متفرق مضامین

خلافتِ احمدیہ۔ اہم مباحث اور نتائج

(عثمان مسعود جاوید۔ سویڈن)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبیﷺکے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہر سال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جائیں۔ الفضل سے مضامین پڑھ کر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے خلافتِ احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے ردّ میں کیا کچھ لکھا ہے۔ اسی طرح وہ رؤیا و کشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کر کے خداتعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ اس کی برکات اب بھی خلافت سے وابستہ ہیں۔‘‘(الفضل یکم مئی ۱۹۵۷ء، خلافت علیٰ منہاج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۳۳۳)

الٰہی جماعتوں کی صداقت کی ایک نشانی ان کا بتدریج بڑھنا بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سےہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ جماعتِ احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح معدودے چند بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس الٰہی جماعت سے کنارہ کر جاتے ہیں۔ آج کل چونکہ مخالفین کی کارروائیاں خصوصاً سوشل میڈیا پر بڑی پُرزور ہیں اس تناظر میں خاکسار مختصر طور پر خلافت احمدیہ کی سچائی کے حوالے سےچند دلائل پیش کرنا مناسب سمجھتا ہے۔حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’اسلام وہ مذہب تھا کہ اگر مسلمانوں میں سے ایک آدمی بھی مرتد ہو جاتا تھا تو گویا قیامت برپا ہو جاتی تھی۔‘‘( چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۲۷)اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ کسی کے دل میں بھی کوئی غلط فہمی جنم نہ لے پائے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔(النور: ۵۶، ۵۷)ترجمہ:تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

ان آیات کی مختصر تشریح یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ اللہ خلیفہ بنائے گا۔ دین مضبوطی سے قائم کر دیا جائے گا اور خوف کی حالت امن کی حالت سے بدل جائے گی۔ جتنی بھی اسلامی تنظیمیں اس وقت اسلحہ ہاتھوں میں لے کر خلافت لانے کی دعوے دار ہیں ان سب کا غلطی خوردہ ہونا آیت ِاستخلاف سے ہی ثابت ہے۔ ان مسلح تنظیموں سے یا تو امن ہی خوف میں بدل گیا یا خوف مزید خوف میں بدل گیا۔جو تنظیمیں اسلحے کے استعمال کے بغیر خلافت لانے کی دعوے دار ہیں ان کے پاس سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں ہے کیونکہ حقیقی خلافت نے حضرت امام مہدیؑ کی وفات کے بعد جاری ہونا تھا۔

پھر فرمایا کہ وہ میری عبادت کریں گے اور شرک سے بکلی پاک ہوںگے لیکن ناشکری کرنے والے، انکار کرنے والے نافرمان ہوںگے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃکی ادائیگی کرو اور اِ س رسولﷺ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

مفسرین کرا م اور بعض گروہوں نے یہاں ایسے خلفاء مراد لیے ہیں جن کے پاس حکومت لازمی ہو۔ ان حضرات نے غور نہیں کیا کہ خود انبیاء کے پاس بھی حکومت کا ہونا لازمی امر نہیں ہے۔ پس وہ انبیاء جن کے پاس حکومت تھی انہی کے خلفاء کے پاس حکومت ہوتی تھی اور جن انبیاء کے پاس حکومت ہی نہیں آئی ان کے فوری بعد آنے والے خلفاء کے پاس حکومت نہیں ہوتی تھی۔بعد میں کبھی آ جائے تو الگ بات ہے لیکن آیتِ استخلاف سے حکومت کا لازمی ہونا شرط نہیں ہے۔

قرآن حکیم کی تفاسیر سے حوالہ جات

(۱) شیعوں کی مشہور و معروف تفسیر نمونہ جلد ۸ میں مفسرین کی مختلف تفاسیر بیان کر کے آیت استخلاف کے ذیل میں لکھا ہے :’’اس میں شک نہیں کہ یہ آیت ابتدائی مسلمانوں کے بارے میں ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت بھی اس آیت کی مصداقِ کامل ہے۔ …یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ اس آیت کے ذیل میں مرحوم طبرسی کہتے ہیں کہ اہلِ بیت ِرسولؐ سے یہ حدیث منقول ہے یہ آیت مہدیؑ کے بارے میں ہے کہ جو آل محمدؐ میں سے ہوںگے‘‘(تفسیر نمونہ جلد ۸ صفحہ ۲۹۲، ۲۹۳)

(۲) مولانا سید ظفر حسن صاحب قبلہ امروہی تفسیر القرآن جلد۳میں آیت استخلاف کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:’’اس آیت کو آئیہ استخلاف کہتے ہیں اس کی تفسیر میں مسلمانوں کے درمیان بڑا اختلاف ہےبعض لوگ اس سے خلافت حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ کی حقّانیت پر دلیل لاتے ہیں بعض خلافتِ اجتماعی کا برحق ہونا ثابت کرتے ہیں۔ہم شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ظہور قائم آل محمدؐ [امام مہدیؑ]کے متعلق ہے‘‘۔(تفسیر القرآن جلد سوم صفحہ ۳۸۷)

(۳)شیعوں کے حجۃ الاسلام علامہ حسین بخش جاڑا آیت استخلاف کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ائمہ اہل بیتؑ سے تواتر کے ساتھ مروی ہے کہ یہ آیت حضرت قائم آلِ محمدؐ علیہ السلام کے حق میں ہے اور ان کی تشریف آوری کی پیشین گوئی کر رہی ہے‘‘(تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف جلد ۱۰ صفحہ ۱۵۲، ۱۵۳)

اوپر دیے گئے شیعہ تفاسیر سے حوالہ جات سے پتا چلتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے نزدیک آیت استخلاف کا حضرت امام مہدیؑ سے خاص تعلق ہے۔

(۴) اہلِ سنت کے حافظ ابن کثیرؒ تفسیر ابن کثیر جلد ۱۸ میں آیت استخلاف کی تفسیر میں اگرچہ حکومت کے حق میں ہیں لیکن اہل تشیع کے بارہ اماموں میں صرف حضرت علیؓ کو اس آیت میں خلفائے ثلاثہ (حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ) کے ساتھ شامل فرماتے ہیں اور بارہ خلفاء والی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ہاں اتنا یقینی ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام بھی انہی بارہ میں سے ہوںگے جن کا نام حضورﷺ کے نام سے، جن کی کنیت حضورﷺ کی کنیت سے مطابق ہوگی، تمام زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم و ناانصافی سے بھر گئی ہوگی‘‘۔(تفسیر ابن کثیرپارہ ۱۸ صفحہ ۴۰۴ )

یاد رہے کہ حضرت امام مہدیؑ کا زمانہ ان کی حیات پر ہی ختم نہیں ہو جاتا ان کے بعد جو خلافت جاری ہونی ہے وہ بھی حضرت امام مہدیؑ کے زمانے میں شامل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اصل میں تو آنحضرتﷺ کا زمانہ ہے جو قیامت تک رہے گا حالانکہ خود آنحضرتﷺ ساڑھے چودہ سو سال قبل وفات پا گئے۔

شہادۃ القرآن، رسالہ الوصیت اور آیتِ استخلاف

حضرت مسیح موعودؑ نے آیت استخلاف کی ایک سے زائد تفاسیر بیان فرمائی ہیں۔ وہ حضرات جو حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان رکھتے ہیں اور خلافت پر ایمان نہیں رکھتے وہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب شہادۃ القرآن سے ایسے حوالے پیش کرتے ہیںجن میں حضرت مسیح موعودؑ نے آیت استخلاف سے مجددین کا سلسلہ ثابت فرمایا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قارئین کو شہادۃالقرآن کا پس منظر معلوم ہو۔

اس کتاب کا آغاز ان الفاظ سے ہو رہا ہے:’’ایک صاحب عطا محمد نام اپنے خط مطبوعہ اگست ۱۸۹۳ء میں مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا ہم کو انتظار کرنا واجب و لازم ہے‘‘ (شہادۃالقرآن روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۲۹۷)

عطا محمد خاں علامہ مشرقی کے والد اور اخبار وکیل امرتسر کے مالک تھے۔ انہی کے اخبار میں مولانا ابو الکلام آزاد کا حضرت مسیحِ موعودؑ کی وفات پر شاندار ریویو شائع ہوا تھا۔

اس سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں اور اپنے ظہور کے ثبوت میں آیت استخلاف سے استدلال فرمایا۔ آپ نے آیت استخلاف کے حوالے سے فرمایا:’’اب غور سے دیکھو کہ اِ س آیت میں بھی مماثلت کی طرف صریح اشارہ ہے اور اگر اس مماثلت سے مماثلت تامہ مُراد نہیں تو کلام عبث ہوا جاتا ہے کیونکہ شریعت موسوی میں چودہ سو برس تک خلافت کا سلسلہ ممتد رہا نہ صرف تیس برس تک اور صدہا خلیفے رُوحانی اور ظاہری طور پر ہوئے نہ صرف چار اور پھر ہمیشہ کے لئے خاتمہ‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۳۲۴)

جب ہم رسالہ الوصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کتاب کے آغاز میں حضورؑ نے اپنی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’خدائے عزّ و جلّ نے متواتر وحی سے مجھے خبر دی ہے کہ میرا زمانہ وفات نزدیک ہے اور اس بارے میں اُس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا۔ اور اِ س زندگی کو میرے پر سرد کر دیا۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۳۰۱)

پس شہادۃ القرآن میں سوال تھا کہ آپ کیسے آ گئے ہیں اور رسالہ الوصیت کے آغاز سے پتا چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ بتائیں گے کہ ان کے جانے کے بعد کیا کرنا ہے۔ لہٰذا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ…دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبیؔ کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے …تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے …جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی…تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا …[آیت استخلاف ] …یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۳۰۴، ۳۰۵)

کیا ’’سر الخلافہ‘‘میں آیت استخلاف کی تفسیر میں صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ مراد ہیں؟

حضرت مسیح موعودؑ نے ۱۸۹۴ء میں اہل تشیع کو سمجھانے کے لیے اپنی تصنیف لطیف ’’سر الخلافہ‘‘ رقم فرمائی تھی۔اس کتاب کے اردو تراجم چند سال ہوئے جماعت احمدیہ (مبائعین) اور جماعت احمدیہ (غیرمبائعین) دونوںکی طرف سے شائع کیے گئے۔اس کتاب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آیت استخلاف پیش کر کے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت ثابت کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’ان کے خوف کو ضرور امن کی حالت میں بدل دے گا۔اس امر کا اتم اور اکمل طور پر مصداق ہم حضرت صدیق (اکبرؓ) کی خلافت کو ہی پاتے ہیں…سو حاصل کلام یہ کہ یہ سب آیات صدیق (اکبرؓ ) کی خلافت کی خبر دیتی ہیں اور انہیں کسی اور پر محمول نہیں کیا جا سکتا‘‘(صفحات ۴۷، ۵۳)

جماعت احمدیہ (غیرمبائعین) نے اس جملے کا عربی سے یہ ترجمہ کیا ہے:’’اور ان کا مصداق کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا‘‘ (صفحہ ۴۵)

محترم عامر عزیز صاحب نے اپنے ترجمے کے پیش لفظ میں لکھا ہے:’’یہ کتاب میرے جماعت ربوہ کے بھائیوں کے لئے بھی ہدایت اور روشنی کا باعث ہو سکتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے آیت استخلاف کی جو تشریح و تصریح کی ہے وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس آیت کا مصداق سوائے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے کوئی نہیں‘‘

محترم عامر عزیز صاحب اپنی جماعت احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے بانی مولانا محمد علی صاحب کی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں سورۃ النور زیرِ آیت استخلاف ملاحظہ فرمائیں:’’یہ آیت اہل تشیع پر قطعی حجت ہے کہ حضرت ابوبکر وعمر کی خلافت حق ہے اس لیے کہ قرآن کریم نے جو معیار خلافت کا قرار دیا تھا وہ کامل طور پر انہی دو خلافتوں میں پورا ہوا۔یعنی تمکین دین اور تبدیل خوف بامن‘‘ (بیان القرآن جلد ۲ صفحہ ۹۷۶)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سرالخلافہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:’’آپ [حضرت مسیح موعود ؑ] نے جو کچھ فرمایا ہے وہ شیعوں کے ردّ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل جانشین حضرت علیؓ تھے آپ اس کےجواب میں فرماتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ قرآن کریم کی آیت وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ میں ہےاور اس میں جو شرائط پائی جاتی ہیں وہ بدرجہ کمال حضرت ابو بکرؓ میں پائی جاتی ہیں۔

پس آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے حضرت ابوبکرؓکی خلافت حضرت علیؓ کی خلافت سے زیادہ ثابت ہے نہ یہ کہ حضرت علیؓ خلیفہ نہ تھے۔ آپ نے اپنی کتب میں چار خلفاء کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اور حضرت علیؓ کی خلافت کا بھی ذکر فرمایا ہے اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحومؓ نے شیعوں کے ردّ میں ایک لیکچر دیا تھا جس میں انہوں نے اسی آیت سے حضرت ابو بکرؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کو خلیفہ ثابت کیا ہے اور حضرت علیؓ کی خلافت کو بھی مختلف مقامات میں تسلیم کیا ہے۔آپ نے بعد میں اس لیکچر کو بعض زوائد کے ساتھ کتابی صورت میں’’خلافتِ راشدہ‘‘ کے نام سے چھپوا دیا تھا۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ میرا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سنا اور بار بار پڑھوایا اور اس کے کچھ حصہ کا ترجمہ اپنی کتاب حجۃ اللہ میں بھی کر دیا اور مختلف مقامات پر میرا یہ مضمون دوستوں کو اپنی طرف سےبطور تحفہ بھجوایا۔پس معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس عقیدہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے متفق تھے جس کا انہوں نے ’’خلافتِ راشدہ‘‘ میں اظہار کیا ہے۔‘‘(خلافت علیٰ منہاج النبوۃ جلد ۲صفحات ۱۹۲، ۱۹۳)

رسالہ الوصیت کے چند مقامات کی مختصر تشریح اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت

’’…جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو۲ قدرتیں دکھلاتا ہے…سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے…کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۵)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرماناکہ ’’سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے‘‘بھی فیصلہ کر دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کی وفات کے بعد کبھی کوئی انجمن آئی نہ انجمن کا پریذیڈنٹ۔

پھر تحریر فرماتے ہیں:’’جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہےبلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوںگا‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۳۰۵، ۳۰۶)

اب اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ملاحظہ فرمائیں:’’آج میری حیرت زدہ نگاہیں بحسرت دیکھ رہی ہیں کہ بڑے بڑے گریجوایٹ اور وکیل اور پروفیسراور ڈاکٹر جو کانٹ اور ڈیکارٹ اور ہیگل کے فلسفے تک کو خاطر میں نہیں لاتے تھے…غلام احمد قادیانی کی خرافاتِ واحیہ [نقلِ کفر کفرنباشد] پر اندھادھند آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئے ہیں…یہ ایک تناور درخت ہو چلا ہے اس کی شاخیں ایک طرف چین میں اور دوسری طرف یورپ میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں‘‘(مولانا ظفر علی خان اخبار زمیندار ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۲ء)

’’آج کی دنیا میں بھی آپ کو مثال ملے گی کہ سچی نبوت تو تنظیم کی بہت بڑی بنیاد ہے ہی، جھوٹی نبوت [نقلِ کفر کفرنباشد]بھی بہت بڑی بنیاد ہے۔ غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت [نقلِ کفر کفرنباشد]کی بنیاد پر جو جماعت چل رہی ہے ذرا اس کا اندازہ کیجیئے کہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اور ان کا لاہوری فرقہ، جس نے غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانا، وہ منتشر ہو کر ختم ہو گیا۔‘‘(رسولِ انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ انقلاب از ڈاکٹر اسرار احمد صاحب صفحہ ۳۳)

گو یہ بات درست نہیں کہ لاہوری جماعت ختم ہو گئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا جماعت احمدیہ کے ذریعے پورا ہونا بھی حق کے متلاشیوں کے لیے بینات میں سے ہے۔

رسالہ الوصیت کے وہ حصے جن کی ایک سے زائد تشریحات موجود ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’چاہیے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۳۰۶)

سیاق میں حضرت ابو بکرؓکی مثال سے ثابت ہوا کہ یہاں جماعت کے بزرگ سے مراد خلفاء ہیں۔

پھر فرمایا: ’’جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۷)یعنی اس سے مراد انتخاب خلافت ہے جس کے ذریعہ ایک شخص ’’خدا سے روح القدس پا کر ‘‘خلافت کے منصب پر متمکن ہوتاہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’…جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان مندرجہ بالا تین حصوں کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس میں اپنے وصال کے بعد خلیفہ کے انتخاب تک اور ہر خلیفہ کے بعد اگلے خلیفہ کے انتخاب تک کا عرصہ بیان کر کے اس بات کی تلقین کی کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہے، یہ جو چند دن، ایک دو دن بیچ میں وقفہ ہو، اس میں بگڑ نہ جانا۔ اگر دوسری قدرت کا فیض پانا ہے تو پھر اس عرصے میں اکٹھے رہو، دعائیں کرتے رہو اور خلیفہ کو منتخب کرو۔ اس بات سے یہ غلطی نہیں لگنی چاہئے کہ آپ نے فرمایا کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر لوگوں سے بیعت لیں۔ گویا خلافت ایک شخص سے وابستہ نہیں بلکہ افراد کے مجموعے سے وابستہ ہے۔‘‘

پھر ’’ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہوگا‘‘ کی تشریح میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’فرمایا کہ ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہو گا۔ ’’پس جس شخص کی نسبت‘‘ (یہاں پھر واحد کا صیغہ آ گیا) ’’جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا‘‘۔(یہاں جمع نہیں آئی۔ پھر آگے ہے کہ وہ شخص بیعت لے گا) ’’اور چاہئے کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کے لئے نمونہ بناوے‘‘۔ کسی انجمن کے نمونہ بنانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ وہ شخص نمونہ بنے۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۳۰۶،حاشیہ)پس جہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا وہاں کوئی انجمن نہیں ہے بلکہ خلفاء کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو آئندہ آنے والے خلفاء ہیں وہ یہ بیعت لیں گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲۷؍مئی ۲۰۱۱ء خطبات مسرورجلد نہم صفحہ ۲۷۰، ۲۷۱)

اب اگر رسالہ الوصیت کو لاہوری جماعت درست سمجھی تھی تو اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمارے غیر مبائعین بھائیوں کے ساتھ ہونی چاہیے تھی۔خلافت کے انکار اور انجمن کو فوقیت دینے کا یہ نقصان ہوا کہ مولانا محمد علی صاحب کی امارت میں ان کی انجمن نے تین خلفاء تجویز کیے۔

اول۔ مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری۔ دوم۔ سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی سوم۔ خواجہ کمال الدین صاحب۔ (پیغام صلح ۲۴؍مارچ ۱۹۱۴ صفحہ ج کالم ۱)

’’پہلے دو حضرات تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے اور خواجہ صاحب نے اپنا مشن ہی لاہوری جماعت سے الگ کر لیا‘‘۔(پیغام صلح ۲۷؍جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۶کالم ۲)

خلافت کی اطاعت

وہ خلافت جس کی قوت کا اعتراف مخالفین کو بھی ہے احمدی احباب نے اس نعمتِ خداوندی کی کیسی اطاعت کی ہے اس پر ازدیادِ ایمان کے لیےایک حوالہ پیشِ خدمت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ پر اسلم قریشی کے قتل کا الزام لگایا گیا۔ ۱۹۸۸ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے مباہلے کے چیلنج کے بعد یہ صاحب زندہ واپس آ گئے اور ایسے تمام حضرات کاذب ثابت ہوئے جو اس پروپیگنڈے میں حصے دار تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ملک منظور الٰہی صاحب نے ایک اور کھلی چٹھی صدر اور گورنر کے نام لکھی اور اخبار میں شائع کروائی۔ وہ یہ تھی کہ مجاہدِ ختم نبوت سیالکوٹ کا اغوا اور قتل ایسا بہت بڑا کام مرزا طاہر کے حکم کے بغیر ہرگز ہرگز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مرزا طاہر کے حکم کے بغیر کسی مرزائی کو اتنی جرات ہو سکتی ہے کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ ختم نبوت کے مبلغ کو دن دہاڑے اغوا اور قتل کر دے۔ یہ حوالہ بھی دراصل جماعت احمدیہ کو ایک عظیم الشان خراج تحسین ہے۔ الزام تو جھوٹا جیسا ہے ہی لیکن ان کو یہ پتہ ہے اقرار کرتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ ایک جماعت ہے جو اپنے امام کے ایک اشارے پر اٹھنا اور بیٹھنا جانتی ہے اور ساری دنیا میں ایک کروڑ احمدیوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے امام کی منشا کے خلاف کوئی حرکت کرے۔ اگر اسلام یہ نہیں تو پھر اسلام اور کیا ہے؟ یہی وہ اسلام ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺنے سکھایا اور آج خلافت احمدیہ سے وابستہ ہو چکا ہے۔‘‘ (افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۲؍جولائی ۱۹۸۸ء خطاباتِ طاہر جلد دوم صفحات ۱۴۴، ۱۴۵)

امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ساری زندگی کوشش کی کہ خلیفہ کے وجود کے بغیر خلافت کا قیام ہو جائے۔ جماعت احمدیہ کی خلافت کے متعلق فرماتے ہیں:’’میں تو بات سمجھانے کے لیے کیا کرتا ہوں کہ سچی نبوت کی عظمت و قوت کیا ہو گی اس کا تو شاید ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جھوٹی نبوت [نقلِ کفر کفرنباشد] میں اتنی طاقت ہے کہ قادیانی جماعت کا نظم آج تک قائم ہے۔‘‘(خلافت کی حقیقت اور عصرِ حاضر میں اس کا نظام صفحہ ۲۱۰)

خلافت کب تک ؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ ۲۶؍اگست ۲۰۰۵ء میں فرماتے ہیں:’’پہلے زمانے کے لئے آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ خلافت راشدہ کا زمانہ تھوڑا ہوگا اور اسی کے مطابق ہوا۔ لیکن اس زمانے کے لئے آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ میرے غلام صادق کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہوگی وہ علیٰ منہاج نبوت ہوگی اور اس کا دورقیامت تک چلنے والا دور ہوگا۔

خلافت کے قیامت تک قائم رہنے کے بارے میں بعض لوگ اس کی اپنی وضاحت اور تشریح بھی کرتے ہیں۔…تو آج جو یہ باتیں کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رسّی کو کاٹنے کی باتیں کرتا ہے کہ قیامت تک اس نے رہنا ہے یا نہیں یا اس کی کیا تشریح ہے، کیا نہیں ہے۔ اگر کوئی دلیل ان کے پاس اس چیز کی ہے بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف کے بعد ہر چیز باطل ہوچکی ہے۔ وہ دلیل اپنے پاس رکھیں اور جماعت میں فساد کی کوشش نہ کریں۔‘‘(خطبات مسرور جلد ۳ صفحات ۵۱۶،۵۱۵)

حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پیغام

رسالہ فرقان (قادیان) کا مارچ ۱۹۴۳ء میں خلافت نمبر شائع ہوا تھا جس میں ام المومنین حضرت اماں جانؓ کا درج ذیل پیغام بھی شائع ہوا تھا جس پر میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں:’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ ’’فرقان ‘‘کا ایک خلافت نمبر شائع ہو رہا ہے اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ اِ س موقع پر مَیں بھی جماعت کے نام کوئی پیغام دوں۔اِس کے جواب میں مَیں اپنی پیاری جماعت سے صرف اِس قدر کہنا چاہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو خلافت کے ذریعہ ایک ہاتھ پر جمع کر رکھا ہے اور اسے حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کی تکمیل اور مضبوطی کا واسطہ بنایا ہے۔ پس اس کی قدر کرو۔ کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعہ آپ لوگ نبوت کے انعاموں کو اپنے لیے لمبا بلکہ دائمی بنا سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے موجودہ خلیفہ اور میرے پیارے بچّے محمود اور اس کے بھائیوں اور بہنوں اور ان کی اولاد کے لئے بھی خاص طور پر دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں کو لمبا کرے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدمتِ دین کی توفیق دے کہ اِسی میں میری ساری خوشی ہے۔ فقط والسّلام امِ محمود۔قادیان ۱۴؍مارچ۱۹۴۳ء‘‘(بحوالہ خلافت نمبر ماہنامہ الفرقان ربوہ شمارہ مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۸)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button