کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

دل میں بے اختیار اٹھنے والے تخیلات انسان کو گناہ گار نہیں بناتے

انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گناہ گار نہیں کرتے بلکہ عنداللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین ہی قسم ہیں۔ (۱) اول یہ کہ زبان پر ناپاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں جاری ہوں (۲) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کے حرکات صادر ہوں (۳) تیسرے یہ کہ دل نافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعل بد ضرور کروں گا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ (البقرۃ:۲۲۶) یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مواخذہ ہو گامگر مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہو گاکہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں۔ خدائے رحیم ہمیں ان خیالات پر نہیں پکڑتا جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔ ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے۔اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہ مَسۡـُٔوۡلًا(بنی اسرائیل:۳۷) یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی۔ اب دیکھو جیسا کہ خداتعالیٰ نے کان اور آنکھ کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا ہے۔ صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں۔ ہاں اس و قت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے۔

(نورالقرآن نمبر۲،روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ -۴۲۷ ۴۲۸)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button