الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

(گذشتہ سوموار میں شامل ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘سے پیوستہ)

٭… قرآن کریم سے آپؒ کو جو محبت تھی اس کا اظہار آپؒ کے دروس قرآن سے بھی ہوتا ہے اورترجمۃالقرآن کلاس سے بھی، جس کے بارے میں آپؒ نے خود فرمایا: ’’میں نے ترجمہ قرآن عربی گرامر کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے۔ …میں نے بھی ترجمہ سیکھنے کے لیے دعائیں کی ہیں میری تعلیم القرآن کلاس میری زندگی کا ماحصل ہے پس ترجمہ قرآن سیکھنے کے لیے اس سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘

آپؒ نے محبت قرآن سے لبریز ہوکر فرمایا: ’’آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھ میں تھمائی ہے اور میں قرآن پر حملہ نہیں ہونے دوں گا۔محمدرسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا۔ جس طرف سے آئیں ،جس بھیس میں آئیں ان کے مقدر میں شکست اور نامرادی لکھی جاچکی ہے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں ، آج یہ ذمہ داری مسیح موعودؑ کی غلامی میں میرے سپرد ہے۔‘‘

٭…آپؒ کی زندگی کاایک بہت دلکش اور دلگداز پہلو آپؒ کا عشق رسولؐ ہے۔ جب بھی آنحضرت ﷺ کا مقدس نام آپؒ کی زبان پر آتا تو آنکھیں آنسوئوں سے تر ہوجاتیں ، آواز بھرا جاتی اور بمشکل اپنے جذبات پر قابو پاکر آنحضورﷺ کا ذکر مکمل فرمایاکرتے تھے۔آپؒ نے بارہا جماعت کو حضور اکرم ؐ پر درود و سلام بھیجنے کی نصیحت فرما ئی۔

1957ء میں آپؒ وقف جدید انجمن احمدیہ کے سب سے پہلے ناظم مقرر ہوئے اور مسند خلافت پر متمکن ہونے تک فائز رہے۔ 1966ء تا 1969ء بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ خدمت کی توفیق پائی۔ خلافت ثالثہ کے دور میں آپؒ لمبا عرصہ ناظم لنگر خانہ بعد میں نائب افسر جلسہ سالانہ رہے۔1979ء میں آپؒ صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ منتخب ہوئے۔علاوہ ازیںآپؒ ڈائریکٹر فضل عمر فائونڈیشن ، امیر مقامی ربوہ اور دیگر اہم عہدوںپرفائزرہے۔ 1974ء میں جماعت احمدیہ کا جو وفد قومی اسمبلی میں پیش ہوا اس کے بھی ممبر تھے۔

مکرم انور احمد کاہلوں صاحب کے والد محترم نے انہیں بتایا کہ تمہاری والدہ اور حضرت اُمّ طاہرؓ دونوں گہری سہیلیاں تھیں۔ ایک سہ پہر کا ذکر ہے جب تمہاری والدہ اپنی سہیلی کو ملنے گئیں تو صاحبزادہ طاہر احمد اس وقت تقریباً تین سال کے تھے۔ اچانک حضرت اُمّ طاہرؓ نے خلیفہ ثانیؓ کی دستار لا کر اسے ننھے طاہر کے سر پر باندھ دیا اور بولیں ’’طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا ‘‘۔ دراصل اسی صبح حضرت اُمّ طاہرؓ سے مخاطب ہوکر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا ’’مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا۔‘‘

مکرمہ امۃ الرشید صاحبہ نے قریباً 1940ء میں نہایت صاف آواز سنی کہ ’’خلیفۃ المسیح حضرت میاں طاہر احمد صاحب ہوں گے۔‘‘ آپؒ نے یہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تحریرکیا تو حضورؓ نے تحریر فرمایا: ’’خلیفہ کی زندگی میں ایسے رئویا و کشوف صیغہ راز میں رہنے چاہئیں او ر تشہیر نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ اسی طرح مکرم ضیاء الدین حمید صاحب کو 1979ء میں کشف ہوا کہ چوتھے خلیفہ کے والد (بقید حیات )نہیں ہوں گے ، بھائی نہیں ہوگا ، اور نہ ہی بیٹا ہوگا۔ پھر القا ہوا یہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ ہیں۔ اسی طرح مکرم عبدالباری صاحب اور مکرم خوارج احمد صاحب نے ایک ہی خواب دیکھاکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنی پگڑی حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو پہنا دی ہے۔

1957ء میں آپؒ کی شادی حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو چار بیٹیوں سے نوازا۔ آپؒ ایک مثالی شوہر اور شفیق باپ تھے۔آپؒ نے بچیوں کو بہت پیار دیا۔ انہیں اپنے فارم پر احمدنگر لے جاتے اور پیار ہی پیارمیں آپؒ ان کی تربیت بھی فرماتے۔رات کو انہیں کہانیاں بھی سناتے جو بالعموم انبیاء کے واقعات پر مشتمل ہوتیں۔ آپؒ کی بیٹیوں کی بیان کردہ چند متفرق یادیں درج ذیل ہیں:

٭… پہلی یاد جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ ایک خوبصورت ، مہربان اور مسکراتا ہوا وجود ہاتھ میں دفتری کاغذات پکڑے ہوئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو دو چھوٹی بچیاں بھاگتی ہوئی جاکے ان سے لپٹ جاتی ہیں۔ ان کو خوب علم ہے کہ یہی شخص اس گھر کی رونق اور تمام خوشیوں کا منبع ہے اور یہ بھی جانتی ہیں کہ ان کے آنے سے ہمارے دن کا وہ حصہ شروع ہوجائے گا جوزندگی سے بھر پور ہے۔

٭…ابّا ہمارے ساتھ کھیلتے اور دلچسپ باتوں سے ہنساتے بھی مگر کسی چیز کا ضیاع ہو رہا ہوتا تو انہیں بہت تکلیف ہوتی۔ ہم اکثر لائٹیں وغیرہ جلتی چھوڑ دیتے یا لاپرواہی کرتے۔ ایک بارابّا جان کراچی گئے کچھ دنوں کے لیے وہاں جاکر ہمیں خط لکھا جو بہت مزیدار اور دلچسپ تھا کہ تم لوگ سارا دن بتیاں جلائے رکھنا اور رات کو بند کر دینا سٹور وغیرہ کی خاص طورپر ، سارا دن گھر روشن رکھنا تاکہ جھینگر وغیرہ کو اِدھر اُدھر پھرنے میں یا راستے ڈھونڈنے میں مشکل پیش نہ آئے۔

٭…سادگی اور سچی انکساری حضورؒ کی شخصیت کا خوبصورت اور نمایاں پہلو تھا۔ آپؒ ہمیشہ اپنے ذاتی کام خود کرلیا کرتے تھے۔گھر میں کام کرنے والوں کی موجودگی کے باوجود کوئی کام اپنے ہاتھ سے کرنا عار نہ سمجھتے تھے۔ خلافت سے پہلے بعض دفعہ اپنے کپڑے بھی خود دھولیتے تھے۔ خلافت کے بعدمصروفیات کی وجہ سے ایسے کام تو نہیں کرتے تھے مگر اپنا ناشتہ بیماری شروع ہونے تک خودہی بنا لیتے تھے۔ حسب ضرورت ہر قسم کا کام کر لیتے تھے چیزیں بھی مرمت کرلیتے۔ ابّا نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جب میں انگلینڈ میں پڑھتا تھا تو میں نے ساری ساری رات مزدوری کی ہوئی ہے۔ بہت بھاری سامان مزدوروں کی طرح اپنی کمر پر لاد کر دوسری جگہ منتقل کیا کرتا۔ یہ بھی بتایا کہ بعض دفعہ اتنی محنت کرتا تھاکہ گھر جاکر بخار ہوجاتا مگر اگلی صبح پھروہی کام کرنے پہنچ جاتا۔

ابّا کی انکساری اس لحاظ سے غیر معمولی تھی کہ آپؒ نے آنکھ ہی خلیفۂ وقت کے گھر کھولی تھی۔قادیان کاتمام ماحول ان بچوں کے لیے محبت سے بھرا ہواتھا اور ایسے ماحول میں غالب امکان تھاکہ اپنی ذات کو برتر سمجھنے کا احساس پیدا ہوجاتا مگر اس کے برعکس میں نے ایسی انکساری کسی اَور میں نہیں دیکھی جیسی آپؒ میں تھی۔ حضورؒ کو ہر شخص کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان سے استفادہ کرنے اور صحیح رخ پر لانے کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ خواہ وہ شخص کوئی معمولی اور کم فہم بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ابّا اپنی ڈاک دیکھنا شروع کرتے تو آپؒ کے قرب میں بیٹھنے کی خواہش میں، مَیں آپؒ کے ساتھ بیٹھ جاتی اور آپؒ کے کاغذات کو چھیڑنے لگتی۔اس پر حضورؒ نے مجھے کہا کہ تم میری پرائیویٹ سیکرٹری بن جائو۔ جس طرح مَیں بتائوں ،میرے کاغذ ترتیب سے لگایا کرو۔بجائے اس کے کہ مجھے ڈانٹ کر اُٹھادیا جاتا مجھے اپنا پرائیویٹ سیکرٹری کہہ کر دل خوش کردیا بلکہ احساس ذمہ داری بھی پیدا کردیا۔

٭…آپؒ مہمانوں کا بے حد اکرام کرنے والے تھے، ہمارے گھر کے دروازے ہر طرح کے لوگوں کے لیے کھلے رہتے۔ مہمانوں کی آمد ابّا کے لیے بے حد خوشی کا موجب بنتی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ آپؒ نے سارا گھر جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے خالی کردیا اور خود صحن میں ٹینٹ لگا کر وہاں منتقل ہوگئے۔ بعض دفعہ اگر گھر میں کام کرنے والا موجود نہ ہوتا تو خود ہی ان کے لیے سب انتظام کرلیا کرتے تھے۔ کھانا بھی خود بنا لیتے تھے۔ابّا کی مہمان نوازی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ امی چھیڑنے کے لیے ابّا سے کہتیں : مجھے لگتا ہے آپ نے ریلوے سٹیشن اور بس سٹاپ پر اپنے آدمی بٹھائے ہوتے ہیں کہ جو ربوہ پہنچے اس کو پکڑ کر سیدھا آپ کے گھر لے آئیں۔

٭…ابّا کو اللہ تعالیٰ نے بہت لطیف حس مزاح سے نوازا تھا۔ مزاح کے رنگ میں بہت خوبصورتی سے نصیحت کردیتے تھے۔ ایک دفعہ بہت سی خواتین گھر میں زوردار انداز میں باتیں کررہی تھیں کہ حضورؒ تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’مَیں نے خواتین میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ سب خواتین بیک وقت بول رہی ہوتی ہیں اور بیک وقت سن بھی رہی ہوتی ہیں اور سمجھ بھی رہی ہوتی ہیں۔ جبکہ مردوں میں ایک بولتا ہے تو دوسرے سنتے ہیں اور اگر یہ نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں سکتے۔‘‘ یہ سن کر ہم ہنس پڑیں اور اس نصیحت کا اثر یہ ہوا کہ چند دن بحث مباحثہ ذرا طریقے سے کیاجاتا رہا۔

٭… مکرم منظور احمد سعید صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ نے 1960ء میں ہومیو پیتھی کی مفت ادویہ دینے کا سلسلہ اپنے گھر سے شروع کیا۔1967ء میں وقف جدید میں باقاعدہ ڈسپنسری قائم ہوئی۔ اس وقت تک تمام اخراجات آپؒ خود برداشت کرتے تھے۔ ڈسپنسری میں ایک دن ایک بچہ آیا اور کہنے لگا:دوائی نہیں لینی۔آپؒ نے فرمایا پھر کیا لینا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے اور رات کو گرمی ہوتی ہے اور ہمیں مچھر کاٹتا ہے ہمارے پاس پنکھا نہیں۔ آپؒ نے پنکھا خرید کر اُن کے گھر پہنچادیا۔

جب میں وقف جدید میں بطور کارکن آیا اس وقت ہمارا گھر دارالصدر میں ہوتا تھا اور میرے پاس سائیکل نہیں تھی۔ دفتری اوقات کے بعد جب مَیں پیدل گھر جا رہا ہوتا تھا تو آپؒ مجھے اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھا لیتے تھے اور سائیکل خود چلاتے تھے۔ میرے اصرار پر بھی سائیکل مجھے نہ چلانے دیتے اور فرماتے کہ پیچھے بیٹھ جائیں۔ میں عرض کرتا گرمی ہے پیچھے ہوا نہیں لگتی تو فرماتے: آپ آگے بیٹھ جائیں۔

حضورؒ کے دَور ِخلافت کی چند تحریکات یہ ہیں:

29؍اکتوبر1982ء کوبیوت الحمد منصوبہ کا اعلان۔

28؍جنوری 1983ء کو داعی الی اللہ بننے کی تحریک۔

14؍مارچ 1986ء سیدنا بلالؓ فنڈکا قیام۔

3؍اپریل 1987ء تحریک وقف نوکا آغاز۔

1989ء جرمنی میں تحریک سومساجد۔

نوجوانوں کو شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کی تحریک۔

1993ء میں عالمی بیعت کا آغاز ہوا۔

7؍جنوری1994ء الفضل انٹر نیشنل کا اجرا۔

جنوری1994ء میںMTAانٹرنیشنل کا آغاز۔

جھوٹ کے خلاف جہاد کی تحریک۔

21؍فروری 2003ء کومریم شادی فنڈ کا اجرا۔

حضورؒ کی تصانیف کو مغرب ومشرق کے د انشوروں نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ متعدد کتب کے کئی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ چند مطبوعات درج ذیل ہیں:

’’مذہب کے نام پر خون‘‘ (1962ء)، ’’ورزش کے زینے‘‘(1965ء)، ’’احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟‘‘ (1968ء)، ’’سوانح فضل عمر جلد دوم‘‘ (1975ء)، ’’رسالہ ربوہ سے تل ابیب تک پر تبصرہ‘‘ (1976ء)، ’’وصال ابن مریم‘‘ (1976ء)، ’’سلمان رشدی کی کتاب پر محققانہ تبصرہ‘‘ (1989ء)، ’’خلیج کا بحران اور نظام جہا ن نو‘‘ (1992ء)، ’’ذوق عبادت اور آداب دعا‘‘(1993ء)، ’’الہام، عقل، علم اور سچائی‘‘(1998ء) اور ’’قرآن کریم کا اردو ترجمہ مع تشریح‘‘ (2000ء )

حضورؒ نے صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کی شہادت پر آپ کی والدہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کے نام ایک خط میں فرمایا: ’’میرے لیے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بے حساب بخش دے۔ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً قرار دیتے ہوئے اپنے بندوں اور اپنی جنت میں داخل فرمائے۔ ہمیشہ دل کی یہی تڑپ رہی ہے۔ ہمیشہ دل کی یہی تڑپ رہے گی کہ اے کاش میرا انجام اُس کی نظر میں نیک ٹھہرے، آمین۔‘‘

مجھ سے بھی تو کبھی کہہ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً

رُوح بےتاب ہے رُوحوں کو بُلانے والے

19؍اپریل 2003ء کوحضورؒ کی وفات ہوئی۔ ؎

تحسین تری عمر کہ اس عمر میں تُو نے

صد خضر کی عمروں سے سوا کام کیا ہے

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button