الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ صابرہ احمد صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی سیرت و سوانح پر روشنی ڈالی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ ؓکے بطن سے ایک بیٹا 18؍دسمبر 1928ء کو قادیان میں عطا فرمایا جس کا نام طاہر احمدرکھا گیا۔ آپؒ کی والدہ کے ہاں دوبیٹیوں کی پیدائش کے بعد ایک بیٹا چھوٹی عمر میں فوت ہوگیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر یہ خوبصورت بچہ اُن کو عطا فرمایا تھا۔ آپؒ کی آنکھیں بھوری ، بال باریک اور سیاہ تھے۔ ناک ستواں لیکن ذرا خمدار تھی۔ رنگ گورا تھا۔ میانہ قد اور متناسب اور پھرتیلا جسم تھا۔ آپؒ بچپن میں بہت کم بیمار ہوئے۔ بہت شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ تھے۔ شرارتیں بھی کرتے لیکن ایسی نہیں کہ کسی کا دل دکھے۔ ہمجولیوں کے ساتھ کھیلتے اور مقابلہ کرتے۔ مثلاً دیوار پر چلنے کا مقابلہ یا بارش کے پانی سے بھرے ہوئے گڑھوںکو پھلانگنے کا مقابلہ، کچھ بڑے ہوئے تو فٹ بال اورکبڈی میں بھر پور حصہ لیتے رہے۔کبڈی میں تو آپؒ نے خاصی شہرت حاصل کی۔

آپؒ کا بچپن ہی تھا جب قادیان میں ایک کنواں کھودا جا رہا تھا۔آپؒ نے مزدوروں کو دیکھا کہ وہ کس طرح رسّہ پکڑ کر پائوں کنویں کی دیوار سے اٹکا کر نیچے اُترتے ہیں اور پھر اسی طرح اوپر چڑھ کر باہر آتے ہیں۔ شام ڈھلے جب مزدور چلے گئے تو آپؒ نے بھی کنویں میں اترنے کی ٹھانی۔ جونہی رسّہ پکڑا کنویں میں اترے تو ٹانگیں بہت چھوٹی تھیں اور دیوار تک پہنچ نہ سکتی تھیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ آپؒ تیزی سے نیچے گرتے چلے گئے اور رسّے نے ہاتھ چھلنی کردیے۔ اب آپؒ کو یہ ڈر تھا کہ امی جان نے زخمی ہاتھ دیکھے تو گھبراجائیں گی اور سزا بھی مل سکتی ہے۔ چنانچہ آپؒ ڈاکٹر کے پاس گئے، صرف مرہم ہاتھوں پر لگائی اور پٹی نہ باندھی۔ اس طرح یہ تکلیف برداشت کرتے رہے لیکن کسی کو پتا نہ لگنے دیا۔

آپؒ نے تعلیم کے سلسلہ میں نصابی کتب کے حوالہ سے تو خاص کارکردگی نہ دکھائی لیکن شروع سے ہی آپؒ کو مطالعہ کا بےپناہ شوق تھا اور غیر نصابی علمی کتب کا مطالعہ بڑے انہماک اور کثرت سے کیا کرتے تھے۔سائنس کا مضمون بہت پسند تھا۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے .F.Sc اور پھر پرائیویٹ B.Aکیا۔1949ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور 1953ء میںامتیاز کے سا تھ شاہد پاس کیا۔ لندن یونیورسٹی کے School of Oriental and African Studies میں بھی تعلیم حاصل کی اور انگریزی زبان میں خصوصاً خوب مہارت حاصل کرلی۔1957ء میں آپؒ واپس ربوہ تشریف لے آئے۔

حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں: اُمّ طاہرؓ ہر وقت تڑپ کر خود بھی دعا کرتیں اور دوسروں سے یہ دعا کرواتیں کہ ’میرا ایک ہی بیٹا ہے ،خدا کرے یہ خادم دین ہو۔ مَیں نے اسے خدا کے راستہ میں وقف کیا ہے‘۔ پھر آنسوئوں کے ساتھ یہ جملے بار بار دہراتیں کہ خدایا ! میرا طاری تیرا پر ستار ہو، یہ عابدو زاہد ہو، اسے خادم دین بنائیو! اسے اپنے عشق اور حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کے عشق اور حضرت مسیح موعودؑ کے عشق میں سرشار کرنا۔ یہ تمام دعائیں احمدی والدین کے لیے مشعل راہ ہیں۔

ان دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے حضورؒ خود فرماتے ہیں کہ مجھے تو چھوٹی عمر سے تہجد کا شوق تھا۔ بچپن سے ہی خدا نے دل میں ڈال دیا تھا کہ تہجد ضرور پڑھنی چاہیے اور اس کو میں نے آج تک حتی المقدور برقرار رکھا ہے۔

حضورؒ مزید فرماتے ہیں کہ میرے والد جماعت احمدیہ کے واجب الاحترام امام تھے اور لوگ ان کے پاس دعا کی درخواستیں لے کر آتے رہتے تھے لیکن ان کا اپنا طریق یہ تھا کہ آڑے وقت میں آپؓ ہم بچوں سے بھی فرماتے کہ ’’آئو بچو! دعا کرو۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جماعت کا معین ومددگار ہو۔‘‘

دراصل جب مَیں بچپن میں بھی دعا کرتا تو اسے قبولیت کا شرف حاصل ہوجاتا لیکن کبھی کبھی میں یہ بھی سوچا کرتاکہ کہیں اس احساس میں میرے اپنے ذہن ہی کا عمل دخل نہ ہو لیکن جب میں نے ہستی باری تعالیٰ کے ناقابل تردید ثبوت کو اپنی آنکھوں سے مشاہد ہ کرلیا اور میری عاجزانہ دعائیں کثرت سے قبول ہونے لگیں تو لا محالہ یہ امر ایک اور زندہ ثبوت کے طور پر کھل کر میرے سامنے آگیا۔ یہاںتک کہ ہستی باری تعالیٰ کی یہ تائیدی شہادت مضبوط ترہوتی چلی گئی حتیٰ کہ ایک وقت خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے الہام سے سرفراز فرمادیا۔

حضورؒ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب کوئی مشکل درپیش ہو تو آپ خدا کے حضور دعا میں لگ جائیں۔ اگر آپ دعا کرنے کو اپنی عادت بنا لیں تو ہر مشکل کے وقت آپ کو حیران کُن طور پر خدا کی مدد ملے گی اور یہ وہ بات ہے جو میری ساری عمر کا تجربہ ہے۔‘‘ چنانچہ ایک سیٹلائٹ کمپنی کی ڈائریکٹر نے ایم ٹی اے کے ساتھ ایک معاہدے کی شدید مخالفت کی اور کوئی صورت مسئلے کے حل کی دکھائی نہ دیتی تھی۔ جب حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا: ’’اللہ فضل فرمائے گا‘‘۔ پھر معجزانہ طور پر اچانک اُس ڈائریکٹر کو کمپنی نے فارغ کردیا اور نئے ڈائریکٹر نے نہ صرف معاہدہ کیا بلکہ تمام معاملات میں مددگار بنا رہا۔

حضورؒ کی ایک صاحبزادی بیان کرتی ہیں کہ نماز آپؒ کی روح کی غذا تھی۔کسی اَور کو بھی نماز پڑھتے دیکھ لیتے تو چہرہ خوشی سے چمکنے لگتا۔اسی وجہ سے بچپن میں ہی یہ احساس ہم میں پیدا ہوگیا تھاکہ اگرہم نماز پڑھ لیں تو بچپن کی باقی نادانیاں اور شرارتیں قابل معافی ہیں۔ جب کبھی باہر سے آتے تو پہلا سوال یہی کرتے کیا نماز پڑھ لی؟ اگر جواب ہاں میں ہوتا تو وہ دن ہمارا ہوتا۔ابّا کا پیار ہمارے لیے چھلکنے لگتا۔ صبح کی نماز کے لیے میری شادی ہونے تک آپؒ نے ہمیشہ خود مجھے اُٹھایا۔ بعض دفعہ نیند کا غلبہ ہوتا،اُٹھانے کے باوجود دوبارہ سوجاتی، حضورؒ پھر آتے اور دوبارہ اسی پیار اور نرمی سے اُٹھاتے۔ مجھے یاد نہیںآ پؒ نے کبھی چڑ کر اس بات پر ڈانٹا ہو۔ بار بار اُٹھاتے یہاں تک کہ ہم اُٹھ کر نماز ادا کرلیتے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ نماز کی پابندی کے لیے ہمیں ڈانٹ نہیں پڑی مگر صبح ہمیں اُٹھاتے ہوئے کبھی چڑ کر نہیں ڈانٹا۔دراصل حضورؒ کو کبھی بھی اپنی ذاتی تکلیف پر غصہ نہیں آتا تھا۔ آپؒ اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ اس عمرکی فطری مجبوری ہے کہ بچہ بار بار نیند سے مغلوب ہو کر سو جائے گا مگر جہاں تک خدا کے حکم کا تعلق ہے اگر نرمی سے بات نہ مانی جاتی تو غصے کا اظہار بھی کرتے تھے۔

حضورؒ نے ایک بار فرمایا کہ میں نے باقاعدہ حساب لگا کر دیکھا تھا کہ گذشتہ تینوں خلفاء سے زیادہ مَیں نے باجماعت نمازیں پڑھائی ہیں اور یہ حسابی بات ہے اس میں کوئی شک کی بات نہیں۔انتہائی بیماری کے وقت بھی بعض دفعہ نزلہ سے آواز نہیں نکل رہی ہوتی تھی مگر نماز باجماعت کی مجھے اتنی عادت بچپن سے تھی اور اس ذمہ داری کے بعد تو یہ عادت بہت زیادہ بڑھ گئی کہ جتنی باجماعت نمازیں میں پڑھا چکا ہوں اتنی پچھلے تینوں خلفاء کی مجموعی طور پر تعداد نہیں بنے گی۔

حضورؒ کے ایک عزیز بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ نماز باجماعت کی بے انتہا پابندی کرنے والے تھے۔ جب بھی کئی روزہ دورے سے واپس ربوہ آتے تو پہلا سوال یہی ہوتا کہ آج کل مسجد مبارک میں نمازوں کے اوقات کیا ہیں؟ پھر بہت سے لوگ خود تو باجماعت نماز کے پابند ہوتے ہیں لیکن اپنے تعلق داروں کے بارہ میں اتنے حساس نہیں ہوتے جتنا کہ حضورؒ تھے۔ بے انتہا توجہ تھی کہ آپؒ کے ارد گرد کوئی ایسا فرد نہ ہو جو نمازکے حوالے سے کمزوری کا شکار ہو۔ خاکسار بچپن میں ٹی وی پر کوئی میچ دیکھ رہا تھا۔ نماز ظہر میں ابھی کچھ وقت تھا۔ حضورؒ نماز کے لیے تیار ہوکر جانے لگے تو فرمانے لگے جانتے ہو شرک کیا ہے؟ شرک صرف بت پرستی نہیں بلکہ ہر بڑا شرک یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور اس سے محبت کا دعویٰ کرتا ہو لیکن جب اس کی طرف آنے کے لیے پکارا جائے تو سنی اَن سنی کردے اور دنیاوی کاموں میں منہمک رہے۔ فرمایا یہ بہت بڑاشرک ہے۔

حضورؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری مکرم منیر احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ آپؒ کو نماز سے اس قدر عشق تھا کہ عام آدمی اس کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔ آپؒ بیماری میں کمزوری کے باوجود کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے رہے۔ آخری بیماری کے دوران شدید کمزوری کے باوجود آپؒ سہارا لے کر اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے تشریف لاتے۔ موسم خواہ سرد ہوتا یا گرم یا بارش ہورہی ہوتی یا برف باری ہوتی تو آپؒ ہمیشہ مسجدمیں ہی جاکر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ انتہائی سردی میں بحری جہاز کے کھلے ڈیک پر بھی آپؒ نے نماز پڑھائی۔ اور سخت گرمی اور مچھروں کی یلغار کے وقت بھی نمازیں پڑھائیں۔یورپ کے سفروں میں سڑک کے کنارے مناسب جگہ دیکھ کر نمازوں کے لیے رُکنے کی ہدایت تو ہمیشہ جاری رہی۔ آپؒ کی زندگی قرۃ عینی فی الصّلوٰۃ کا نمونہ تھی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔

حضورؒ ایک بہادر ماہر نفسیات تھے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اباجان اور سارے پہاڑ پر گئے ہوئے تھے اور میں اپنے گھر کے صحن میں اکیلا سویا کرتا تھا اور بعض دفعہ سوتے ہوئے ڈر لگتا تھاکیونکہ اس گھر کے متعلق کہانیاں بھی عجیب وغریب مشہور تھیں کہ ایک جن آیا کرتا ہے وغیرہ۔ تو ایک دفعہ اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ تو شرک ہے۔ اگر کوئی بلا یا کوئی جن نقصان پہنچا سکتا ہے اللہ کے اذن کے بغیرتو یہ بھی تو شرک کی ایک قسم ہے۔اس لیے میں نے اب اس کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مجھے بہادری عطا ہو۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد پھر میں نے نظر دوڑائی کہ کونسی جگہ سب سے زیادہ ڈرنے والی جگہ ہے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ ہوا کرتا تھا اس کمرے کے متعلق بڑی روایتیں تھیںکہ چمنی کی جگہ جہاں آگ جلائی جاتی ہے بڑی خطرناک جگہ ہے۔ تومیں رات کو اُٹھا اور دروازہ کھول کے اس کمرے کی چمنی میں جاکر بیٹھ گیا۔میں نے کہا اب جو بلاآنی ہے آجائے اور میں اللہ پر توکّل کرتا ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ کوئی بلا مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی جب تک اللہ نہ چاہے۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعداتنا سکون ملا ہے کہ آرام سے بستر پر چلا گیااور بستر پر پڑتے ہی نیند آگئی۔

حضورؒ کی تلاوتِ قرآن کےبارے میںآپؒ کے بچپن کے ایک استاد بیان فرماتے ہیں کہ ننھا طاہر اس عمر میں بھی بڑی توجہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا اور دیکھنے والے کو صاف محسوس ہوتا کہ تلاوت کرتے وقت اسے دلی خوشی اور لذّت محسوس ہورہی ہے۔ ایسی خوشی کہ دیکھنے والا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

(باقی آئندہ سوموار کے شمارے میں۔ ان شاءاللہ تعالیٰ)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. اسلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ اس مضمون کو پڑھ کر انتہائ خوشی ہوئ۔ ایمان میں ایک نئی تازگی کی روح گویا دوڑ گئی ہو۔ حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رح کی پیاری سوانح حیات کا یہ بیان ہماری تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بہت بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button