیر پاکستان معہ بیگم موجود تھے۔ فلم کے اختتام پر ہال ثناء کی موجودگی اور ستائش کےلیے تالیوں سے بہت دیر تک گونجتا رہا۔ ۱۶ویں سپیشل اولمپک میں پاکستان سے اتنے بڑے وفد کی شرکت اور سفارتی عملہ کی طرف سے خصوصی نگہداشت اور مہمان نوازی یقیناً قابل ستائش ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button