حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قرب الٰہی پانے کے ذرائع

خدا تعالیٰ کی پہچان کے کئی مرتبے ہیں۔ مگر سب سے اعلیٰ مرتبہ قرب الٰہی کا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی صحیح رنگ میں پہچان ہوتی ہے۔ اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ میں نے سچی خوابیں دیکھ لی ہیں یا کوئی کشف مجھے ہو گیا یا الہام ہو گیا۔ الہام تو بلعم کو بھی ہو گیا تھا لیکن اس نے اس کے باوجود ٹھوکر کھائی۔ اس لئے قرب کی تلاش کرو اور قرب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ سے جڑ کر ہی ملتا ہے جس سے مسلسل اللہ تعالیٰ اس کو اپنے نور سے فیضیاب فرماتا رہتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی رضا بندے کا مقصود ہو جاتی ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍ مئی ۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍ مئی ۲۰۱۴ء)

اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعہ کا ذکر فرماتے ہوئے آپ[حضرت مسیح موعودؑ] ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدارِ الٰہی میسر آ سکتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ مَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا (الکہف:111) یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اِسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے۔ پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں اور نہ وہ عمل ناقص اور ناتمام ہوں اور نہ ان میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پرہیز ہو۔‘‘ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۱۵۴)

پھر محبت الٰہی کے معیار کا ذکر فرماتے ہوئے [حضرت مسیح موعودؑ]فرماتے ہیں کہ’’اگر یہ معلوم کر لو کہ تم میں ایک عاشق صادق کی سی محبت ہے جس طرح وہ اس کے ہجر میں، اس کے فراق میں بھو کا مر تا ہے پیاس سہتا ہے نہ کھانے کی ہوش نہ پانی کی پرواہ۔ نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہوجاؤ کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہوجاوے پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے۔ ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے۔ نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پرواہ‘‘ (یہ لوگ کہتے ہیں ناں کہ کشف ہوا یا الہام ہوا ہے۔ ذاتی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو تو وہ اصل چیز ہے۔ یہ نہیں کہ کتنے الہام ہوئے اور کتنے کشف آئے اور کتنی سچی خوابیں آئیں ) ’’دیکھو ایک شرابی شراب کے جام کے جام پیتا ہے اور لذّت اٹھاتاہے۔ اسی طرح تم اس کی ذاتی محبت کے جام بھر بھر کے پیو۔ جس طرح وہ دریا نوش ہوتا ہے اسی طرح تم بھی کبھی سیر نہ ہو نے والے بنو۔ جب تک انسان اس امر کو محسوس نہ کر لے کہ میں محبت کے ایسے درجہ کو پہنچ گیا ہوں کہ اب عاشق کہلا سکوں تب تک پیچھے ہر گز نہ ہٹے۔ قدم آگے ہی آگے رکھتا جاوے اور اس جام کو منہ سے نہ ہٹائے۔ اپنے آپ کو اس کے لیے بیقرار و شیدا و مضطرب بنالو۔‘‘(ملفوظات جلد۳ صفحہ۱۳۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

(خطبہ جمعہ فرمودہ خطبہ جمعہ ۴؍ اپریل ۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍ اپریل ۲۰۱۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button