یادِ رفتگاں

نصف صدی سے زائد عرصہ خدمت قرآن کی توفیق پانے والے محترم حافظ قاری محمد عاشق صاحب کو سپرد خاک کر دیا گیا

پاکستان کے معروف و مستند قاری، اور نصف صدی تک خدمت قرآن کرنے والے محترم حافظ قاری محمد عاشق صاحب وفات پا گئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون

احباب جماعت کو بہت دکھ کے ساتھ یہ افسوسناک خبر دی جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے دیرینہ اور مخلص خادم، سابق انچارج مدرسۃ الحفظ ربوہ، محترم حافظ قاری محمد عاشق صاحب، تھل حیدرآبادی۔ مورخہ ۱۳ جون ۲۰۲۳ء بروز منگل بعمر ۸۵ سال وفات پاگئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون

آپ بڑی عمرہونے کے باعث بہت کمزور ہوگئے تھے اورآج کل زیادہ وقت گھر پر ہی رہتے تھے۔ وفات بھی آپ کے گھر میں ہوئی۔ آپ ۲۰۱۹ء تک باقاعدہ مدرسۃ الحفظ تشریف لے جاتے رہے اوراپنے مفوضہ کام باقاعدگی سے کرتے رہے۔ طلباء کی کلاس لیتے اور نوجوان اساتذہ کو ضروری ہدایات سے نوازتے۔جب تک صحت نے اجازت دی آ پ سائیکل پر ہی جاتے۔ کمزوری زیادہ ہونے پر کسی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے جاتےاور آخری عمر میں کار پر جایا کرتے۔ جب صحت کمزوری کی طرف زیادہ مائل ہوئی تو گھر پر ہی قیام رہا لیکن آپ کے شعبہ کےجو بھی دوست گھر آتے ان سے مدرسۃالحفظ کا احوال ضرور پوچھتے اور وہاں جاکر بچوں کو پڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتے۔

آپ مورخہ ۱۰جون ۱۹۳۸ء کو حیدر آباد تھل، تحصیل بھکرضلع میانوالی (حال ضلع بھکر)میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مکرم ماہلہ صاحب اور والدہ کا نام مکرمہ ملوکہ خاتون صاحبہ تھا۔ آپ کا زراعت پیشہ قوم گَھلّو سے تعلق ہے۔ آپ کا بچپن اپنے آبائی گاؤں چاہ ببلیانوالہ (نزد حیدر آباد تھل ) میں گزرا۔ آپ چھ ماہ کے تھے جب آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔

آپ نے متعدد مدارس میں تعلیم حاصل کی اور میلوں کا سفر طے کرکے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔ سب سے پہلے آپ نے اپنے قریبی قصبہ حیدر آباد تھل کے مدرسہ میں قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا۔ وہاں حافظ فتح محمد صاحب قریشی پڑھایا کرتے تھےجو پیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے، کیونکہ ان کا زیادہ تر وقت پیری مریدی میں گزرتا تھا اس لیے آپ نے وہاں سوا دوپارے حفظ کرنے کے بعدضلع بھکر کے ایک اَور قصبہ کے مدرسہ میں حافظ احمد یار صاحب سے ۲۰ پاروں تک حفظ کیا۔ ۱۹۵۳ء میں قائدآباد ضلع خوشاب میں حاجی محکم الدین صاحب سے آپ نے حفظ قرآن مکمل کیا۔حفظ کرنے کے بعد وہاں پر صَرف و نحو کے بنیادی قواعد پڑھے۔ ۱۰۰ کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے اور دریائے سندھ کو کشتی میں عبور کرکے پہاڑ پور شمالی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے مشہور اور قابل استاد مولوی عبداللہ صاحب کے پاس چھ ماہ میں عربی گرائمر کی تعلیم مکمل کی۔

ملتان کے شہر عبد الحکیم میں اپنے نابینا استاد قاری تاج محمد صاحب سے تجوید کی تعلیم حاصل کی جو دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور سبعہ قرأت کے ماہر اور اچھے استاد تھے۔ مختلف لہجوں مثلاً مصری، حجازی، یمنی اور عراقی وغیرہ سے قرآن پڑھنے کے بھی ماہر تھے۔ محترم قاری عاشق صاحب نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے جھنگ، اٹک، خوشاب اور سرگودھاکے سفر اختیار کئے۔ آپ نے سکول میں داخلہ لے کر باقاعدہ دنیاوی تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن انہی شہروں کے مدارس میں اہل علم دوستوں اور اساتذہ سے ہی پڑھنا لکھنا سیکھا۔

آپ نے قاری سعید الرحمان صاحب سے مدرسہ مسجد اہل حدیث چِک بازار راولپنڈی اور قاری اظہار احمد صاحب تھانوی (جو پاکستان کے مشہور اور مستند قاری تھے)سے جامعہ مسجد اہلحدیث چینیاں والی لاہور میں کچھ عرصہ پڑھا۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں حضرت مرزا ہدایت اللہ صاحب ؓپنجابی شاعرلاہور، صحابی حضرت مسیح موعود ؑ اپنے دور میں نمازوں کی امامت کرایا کرتے تھے۔ بعد ازاں قاری تاج محمد صاحب کے مدرسہ میں قاری عاشق صاحب نے تجوید کا کورس مکمل کرکے قاری کی سند حاصل کی۔

قرآن کریم حفظ کرنے اور تجوید سیکھنے کے بعد آپ نے متعدد شہروں کے مدارس اور مساجد میں تدریس بھی شروع کردی۔ ان شہروں میں نواب شاہ سندھ۔ بولٹن مارکیٹ، عثمانیہ کالونی،برنس روڈ کراچی۔ سیٹلائیٹ ٹاؤن سرگودھا، راولپنڈی صدر اور مغل پورہ لاہور کے مدارس شامل ہیں۔

احمدیت قبول کرنے سے پہلے آپ جماعت کے مخالف تھے، نہ احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی ان کا کھانا کھاتے تھے۔بیعت سے پہلےایک مرتبہ جب ربوہ جانے کا اتفاق ہواپہلے توپورا دن بھوکے رہے لیکن دارالضیافت کے عملہ کے اخلاص اور مہمان نوازی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بعدہ مختلف شہروں میں احمدی احباب سے رابطہ ہوا،جماعت کا تعارف اور کچھ ابتدائی معلومات سے آگاہی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ جیسی سعید روح کو جماعت میں داخل فرمانا تھا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعے آپ کی ہدایت اور حق کے راستے کی طرف راہنمائی کی۔ آپ لمبا عرصہ تحقیق اور احمدی احباب سے مباحثوں اور گفتگو کے بعد مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے اجتماع ۱۹۶۴ء کے پروگراموں میں شامل ہوئے، ربوہ کے ماحول، احمدیوں کے اخلاق اور سچائی پر مشتمل تعلیمات کا مشاہدہ کرکے اجتماع کے تیسرے دن آپ نے بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، چنانچہ دفتر اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں آ پ بیعت فارم پُر کرکے نور احمدیت سے منور ہوئے۔یہ بات یاد رہے کہ آپ اپنے خاندان، اپنے علاقے اور اپنی قوم میں پہلے احمدی تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کی راہ میں کئی مشکلات آئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھااورجو ایمان کا رنگ آپ پر چڑھ گیا تھا اس کی وجہ سے کوئی لالچ اور مخالفت آپ کو راہِ حق سے ہٹا نہ سکی۔

جب آپ اپنا سامان لینے کے لیے لاہور میں تھے تو حضرت مرزا طاہر احمد صاحب، اس وقت ناظم ارشاد وقف جدید ( خلیفۃ المسیح الرابع ؒ) کا پیغام ملا کہ آپ ایک مرتبہ ہمارے پاس ربوہ آئیں۔ جب آپ ان کی خدمت میں حاضرہوئے تو حضرت میاں صاحبؒ نےپہلے آپ کی تلاوت سنی اوروقف جدید کے معلمین کو قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھانے کی ڈیوٹی تفویض فرمائی اور وقف جدید میں ہی رہائش کا انتظام کردیا۔ یہ کلاس یکم دسمبر ۱۹۶۴ ء کو شروع ہوئی۔ جلسہ سالانہ ۱۹۶۴ ء کے بابرکت موقع پر آپ کوپہلی مرتبہ تلاوت قرآن کریم کی سعادت حاصل ہوئی۔ مورخہ ۲۰فروری ۱۹۶۵ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سےشرف ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس تاریخی ملاقات کا احوال اس طرح بتایا کرتے تھے کہ جب میں نے شرف مصافحہ حاصل کیا تو وہ لمحہ میرے لیے اپنی زندگی بدلنے کا موجب بنا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حضور ؓ کی خدمت اقدس میں میرا تعارف کرایا کہ یہ قاری محمد عاشق صاحب ہیں جو نو مبائع ہیں۔ جب وہ میرا تعارف کرا رہے تھے تو حضورؓ ازراہ شفقت نظر بھر کر مجھے دیکھتے رہےاور میں بھی حضور کا بابرکت ہاتھ تھامے آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا رہا۔

آپ کی بیعت کے بعد جو پہلا رمضان آیا اس میں ہونے والے درس القرآن کے آخری روز آ پ کو قرآن کریم کے آخری پارہ کی پہلی مرتبہ تلاوت کی سعادت ملی۔اس کے بعد پھر پروگرام کے مطابق درس دیا گیا۔بعد میں رمضان المبارک میں آپ کی مسجد مبارک میں ۱۵ سال تک نماز تراویح پڑھانے کی ڈیوٹی لگتی رہی۔ محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ نے آپ کو ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ مسجد مبارک میں نماز تہجد اور نماز تراویح پڑھانے کی آپ کی ڈیوٹی بار بار اس لیے لگائی جاتی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ آپ کی تلاوت کو بہت پسند فرماتے ہیں۔بعد میں ربوہ کےکئی محلہ جات اور ربوہ سے باہر جماعت کی متعدد بڑی بڑی مساجد میں نماز تراویح پڑھانے کی توفیق ملتی رہی۔ ۱۹۷۳ءکے سیلاب میں راستے بند ہونے کی وجہ سے آپ کو ڈیوٹی پرا حمدیہ ہال کراچی بذریعہ ہوائی جہاز بھیجا گیا۔

وقف جدید میں آپ کا بطور استاد باقاعدہ تقرر یکم جنوری ۱۹۶۵ء سے ہوا۔ اسی دوران جامعہ احمدیہ کی شاہد کلاس کے طلباءآپ کے پاس دفتر وقف جدید میں قرآن کریم پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد جامعہ احمدیہ میں ہی جاکر پڑھانا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو نصرت گرلز کالج میں بھی (پردہ کی پابندی کے ساتھ ) قرآن کریم پڑھانے کا موقع ملتا رہا۔ آپ سے پڑھ کر فارغ ہونے والی دو طالبات نے آل پاکستان مقابلہ تلاوت لاہور میں شرکت کی ان میں سے ایک نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔

جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر تینوں دن آپ کو تقریباً ہر سال نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کی طرف سے مسجد مبارک ربوہ میں نماز تہجد پڑھانے کی ذمہ داری دی جاتی رہی۔ اسی طرح جلسہ سالانہ قادیان کئی مرتبہ اور جلسہ سالانہ یوکے میں ایک مرتبہ آپ کو نماز تہجد پڑھانے کی سعادت ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ جلسہ سالانہ ربوہ کے مواقع پر ۱۹۶۵ء تا ۱۹۸۳ء تقریباًہر سال آپ کو تلاوت کرنے کا موقع ملتا رہا۔ اس دوران بعض دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ رونق افروز ہوتے تھے۔ جلسہ ہائے سالانہ قادیان اور یوکے میں بھی متعدد مرتبہ تلاوت کرنے کی توفیق ملی۔ ۱۹۹۱ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قادیان تشریف لائے تو اس صد سالہ جوبلی جلسہ سالانہ کے تاریخ ساز موقع پر بھی حضورؒ کی بابرکت موجودگی میں تلاوت قرآن کریم کی سعادت ملی۔

مرکز سلسلہ ربوہ میں جماعتی جلسہ جات، سیمینارز، اور اجلاسات کے مواقع پر بھی تلاوت کا موقع ملتا رہا۔ ۱۹۸۲ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شادی ہمراہ حضرت آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ کے موقع پر آپ کو تلاوت قرآن کریم کا موقع ملا۔

اللہ تعالیٰ نے آ پ کو نصف صدی سے زائد عرصہ تک خدمت قرآن کی توفیق عطا فرمائی۔ آپ کو حفظ قرآن کا ملکہ، تجوید کے رموز کا علم، خوبصورت آوازمیں قرأت کا منفرد انداز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا تھا، جس پر آپ نے کبھی غرور نہ کیا۔ ہمیشہ انکساری، عاجزی اور متانت کے ساتھ گفتگو کرتے، اگر آپ کے سامنے کوئی آپ کی خوبیوں کا ذکر کرتا تو حکمت کے ساتھ مسکرا کر بات کا رخ بدل دیتے۔گویا عُجب و پندار اور خود پسندی آپ سے کوسوں دُور تھی۔ آپ نے ہر جماعتی ذمہ داری اور فرض کو دیانتداری، خلوص اور حسن انتظام کے ساتھ سرانجام دیا۔آ پ کے اندر قرآن کریم سے محبت موجزن تھی، اسی لیے حفظ قرآن کو پختہ اور قائم رکھنے کے لیے روزانہ ایک پارے سے زیادہ حصہ کا دور مکمل کرتے اور قرآن کی منازل طے کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ نماز تروایح میں آ پ بغیر رُکے ایسی روانی سے تلاوت کرتے جیسے کسی دریا اور ندی کا پانی ایک رفتار سے بغیر رکاوٹ سے بہتا چلا جاتا ہے۔ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی آپ کے خوش لحن اور مسحور کن آواز کے جادو میں مگن ہوجاتے اور دنیا ومافیہا کا ہوش نہ رہتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوش گُلو بنایا تھا اور آپ تلاوت کے دوران ترتیل اور حدر کا بہت خیال رکھتے تھے اس لیے دُور دُور سے لوگ آپ کی تلاوت سننے کے لیے نماز تراویح پر جمع ہوتے۔ رمضان المبارک میں نماز تراویح کے وقت آپ کی جہاں بھی ڈیوٹی ہوتی وہاں خوب رش ہوتا اور احباب کی کثیر تعداد میں آمد سےرونق لگ جاتی۔

مدرسۃ الحفظ کے چمن کی آپ نے انتھک محنت، خلوص اور بہت محبت سےآبیاری کی۔آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ وہ سینکڑوں پاکستانی و غیر ملکی شاگرد ہیں جو آپ سے شرف تلمذ حاصل کر کے قرآن کریم کے نور کو اپنے سینوں میں محفوظ کیے دنیا کے کناروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی وفات نے دنیا بھر میں آباد آپ کے شاگردوں، دوستوں اور چاہنے والوں کو افسردہ کردیا ہے۔ قرآن سکھانےاور پڑھانے کا جو طریقہ آپ نے اپنے اساتذہ اور ملک کے مانے ہوئے قاری حضرات سے حاصل کیا تھا، اس کو جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کے بعد خلفاء احمدیت کے زیر سایہ تربیت حاصل کرکے مزید صیقل کیا اور اپنے شاگردوں تک پہنچایا، یہی وجہ ہے کہ آپ کے قرآن کریم پڑھانے کی طویل خدمت سے تین نسلوں تک کے احمدی احباب و خواتین نے فائدہ اٹھایا۔

آپ اپنے شاگردوں پر گہری اور دور رَس نظر رکھتے تھے۔کلاس میں آبزرویشن ایسی کہ دوران حفظ آپ کو طلباء کے عادات و اطوار سے قبل از وقت ہی معلوم ہوجاتا تھا کہ کون حفظ مکمل کرے گا اور کون درمیان سے چھوڑ کر چلا جائے گا۔آپ کے ایک شاگرد نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں اور ایک دوست کلاس میں پڑھنے کے ساتھ باتیں کرنے لگے تو آپ نے فوراً نوٹ کیا اور دونوں کو کھڑا کرلیا۔ مجھے خوب ڈانٹا، میں نے بعد میں ان سے گلا کیا کہ آپ نے صرف مجھے کیوں جھڑکا ہے دوست کو نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم حفظ مکمل کرو گے وہ لڑکا نامکمل چھوڑ جائے گا، اور پھر ایساہی ہوا وہ لڑکا حفظ کو درمیان سے چھوڑ گیا۔

صفائی پسند ایسے کہ ذرا سی گندگی برداشت نہ کرتے۔ مدرسہ کے ہوسٹل اور کلاسوں کی صفائی کا اندازہ بجلی کے سوئچ بورڈ پر ہاتھ پھیر کر لگاتے۔ اگر گرد موجود ہوتی تو پھر سارے کمرے کی صفائی کراتے۔ ہوسٹل کے بچوں کو صبح نماز کے لیے اٹھانے کا منفرد انداز تھا۔ کمرے میں داخل ہوکر بلند آواز سے السلام علیکم کہہ کر دو مرتبہ ہاتھ پر ہاتھ مارتے جس سے آواز پیدا ہوتی اور بچے اٹھ کر بیٹھ جاتے۔ جو طالبعلم دیر سے اٹھتا تو اس کو سزا کے طور پر سارے کمرے کی صفائی کرنی پڑتی۔

آپ کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیاں ودیعت کررکھی تھیں،خلافت کے انتہائی مطیع اور فرمانبردار، بااخلاق، خوش مزاج، ملنسار،دل کے نرم اور شفیق اور مہمان نواز تھے۔ جب بھی کوئی آپ سے ملنے جاتا اس سے بہت تپاق کے ساتھ مسکراتے چہرے سے ملاقات کرتے، چائے اور لوازمات سے تواضع کرتے،اگر کھانے کا وقت ہوتا تو وہ بھی لے آتے۔

جنوری ۱۹۶۹ء میں حافظ کلاس ربوہ کے انچارج مکرم حافظ شفیق احمد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اسی وجہ سے آپ کی ڈیوٹی حافظ کلاس میں لگا دی گئی،ابتدا میں بچوں کو قرآن حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ آپ وقف جدید میں معلمین کی کلاسز بھی لیتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۱جون ۱۹۶۹ء کو آپ کا تقرر بطور انچارج حافظ کلاس فرمادیا۔اس وقت یہ کلاس جامعہ احمدیہ کے زیر انتظام مسجد مبارک میں ہوا کرتی تھی۔ آپ کی تجویز پر محتر م سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے جامعہ احمدیہ کے کوارٹرز میں سے ایک حافظ کلاس کے لیے مختص کردیا، پھر وہاں تدریس شروع ہوئی۔ آپ کی سربراہی میں حافظ کلاس میں بہتر انتظامی تبدیلیاں ہوئیں۔ طلباء کی عمر کی حد مقرر کردی گئی، بعدہ طالبعلم کا پرائمری پاس ہونے اور قرآن کریم ناظرہ مکمل پڑھا ہونے کا قاعدہ بھی بنا دیا گیا۔ طلباء کا ریکارڈ رکھنے کے لیے رجسٹر اور فائل سسٹم شروع کیا گیا۔ طلباء کے لیے قرآن کریم رکھنے کی چوکیاں (چھوٹی میزیں) بنوائی گئیں۔ طلباء کے لیے باقاعدہ یونیفارمختص کیا گیا۔ وظائف اور حفظ مکمل کرنے پر سند دینے کا طریق رائج ہوا۔ اس طرح حافظ کلاس میں ایک باقاعدگی اور بہتری آ گئی۔ آپ ہی کے دور میں طلباء کی جسمانی و ذہنی نشوونما کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کا آغاز ہو۔ سیرو تفریح کے لیے پکنک اور سائیکل سفر شروع ہوئے۔

آپ کو شجر کاری اور باغبانی کا بہت شوق تھا۔ جب مدرسۃ الحفظ کو طبیہ کالج کی عمارت میں منتقل کیا گیا تو وقار عمل کے ذریعے اس اجاڑ جگہ کو صاف کیا، گراؤنڈ ہموار کیے، مختلف پھلدار اور پھولدار درخت اور پودے لگائے۔ آپ نےبہت محنت اور مسلسل وقارعمل کے ذریعے اس جگہ کو خوبصورت نخلستان میں بدل دیا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے خاص فضلوں سے نوازا تھا۔ آپ کے حافظ اور قاری ہونے اور تجوید کی سند لینے کی بنیاد پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے یک بار چار الاؤنسز کی ترقیات سے نوازا، اور ازراہ شفقت آپ کو مربی سلسلہ کا اعزازی گریڈ بھی عطا فرمایا۔ جب گورنمنٹ نے جماعت کے سکول اور کالجز نیشنلائز کیے توبعض حکمتوں کے تحت حافظ کلاس کو سابقہ طبیہ کالج والی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ آپ بھی طلباء کے ساتھ اس عمارت میں رہائش پزیر ہوگئے۔ مورخہ ۴فروری ۱۹۷۶ء کومحترم ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے حافظ کلاس کا نام تبدیل کرکے مدرسۃ الحفظ رکھا۔محترم قاری صاحب کی رات دن محنت اور حسن انتظام سے بہت جلد مدرسۃ الحفظ میں نکھار پیدا ہوگیا اور طلباء کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا جس پر اساتذہ کی تعداد بڑھادی گئی۔ آپ دفتری طور پر جون ۱۹۹۸ء میں ریٹائرہوئے، تاہم خدمت کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ ری ایمپلائی ہونے کی وجہ سے خدمت جاری رکھی، آپ ۲۰۱۹ء تک باقاعدہ مدرسۃ الحفظ تشریف لے جاکر کلاسز لیتے رہے، عمر کا تقاضا اور کمزور صحت کی وجہ سے مجبوراً آپ کو گھر بیٹھنا پڑا۔ پھر بھی آپ کا دل مدرسہ میں ہی موجود رہتا تھا۔ خدمت دین کا جذبہ آخر عمر تک آپ کو قرآن پڑھانے کی ڈیوٹی ادا کرنے کے لیے اکساتا رہا

۱۹۹۸ء میں اور اس کے کچھ عرصہ بعد آپ کو دو مرتبہ قرآن کریم کے متن کی پروف ریڈنگ کی بھی توفیق ملی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۷ء میں جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کی سعادت ملی۔ ۱۹۹۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے ارشاد پرلندن میں قاعدہ یسرنا القرآن اور پہلے پارہ کی ریکارڈنگ کروائی۔ اس سے قبل آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر اہتمام آڈیو کیسٹس میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت ریکارڈ کی تھی۔ اس میں تقریباً ایک گھنٹہ میں ایک پارہ کی ریکارڈنگ ہوئی۔ بعد میں آپ نے ایم ٹی اے اسٹوڈیو میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہدایت پر ایم ٹی اے کے لیے ریکارڈنگ کرائی۔ اس کا طریق کار یہ تھا کہ آپ پہلے تلاوت کرتے پھر مکرم نصیر احمد قمر صاحب اس کا ترجمہ ریکارڈ کراتے۔ آپ کو ایم ٹی اے پر نشر ہونے والی یسرنا القرآن کلاس کی ریکارڈنگ کروانے کی بھی توفیق ملی۔ یہ کلاسیں ایم ٹی اے پر نشر ہوتی ہیں اور جماعت کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ دنیا بھر کے احمدی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

احمدیت قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کو جماعت احمدیہ میں خلافت کے زیر سایہ جس طرح خدمت قرآن کا خاص طور پر موقع ملتا رہا اور اللہ تعالیٰ نےجو آپ کو قرآن کریم کے حوالے سےدنیا بھر میں عزت اور شہرت عطا فرمائی،یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا جس نے آ پ کو چُن لیا۔ تھل کے دور دراز کےگاؤں سے آپ کو اٹھایا اور خدمت دین کے بام عروج پر پہنچا دیا۔

آپ کی قرآن کریم کی خدمات کا سلسلہ نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے جو بہت وسیع ہے۔

آپ کی شادی مکرمہ ریاض بیگم صاحبہ بنت مکرم محبت علی صاحب آف پاکپتن سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی مکرمہ حبیبہ صاحبہ سے نوازا۔ آپ کی اہلیہ صاحبہ کی وفات کچھ سال پہلے ہوچکی ہے۔

مورخہ ۱۴؍جون کو بعد نماز عصر بوقت چھ بجےاحاطہ کوارٹرز صدر انجمن میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کی میت کو بہشتی مقبرہ دارالفضل لے جایا گیا جہاں سپرد خاک کیا گیا۔ قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا ہوئی۔ نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر اہل ربوہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ جن میں بزرگان سلسلہ، آپ کے شاگرد، دوست اور چاہنے والے شامل تھے۔ خدام ربوہ نے نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے اپنےفرائض بخوبی انجام دیئے، اطفال اس موقع پر ٹھنڈا پانی پلانے کی ڈیوٹی دے رہے تھے۔

اللہ تعالیٰ اس خادم قرآن وجود کی مغفرت فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button