حضرت مصلح موعود ؓ

دُعا کے ساتھ سامان سے کام لینا بھی ضروری ہے

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۶ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو احادیث کی روایات اور حضرت مسیح موعودؑ کے پاک عمل کی روشنی میں سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اسباب اور ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے صرف اللہ تعالیٰ سے ہی کامیابی کی دعا اور امید کرنےکا نام توکل ہے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

حضورؓ نے سورہ فاتحہ پڑھ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی جو کام ہوتا ہے ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے ارادے اور منشاء کے ماتحت بنی نوع انسان کے لئے کچھ قوانین بھی مقرر فرمائے ہیں۔ اگر انسان ان سے ایک طرف ہو جاتا ہے تو دُکھ اُٹھاتا ہے۔ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ

دعا اور توکل کا مسئلہ ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے

اور یہ بات بالکل درست ہے کہ جو کچھ دعا کر سکتی ہے وہ کوئی اور چیز نہیں کر سکتی ۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ سامان کو بھی اس میں بڑا دخل ہے ۔ ہاں صرف سامان پر ہی بھروسہ کر لینا کہ جو کچھ ہوسکتا ہے بس انہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے یہ شرک ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا اتعلمون ماذا قال ربکم کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ صحابہؓ نے عرض کی اللہ اور اُس کا رسول خوب جانتے ہیں ہمیں تو علم نہیں۔ آپؐ نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے من قال مطرنا نبوءٍ كذا وكذا کہ جس نے کہا بارشیں فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوتی ہیں اور یہ بارش جو ہوئی تو اسی لئے ہوئی کہ اس ستارے نے اپنا اثر کیا۔ ایسا شخص کا فربی و مؤمن بالکواکب ۔ وہ میرا تو کافر ہوتا ہے لیکن ستاروں پر ایمان لانے والا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ موسموں پر کواکب کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ چاند اور سورج بھی کو اکب میں سے ہی ہیں اور ان کا موسموں کے ساتھ بڑا بھاری تعلق ہے مگر باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوئی وہ اللہ کے کافر ہیں اور ستاروں کے مومن (بخاری کتاب المغازى باب غزوة الحديبيۃ)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ستاروں کے تغیرات کا کوئی اثر ہی نہیں ۔ بعض لوگ کم فہمی کے باعث یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ اس حدیث میں کواکب کے اثرات سے انکار کیا گیا ہے۔ پھر وہ اس یقینی اور مشاہدہ میں آئی ہوئی بات کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں کہ نہیں کواکب کا کوئی اثر نہیں حالانکہ ان کا اثر ہوتا اور ضرور ہوتا ہےمگر خداتعالیٰ کی ذات کو بالکل نظر انداز کر کے بکلی ستاروں پر انحصار کرنا کہ بارش جو برساتے ہیں تو یہ ستارے ہی برساتے ہیں یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں۔مگر ایسا شخص خدا کا منکر نہیں۔ جو خدا کو اصل موجب قرار دیتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی ان ستاروں کو پیدا کیا اور ان میں اثرات رکھے اور اسی کے ارادے کے ماتحت وہ اپنا اثر کرتے ہیں۔ دیکھئے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا شرک ہے مگر یہ عقیدہ کہ ملائکہ خدا کا کلام لاتے ہیں تثبیت قلب وغیرہ کرتے ہیں شرک نہیں ہے۔ لیکن ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔ مشرک اور کافر بھی مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں اور وہ کچھ کام کرتے ہیں اور مسلمان بھی مانتے آئے اور مانتے ہیں کہ فرشتے ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری اور لازمی ہے مگر باوجود اس کے کافر مشرک کہلائے۔ کیوں؟ اسی لئے کہ کفار کا ماننا اس رنگ میں ہے کہ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں خود ہی کرتے ہیں مگر مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے تمام کام خدا تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ شرک نہیں ۔

ایک دفعہ آنحضرتؐ کے پاس ایک اعرابی آیا۔ آپؐ نے پو چھا تمہارا اونٹ کہاں ہے۔ اُس نے کہا که با ہر کھلا چھوڑ دیا ہے اور اللہ پر تو کل کر کے آپؐ کے پاس آگیا ہوں ۔ فرمایا جاؤ اُونٹ کا گھٹنہ باندھو پھر توکل کرو (ترمذی كتاب صفة القيامة والرقائق والورع باب (حديث اعقلها و توکل))۔حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے کہ اسباب اور ذرائع سے کا م نہ لینا اور پھر یہ کہنا کہ میں نے خدا پر تو کل کیا ہے خدا کی آزمائش کرنا ہے لیکن ایک ادنیٰ انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ بادشاہ کی آزمائش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے سامان کو ترک کرنے والا اور ان کو لغو قرار دینے والا متوکل نہیں کہلا سکتا بلکہ ان ذرائع کو جو خدا نے پیدا کئے ہیں کام میں لا کر پھر انہی پر اپنی کامیابی کا انحصار نہ کرتے ہوئے کامیابی کی امیدخداتعالیٰ پر ہی رکھنے والے کا نام متوکل ہے۔

ہاں خد اتعالیٰ خود اگر کسی خاص ذریعے سے کام لینا منع فرمادے تو وہ الگ بات ہے ورنہ اُس کے پیدا کر دہ سامان کو لغو قرار دے کر ان کو استعمال میں نہ لانا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرنا ہے۔ دیکھو طاعون کا ٹیکہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی ایک ذریعہ صحت ہے اور تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اس وقت تک یہ ایک عمدہ علاج ہے مگر حضرت صاحبؑ نے اپنی جماعت کو اس کے لگوانے سے منع فرمایا(کشتی ٔ نوح) حالانکہ آپؑ نے یہ بھی تسلیم فرمایا ہے کہ ٹیکہ بھی ایک علاج ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے خود اس ذریعہ کو استعمال میں لانے سے روک دیا اس لئے آپؑ نے اپنی جماعت کو ٹیکہ کے لگوانے سے منع کر دیا ہاں ان کو اجازت دے دی جو حکام کی ماتحتی میں ٹیکہ لگوانے پر مجبور کئے جاتے ہیں۔

ٹیکہ کے متعلق قطعی رائے لگائی گئی تھی کہ طاعون کے لئے یہ یقینی علاج ہے اس لئے حضرت صاحب نے اس کے لگوانے سے روک دیا تا کہ آپ کی جماعت کی یہ خصوصیت کہ اس پر طاعون کا حملہ نہ ہو گا مشتبہ نہ ہو جائے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ ٹیکہ لگوانے کی وجہ سے طاعون نے حملہ نہیں کیا ورنہ دوسرے ذرائع کو کام میں لانے سے حضرت صاحبؑ نے نہیں روکا بلکہ فرماتے کہ جرابیں پہنو۔ اندھیری جگہوں میں نہ رہو۔ اور مکانات کو صاف اور ستھرارکھو۔ چونکہ ٹیکے کو یقینی علاج سمجھا گیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس سے روک دیا اور دوسرے ذرائع پر بھروسہ نہیں کیا گیا تھا ان کے استعمال سے نہیں روکا گیا تھا حالانکہ واقعہ میں ٹیکہ بھی علاج تو ہے مگر چونکہ یہ علاج پیش گوئی میں رخنہ ڈالنے والا تھا اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کو منع فرما دیا (ہاں جو ٹیکہ لگوانے پر مجبور کیا جا وے وہ مجبور ہے ) تا مخالفین کے لئے یہ ایک نشان ہو کہ با وجود یقینی علاج کو استعمال نہ کرنے کے ہماری جماعت کے لوگ شاذ و نادر ہی اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں مگر جہاں خدا کا حکم نہ ہو وہاں اسباب اور ذرائع کو کام میں لانا ہی تو کل ہے۔

چنانچہ سورہ فاتحہ جو پینتیس بار ہر روز بلکہ پچاس ساٹھ بار اگر نوافل وغیرہ بھی شمار کئے جائیں پڑھی جاتی ہے۔ اور پھر کوئی روک نہیں کہ ہزار بار بھی پڑھی جائے کیونکہ نوافل کا پڑھنا کوئی محدود نہیں۔ اس میں خدا تعالیٰ نے دعا کے گُر بتائے ہیں۔ اوّل تو خود دعا سکھلائی ہے کیونکہ بندہ اگر خود دعا تجویز کرتا تو غلطی کا امکان تھا مگر خدا تعالیٰ نے دُعا خود سکھلا دی اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ دعا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ خود بھی کچھ کوشش کرے۔ فرمایا

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ صرف منہ سے ہم تجھے معبود نہیں کہتے بلکہ عملاً اس عبودیت کے بجالانے کے لئے حاضر ہیں۔ پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَآپ عبودیت کے طریق ہمیں بتائیں۔ عبودیت خدا تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہے جب خدا کے فضل کے لئے بھی سامان عبودیت کی ضرورت ہے تو پھر دنیاوی امور کے متعلق بدرجہ اولیٰ سامان کی ضرورت ہونی چاہیئے۔ اگر کوئی عبودیت ان طریق پر نہیں کرتا تو پھر اس کی دعا اور عبادت کا کوئی فائدہ نہیں۔

بہت لوگ ہیں جب ہم سے دُعا کا ذ کر سنتے ہیں یا مولوی صاحب (حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیرویؓ خلیفۃ المسیح اوّل )یا حضرت صاحبؑ کی تحریروں میں پڑھتے ہیں تو وہ یہی سمجھ لیتے ہیں کہ بس جو کچھ ہے وہ دعا ہی دُعا ہے۔ اس بناء پر وہ کوشش اور محنت کو لغواور بے فائدہ سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حضرت صاحبؑ فرماتے ہیں کہ

ایسے لوگ جو اللہ تعالےٰ کے پیدا کر دہ سامان سے کام نہیں لیتے وہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش کرتے ہیں۔ ہاں اگر با وجود کوشش اور سعی کے کوئی سامان میسر نہ ہو سکے تو ایسا شخص اگر با وجود ان ظاہری سامان کے نہ ہونے کے بھی دُعا کرتا ہے اور قبولیت دعا کے شرائط کو پورے طور پر بہم پہنچاتا ہے تو اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔

ضرورت کے مطابق کسی قافلے کی گری پڑی چیز ہی اس کو مل جائے گی جس کے ذریعہ وہ اپنی حاجت کو رفع کر لےگا یا خدا تعالیٰ اس کی حاجت کو ہی دور کر دے گا ۔مگر یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ اپنی طرف سے انسان کوشش اور محنت کا حق ادا کر چکے۔ احادیث میں آیا ہے کہ کئی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا موقع پیش آیا کہ سفر میں پانی کم ہو گیا آپؐ نے تھوڑے سے پانی میں ہاتھ ڈالا اور وہ بڑھ گیا۔ ( صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تفضيل نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم)مگر یہ بھی ثابت ہے کہ اس خارق عادت امرد کھلانے سے پہلے آپؐ نے چاروں طرف آدمی دوڑا ئے کہ پانی کی تلاش کرو لیکن جب پانی کا کوئی سراغ نہ ملا تو پھر آپؐ نے ایسے ایسے معجزے دکھلائے کسی ایسی جگہ آپؐ نے کوئی معجزہ نہیں دکھلایا کہ جہاں سے پانچ سات میل تک پانی مل سکتا ہو اور آپؐ نے کہا ہو کہ وہاں سے پانی لانے کے لئے تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے لو ہم خود اسی جگہ پانی بڑھا دیتے ہیں بلکہ اُس وقت آپؐ نے ایسا کیا جبکہ پانی کے ملنے سے بالکل نا اُمیدی ہوئی۔ تو ایک شخص نے اگر پورا زاد راہ لے کر ایک سینکڑوں میل کے جنگل کا سفر اختیار کیا ہو لیکن راستے میں اس کے سامان پر کوئی آفت آپڑی ہو اور وہ تباہ ہو گیا ہو اس لئے وہ نہ آگے کا رہانہ پیچھے کا۔ ایسے وقت میں بغیر سامان مہیا کئے بھی وہ صرف دعا پر بھروسہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایسا موقعہ ہے کہ اب سامان کا مہیا کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے۔ مگر جب کوئی شخص بغیر زاد راہ کے اتنا لمبا سفر اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو ساتھ بوجھ کیا اُٹھانا ہے دعا کر لیا کریں گے تو یہ درست نہیں ایسا کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کی پرواہ کیا ہے۔

ہماری جماعت کو یا د رکھنا چاہیئے کہ دعاؤں کے ساتھ سامان کی بھی بڑی ضرورت ہے جو لوگ صرف دعا پر ہی بھروسہ کر کے سامان کو لغو قرار دیتے ہیں وہ بجائے انعام الٰہی سے حصہ لینے کے غضبِ الٰہی کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ وہ اس طریق عمل سے خدا تعالیٰ کا امتحان لیتے ہیں۔

امتحان ہمیشہ لائق لیا کرتا ہے۔ کیا کبھی کسی وزیر نے بھی بادشاہ کا امتحان لیا۔ نہیں بلکہ بادشاہ اور اس کی طرف سے لائق اشخاص کسی کی عقل ، فہم اور لیاقت کو دیکھتے ہیں اور اس طرح کوئی وزارت کا عہدہ پاتا ہے۔ پھر کسی طالب علم کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے اُستاد کا امتحان لے ہاں اُستاد کا حق ہے کہ اپنےشاگرد کا امتحان لے تو پھر کسی انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا امتحان لے بندہ کا یہ کام ہرگز نہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ اپنے آپ کو انعامِ الٰہی کا نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا مستحق بناتا ہے جو لوگ دعاؤں کے عادی ہیں وہ اس بات کو کبھی نہ بھولیں ۔

صدقہ و خیرات وغیرہ جس قدر بھی محبت اور قربت الٰہی کے ذرائع ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے جو دعا کرے گا وہ اپنے آپ کو فضل الٰہی کا مستحق بنائے گا۔

اسی طرح دنیوی ترقی کے لئے بھی۔ مثلاً تجارت ہے ، حرفت ہے۔ جو کوشش اور محنت کرتا ہے اور پھر ساتھ ہی دعا بھی کرتا ہے اس کو خدا تعالیٰ ترقی دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے سامان کو ترک کرنا اس کی ہتک کرنا ہے ۔ اس لئے ایسے لوگوں کی محض دعاؤں کی خدا کو کوئی پرواہ نہیں مثلا ًکسی نے امتحان دینا ہے۔ اب وہ کہے کہ مغز خوری کون کرے چلو دُعا کر کے امتحان میں شریک ہو جائیں گے ایسا شخص سوائے اس کے کہ ناکام رہے اور کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ تو مقصد کے حصول کے لئے سامان کو مہیا کرنا اور اس سے کام لینا ضروری ہے اور پھر اس کے ساتھ دعا کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ بعض انسان سامان مہیا کر لیتے ہیں اور ان سے کام بھی پورے طور پر لیتے ہیں مگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ ان کی ساری محنت ضائع جاتی ہے۔ تو دعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ نتیجہ بھی خیر نکلتا ہے اور محنت کا ثمرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پورا پورا مل جاتا ہے۔

بعض لوگ سامان کو تو کل کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور سے گاڑی میں سوار ہوا اور اُسی گاڑی میں پیر جماعت علی شاہ بھی تھا۔ اُس نے کوئی ایسی چیز کھانے کو مجھے دینی چاہی جو میں نے کھانسی اور نزلے کے لئے مضرسمجھی اور کہا کہ مجھے نزلہ ہے میں نہیں کھا سکتا۔ پیر صاحب نے دیکھا کہ یہ موقعہ ہے کچھ تصوف کا اظہار کروں ۔ بولے۔ ریزش نزلہ کا کیا ہے اگر خدا کو منظور نہیں تو آپ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں نے کہا پیر صاحب! اگر آپ تھوڑی دیر پہلے یہ بتاتے تو آپ اور ہم دونوں فائدے میں رہتے اور وہ اس طرح کہ لاہور سے ہم ٹکٹ ہی نہ خریدتے بلکہ ٹانگے پربھی پیسے نہ خرچ کرتے اگر خدا کو منظور ہوتا تو وہ مجھے یونہی قادیان اور آپ کو امرتسر پہنچا دیتا (میں لاہور سے قادیان آرہا تھا اور وہ امرتسر) کہنے لگے۔ خیر یہ تو سامان ہیں۔ میں نے کہا پھر یہ بھی تندرستی کو قائم رکھنے کے سامان ہیں۔ کہنے لگا ہاں ہاں میرا بھی یہی مطلب تھا ۔ تو بعض لوگ سامان کا انکار قضاء و قدر کے ماتحت کر دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ہے تو ہو ہی جائے گا ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر یہ بات صحیح تسلیم کی جائے تو پھر خدا تعالیٰ کا بدکاروں اور کافروں کو سزائیں دینا محض ظلم سمجھا جائےگا اس کی تو ویسی ہی مثال ہو جائے گی کہ ایک شخص کے ہاتھ میں چھری پکڑا کر اور پھر اس کے ہاتھ کو پکڑ کر ایک دوسرے کے گلے پر پھیر کر قتل کرا دیتا ہے۔ اور پھر اس کو پھانسی پر لٹکاتا ہے کہ تو نے اسے کیوں قتل کیا۔

اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ سست ہوتے ہیں اُنہوں نے اپنی سستی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ ڈھکو نسلا بنا لیا ہے کہ جو کچھ ہو نا ہوتا ہے تقدیر سے ہوتا ہے۔

یہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں بعض تو قضاء و قدر کے ماتحت کہتے ہیں جف القلم بما ھو کائن کہ جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے ہی سے مقدر ہو چکا ہے اور اس طرح وہ سامان سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور یہ دنیا داروں کا طریق ہے کہ بدفعلیاں کیں اور قضا ءو قدر کے ذمہ لگا دیں۔ بعضوں نے دُعاؤں کے رنگ میں سامان کو ترک کر دیا ہے اور بعضوں نے تو کل کے ماتحت ۔ حالانکہ اسباب نہ دعا کے خلاف ہیں نہ قضاء و قدر کے خلاف اور نہ تو کل کے خلاف۔ کیونکہ یہ بھی تو خدا کے ہی پیدا کئے ہوئے سامان ہیں اور کام میں لانے کی غرض سے پیدا کئے گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے وقت جب طاعون نے زور پکڑا تو آپؓ نے حکم دیا کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنی جگہوں کو چھوڑ دو۔ تو بعض صحابہؓ نے اعتراض کیا کہ آپؓ خدا کی قضاء سے بھاگتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا نفر من قضاء اللّٰه الى قضاء اللّٰہ (مسلم كتاب السلام باب الطاعون والطيرة نيز الفاروق حصه اوّل مصنفہ مولانا شبلی نعمانی)کہ ہم خدا کی ایک قضاء سے بھاگ کر اس کی دوسری قضاء کی طرف پناہ لیتے ہیں۔ تو سامان بھی خدا کے ہی پیدا کر دہ ہیں ان سے کام لینا اس کی قضاء کے خلاف نہیں۔ اگر جبر تسلیم کیا جائے تو پھر خدا تعالیٰ ظالم ٹھہرتا ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کوئی خوبی خوبی ہی نہیں رہتی تا آپؐ سے کسی کے دل میں محبت پیدا ہو سکے ۔ ایک جبر یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ کے بڑے ہونے میں آپؐ کی کوئی خوبی نہیں خدا نے پکڑ کر آپؐ کو بڑا بنا دیا تو آپؐ کی ساری محنت ، ریاضت اور خدا کی راہ میں مصائب کا جھیلنا کچھ چیز ہی نہ سمجھا جائے گا۔ آپؐ کا دنیا میں صداقت کا پھیلا دینا کچھ وقعت نہیں رکھتا وہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے اگر محنت کی تو خدا نے پکڑ کر کرائی ۔

غرض اس طرح آپؐ کی کوئی خوبی بھی تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ آپؐ کی جو خوبی بھی دیکھے گا کہے گا یہ در اصل خدا کا فعل تھا آپؐ کا اس میں کیا دخل تھا لیکن سچی بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ سامان سے پورے طور پر کام لینے میں ہی مومن کی ترقی ہے اور مومن ہر رنگ میں ترقی کرتا ہے۔ صحابہؓ نے تجارت میں ترقی کی، حکومت میں ترقی کی، علوم میں ترقی کی ۔

غرض مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر رنگ میں دوسروں پر غالب رہے ۔ صنعت اختیار کرے تو اس میں اور حرفت اختیار کرے تو اُس میں۔ تجارت اختیار کرے تو اس میں ایک مومن کی یہی خواہش ہونی چاہیئے کہ وہ دوسروں پر غالب رہے۔

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ میں صرف دینی ترقی کی ہی کوشش محدود نہیں بلکہ جس نےتجارت کا پیشہ اختیار کیا ہوا ہے اس کو اس میں کوشش کر کے اَور ترقی کرنی چاہیئے اور اس طرح مومن کو اپنے ہر کام میں چستی سے کام لینا چاہیئے ۔ جو دنیا کے کاموں میں سستی کرتے ہیں وہ پھر دین میں بھی سستی کرنے لگ جاتے ہیں ۔

صحابہ ؓکو جب خدا نے دیکھا کہ وہ بڑے چست اور ہوشیار ہیں تو دین اور دنیا دونوں میں ان کو عروج اور ترقی بخشی۔

خدا کرے ہماری جماعت کے لوگ بھی بڑے کا رکن محنتی اور ہوشیار ہوں اور پھرباوجود اس کے خدا کے فضل پر امید رکھیں نہ کہ ظاہری سامانوں پر۔

(الفضل ۷؍نومبر۱۹۱۶ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button