حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

چاند سورج گرہن کے متعلق صحابہؓ کی بعض روایات

احادیث میں اللہ تعالیٰ کے خاص نشانوں میں سے ایک نشان سورج اور چاند گرہن کو قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الکسوف باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف حدیث: ۱۰۳۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسیح موعود کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی زبردست نشانی سورج اور چاند گرہن تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشرق اور مغرب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں پورا ہوا۔ پس اس لحاظ سے گرہن کی نشانی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت سے ایک خاص تعلق ہے۔

اب میں بعض صحابہ کے واقعات بیان کرتا ہوں۔ حضرت غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کے گاؤں میں پہلے پہل ایک صاحب مولوی بدرالدین صاحب نامی تھے۔ ان دنوں میں فدوی کی عمر قریباً پندرہ برس کی ہو گی۔ بندہ مولوی بدرالدین صاحب کے گھر کے سامنے ان کے ہمراہ کھڑا تھا کہ دن میں سورج کو گرہن لگا اور مولوی صاحب نے فرمایا: سبحان اللہ! مہدی صاحب کے علامات ظہور میں آ گئے اور ان کی آمد کا وقت آ پہنچا۔ بعد کچھ عرصہ گزرنے کے مولوی صاحب احمدی ہو گئے۔ مولوی صاحب بہت ہی مخلص اور نیک فطرت اور پُر اخلاص تھے۔ انہوں نے اپنے والدین اور بیوی کو ایک سال کی کوشش کر کے احمدی کیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ، جلد ۶ صفحہ ۳۰۵، ۳۰۶روایت حضرت غلام محمد صاحبؓ والد علی بخش صاحب سکنہ قادرآباد ضلع امرتسر)

مولانا ابراہیم صاحب بقاپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’دو شخص جو باپ بیٹے تھے مولوی عبدالجبار کے پاس آ کر کہنے لگے کہ وہ حدیث جس میں کسوف و خسوف کا ذکر امام مہدی کے ظہور کے لئے آیا ہے صحیح ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ حدیث تو صحیح ہے مگر مرزا صاحب کے پھندے میں نہ پھنس جانا کیونکہ وہ اس کو اپنے دعوے کی تصدیق میں پیش کرتے ہیں اور یہ حدیث امام مہدی کی پیدائش کے متعلق ہے نہ کہ دعوے کی دلیل کے لئے ہے۔ باپ نے کہا مولوی صاحب! جو بات میں نے آپ سے پوچھی اس کا جواب آپ نے دے دیا ہے۔ باقی رہا یہ کہ وہ کس پر چسپاں ہوتی ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ میری ساری عمر مقدمہ جات میں گزری ہے مگر مجھے سرکار نے کبھی گواہ لانے کے لئے نہیں کہا تھا جب تک کہ میں پہلے دعویٰ نہ کرتا۔ یہی حال مرزا صاحب کا ہے کہ ان کا دعویٰ تو پہلے سے ہی ہے اور اب یہ کسوف و خسوف ان کے دعوے کی دلیل کے طور پر ہیں۔ اس پر مولوی صاحب خاموش ہو گئے اور دونوں باپ بیٹا اپنے گاؤں چلے گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ، جلد ۸صفحہ ۴روایت حضرت مولانا ابراہیم صاحب بقاپوریؓ)

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ مارچ ۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍ اپریل ۲۰۱۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button