پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

۲۰۲۲ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

احمدی پابند سلاسل

٭…سال ۲۰۲۲ء میں ۲۶؍احمدیوں کو گرفتار کیا گیا۔کئی احمدیوں کو ہر سال گرفتار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے کچھ لمبے عرصے تک پابند سلاسل رہتے ہیں۔ چھ احمدی اس سال کے آخر تک قید میں ہیں ان میں سے پانچ تو ۲۰۲۰ء سے پابند سلاسل ہیں اور سپریم کورٹ نے بھی ان کی ضمانت رد کر دی ہے۔

سائبر کرائم کے قوانین

جماعت احمدیہ کے ایک عہدیدار کے خلاف FIA سائبر کرائم ونگ لاہور میںایک مقدمہ FIR نمبر ۹۹/۲۰۲۲ کے تحت ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۲۰ءکو درج کیا گیا۔ اس مقدمہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ -الف اور ۱۵۳ -الف کے ساتھ الیکٹرانک کرائم کے تحفظ کے ۲۰۱۶ءکے آئین کے تحت ۱۸۶۰ R/W کی شق ۱۱ شامل ہے۔جوڈیشل مجسٹریٹ چودھری غلام مرتضیٰ ورک نے اس سال دسمبر میں اس کیس میں ۲۹۵ -ج بھی شامل کر دی جس کی سزا سزائے موت ہے۔

مذہبی آزادی دینے سے انکار

٭…باغبانپورہ گوجرانوالہ میں ۷ اور ۸؍دسمبر کی درمیانی شب دو بجے پولیس بھاری مشینری کے ساتھ آئی۔ مسجد کے راستے کو بند کر دیا گیا اور قریبی لائٹ بند کر دی گئی۔پولیس نے مینار کو منہدم کر دیا اور ملبہ اپنے ساتھ لے گئی۔ اس دوران سیکیورٹی کیمرا اور مسجد کی دیوار کو بھی نقصان پہنچا۔

٭…۱۳؍ستمبر کو DSP اور تھانے کے SHO نے تیرہ پولیس والوں کے ساتھ مل کر گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مسجد کے دوسرے مینارے کو بھی منہدم کر دیا۔ اس سے قبل ۱۹۷۴ء میں بلوائیوں کے ایک ہجوم نے پہلا مینارہ منہدم کر دیا تھا۔

٭…۳۰؍اگست کو مٹیال ضلع جہلم میں تحریک لبیک پاکستان کے دباؤ میں پولیس نے احمدیوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی اور احمدیوں کو مسجد کے مینارے ہٹانے پڑے کیونکہ ریاست کی طرف سے حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں۔

٭…۳۰؍جنوری کو کنری ضلع عمر کوٹ میں نو لڑکوں نے آدھی رات کو پتھر مار کر احمدیہ مسجد کے کیمرے توڑ دیے۔

٭…۱۹؍فروری کو گوٹھ علی مراد، ضلع بدین میں کچھ شرپسند مخالفین نے مسجد سے ملحقہ لکڑیوں سےبنے ایک ڈھانچے کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے مسجد جل گئی اور چھت کو بھی نقصان پہنچا۔

٭…تلہڑ بالی ضلع خوشاب میں ۱۶،۱۵؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو پولیس نے احمدیہ مسجد کے اوپر لکھے کلمے پر سفیدی پھیر دی۔

٭…۳؍ جون کو گھوگھیاٹ ضلع سرگودھا میں پولیس تین احمدیوں کے گھروں کے سامنے لگی ماشاء اللہ کی تختیاں اتار کر لے گئی۔

٭…۹؍ جون کو چک چٹھہ ضلع حا فظ آباد میں احمدیہ مسجد کے باہر کسی شر پسند نے بیت الذکر احمدیہ پر سیاہی پھیر کر اس کی جگہ کافر خانہ لکھ دیا۔

٭…جون میں پنڈ دادن خان کے DSP نے احمدیوں کو اپنی مسجد کے باہر سے کلمہ ہٹانے کو کہا۔

احمدیوں پر ظلم کی سرکاری سرپرستی

٭…پاکستان مسلم لیگ نون کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ قادیانیت اور صیہونیت اسلام کے دل میں خنجر پیوست کرنے کی ایک سازش ہے۔

٭…۹؍اپریل کو عمران خان اور اس کی پارٹی نے ایبٹ آباد میں ایک بڑی ریلی کی اور اس میں عمران خان اور پارٹی کے سربرآوردہ لوگوں نے خطاب کیا۔ایک مقرر سابق وفاقی وزیر علی محمد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے قادیانیت کی کمر توڑ دی ہے۔

٭…ملک الیاس اعوان، مسلم لیگ (ق) کے نائب صدر، نے ڈپٹی کمشنر خوشاب کو درخواست دی کہ ضلع سے تمام احمدیوں کونکالا جائے۔

٭… سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ علی گیلانی نے اپنی سیاسی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے یہ جھوٹا بیان دیا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو اس نے مفتی محمود اور مولانا کوثر نیازی کو بلایا اور کہا کہ قیامت کے دن تم لوگ گواہی دینا کہ میں نےنبی کی عزت بچانے کےلیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔

٭…ٹی وی چینلز۔ سرکاری پاکستان ٹی وی چینل اور نجی ٹی وی جیو نیوز نے ۱۴؍ستمبر کو مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کا ویڈیو بیان نشر کیا جس میں اس نے کہاکہ اسلام کی بنیادی چیزوں پر جو وار کیا جارہا ہے یہ قادیانیت کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ نیا پاکستان جب اس (عمران خان) نے بنایا تو کیا کراچی میں قادیانیوں کا ہر یونٹ متحرک نہیں ہوا تھا۔ کیا یہ محض ایک اتفاق تھا؟ اور کیا ایک پروفیسر کے دباوٴ میں لاہور مینجمنٹ یونیورسٹی کے طلبہ کو سرکاری پروٹوکول سے ربوہ لے کر جانا اور وہاں قادیانیوں سے ان طلبہ کو زبردستی دباوٴ میں لاکر یکجہتی کا اظہار کروانا کیا یہ بھی اتفاق تھا؟ اور کیا عمران خان غیر ملکی میڈیا کو اقتدار میں آنے سے پہلے یہ کہتا نہیں تھا کہ میں اقتدار میں آیا تو قادیانیوں کو مذہبی آزادی ہوگی؟ ہر ادارہ کچھ سوچے اور اپنا رول ادا کرے یہ فتنہ اگر چل نکلا تو پاکستان میں ایسی خونریزی ہوگی ایمان رکھنے والے اور کمزور ایمان والوں کے درمیان۔

٭…۲۴؍اپریل کو علی محمد خان نے ایک ٹویٹ میں ایک حدیث کا اپنی مرضی کے مطابق ترجمہ کرتے ہوئےحوالہ دیا کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

٭…حج کا فارم جو کہ نیا نہیں ہے وہ ہماری نظر سے گزرا ہے۔ ہر مسلمان حاجی کو مکہ جانے کے لیے پاکستانی حکومت سے اجازت طلب کرنے کے لیے عرضی دینی ہوتی ہے۔ہم یہاں اس کا ترجمہ پیش کرتے ہیں۔ جو درج ذیل ہے:

حلف نامہ: میں حلفیہ بیان دیتا ہوں

میں مسلمان ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ آخری بنی ہیں۔اور دل و جان سے ان کی خاتمیت پر یقین رکھتا ہوں۔

مزید برآں میں یقین رکھتا ہوں کہ خاتم النبیین والمرسلین کی نبوت مکمل،آخری اور غیر مشروط ہے۔اور میں کسی اور پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کے کسی بھی شکل میں نبی یا پیغمبر ہونے کو مانتا ہوں۔میں قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق نہیں رکھتا جو اپنے آپ کو احمدی یا کوئی اور نام دیتے ہیں۔میں ایسے دعویدار پر (۔) بھیجتا ہوں اور مرزا غلام احمد قادیانی سمیت ایسے دعویٰ داروں کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔

دستخط درخواست کنندہ

٭…دا فرائیڈے ٹائمز نے لکھا کہ گورنر تیسوری کی خواہش ہے کہ سندھ میں بھی پنجاب کی طرح نکاح نامے میں ختم نبوت کی شق شامل کی جائے۔

٭…بحوالہ :دا ڈیلی دنیا، ۱۶؍جون ۲۰۲۲ءفیصل آباد۔ صدر (پاکستان)نے رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی بل کی تائید کی۔

٭…ممبران صوبائی اسمبلی جماعت اسلامی مس حمیر ا خاتون،عنایت اللہ خان،سراج الدین خان تینوں نےجون میں خیبر پختون خواہ اسمبلی میں احمدیت مخالف قرارداد پیش کی۔اور تمام اسمبلی نے اجتماعی طور پر اس کو منظور کر لیا۔

٭…۵،۴؍ فروری کو پریم کوٹ حافظ آباد میں مخالفین احمدیت کی درخواست پر پولیس کی نفری نے مزدوروں کے ساتھ مل کر مقامی قبرستان میں ۴۵؍ احمدیوں کی قبروں کو تباہ کر دیا۔

٭…پیروچک ضلع سیالکوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ نے تھانہ موترہ کے ایس ایچ او اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ مل کر قبرستان میں ۴۳؍ احمدیوں کی قبروں کو نقصان پہنچایا۔

٭…۱۱؍ مئی کو گھوگھیاٹ، تحصیل بھیرہ، ضلع سرگودھا میں پولیس نے ۳۰؍ احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔

٭…نومبر میں اسسٹنٹ کمشنر نے پیروچک ضلع سیالکوٹ میں قبرستان کے احمدیہ حصے کو سیل کر دیا اور ایک احمدی خاتون کی تدفین نہیں ہونے دی۔

٭… پریم کوٹ ضلع حافظ آباد میں ۲۳،۲۲؍نومبر کو مولوی عمرحیات اور اس کے ساتھی علی نے چار احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی جن کے ناموں میں محمد اور علی تھا۔انہوں نے ان کے کتبوں کے پیچھے نازیبا کلمات لکھ دیے۔

٭…۲۰؍ نومبر کو نامعلوم شر پسندوں نے ۸۹ رتن ضلع فیصل آباد میں آدھی رات کو تین احمدیوں کی قبروں کے کتبے اکھیڑ دیے۔

٭…ایک احمدی اشفاق احمد جن کی وفات ۱۹۹۷ء میں ہوئی تھی ان کی قبر کو ۲۰؍ مئی کو شر پسندوں نے کھودا اور ان کی باقیات کو باہر پھینک دیا۔

٭…۳؍فروری کو ٹوبہ ٹیک سنگھ ۳۵۴ ج۔ب میں ایک احمدی محمد اکرم صاحب وفات پا گئے۔ شر پسندوں نے ان کی قبر کو مٹی سے بھر دیا اور تدفین سے روک دیا۔ نمبردار سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن اس نےکوئی تعاون نہ کیا۔

٭…جولائی ۲۰۲۰ء میں ترگڑی ضلع گوجرانوالہ میں مخالفین کے کہنے پر پولیس نے ۶۷ احمدیوں کی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے۔دسمبر ۲۰۲۰ء میں اسسٹنٹ کمشنر نے احمدیوں کے حصے والے قبرستان کو سیل کر دیا اور الگ قبرستان دینے کا کہا۔ لیکن تب سے احمدیوں کے پاس کوئی قبرستان نہیں ہے۔

٭…۲۷؍اگست ۲۰۲۲ء کوضلعی تعلیمی اتھارٹی چنیوٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے آرڈر نمبر 2024Gجاری کیاکہ محکمہ تعلیم کے تمام ضلعی افسران کے ذریعے تعلیم کے شعبے سے وابستہ تمام افراد اپنے ریکارڈ دیکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام احمدی / قادیانی طلبہ اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں۔بغیر تعطل کے تین دن کے اندر اس حکم نامے پر عمل کی رسیدگی مانگی گئی۔

٭…سر گودھا روڈ ربوہ کے ٹول پلازہ کے پاس پاکستان مسلم لیگ نون کے ممبر قومی اسمبلی مولوی الیاس چنیوٹی نے ختم نبوت سے متعلقہ ایک بڑا بورڈ نصب کروایا۔

٭…آزاد کشمیر اسمبلی نے ختم نبوت پر ایک قرارداد پیش کی اور اس کو لاگو کرنے کے لیے غلط جواز پیش کیے۔ ہم ساری قرارداد کا ترجمہ تو پیش نہیں کر سکتے لیکن چند ایک مطالبات کا ذکر کرتے ہیں۔

۱۔ختم نبوت کا جو تعلیمی کورس خیبر پختونخواہ میں لگایا گیا ہے وہی آزاد کشمیر میں لگایا جائے۔

۲۔قرآن کی آیات،ختم نبوت، حدیث اور کلمہ سنہرے الفاظ میں لکھ کر آزاد کشمیر اسمبلی کی عمارت، تمام سرکاری عمارات، دفاتر اور دو میل دور چہتّر کے ختم نبوت چوک پر نصب کیے جائیں۔

۳۔تمام مسلمان افسران، سرکاری ملازمین اور اس ریاست کے تمام شہریوں کو تقرری، تبادلے اور شادی کے وقت ختم نبوت کا حلف نامہ پیش کرنا چاہیے اور اس کو ان کے ذاتی ریکارڈ میں شامل کرنا چاہیے۔

۴۔ ۱۹۷۳ء سے لے کر اب تک جتنی بھی ختم نبوت کے متعلق قراردادیں پیش ہوئی ہیں ان کو کتابی شکل دے کر شائع کرنا چاہیے۔مزید برآں قومی اسمبلی کی کارروائی اور ختم نبوت قوانین،اور تمام عدالتی فیصلے آزاد کشمیر کی مقننہ اسمبلی میں محفوظ رکھنے چاہئیں۔

۵۔ختم نبوت، ناموس رسالت، ناموس صحابہ اور ناموس اہل بیت سے متعلقہ تمام قوانین پر عمل درآ مد کرنا چاہیے۔

۶۔آنحضرت ﷺ کا مبارک نام تمام دستاویزات میں اس طرح سے لکھا جائے: رحمۃ للعالمین،خاتم النبیین حضرت محمدﷺ۔

٭…پولیس نے گھوگھیاٹ ضلع سرگودھا میں احمدیہ مسجد کے محراب کے قریب بیرونی جانب ایک بورڈ آویزاں کیاجس پر یہ تحریر درج تھی:یہ مسجد نہیں ہے۔ یہ قادیانی جماعت کی عبادت گاہ ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button