خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگِ بدر کے تناظر میں مختلف غزوات و سرایاکاتذکرہ: خلاصہ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرمودہ ۹؍ جون ۲۰۲۳ء

جنگِ بدر کے تناظر میں مختلف غزوات و سرایاکاتذکرہ

٭…سریہ عبیدہ بن حارث ؓ میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے اسلامی تاریخ کا پہلا تیر چلایا جس پر انہیں بجا طور پر فخر تھا

٭… صفر دو ہجری میں غزوہ ودّان پہلا غزوہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ ستّر مہاجرین کے ساتھ بنفس نفیس شریک ہوئے

٭… اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینےرجب میں سریہ عبداللہ جحش ؓکے لیے سورۃ البقرہ کی آیت ۲۱۸ بطور وحی مسلمانوں کی تسلی کے لیے نازل کی

جنگ بدر کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کاایک عجیب خواب جوبعد میں سچا ثابت ہوا

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍جون۲۰۲۳ءبمطابق۹؍احسان ۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۹؍جون ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

ہجرت کے بعد کے ابتدائی حالات ، جنگ بدر کے اسباب ،کفار مکہ کی کارروائیوں اور اُن کے منصوبوں کو روکنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کارروائی فرمائی اس کا کچھ ذکر ہوا تھا۔جنگ بدر سے قبل کچھ سرایا اور غزوات بھی ہوئے اور کفار مکہ کی جنگ کے لیے تیاری کے کچھ حالات بھی بیان کروں گا۔ انشاء اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان ایک ہجری میں پہلا سریہ حضرت حمزہ بھیجا جسےسیف البحر بھی کہتے ہیں۔

جھنڈا سفید تھا،ابو مرثد ؓعلمبردار تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓکو اس کا امیر بنایا۔تیس مہاجر سواراُن کےساتھ تھے۔عیص کے مقام پر ابو جہل کی سرکردگی میں شام سے آنے والے ایک قافلے سے ان کا سامنا ہوا۔دونوں فریق صف آراہوئے لیکن بنو سُلیم قبیلے کے ایک رئیس نےبیچ بچاؤ کرادیا اوردونوں فریق واپس چلے گئے۔

پھر

سریہ عبیدہ بن حارث ہے۔

شوال ایک ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث ؓکو ساٹھ مہاجرین کی کمان دے کر ثنیۃ المرۃ کی طرف روانہ کیاجہاں ابوسفیان اور اس کے دو سو سواروں سے آمنا سامنا ہوا۔دونوں طرف سے چند تیر چلائے گئے مگر باقاعدہ لڑائی نہیں ہوئی۔اس سے پہلے مسلمانوں اور کفار کے درمیان کبھی تیر اندازی نہیں ہوئی تھی۔مسلمانوں کی طرف سے

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے پہلا تیر چلایا جو اسلامی تاریخ کا پہلا تیر تھا

اور جس پر حضرت سعدؓ کو بجا طورپرفخر تھا۔پھر فریقین واپس اپنے اپنے علاقے میں چلے گئے۔

پھر

سریہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ

ایک یا دو ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیےحضرت سعد بن ابی وقاص ؓکو بیس آدمیوں کا امیر بنا کر روانہ کیااور حکم دیا کہ خرار وادی سے آگے نہ جائیں لیکن جب یہ خرار پہنچے تووہ قافلہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی نکل گیا تھا لہٰذا یہ بغیر کسی تصادم کے واپس آگئے۔

پھر

غزوہ ودّان

صفر دو ہجری کا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ ستّر مہاجرین کے ساتھ ودّان کی طرف گئے۔مؤرخ ابن سعد کےنزدیک

یہ پہلا غزوہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے۔

آپؐ نے حضرت سعد بن عبادہ ؓکو مدینے میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔آپؐ کا ارادہ قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن وہ ا ٓپؐ کے پہنچنے سے پہلے ہی نکل چکا تھا۔ آپؐ نے بنو ضمرہ کے سردار مخشی بن عمرو ضمر ی کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا جس کے مطابق دونوں فریق ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی فریق کے دشمن کا ساتھ دیں گے۔ اس سفر میں آپؐ پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے۔

غزوہ بواط

ربیع الاول ۲؍ہجری میں ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو مدینہ کا امیرمقررفرمایا اور اپنے دو صحابہ کی معیت میں قریش کے قافلے کو روکنے کے لیے نکلے۔اس قافلہ میں امیہ بن خلف کے علاوہ ایک سو دیگر قریشی اوردوہزار پانچ سو اونٹ تھے۔بواط پہنچنے پر آپؐ کا کسی سے سامنا نہیں ہوا اور آپؐ واپس مدینہ لوٹ آئے۔ جھنڈے کا رنگ سفیدتھا جسے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے اُٹھا رکھا تھا۔

غزوہ عُشَیرہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ مکہ سے نکلا ہے اورمکہ والوں نے اس میں اپنا سارا تجارتی مال لگادیا تھاتاکہ جو منافع ہو وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال ہو۔

چنانچہ آپؐ جمادی الاولیٰ یا جمادی الثانیہ۲؍ہجری میں ڈیڑھ دو سو افراد کے ساتھ عازم سفر ہوئے۔جب آپؐ عُشَیرہ پہنچے تو علم ہوا کہ وہ قافلہ چند روز پہلےہی جا چکا ہے۔ آپؐ نے چند روز قیام کیااور بنومدلج اور بنو ضمرہ کے حلیفوں سے صلح کا معاہدہ کیااور مدینہ واپس آگئے۔قریش کا یہ وہی قافلہ تھا جس کی شام سے واپسی پر آپؐ دوبارہ اس کے تعاقب میں نکلے اور بدر کا معرکہ پیش آیا۔

غزہ بدر الاولیٰ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ عُشَیرہ سے واپس آئے تو دس دن بھی نہ گزرے تھے کہ کُرز بن جابر نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کردیا۔ آپؐ اس کے تعاقب میں نکلےاور حضرت زید بن حارثہؓ کو اپنا نائب مقرر کیا۔آپؐ سفوان وادی میں پہنچے لیکن کُرز بن جابر تیزی سے آگے نکل گیا اورآپؐ اُسے نہ پاسکےلہٰذا آپؐ واپس مدینہ آگئے۔اسے بدر الاولیٰ اس لیےکہتے ہیں کیونکہ بدر کے ایک جانب سفوان مقام تک مسلمانوں کا لشکر پہنچا تھا۔

سریہ عبد اللہ جحش ؓمکہ کے قریب وادی نخلہ میں ہوا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینے میں حضرت عبداللہ بن جحش ؓکو آٹھ مہاجرین کے ہمراہ روانہ کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓاور حضرت عتبہ بن غزوانؓ کا اونٹ گم ہوگیا جس کی تلاش میں وہ پیچھے رہ گئےاور باقی سب نخلہ پہنچ گئے۔وہاں قریش مکہ نے مسلمانوں کو دیکھا تو خوفزدہ ہوگئے۔حرمت والے مہینے رجب کا آخری دن تھا۔مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اگر چھوڑ دیا تو یہ ہاتھ سے نکل جائیں گے اس لیے قریش پر حملہ کردیااور اُن کے ایک رئیس عمرو بن حضرمی کو ماردیا۔حضرت عبداللہ بن جحشؓ دو قیدیوں اوراونٹوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ حاضر ہوگئے۔آپؐ نے فرمایا کہ

میں نے تمہیں یہ حکم نہیں دیا تھا کہ تم حرمت والے مہینے میں جنگ کرو اور کوئی چیز بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔

اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے میں اس حملے کے لیے مسلمانوں کی تسلی و تشفی کے لیےسورۃ البقرہ کی آیت ۲۱۸ بطور وحی نازل کی۔اس سے جہاں مسلمانوں کی تسلی ہوئی وہاں قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑگئےکیونکہ انہیں پتا لگ گیا کہ وحی ہوئی ہے۔ بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت عتبہ بن غزوانؓ کے بحفاظت واپس آنے پر قریش کےدونوں قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔

غزوہ بدر الکبریٰ کو قرآن کریم میں یوم الفرقان قرار دیا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرقان جنگ بدر کا دن تھا جس دن طاقتور مخالفین ہلاک ہوئے اورمسلمانوں کوفتح اور غلبہ حاصل ہوا۔

اس غزوہ کو بدرثانیہ ، بدر الکبریٰ ، بدر العظمیٰ اور بدر القتال بھی کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابو سفیان قریش کا ایک قافلہ لےکر واپس آرہا ہے جس میں ایک ہزار اونٹ ہیں اور اس میں قریش کا بہت بڑا سرمایہ تھا۔تیس چالیس یا ستّر آدمی تھے۔ یہ وہی قافلہ تھا جس کے تعاقب میں آپؐ پہلے بھی نکلے تھے۔ اس مہم کےلیے آپؐ جمادی الاولیٰ یا جمادی الاخر ۲؍ہجری کو روانہ ہوئے۔بعض کم علم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے لُوٹ مار کے لیے یہ غزوہ کیا تھا لیکن حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ سیرت خاتم النبیین ؐمیں بیان کرتے ہیں کہ اس قافلہ کی روک تھام کے لیے نکلنا ہرگز قابل اعتراض نہیں تھاکیونکہ یہ غیر معمولی قافلہ تھااور اس کا منافع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جانا تھا ۔چنانچہ

تاریخ سے ثابت ہے کہ اس کا منافع جنگ احدکی تیاری میں صَرف کیا گیا۔
پس اس کی روک تھام تدابیر جنگ کا ضروری حصہ تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس قافلے کی خبر رسانی کی غرض سے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اورحضرت سعید بن زیدؓ کوآگے روانہ کیا۔ابو سفیان کو خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ اس کے قافلے پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ یہ خبر سن کر وہ بہت خوفزدہ ہوا اور اپنے ایک قاصد کو مکہ جاکر یہ خبر دینے کو کہا اورخود ابو سفیان بدر کو ایک طرف چھوڑ کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ اس بارے میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کاایک عجیب خواب ہے جوبعد میں سچا ثابت ہوا۔

انہوں نے ابوسفیان کے قاصد کے مکہ پہنچنے سے تین رات پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ابطح کے میدان میں ، پھر خانہ کعبہ کی چھت پراور پھر ابو قبیس پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوکر بلند آواز سے لوگوں کو اپنے قتل گاہوں میں تین دن کے اندر اندر پہنچنے کے لیے کہتا ہے۔ انہوں نے یہ خواب اپنے بھائی حضرت عباس ؓبن عبدالمطلب کو بتایا جو بعدازاں پھیلتےپھیلتے ابوجہل تک پہنچ گیا۔ ابو جہل نے کہا کہ ہم تین روز تک انتظار کرتے ہیں اگر اسی طرح ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ایک تحریر کعبے میں لٹکا دیں گے کہ تم عرب میں سب سے زیادہ جھوٹے ہو۔ بعد ازاں حضرت عباس ؓعبدالمطلب کی خواتین کے کہنے پر ابو جہل کو مارنے کے لیے خانہ کعبہ میں گئے تو ان کی توجہ ابو سفیان کےقاصد کی وحشت ناک حالت اور ابوسفیان کے قافلے کو بچانے کے اعلان کی طرف مرکوز ہوگئی۔قریش تو پہلے ہی جنگ کا بہانہ تلاش کررہے تھے اس اعلان پر وہ جنگ کی بھرپور تیاری کرنے لگے۔قریش کے پانچ سردار وں نے تیروں کے ذریعہ قرعہ ڈالا تو جنگ سے انکار والا قرعہ نکلا لیکن ابوجہل کے اصرار پر وہ راضی ہوگئے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ آئندہ بیان ہوگی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button