حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصار اللہ کینیڈا کے نیشنل، ریجنل اور مقامی عاملہ ممبران کی(آن لائن) ملاقات

مورخہ۴؍جون۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصاراللہ کینیڈا کے نیشنل، ریجنل اور مقامی ممبران عاملہ کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ ممبران عاملہ نے ایوان طاہر پیس ولیج ٹورانٹو سے آن لائن شرکت کی۔

نشست کا آغاز دعا سے ہوا جس کے بعد عاملہ کے بعض ممبران کو حضور انورسے گفتگو کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

نائب صدر اوّل جن کے ذمہ شعبہ اشاعت کی نگرانی تھی سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کیا انصار اللہ کا رسالہ باقاعدہ شائع ہوتاہے؟اس پر موصوف نے عرض کی کہ ایک سہ ماہی رسالہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهکے نام سے شائع ہوتا ہے۔

اس پر حضور انورنے توجہ دلائی کہ کینیڈا میں اتنی بڑی انصار اللہ ہو گئی ہے، ابھی تک آپ لوگ سہ ماہی پر چل رہے ہیں ؟

ایک اور نائب صدر سے جن کے ذمہ انصار اللہ کینیڈا کی تاریخ کی تدوین کمیٹی کی نگرانی تھی حضور انور نے دریافت فرمایا کہ انصار اللہ کی تاریخ کے حوالے سے کس حد تک کام ہوا ہے؟ اس پر موصوف نے عرض کی کہ ۱۹۷۷ء سے ۲۰۲۲ءتک کے عرصے کی تمام معلومات جمع کر لی گئی ہیں۔ حضور انور نےاستفسار فرمایا کہ کینیڈا میں مجلس انصار اللہ کا قیام کب ہوا تھا؟ اس پر موصوف نے عرض کی کہ ۱۹۷۷ء میں ہوا تھا تاہم پہلے صدر ۱۹۹۱ء میں منتخب ہوئے تھے۔پہلے زعیم انصار اللہ کے متعلق حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کون تھے؟ اس پر موصوف نے عرض کی کہ ۱۹۷۷ء میں پہلے زعیم بنے تھے لیکن ان کا نام مستحضر نہیں۔

قائد مال سے گفتگو کرتے ہوئے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان کا پاکستان میں کہاں سے تعلق ہےاور کتنے عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہیں؟

قائد تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ وہ سہ ماہی امتحان نیز نصاب تیار کرنے کا کام کرتے ہیں۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ گذشتہ سال کتنے لوگوں نے امتحان میں حصہ لیا اور کونسی کتاب مطالعہ کے لیے مقرر کی تھی؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ پہلی سہ ماہی کےلیے کتاب ’’ہماری تعلیم‘‘ جبکہ دوسری اور تیسری سہ ماہی کے لیے ’’شہادۃ القرآن‘‘ مقرر کی گئی تھی جبکہ چوتھی سہ ماہی کی کتاب ’’نشانِ آسمانی‘‘ہے۔ موصوف نے عرض کی کہ ۴۵ فیصد انصار امتحان میں حصہ لیتے ہیں۔ حضور انور نے توجہ دلائی کہ نیشنل، ریجنل اور مقامی مجالس عاملہ کے ممبران کو ان امتحانات میں حصہ لینا چاہیے۔

ایک نائب صدر مجلس سے جن کے ذمہ دو ریجنز کی نگرانی تھی حضور انور نے استفسار فرمایا کہ ان دونوں ریجنز میں کتنی تجنید ہے؟ اس پر موصوف نے عرض کی کہ ۴۹۵؍انصار ٹورانٹو ویسٹ میں جبکہ Prairiesریجن میں ۴۳۹؍ کی تجنید ہے۔

ایک اَورنائب صدر سے جن کے ذمہ دو ریجنز کی نگرانی تھی حضور انور نے استفسار فرمایا کہ ان کے سپرد ریجنز میں اجتماع کب منعقد ہو گا؟ اس پر موصوف نے عرض کی کہ اگست کے تیسرے ہفتے میں انشاء اللہ منعقد ہو گا۔

اس کے بعد قائد تجنید نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ انہوں نےتجنید کا کام کرنے کےلیے ایک software بھی تیار کیا ہے۔

انصار اللہ کے سہ ماہی رسالہ کو ماہنامہ کرنے کے حوالے سے قائد اشاعت کو حضور انور نے فرمایا کہ ابھی تک تین مہینے پر کیوں رکے ہوئے ہیں؟ ریگولر ہونا چاہیے۔تبھی تو انصار کو کچھ بھی پتا نہیں لگتا ۔تین مہینے کے بعد ایک رسالہ جاتا ہے۔ انصار کہتے ہیں کہ چلو دیکھ لیں گے، پڑھ لیں گے، وہ بھی کوئی نہیں پڑھتا۔ اگر ریگولر آنے والا ہو یا پہلے کم ازکم تین مہینے سے دو مہینے پر لائیں، پھر دو مہینے سے ایک مہینے پرلائیں تو آہستہ آہستہ انصار کو بھی پڑھنے کی عادت پڑے۔

دوسری کوشش یہ کریں کہ آپ کے ہر لیول پر عاملہ کے ممبران رسالہ پڑھا کریں۔ نہیں تو پھرwaste of potentialاورپیسے کا بھی ضیاع ہے۔لکھنے والوں کی کوئی حوصلہ افزائی بھی نہیں ہوتی۔پڑھنے والے مضامین کوئی نہیں ہوتے اور پھر ٹکسالی مضامین ہوں۔

کوشش کریں (اور جائزہ لیں)کہ کیا جدت پیدا کی جا سکتی ہے؟اب آپ کے انصار اللہ میں مختلف طبقات شامل ہیں۔صرف بوڑھے نہیں ہیں بلکہ ایسے انصار بھی آ گئے ہیں جو یہاں کے پڑھے لکھے ہیں۔ایکnormal averageپڑھا لکھا ہے، ایک زیادہ پڑھا لکھا اور ایک بہت زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ہر ایک طبقے کے مطابق کچھ نہ کچھ مضامین آنے چاہئیں اور کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ لکھنے والے exploreکریں۔آپ کے انصار اللہ میں زیادہ لکھاری ہونے چاہئیں۔اس کو بھیencourageکرنا شعبہ اشاعت کا کام ہے۔ تلاش کریں کون کون لکھنے والے ہیں ۔مضمون نویسی کا کوئی مقابلہ کرا دیں کہ جس کامضمون اچھا ہو گا وہ شائع ہو گا، اس کو تھوڑا سا انعام ملے گا یا کوئی اور حوصلہ افزائی ہو توشاید اس طرح آپ کے مزید لکھنے والے پیدا ہو جائیں۔اب تو انصار کا بھی وہی بچوں والا حال ہے کہ انعام دو تو کام کرتے ہیں، نہیں تو نہیں کرتے۔

حضور انورنے قائد تربیت سے پنج وقتہ نماز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ عمومی طور پر مساجد کی حاضری دیکھ کر پتا لگ ہی جاتا ہے کہ آپ کے نماز باجماعت پڑھنے والے انصار کتنے ہوتےہیں۔موصوف کےعرض کرنے پر کہ ابھی اس پر کام کرنے کی کافی گنجائش ہےاور بتایا کہ دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر تقریباً پچاس فیصد انصار نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔

اس پر حضورانور نے اظہار تشویش کرتے ہوئے فرمایا کہ انصار میں آ کر بھی نماز پڑھنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی تو پھر کب ہونی ہے؟ بعد میں تو اگلا جہان ہی رہ جاتا ہے۔مستقل کوئی نہ کوئی میسج ان کو بھیجتے رہا کریں واٹس ایپ میں یا کسی اورطریقے سے تاکہ نماز، قرآن کریم اوراس کا ترجمہ پڑھنے کی طرف توجہ ہو۔تو بہرحال پھر اس سے کچھ نہ کچھ پڑھنے کی طرف خیال پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ بجائے صرف رپورٹ فارم پر relyکرنے کے اصل مقصد یہ ہے کہ توجہ پیدا ہو۔اس کے لیے کوئی نیا طریقہ اختیار کریں اور اگر انصار کومستقل میسج جاتے رہیں تو توجہ پیدا ہوتی رہے گی۔

ایک معاون صدر سے جن کے ذمہ مجلس انصار اللہ کی جائیداد اور ضیافت کی نگرانی تھی حضور انور نے استفسار فرمایا کہ انصاراللہ کی کتنی جائیداد ہے؟ اس پر موصوف نے عرض کی کہ تین جائیدادیں ہیں جو تمام Peace Villageمیں واقع ہیں۔

زعیم اعلیٰ مقامی سے حضور انور نے مقامی ریجن کی تجنید دریافت فرمائی جس پر موصوف نے عرض کی کہPeace Villageمیں ۴۹۱؍انصار ہیں۔

قائد وقف جدید نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انصار اللہ کا جماعت کینیڈا کے کُل چندہ وقف جدید میں ۳۸؍ فیصد حصہ تھا۔ اس پر حضور انور نے اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔

ایڈیشنل قائد تبلیغ نے حضور انور کے استفسار پر عرض کی کہ امسال انصار اللہ نے چار بیعتیںکروائی ہیں۔

حضور انور کے استفسار پر قائد عمومی نے بتایا کہ ہماری ۱۱۰؍مجالس ہیں۔تمام مجالس رپورٹس بھیجتی ہیں اور ان میں سے اکثر کو جواب دیا جاتا ہے۔

اس پر حضور انور نے راہنمائی فرمائی کہ جو رپورٹ بھیجتے ہیں ان کو کم از کم acknowledgeتو کر دیا کریں۔اس سے ان کوencouragementہوتی ہے کہ مرکز ہماری چیز دیکھ رہا ہے اس لیے ہم بھیجتے رہیں۔جب ان کو پتا ہوگا کہ مرکز نے جواب نہیں بھیجنا تو وہ ویسے ہی ایک فارم fill اور دستخط کر کےآپ کو بھیج دیا کریں گےاور کہیں گے کہ کیا فرق پڑتا ہے کام کریں یا نہ کریں۔ اس لیے صدر صاحب یا قائد عمومی یا متعلقہ قائدین کی طرف سے تبصرہ جانا چاہیے۔

قائد تعلیم القرآن و وقف عارضی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک ۱۰۶۰؍ تعلیم القرآن کلاسز منعقد ہوئی ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ عاملہ کے ممبران کو ان میں شامل ہونا چاہیے۔

قائد تحریک جدید نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انصار اللہ کا جماعت کینیڈا کے کُل چندہ تحریک جدید میں ۳۵؍ فیصد حصہ تھا۔

حضور انورنے قائد ایثار سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ افریقہ میں انسانی ہمدردی کے تحت کوئی منصوبہ شروع کریں۔انصار اللہ افریقہ میں ایک ہسپتال بنائے یا کوئی اور بڑا منصوبہ شروع کرے۔ حضور انور نے مجلس انصار اللہ برطانیہ کی مثال دی جنہوں نےبرکینا فاسو میں Masroor Eye Instituteکا ادارہ قائم کیا ہے اورتوجہ دلائی کہ انصار اللہ کینیڈا بھی ایسی کوششوں میں حصہ لے۔قائد ایثار نے بتایا کہ وہ اس وقت پانی کے کنویں کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور اس کی تکمیل کے بعد ایک اور بڑے منصوبے کو زیر غور لا رہے ہیں۔

حضورانور نے قائد تربیت نومبائعین کو ہدایت فرمائی کہ ہر ایک کے لیے آپ کو تربیت اور اپنے سسٹم میں absorbکرنے کے لیے مختلف پلان بنانا پڑے گا ۔ نومبائعین کو شکوہ رہتا ہے کہ آپ لوگ ہمارے ساتھ صحیح طرحinteract نہیں کرتے اور ہمیں صحیح طرحintegrateکرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ان کے ساتھ ذاتی رابطے رکھیں اور مواخات کا سلسلہ بنائیں تو پھر آپ ان کو سنبھال سکتے ہیں۔ہر ایک نومبائع کو ایک پرانےاحمدی کے سپرد کریں اور مواخات کا سلسلہ قائم کریں تب یہ لوگ آپ کے ساتھ absorbہوں گے۔

قائد تربیت نومبائعین نے بتایا کہ ۲۰۱۷ء سے پرانے نو مبائعین سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور ان کوباقاعدگی سے حضور انور کا خطبہ جمعہ بھی بھجوایا جاتا ہے۔

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ سب کچھ بھجوانے کے باوجود جب تک اپنے اندر مجلس میں نہیں بٹھائیں گے، ساتھ نہیں رہیں گے، personal contactنہیں کریں گے، کوئی نہ کوئی ان کا دوست نہیں بنائیں گے، ان کو یہ محسوس ہو گا کہ ہمارے سے آپ نے distanceرکھا ہوا ہے۔یہ احساس نہیں ہونا چاہیےبلکہ ان کو قریب لانے کی کوشش کریں۔

اس کے بعد بقیہ وقت میں بعض اراکین کو حضور انور سے سوالات کرنے کا موقع ملا۔

ایک سوال کیا گیا کہ مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے بچوں کی والدین سے مختلف پسند، ناپسند، مشاغل اور دیگر امور کی وجہ سے بعض اوقات والدین اور بچوں کے درمیان ایک کمیونیکیشن گیپ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ کھل کر اپنی بات یا احساسات ایک دوسرے تک نہیں پہنچا پاتے، اس فاصلے کو کم کرنے کے لیے ہم والدین کو کیا کرنا چاہیے تا کہ ہم احسن رنگ میں اپنے بچوں کی تربیت کر سکیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ اگر میرے پروگرام سنتے رہے ہیں، باقاعدہ سن رہے ہوں تو آپ کو پتا ہونا چاہیے۔ مَیں ہر دفعہ، ہر مجلس میں کہیں نہ کہیں یہی بات کرتا ہوں۔ خطبات، تقریروں اور جو آپ کی ملاقاتیں ہوتی ہیں ان میں بھی کہہ رہا ہوں کہ کمیونیکیشن گیپ کیوں ہے، اس کو کم کریں۔

اگر آپ نےاپنے بچوں اور اپنی نسلوں کو سنبھالنا ہےتو بیماری بھی آپ کو پتا ہے اور یہ بھی کہ اس کا علاج کیا ہے کہ اس گیپ کو کم کیا جائے۔ یہ تو ہر ایک گھر، اپنے ماحول میں ہر ایک کو اپنے حساب سے تربیت کرنی پڑے گی، بچوں کو قریب لانا پڑے گا۔ ایک بچہ سات سے دس سال تک ماں باپ سے attach رہتا ہے، اگر ماں اور باپ دونوں اسی طرح اس attachmentکو جاری رکھیں اور بڑے ہونے کے بعد جب بچہ باہر کھیلنے کے لیے جاتا ہے اس وقت بھی، جب گھر آئے تو اس سے باتیں شیئر کریں کہ اچھا تم نے کیا کیا، کس طرح کھیلے، کون کون سے لوگوں سے ملے، کیا باتیں ہوئیں۔ ان کو ایکconfidenceہونا چاہیے ہم جو شیئر کریں گے، ماں باپ ہماری بات پیار سے سنیں گے اور پھر ہم سے اس کے متعلقdiscussionبھی کریں گے اور اگر کہیں کوئی سمجھانے والی بات ہوئی تو سمجھا بھی دیں گے۔یہ نہیں کہ میںکوئی ہوائی باتیں کر رہا ہوں۔ ایسے ماں باپ ہیں جو اس طرح کرتے ہیںاور پھر ان کے بچےرابطے میں بھی رہتے ہیں ۔

بات یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ سکولوں میں اتنی دیرکھلاتے ہیں یا باہر جا کر بچے اثر لے کر آ جاتے ہیں، اگر تو گھر کا ماحول ایسا ہو کہ پُرامن ہو اور ماں باپ کے ساتھ بچوں کو یہ احساس ہو کہ ہمارا دوستی کا رشتہ ہےعلاوہ ماں باپ کے رشتے کے،تو وہ بہت ساری باتیں شیئر بھی کرتے ہیں اور وقت بھی گھر میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہاں مغربی دنیا میں ۳۶۵؍دنوں میں سے ۱۷۰maximum؍دن سکولوں میںہوتے ہیں، باقی وقت تو بچے آپ کے پاس ہوتے ہیں۔اس میں سے آپ کہہ دیں کہ بچے باہر اپنے دوستوں سے کھیلنے چلے گئے تو روزانہ دو گھنٹے کے لیے چلے گئے۔اگر ایک بچہ چھ گھنٹے ہی باہر رہتا ہے یا آٹھ گھنٹے باہر رہتا ہے تو وہ ماں باپ کی غلطی ہے۔کیوں باہر رہتا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول سےsatisfiedنہیں ہے۔ ان کے لیے ایک ماحول پیدا کریں جہاں وہsatisfiedہوںاور پھرweekendsمیں ان کے ساتھ خاص پروگرام بنائیں۔گھر میں روزانہ ہی ماں یا باپ ان کو وقت دے کر اور ان کی باتوں کے جواب دے رہے ہوں۔آپ کو پتا ہو کہ ہرage groupکے بچہ کی سطح پر آ کر آپ نے اس کے ساتھ باتیں کرنی ہیں، اس کے سوالوں کے جواب دینے ہیں۔

آج کل کے ماحول کی خرابیاں اور برائیاں اگر وہ خود بچہ نہیں بھی کہتا تو کہانی کی صورت بنا کے بچوں سے شیئر کریں کہ یہ یہ برائیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی، اللہ تعالیٰ اس بارے میں یہ فرماتا ہے۔ ایک اچھا احمدی مسلمان بچہ کیا ہونا چاہیے، اس کو کس طرح رہنا چاہیے، کس قسم کی باتیں سیکھنی چاہئیں اور ہم سکولوں میں بعض دفعہ غلط باتیں بھی سیکھ لیتے ہیں۔

بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ شرماتے ہیں کہ سکول یا باہر کے ماحول میں بچے جو باتیں سیکھ کر آ رہے ہیں اس کو شیئر کریں گے تو پتا نہیں بچہ ہمیں کیا کہے گا۔لیکن بچے کے دماغ میں سوال ہوتے ہیں۔وہ ڈر کے مارے سوال نہیں کرتا اور ماں باپ شرما کر باتیں نہیں کر رہے ہوتے۔ اس لیے خود ان باتوں کوinitiateکرنا پڑے گا ۔

اس طرح کریں گے، اپنے ماحول کے حساب سے ہر ایک کرے تو اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے پھر اور ایسے بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے گھروں میں اس طرح کیا اور ان کے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں۔ وقت تو ماں باپ کودینا پڑے گا۔قربانی بھی کرنی پڑے گی اور اپنے اپنے ماحول کے مطابق ان کوplanبنانا پڑے گا۔بچے کو یہ احساس دلانا پڑے گا کہ ہم تمہارے ہمدرد ، ہم ہی تمہارے سگے ہیں اور ہم جو بھی کرتے ہیں تمہاری بہتری کے لیے کرتے ہیں۔

اس بارے میں مختلف وقتوں میں مختلف باتیں مَیں بتا چکا ہوں اور آپ ماشاء اللہ پڑھے لکھے لوگ ہیں آپ لوگوں کو خود شرماہٹ اورجھجک کو توڑنا ہو گا۔آپ کہہ دیتے ہیں ہم کس طرح بات کریں لیکن دنیا میں وہ باہر سے سب کچھ سیکھ کے آتے ہیں۔ تو ہمیں بات کہانی کے رنگ میں کرنی پڑے گی، یہ نہیں کہdirectly کہہ دیں کہ وہ بچہ چڑ جائے یا خوف زدہ ہو جائے۔ ایسے رنگ میں کہیں جو بچے کوattractکرنے والی بات ہو۔پھر وہ آپ کی بات سنے، آپ سے شیئر کرے، پھر وہ سوال کرے کہ اچھا سکول والے تو یہ کہتے ہیں،آپ یہ کہتے ہیں۔ پھر آپ اس کا جواب دیں کہ ہاں سکول میں یہ کرا دیتے ہیں یا تم نے باہر کے ماحول میں یہ سیکھا، اسلام یہ کہتا ہے، احمدیت یہ کہتی ہے، اس کا یہ فائدہ ہے، اس کا یہ نقصان ہے تو نفع نقصان، فائدہ، اچھائی،برائی کا جب فرق بتائیں گے تو پھر بچے کے ذہن میں باتیں بیٹھیں گی اور چھوٹے ہونے سے لے کر بڑے ہونے تک خاص طور پر پندرہ تا سترہ سال تک کی عمر کے بچوں کی آپ نگرانی کریں تو پھر آگے ٹھیک نکل آتے ہیں۔

بعد ازاں حضور انور نے صدر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ سوال ہی کافی تھا، اسی کو سنبھال لیں تو بڑی بات ہے۔

باقی آپ کے ساتھ بےشمار قائدین، ناظمین، منتظمین بیٹھے ہوئے ہیں اور ماشاء اللہ کینیڈا کی جماعت بھی بڑی ہے، مجالس بھی ۱۱۰؍ہیں، ظاہر ہے ہر ایک سے انفرادی طور پر تو اب ملنا مشکل ہے، اگر آپ علیحدہ علیحدہ کوئی میٹنگیں کر رہے ہوتے تو شاید سب کا انفرادی طور پر تعارف بھی ہو جاتا، کبھی موقع ملا تو وہ بھی کر لیں گے ۔لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ انصار اللہ کینیڈا کو توفیق دے کہ وہ صحیح رنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کریں نیز اپنے بچوں ، اپنی نسلوں اور جماعت کے جو حقوق ان پر ہیں، ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔یہ سارے کام بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتے۔بغیر اپنے آپ کو کسی مشکل میں ڈالے نہیں ہوسکتے۔ہر اچھے کام کے لیے چھوٹی موٹی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔اس لیے کوشش کریں کہ آپ انصار اللہ ،جو چالیس سال کی عمر کے لوگ ہیں، mature ہو چکے ہیں ،انہوں نے کس طرح جماعت کے بچوں، اگلی نسل، عورتوں ، لڑکیوں اور لڑکوں کو سنبھالنا ہے۔یہ سب آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی ہرممکن حد تک کوشش کریں اور اگر کہیں سستیاں ہیں تو ان کو دور کریں۔

ہر سطح پرآپ کی مجلس active ہونی چاہیے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر عاملہ ممبر کا خاص طور پر اور ہر ناصر کا عام طورپر اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی رابطہ ہونا چاہیے۔اس عمر میں آ کر تو سو فیصد لوگوں کو نمازیں پڑھنے کا خیال آنا چاہیے اور پھر قرآن کریم پڑھنے، تلاوت کرنے کا خیال آنا چاہیے۔ یہی ماحول جب گھروں میں پیدا ہو گاتو آپ لوگ میاں، بیوی اور بچوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں گے اور آپ کے نمونے کو دیکھ کے پھر بچے بھی صحیح رنگ میں اپنی زندگیاں اسلامی ماحول میں گزارنے والے ہوں گے۔یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے خاص طور پران ملکوں میں جہاں ہر طرف باہر اور سکولوں میں بھی ایک کھلی بے حیائی ہے اور اس بے حیائی کو بے حیائی کا نام نہیں دیا جاتا، اس کو نئے زمانے کی تعلیم اور روشنی کا نام دیا جاتا ہے، یہ روشنی اور تعلیم نہیں بلکہ دہریت کا ایجنڈا ہے، یہ ایجنڈا خدا تعالیٰ کے خلاف چلنے والوں کا ہے اور اس ایجنڈے کو ہم نے کس طرح counterکرنا ہے یہ ہر ناصر کا فرض ہے۔

چالیس سال کے بعد، اس عمر پر پہنچ کے جو mature عمر ہوتی ہے، بعضوں کے بچے چھوٹے ہیں، کچھ کےبچے جوان ہو گئے ہیں، کچھ انصار ایسے ہیں جن کے بچوں کے بچے آگے جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے نواسوں، پوتوں اور پوتیوں کو سنبھالنا ہے۔کچھ نے اپنے بچوں کو سنبھالنا ہے۔ تو ایک بہت بڑا کام ہے جو انصار اللہ کیage groupکے لیے ہے اور ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا مقابلہ ہم نے کرنا ہے۔پس اس لحاظ سے اپنی تنظیم کو activeکرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے اور جیسا کہ مَیں نے کہا سب سے بڑا ذریعہ اس کایہی ہے کہ ہر ایک کا خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہو تبھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ کام ہوں گے۔ہم اپنی کوششوں سے یہ کام نہیں کر سکتے۔

ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

(مرتبہ: قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button