حضرت مصلح موعود ؓ

اللہ کی راہ میں خرچ کرو (قسط دوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۰؍اگست ۱۹۱۷ء)

(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت صاحبؑ نے ایک کام شروع کیا اس کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ آپؑ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے کہ ہم نے جو دینی اور تبلیغی کام شروع کئے ہیں ہماری جماعت کا فرض ہے کہ چندوں سے اس کی مدد کرے۔ کیونکہ اس لئے کہ آپ کے وقت میں بڑی خدمت روپیہ کا خرچ کرنا ہی ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعودؑ نے ان شرائط کے علاوہ جو شریعت نے مقرر کی ہیں صرف چندوں کے متعلق ہی لکھا ہے کہ

جو شخص تین مہینہ تک چندہ نہ دے وہ میری جماعت سے نہیں ہے

تو آج کل جان نہیں مانگی جاتی۔ مہینہ کے بعد چندہ طلب کیا جاتا ہے۔ کیونکہ آج کل یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ غور کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف ایک آدمی تھے۔ مگر خدا نے ان کو اس قدر برکت دی۔ اب آپؑ کے نام پر فدا ہو نے والے کتنے ہیں۔ اور دین کیخدمت کرنےوالے کس قدر۔

اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت دین کی خدمت کے لئے جو کچھ کر رہی ہے وہ دوسروں کے مقابلہ میں بہت بڑھ کے ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اس قدر ہے جس قدر کہ ہماری جماعت کو کرنا چاہیے۔ اس کے متعلق کہنا پڑتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ کے لئے جس جدوجہد کی ضرورت ہے اس سے اب تک کام نہیں لیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ ہو نہار بر وا کے چکنے چکنے پات۔ مگر کوئی ہو نہار بروا دیکھ کر پانی دینا چھوڑ دے کہ بس اب کیا کرنا ہے تو یہ اس کی نادانی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ جس طرح خدا ایک ہے۔ اسی طرح زمین پر بھی ایک ہی دین ہوگا۔ مگر غور کرو کہ دنیا کے مقابلہ میں ہماری کیا تعداد ہے۔ پنجاب میں سینکڑوں گاؤں ایسے ہیں کہ وہاں کوئی احمدی نہیں۔ ہندوستان میں بہت کثرت سے گاؤں ہیں جہاں احمدیت کا کوئی نام تک نہیں جانتا یورپ تو قریباً سارا ہی خالی ہے۔ ہماری دوسروں کے مقابلہ میں وہ جو آٹے میں نمک کی مثال بیان کیا کرتے ہیں وہ بھی نہیں ہے۔ تو ابھی ہماری مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ چھوٹا پودا جس کو ذرا سی طاقت سے بھی اکھاڑ کر باہر پھینک دیا جا سکتا ہے۔ لیکن

جب وه درخت بڑھ جاتا ہے تو پھر بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کو اس کی جگہ سے جنبش نہیں دے سکتیں۔

اس لئے اس وقت بہت کوشش کی ضرورت ہے۔ پس وہ اقرار جو ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پرکئے۔ ان کے پورا کرنے کا اب وقت ہے۔ ہم نے وعدہ کیا ہے کہ جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہم اسلام کی راہ میں صرف کریں گے اگر مال کی ضرورت ہوگی تو مال اگر جان مطلوب ہوگی تو اس کے خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ اب جان کا وقت نہیں ہاں مال کی ضرورت ہے۔ سو ا س کے متعلق یہ مت خیال کرو کہ اگر خدا کی راہ میں صرف کروگے تو وہ ضائع ہو جائے گا۔ نہیں ضائع نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ کہ تم جو اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے وہ ضائع نہیں جائے گا۔ بلکہ بہت بڑھایا جائے گا۔

پس اس کام کی اہمیت اور عظمت کو سمجھو اور خدا کی راہ میں قربانی کرو۔ اگر تم پوری طاقت اور کوشش سے اس راہ میں قدم نہیں بڑھاؤ گے تو جو کچھ اب تک کر چکے ہو وہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ اب یہ درخت زمین سے کسی قدر بلند ہو گیا ہے اگر تم نے اس سے بے اعتنائی کی تو ضائع ہو جائے گا۔

پس دوسروں کی نسبت ہماری حالت خطرناک ہے۔ ہمارے لئے بہت احتیاط کیضرورت ہے۔

دنیا نے اس خدمت کو رد کیا مگر خدا نے اسے ہمارے سپرد کیا

پس ایسا نہ ہو کہ ہم نالائق ثابت ہوں۔ اب بیٹھنے کا وقت نہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹنے کا وقت ہے۔ ہم جو قدم آگے بڑھاتے ہیں اس کے پیچھے دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے۔ اور جتنے بڑھتے ہیں ہمارے پیچھے کنویں کھود دیئے جاتے ہیں۔ اس لئے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔

ہم اسی قدر کوشش اور سعی کرنے کے ذمہ دار ہیں جس قدر ہم کر سکتے ہیں۔ زیادہ کا ہم سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ آگے اللہ تعالیٰ خود ذمہ دار ہے۔ ہماری جماعت کو یہی حکم ہے کہ جس قدر وہ کر سکے دین کی راہ میں خرچ کرے۔

قادیان کی جماعت

اس وقت سب سے پہلے میری مخاطب قادیان کی جماعت ہے۔ کیونکہ وہ ان برکتوں سے حصہ لینے والے لوگ ہیں جو قادیان میں رکھی گئی ہیں۔ اور وہ بہت فیضان حاصل کرتے ہیں۔ دین کی معرفت کی باتیں جو انہیں معلوم ہوتی رہتی ہیں وہ دوسروں کو نہیں۔ سلسلہ کی دینی سیاست کے متعلق جو یہاں کے احباب سے مشورے لئے جاتے ہیں وہ باہر کے دوستوں سے نہیں کئے جا سکتے۔

اس لئے جہاں برکات سے زیادہ حصہ یہاں کی جماعت کے لوگ پاتے ہیں وہاں ضروری ہے کہ دین کی خدمات میں بھی یہ باہر کے لوگوں سے زیادہ حصہ لیں

اور زیادہ قربانی کر کے دکھلائیں۔ پس چاہیے کہ یہ لوگ باہر کے لوگوں کے لئے نمونہ بنیں۔ میں نے قرضہ صدر انجمن کے لئے سالانہ جلسہ کے موقع پر جماعت کو توجہ دلائی تھی۔ سوخدا کے فضل سے وہ قرضہ قریباً اتر گیا ہے۔ لیکن ایک حصہ اَور ہے جو توجہ چاہتا ہے۔

یہاں پر جو کام ہو رہے ہیں ان کے دو حصہ ہیں ایک تو وہ جو قادیان میں ہی جاری ہیں۔ مثلاً لنگر ہے۔ مدرسہ ہے۔ ریویو ہے۔ وغیرہ۔ یہ سب کام صدر انجمن کے سپرد ہیں۔ دوسرا کام بیرونی تبلیغ ہے۔ یہ ترقی اسلام کے سپرد ہے۔ تبلیغ کا کام بڑے پیمانے پر وسیع ہو رہا ہے۔ اس لئے ترقی اسلام کی انجمن مقروض ہوتی جارہی ہے با ہر نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں۔ ان کے لئے ابتداءً خرچ کی ضرورت ہوگی پھر خدا کے فضل سے ان پر خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور وہ نہ صرف اپنا خرچ آپ برداشت کریں گی بلکہ دوسروں کے لئے خرچ کرنے میں مدد دیں گی۔ انگلستان۔ ماریشس ۔ سیلون۔ سیرالیون میں اس وقت جماعتیں بن رہی ہیں۔ اور جنگ کی وجہ سے ہمارے جو دوست ایران میں ہیں ان کے ذریعہ وہاں بھی بیج بویا گیا۔ برما میں بھی جماعت قائم ہو گئی ہے۔ ان کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے۔ مگر یورپ کے عیسائی یا آریہ یا غیر احمدی وغیرہ لوگ تو حضرت مسیح موعودؑ کا نام پھیلانے کے لئے خرچ کرنے نہیں آئیں گے۔ اگر کوئی خرچ کرے گا تو وہ احمدی جماعت کے لوگ ہی ہوں گے۔ تو ضروریات بڑھتی جارہی ہیں خدا کے کام ہو کر رہیں گے۔ مگر جو تم خرچ کرو گے وہ ضائع نہیں ہوگا۔

جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا خدا کی راہ میں خرچ کیا ہوا ضائع ہو جائے گا، وہ غلط خیال رکھتا ہے۔

اور اس کے لئے بہتر تھا کہ وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ اس کی موت اس کی ایسی زندگی سے بہتر ہے۔ مومن خداکی راہ میں خرچ کر کے ایک کے بدلے میں کم از کم سات سو پائے گا۔ یہ جہان ختم ہو جائے گا۔ مگر اگلا جہان ختم ہونے والا نہیں۔ اس لئے خدا کے انعام بھی ختم ہونے والے نہیں۔ وہ شخص جو اس دنیا میں خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے دریغ کرتا ہے مال اس کے کام نہیں آئے گا۔ جب دفن کر کے آئیں گے تو خزانہ بھی اس کے ساتھ دفن نہیں کر دیں گے۔ اور اگر ایسا کر بھی دیں تو اسے فائدہ کیا ہو سکتا ہے۔

پس سوچنا چاہیے کہ وہ وقت جبکہ ماں باپ بہن بھائی تک جواب دےدیں گے اور ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی۔ اس وقت اگر کام آئے گا تو یہی اپنا خرچ کیا ہوا جو کہ خدا کی طرف سے بے شمار ہو ہو کر واپس ملے گا۔ یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہِ۔ وَاُمِّہٖ وَاَبِیۡہِ۔ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیۡہِ۔ لِکُلِّ امۡرِیٴٍ مِّنۡہُمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡہِ۔ ( عبس:۳۵تا۳۸) وہ ایسا وقت ہوگا کہ کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ہر ایک شخص اپنی فکر میں ہوگا۔ پس دین کی خدمت کی طرف توجہ کرو میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت کا ایک سو آدمی سو سو روپیہ دے۔ تا که تبلیغ ولایت کا کام چلے۔ چنانچہ احباب نے وہ دیا۔ اب وہ روپیہ ختم ہو گیا ہے۔ اور ضروریات در پیش ہیں۔ پس یہاں کے لوگ بھی جلسہ کریں اور باہر کی جماعتیں بھی جلسہ کریں۔ اب فضل کے دروازے کھولے گئے ہیں۔ جس قدر خرچ کر سکتے ہو کر دو ورنہ وقت آئے گا کہ لوگ خرچ کرنا چاہیں گے مگر ان کے لئےخرچ کا موقعہ نہیں ہوگا۔ ابتداءً ہی انعام کا موقعہ ہوتا ہے۔ آج تو ہم دین کے لئے مانگنے جاتے ہیں۔ پھر لوگ دینے آئیں گے مگر لینے والوں کو ضرورت نہ ہوگی۔ تو سب سے پہلے قادیان کی جماعت نمونہ دکھائے۔ جہاں تک ہو سکے کرے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس کام کی اہمیت کو سمجھ لیں یہ خطرناک وقت ہے۔ خداوند تعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب ہونے کی توفیق دے اور اپنے فضل سے کامیابی کا منہ دکھائے۔ آمین

(الفضل ۲۵؍اگست ۱۹۱۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button