حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نو کینیڈا کی (آن لائن) ملاقات

مورخہ۱۱؍جون۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نو کینیڈا کی آن لائن ملاقات ہوئی۔حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ واقفاتِ نو نے ایوان طاہر پیس ویلج ٹورانٹو سے آن لائن شرکت کی۔پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم، حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم، اقتباس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور نظم سے ہوا۔بعدازاں شاملین کو مختلف نوعیت کے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

تلاوت قرآن کریم سے قبل حضور انور ایدہ الله نے استفسار فرمایا کہ کُل کتنی واقفاتِ نَو شامل ہیںاورٹورانٹو کے علاقہ سے ہیں یا پورے کینیڈا سے؟نیز حضور انور نےکینیڈا میں واقفاتِ نَو کی کل تعداد کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔اس پر بتایا گیاکہ تیرہ ریجنز سے ۹۱۰؍واقفاتِ نَو موجود ہیں جبکہ کینیڈا میں واقفاتِ نَو کی کل تعداد ۲۲۸۴؍ہے۔

ایک شادی شدہ تین بچوں کی والدہ واقفۂ نو نےسوال کیا کہ ہم اپنے نوجوان بچوں کی راہنمائی کیسے کر سکتی ہیں جنہیں سکولز میں بہت سی غیر اسلامی اور ذہن کو الجھا دینے والی باتیں جیسا کہ تبدیلیٔ جنس وغیرہ سکھائی جا رہی ہیں ؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ بچے ۳۶۵؍ دنوں میں سے صرف ۱۷۰؍یا ۱۸۰؍دن سکول میں رہتے ہیں باقی تو وہ آپ لوگوں کے پاس رہتے ہیں۔مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ بچوں کو دوست بناؤ، ان کے ساتھinteractکرو، جب بچے گھر آتے ہیں تو ان کے سوالوں کے جواب دو۔

کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ بچےجب سکول میں genderکے بارے میں پڑھ کے آتے ہیں تو اس بارے میں ان سے پوچھو کہ کیا پڑھا، پھر ان کو بتاؤ کہ تمہاری عمر کیا ہے اور تمہیں اس چیز کی سمجھ نہیں آ سکتی، بڑے ہو گے تو سمجھ آئے گی، بتاؤ کہ اصل چیزکیا ہے، نیچر نے تمہیں کیا بنایا ہے۔ ان سے کہو کہ اللہ تعالیٰ نےجسم کی بناوٹ میں جوبائیولوجیکلdifference رکھا ہے وہ بہرحال ظاہر ہے، male اور female میں جو فرق رکھا ہے وہ وہی ہے۔ماں تو ماں ہی ہے، کہو مرد بے شک کسی کی ماں بن جائے لیکن وہ بچہ پیدا نہیں کر سکتا۔

ا ب تو یہ لوگ خود بولنے لگ گئے ہیں کہ تم لوگوں نےیہ کیا فضولیات شروع کر دی ہوئی ہیں۔یہ بھی پڑھ رہا تھا کہ ایک pregnant عورت ڈاکٹر کے پاس گئی اور کہا کہ میرے بچہ کا genderبتا سکتے ہو کیا ہے۔وہ کہنے لگا Let the kindergarten teacher decide it کہ کنڈر گارٹن ٹیچر decideکرے گا کہgenderکیا ہے، ہم نہیں بتا سکتے۔ اب تو یہ ہو گیا ہے کہ ان کی لغویات اور اپنی باتوں پرlaughing stalkبن رہے ہیں، توان کے خود مذاق اڑ رہے ہیں۔

اس لیے بچوں کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نےانسان کو جو بنایا ہے انسان وہی رہ سکتا ہے۔احمدی لڑکیوں کو تھوڑی سی محنت کرنی پڑے گی اور خاص طور پر واقفاتِ نو کو تو خاص طور پر محنت کرنی پڑے گی۔ اپنے بچوں کو بتائیں کہ اللہ میاں نے مردعورت بنایا۔یہ بائیولوجی کےdifference ہیں۔یہ یہ چیزیں ان کے اندر ہیں۔اور ہر ایک جانور میں یہ دو genderہوتے ہیں۔ہر ایک کا ایک اپنا فنکشن ہوتا ہے اس سے ہٹ نہیں سکتے۔ صرف کہہ دینے سے تو کچھ نہیں ہوگا۔

اب یہ بھی ہونے لگ گیا ہے کہ ایک ٹیچر نے ایک لڑکے کو heکہہ دیا، اس نے کہا نہیں آج میں she ہوں، اگلے دن اس نے sheکہا تو کہتا ہےآج میںheہوں تم نےsheکیوں کہا؟خود ان لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں، تو اس لیے تھوڑی محنت کرنی پڑے گی۔ بچوں کو سمجھائیں اور بتائیں کہ کس طرح ان لوگوں کے اپنے مذاق بن رہے ہیں۔بجائے گھبرانے کے کھل کے بات کیا کرو۔بچوں کو سمجھاؤ، اب تو بےشمارلوگ اس کے خلاف خود بول رہے ہیں۔

ایک سوال کیا گیا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے انسانی privacy نمایاں طور پر متاثر ہوئی ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے انسانی privacy پر مرتب ہونے والے اثرات کے نتائج سے نمٹنے کے لیے حل کیا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ ماضی میں جب لوگ کسی کے بارے میں کچھ سنتے تھے تو اسے دوسروں تک پہنچا دیتے تھے۔تاہم اس وقت افواہیں پھیلانے کی حد محدود تھی۔یہی وجہ ہے کہ میں نے خاص طور پر لجنہ کے لیے پہلے جماعتی تقریبات کے دوران کیمرے، فون اور دیگر آلات کو بند کرنے کا مشورہ دیا تھا نیز سوشل میڈیا پر ہر چیز کو غیر ضروری طور پر پوسٹ کرنے سے متنبہ کیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے فضول گوئی، جھوٹی معلومات پھیلانے اور دوسروں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، اس طرح کے منفی رویوں میں ملوث ہونے سے گریز کرنا ضروری ہے۔privacy پرسمجھوتا کیا جا رہا ہےاور خود انسانوں کےعمل کی وجہ سے یہ نقصان ہوا ہے۔ واقفات نو، ہمارے ارد گرد رہنے والوں، بچوں، طلبہ اور بہن بھائیوں کو ان عوامل کے منفی اثرات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ واقفاتِ نَو کو سوشل میڈیا کے مضر اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے مقامی یا قومی اخبارات میں مضامین لکھنے چاہئیں۔ایسا کرنے سے واقفاتِ نَو اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کر سکتی ہیں۔

ایک سوال کیا گیا کہ اسلام میں رخصتی کی کیا اہمیت ہے اور ہمیں عموماً یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہم نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے اپنے شوہر سے علیحدگی میں نہیں مل سکتے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو کہ اسلام تو نکاح کا کہتا ہے، رخصتی تو ہماریtraditional شادیاں ہیں۔ Once Nikah is performed تم آزاد ہو میاں بیوی بن گئے۔اسلامی point of viewسے میاں بیوی بن گئے۔اب چاہے رخصتی کرو یا مسجد سے نکاح کے بعد خاوند یا لڑکا لڑکی کا ہاتھ پکڑے اور اپنے گھر لے جائے، ماں باپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس کو روکیں۔ ہاں! کیونکہ ہماری روایتیں ایسی ہیں اور ہم Indo Pakistanمیں رہنے والے بہت سارے انڈین کلچر، ہندو کلچر یا وہاں کا جوtraditionalکلچر تھا اس سے influence ہو گئے ہیںاس لیے ہمارے ہاں رخصتیوں وغیرہ کا خاص اہتمام ہونے لگ گیا کہ رخصتی ہونی ہے۔ otherwiseنکاح ہی اصل چیز ہے اور بجائے شادیوں پر خرچ کرنے کے بہتر طریقہ بھی یہی ہے۔

اوّل تو نکاح سے پہلے ایک منگنی کا فنکشن ہوتا ہے اس پر ہم نے انگوٹھی پہنانی ہے، اس پر ایک دھوم دھام اور دعوت ہوتی ہے، پیسے ضائع کیے جاتے ہیں۔پھر نکاح ہوتا ہے، نکاح کا فنکشن کرتے ہوئے ایک اور پیسوں کا خرچہ۔نکاح ہو جائے تو اس کے بعد کہتے ہیں شادی ہونی ہے۔اب شادی ہو جائے تو چلو ٹھیک ہے۔شادی سے ایک دودن پہلے پھر مہندی کی رسمیں ہوتی ہیں۔ وہ مہندیاں جب تک نہ لگیں، دعوتیں نہ ہوں، ڈھول ڈھمکے نہ ہوں، گانے بجانے نہ ہوں، دو سو آدمیوں کی دعوت نہ ہو اس وقت تک لڑکے اور لڑکی والوں کی تسلی نہیں ہوتی کہ مزہ نہیں آیا۔اس کے بعد شادی ہوتی ہے، شادی پر خرچ کرتے ہو، تو ایک فنکشن کے لیے تم لوگ چار فنکشن کرتے ہو۔حالانکہ اسلامی طریقہ یہی ہے جو تم کہہ رہی ہو کہ نکاح ہو گیا تو رخصتی ہو جائے اور سادہ طریقہ یہی ہے، اس سےجو پیسے بچتے ہیں وہ بہتر ہے کہ بجائے اتنے فنکشن کرنے کے کسی غریب کی شادی کے اوپر خرچ کر دو۔

سادگی سے رخصتی ہونی چاہیے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سادگی سے ہی رخصتی ہوا کرتی تھی بلکہ بعض صحابہؓ کی شادی ہو جاتی تھی تو آپؐ کے علم میں بھی نہیں آتا تھا کہ اس کی شادی ہو گئی ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابی کو آپؐ نے دیکھا اس کے کپڑوں پر رنگ لگا ہوا تھا، آپؐ نے کہا کہ لگتا ہے تمہاری شادی ہو گئی ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں کل یا پرسوں میری شادی ہوئی ہے، گھر میں نکاح ہوا تھا اور وہیں شادی و رخصتی ہو گئی۔ تو آپؐ نے کہا اچھا ٹھیک ہے، بڑا اچھا ہوا، مبارک ہو۔لیکن ولیمے کی دعوت اسلام میں ضروری ہے تو جا کر ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا ولیمہ کرو۔تو نکاح اور دعوت ولیمہ یہ ضروری چیزیں ہیں۔ تم میں اگر اتنی ہمت ہے تو زمانے اور اپنے گھر والوں سےلڑائی کرو اور نکاح کے بعد رخصتی کروا لو۔ جب شادی ہو گی تو پھر سٹینڈ لے لینا، کہہ دینا اسلامی طریقہ تو یہی ہے، میری طرف سے اجازت ہے۔

ایک سوال کیا گیا کہ کیا لجنہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ برقعہ یا کوٹ کی طرز کا لباس پہنیں؟ اگر ان کا لباس ڈھیلا بھی ہو جس سے جسم کے خدوخال نظر نہ آ رہے ہوں، مکمل مہذب لباس کے اوپر لبادہ (برقعہ) پہننے میں کیا حکمت ہے؟

اس پرحضور انور نے موصوفہ کی تائید کرتے ہوئے فرمایاکہ اس میں کوئیwisdomنہیں ہے۔ اگر تمہارا لباس ٹھیک اور ڈھیلاہے۔اسلام میں جو پردے کا حکم ہے وہاں کہیں نہیں کہا کہ تم کوٹ پہنو اور اس کے بعد حجاب لو، یہ تو لڑکیوں نے اپنی آسانی کے لیے لے لیا کہ ہاتھfree ہو جاتے ہیں، کر سکتے ہیں تو حجاب یا نقاب لے لو یا برقع پہن لو۔ اسلام اور قرآن شریف میں پردے کا جوحکم ہے وہ تو یہ ہے کہ چادر اوڑھو۔ تم نے جو اپنا لباس پہنا ہوا ہے اس میں بھی بعض دفعہ تمہارے چہرے یا جسم کی جو خوبصورتی کا اظہارہو جاتا ہے اس لیے ایک سر پر چادر اوڑھو اور اپنے سینے کے اوپر چادر لپیٹ لو تا کہ مردوں کی غلط نظروں سے محفوظ رہو۔

اصل چیز چادر کا پردہ ہے، برقع اور کوٹ تو ساری بعد کیinnovationہے یا ایجادیں ہیں یا سہولت کے لیے پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں جو عورتوں نے خود بنا لیں۔ اگر آپ کا لباس ڈھیلا ہے، modest dressہے اور آپ کے body figures وغیرہ سارے نظر نہیں آتےتو اس میں اوپر صرف حجاب اور چادر لینا، سر اور سینے کو ڈھانکنااتنا ہی کافی ہے۔صرف یہ اسلام کا حکم ہے۔اگر یہ کر سکتی ہو،تمہارے لیے آسانی ہے تو کرو۔ پاکستان میں ہمارے گاؤں کے رہنے والی عورتیں اسی طرح کرتی ہیں یا پشاور میں جو پٹھانوں کا علاقہ ہے وہ عورتیں بھی بڑا پکا پردہ کرتی ہیں۔وہ اپنے سر کو ڈھانکتی ہیں، چہرے کو ڈھانک لیتی ہیں، ایک چادر سے تم بھی اس طرح کر لو۔

کسی نے ضروری نہیں قرار دیا کہ ضرور برقعہ پہنو۔پردہ ضروری ہے، modest dressضروری ہے۔ تمہارے body figures کا کسی بھی طرح exposureنہیں ہونا چاہیے، نظر نہیں آنے چاہئیں اور اس کے ساتھ جس طرح بھی پردہ کر سکتی ہو کرو۔ اسلام کے ہر حکم میںwisdomہے تم لوگوں نے اپنی طرف سے خود innovationپیدا کر کرکے اسwisdomکو shatter کر دیا ہوا ہے۔

ایک سوال کیا گیا کہ ایسے لوگوں کو حضور انورکیا پیغام دیں گے جو یہ بحث کرتے ہیں کہ عورتوں کا گھر سے باہر کام کرنا اسلامی روایت کے برخلاف یا خاندانی اقدار کی کمی کا باعث ہوتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر یہ ضروری ہےمثلاً ایک لڑکیprofessional ٹیچرہے، ڈاکٹر ہے یا کوئی ایسی جاب کر رہی ہے جو کسی بھی لحاظ سے انسانیت کے لیےbeneficialہےتو ٹھیک ہے،اس کو کرنا چاہیے،اس میں کوئی روک نہیں ہے۔لیکن صرف اس لیے گھر سے باہر نکل جانا، بچوں اور گھر کا خیال نہ رکھنا کہ ہم پیسے کمائیں، ہمارے پاس زیادہ پیسے آ جائیں،discontentmentزیادہ ہوگئی ہےیا خاوند پوری طرح پیسے نہیں دے رہا تو یہ غلط ہے۔

اوّل تو یہ responsibility گھر کے مرد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی ڈیوٹیاں پوری پوری بیان کر دی ہیں کہ یہ ڈیوٹیز مرد اور یہ عورت کی ہیں۔

ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اس نے کہا کہ مرد جہاد کرتے ہیں، وہ باہر کماتے ہیں، زیادہ چندہ بھی دے دیتے ہیں اور دوسرے ایسے کام کر لیتے ہیں جوہم عورتیں گھر میں بیٹھی ہوئی نہیں کر سکتیں تو کیا ہمیں بھی اس کا ثواب ملے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتیں اگر اپنے گھروں کی نگرانی، اپنے بچوں کی تربیت کر رہی ہیں تو ان کو اس طرح ہی ثواب ملے گا جس طرح ایک مرد کو جہاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اس زمانے میں جہاد بڑی چیز تھی، اسلام کا نیا نیا اجرا ہوا تھا، دشمن اسلام کو ختم کرنے کے لیے حملہ کرتے تھے اس لیے جہاد کی ایک خاص اہمیت تھی۔ توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کو اتنا ہی ثواب ملے گااگر وہ صحیح کام کر رہی ہے۔لیکن اسی طرح جب ضرورت پڑی تو مسلمان عورتیں پانی پلانے، نرسنگ اور دوسرے کام کرنے کے لیے جنگوں میں بھی چلی گئیں بلکہ حضرت ام عمّارہ رضی الله عنہاکے بارے میں تو آتا ہے وہ جنگ میں تلوار لے کر لڑتی بھی رہیں۔

تو جہاں ضروری ہو وہاں عورت کام کر سکتی ہے اور اس میں کوئی روک نہیں ہے لیکن صرف لالچ کی خاطر کام کرنا اور اپنی basic responsibilities گھر کو سنبھالنا، بچوں کی تربیت اور ٹریننگ کرنا، ان کیupbringingمیں اپنا پورارول ادا کرنا اگر وہ نہیں ہو گا تو پھر عورت قصور وار ہے۔ باقیtraditionوغیرہ کوئی چیزنہیں ہے، ہاںپردے میں رہ کراگر تم باہر کام بھی کر رہی ہو، کوئی سائنٹسٹ ہے، کوئی ایسا کام ہو جو خاص ہے تو حجاب، پردے اور proper dressمیں اگر کر رہی ہو تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے، کوئی فیملی ویلیوز اس میں روک نہیں بن سکتیں۔

اصل چیز یہ ہے کہ تمہاری جو basicڈیوٹی ہے وہ تم ادا کر رہی ہو۔ عورت نے اپنے گھر کے سارےسسٹم کو صحیح طرح آرگنائز کیا ہوا ہے۔بچوں کی تربیت کر رہی ہے، یہ نہیں کہ بچے سکول سے گھر آئیں تو اماں گھر سے غائب ہو اور بچے بےچارے فریج میں سے بریڈ نکالیں اور ٹوسٹر میں رکھ کے سینک لیں اور کھا کے سو جائیں اور رات کو دس بجے ماں گھرآئے اور پتا ہی نہیں کہ بچوں کا کیا حال ہے۔ سکول سے آرہے ہیں توان کونہ پوچھا کہ آج تم نے سکول میں کیا پڑھا، سکول سے واپس آ کر تم نے ہوم ورک کر لیا کہ نہیں،تم تھکے ہوئے تو نہیں، تمہاری طبیعت کیسی ہے، توایسے بچے آہستہ آہستہpsychologically ڈسٹرب ہو جاتے ہیں اور پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور اس کی وجہ سے پھر ماں باپ اور بچوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔

ماں کی basic responsibilityبچوں کی تربیت کرنا، اسassetکوجو تمہارا، جماعت، قوم اور ملک کا بھی ہے سنبھال کے رکھنا اور اس کی صحیح طرح کیئر کرنا ہے۔اس بات کا خیال رکھو تو اس کے ساتھ اگر کوئیprofessionalہے، اس قسم کے پروفیشن میں جو ڈاکٹر ہے ٹیچر ہے یا اور کوئی ایسا پروفیشن تو اس میں کام کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ ہاںاگرتمہاری کوئی traditionalفیملی ویلیوزایسی ہیں تو وہself-createdہیں۔اس میں کوئی اسلامی بات نہیں ہے۔

ایک واقفۂ نو نے اس امر کی نشاندہی کی کہ خواتین کے خلاف تعصب اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہےنیز اس بات پر اظہار تشویش کیا کہ سوشل میڈیا کےبعض influencers اس سلسلے میں مسلم نوجوان نسل کو منفی طور پر متاثر کر رہے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ سوشل میڈیا کے جن بےوقوف influencers کی وہ نشاندہی کر رہی ہیں وہ واقعی اقلیت میں ہیں۔عصر حاضر کے سماجی مکالمے میں خواتین کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، اس قدر کہ کچھ لوگوں کو ایسا لگتا ہے جیسے مردوں کے حقوق کو گرہن لگا ہوا ہو، اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔قرآن کریم عورتوں کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔اس میں صاف لکھا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔اسلام میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ عورتیں مردوں کی ملکیت ہیں ان کے ساتھ جو چاہیں وہ کریں۔ میں نے خواتین اور اسلام پر بے شمار لیکچرز دیے ہیں نیز خواتین کے حقوق کے حوالے سے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اس سلسلے میں فراہم کردہ راہنمائی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ان لیکچرز سےquotesلے کر ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔

ایک سوال کیا گیا کہ کبھی زندگی میں بہت مشکل وقت ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ ہمیں آزما رہا ہے یا میری توجہ بہت زیادہ منتشر ہوتی ہے اور میری اپنی عبادات میں زیادہ توجہ نہیں ہوتی۔ حضور انورایسی صورت حال کے حوالے سےکیا نصیحت فرمائیں گے کہ ہم کس طرح اللہ میاں سے مضبوط تعلق رکھ سکیں اور مشکل حالات میں ثابت قدم رہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب تمہیں پتا ہے کہstressful timeآتے ہیں اور خود ہی تم نے کہا ہے کہ Allah may be testing youتو جب تمہیں یہ پتا ہے کہ اللہ ٹیسٹ کر رہا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور اللہ کو کہو کہ اگر یہ trialجو آ رہے ہیں میرے کسی گناہ کی سزا ہے تو مجھے معاف کر۔ نمازوں میں رو رو کے دعا کرو اوراس کے لیے پوراconcentrateکرنا پڑے گا اور اگر یہ trialہے تو پھر مجھے اس سے گزار دے اور مجھے اس کی سختیوں سے بچا لے۔ اللہ پر ایمان لانے والے کے لیےتو اللہ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔

یہیtrialایکatheist،ایکpaganیا کسی بھی مذہب کے ماننے والےپر بھی آتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ اس میں اسلام یا اللہ کا کوئی قصور تو نہیں ہے۔اس کے لیے کوئی رستہ نہیں ہے لیکن ایک مومن کے لیے راستہ ہے کہ اللہ سے دعا کرے کہ اللہ میاں جو اس trialمیں سے گزر رہے ہیں اس کو ختم کر دے، ہمیں اس سے بچا لے اور کبھی ناشکری نہ ہو۔ یہ تونہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ صرف مصیبتیں ہی ڈالتا جاتا ہے، ایک ہی وقت میں کوئی اچھی باتیں بھی ہو رہی ہوتی ہیں، ایک وقت میں ایک بات تمہاری مرضی کی نہیں ہو رہی ہوتی جس پر تمdepressاورfrustrateہو جاتی ہوتو دوسری بات اچھی ہو رہی ہوتی ہے جس پر خوش ہوتی ہو۔اگر خوشی کے اوپر خوشی کا اظہار زیادہ کرو، اللہ کا شکر کرو تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے اگر شکر گزاری کرو گی تو میں تمہارے فضل اور زیادہ بڑھاؤں گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰه کی دعا بھی پڑھا کرو۔ پانچ نمازوں کی دعاؤں میں سجدوں کے ساتھ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهاور اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ۔سادہ سی دعائیں ہیں لیکن پہلےاس کا مطلب سمجھو کہ کوئی طاقت نہیں اللہ کے علاوہ اور اللہ تعالیٰ میرے گناہ بخش دے تو پھر اپنی دعاؤں سے distract اور پریشان بھی نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ اور رستہ کیا ہے؟کوئی اور جگہ ہمارے پاس جانے کی نہیں ہے۔ اگر الله تعالیٰ پر ہمارا ایمان ہے، اور ہے، ہزاروں لاکھوں لوگ اپنےدعاؤں کی قبولیت کے واقعات سناتے ہیں تو اللہ کی ذات ہے جوان کی سنتا ہے۔ اگر ہماری وجہ سے نہیں سنتا تو یا تو ہمارے میں قصور ہے یا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ یہ تمہارے لیےاس طرح نہ ہو۔وہ پھر کسی اور رنگ میں تمہیں فائدہ پہنچا دیتا ہے۔

ایک سوال کیا گیا کہ کام کرنے والی واقفاتِ نَو مائیں اپنی تعلیم مکمل کر کے اب حضور انورکی ہدایت کے مطابق کام کر رہی ہیں۔ہمیں یہاں کینیڈا میں اس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ زچگی کی رخصت کےلیے زیادہ سے زیادہ صرف ایک سال سے ڈیڑھ سال تک کی رخصت ملتی ہے، کیا یہ کافی وقت سمجھا جائےیا ہمیں اپنی ملازمتوں سے مستعفی ہو کر گھروں میں زیادہ رہنا چاہیے جس سے ہم اپنے وقف نو بچوں کی صحیح طور پر تربیت کر سکیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ یہ تو تم نے بذات خودdecideکرنا ہے کہ تمہارے لیےایک سےڈیڑھ سال کافی ہےیا نہیں۔جب بچے بالکل چھوٹے ہیں گو ڈیڑھ سالہ بھیtoddler ہی ہوتا ہے لیکن اگر کوئی گھر میں پالنے والا ہے، نانی، مامی، دادی، کوئی سنبھالنے والی ہے تو پھر ٹھیک ہے اس کو ان کے سپرد کر کے تو کام کرو۔ یہ dependکرتا ہے کس قسم کا کام ہے۔ اگر فنانشل پرابلم کی وجہ سے جاب کر رہی ہے تو پھرتو کسی کے سپرد کر کے بچے کو جائیں اور جاب کر کے واپس آ جائیں پھر اپنے بچوں کو سنبھالیں۔اگر صرف hobbyکے لیے جاب کر رہی ہو تو پھر بہتر یہ ہے کہ تین چار سال تک کے لیے چھوڑ دو۔ باقی بعض پروفیشنل ڈاکٹرزبھی امریکہ میں مجھے ملیں جو باقاعدہ کوالیفائیڈ ہیں، اپنی فیلڈ میں کام کرتی رہیں، لیکن جب بچے ہو گئے تو بچوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے جاب چھوڑ دیے اوربچے جب چار پانچ چھ سات سال عمر کے school goingہو گئے تو پھر انہوں نے ایسے جاب شروع کر دیے کہ بچے کو سکول روانہ کر کے اور شام کو بچے کے سکول سے آنے سے پہلے گھر میں موجود ہوں تا کہ ان کی صحیح تربیت بھی کر سکیں تو اس طرح بہت ساری پروفیشنل ڈاکٹرزبھی ہیں یا سکول کی ٹیچرز کا سوال ہے تو سکولوں میں جو ٹیچرز ہیں وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے جاتی ہیں اور واپس بھی اپنے ساتھ ہی لے آتی ہیں۔ تو یہ توdependکرتا ہے کہ آپ کا پروفیشن کس قسم کا ہے اور کیا کیا آپ کی personal requirementsہیں جس کے لیے آپ کام کر رہی ہیں، تو یہ خود فیصلہ کریں، سوچو، اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا دماغ اور عقل دی ہوئی ہے۔

ایک دسویں جماعت کی طالبہ نے سوال کیا کہ اگر کوئی طلاق کے مرحلہ میں سے گزرا ہو اور اس کو دوبارہ شادی کرنے سے خوف محسوس ہوتا ہو تو اس سلسلہ میں حضور کی کیا راہنمائی ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ آپ کو اپنی نیک قسمت کےلیے دعا کرنی چاہیے، کبھی یہ نہ ہو کہ آپ اس مصیبت میں سے گزریں۔دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تم سب لوگوں کو بچا کر رکھے۔ ہمیں تو نہیں پتا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا مرضی ہے، بعض دفعہ بعض رشتے کامیاب نہیں ہوتے تو اس پردعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر کوئی اور رشتہ جومیرے لیےآیا ہے اچھا ہے تو ٹھیک ہے۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ کئی دفعہ طلاق ہو گئی اور ان کا بہت براexperienceتھا لیکن جب دوبارہ دعا کر کے شادی کی تو اچھے رشتے آئے اور بڑے خوش ہیں۔ مجھےاس طرح کے بڑے لوگ ملتے اور یہ لکھتے بھی ہیں۔ تو دعا کر کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیےکہ اللہ تعالیٰ صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دے۔پھر اگر تسلی ہوتی ہے تو وہاں رشتہ کر لے، لیکن اگر نہیں تو پھر کسی اور بہتر رشتہ کاانتظار کرے، لیکن بہتر یہی ہے کہ شادی کر لو، مطلقہ بیوہ کو اسلام کا یہی حکم ہے کہ اگر شادی کی عمر ہے تو شادی کر لینی چاہیے۔

ملاقات کے آخر پر حضور انور ایدہ الله نے صدر صاحبہ کینیڈا کو مخاطب کرتے ہوئےٹائم difference کےتناظر میں کلاس کے وقت کی بابت فرمایا کہ بڑےodd timeپر آپ لوگوں کی کلاس لگ رہی ہے۔ناشتہ کر کے آئی تھیں یا جا کرکرنا ہے ؟نیز استفسار فرمایا کہ یہاں نماز فجر کا کیاوقت ہے؟

اس پر صدر صاحبہ نے عرض کیا کہ واقفاتِ نَو کو تھوڑے سے سنیکس صبح دیےتھے اور ان شاء الله ناشتہ ابھی دینا ہے اور بتایا کہ نماز فجر کا وقت صبح ساڑھے چار بجے ہے۔

حضور انور نے فرمایاکہ چلیں اللہ فضل کرے۔نیز واقفاتِ نَو کو تاکیدی نصائح کرتے ہوئے فرمایاکہ واقفاتِ نَو کویہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگرانہوں نے اپنا وقف کاbondجاری رکھنا ہے تو پھر اپنی حالتوں کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔تبدیل کرنے سے مراد یہ ہے بہتر کرنے کی کوشش کریں اور نمازوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ سےاپنی دینی اوردنیاوی ترقی کے لیے بھی دعا مانگا کریں۔ لڑکیاں اپنے نیک نصیب اور اپنی آئندہ زندگی کے لیے بھی بہت زیادہ دعا کیا کریں۔

دوسرے ہمیشہ خیال رکھیں کہ آپ نےلوگوں کے لیے ایک نمونہ بننا ہے۔واقفاتِ نَو کا صرف ٹائٹل لے کر نہیں رکھنابلکہ ایک نمونہ بننا ہے۔ اس لیے نمازوں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی اپنے نیک نمونے قائم کریں۔ آپ کے اچھے اخلاق ہونے چاہئیں اور دینی علم بھی زیادہ بہتر ہونا چاہیے۔ دینی علم حاصل کرنے کی کوشش کریں صرف دنیا کے علم کےپیچھے نہ پڑ جائیں۔بہت سارے سوال جو آپ لوگ کرتے ہیں ان کے جواب تلاش کرنے کے لیے آپ خود بھی کوشش کیا کریں۔واقفاتِ نَو کی سیکرٹری اوران کی ٹیمیں ایسے پروگرام بنائیں کہ آپس میںexchange of viewsہوں، discussion ہو اورinteractiveبھی ہوں تاکہ آپ لوگوں کا دینی علم بڑھے اور لڑکیاں خود بھی دینی علم بڑھانے کی کوشش کریں۔

دنیاوی علم تو آپ پڑھ ہی رہی ہیں ان شاء الله ان ملکوں میں آ ہی جائے گا۔ اصل چیز دینی علم اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہے جس کوہمیں بڑھانا چاہیے۔اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے۔

ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ اچھااللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ

(مرتبہ: قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button