متفرق مضامین

جرمن جمہوریت کی ۱۷۵؍ویں سالگرہ پر گلوبل اسمبلی کا مذہبی آزاری سے متعلق مشورہ

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

پاکستان میں کچھ عرصہ سے جمہوریت کے قدم ڈگمگا رہے ہیں۔ صاحب الراے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ڈیفالٹ کا خطرہ نہ ہوتا تو اب تک جمہوریت کی صف لپیٹ دی گئی ہوتی۔ نگران حکومتوں کی طوالت کے علاوہ ملک کی عمومی سیاسی فضا اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت متعدد پیٹیشنز جمہوریت کے مزید کمزور ہونے ک اندیشہ ظاہر کر رہی ہیں۔ سیاست میں مذہب کا استعمال بالآخر معاشرہ کو اس مقام پر لے آیا جہاں انسانی قدریں بے وقعت اور سیاسی اختلاف دشمنی میں بدل جاتا ہے۔

جرمنی کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانی قدریں اور مذہبی آزادی جمہوریت کا لازمی جزو ہیں اسی لیے ریاست کا نظام کسی انسانی تفریق کے بغیر خدمت معاشرہ پر استوار ہے جس سے جمہوریت مزید مستحکم ہو رہی ہے۔ ۱۸؍مئی کو جرمنی میں جمہوریت کی ۱۷۵ ویں سالگرہ منائی گئی۔ فرینکفرٹ میں وہ تاریخی عمارت موجود ہے جس میں ۱۸؍مئی ۱۸۴۸ء کو جرمنی کی پہلی منتخب اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اس Oval Shaped بلڈنگ کو جرمنی میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ دارالحکومت برلن میں ہونے کے باوجود خصوصی نوعیت کی تقاریب اس بلڈنگ میں وقع پذیر ہوتی ہیں جس کا نام St. Paul’s Church ہے۔ اس بلڈنگ میں جو آئین مرتب کیا گیا اس کو جرمن تاریخ کا ایک اہم باب اور جمہوریت کی تاریخ کا سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر ۱۸۲۹ءسے ۱۸۳۳ء تک جاری رہی اور اس کو بطور پروٹسٹنٹ چرچ تعمیر کیا گیا۔اس میں لاوڈ سپیکر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ۳۱؍مارچ سے ۳؍اپریل ۱۸۴۸ء تک جرمنی کے پہلے پارلیمانی انتخابات میں الیکشن آفس تھا۔ ۱۸؍ مئی ۱۸۴۸ء کو پہلی اسمبلی کا اجلاس اس بلڈنگ میں ہوا۔ ۳۰؍مئی ۱۸۴۹ء تک یہ Prussia,آسٹریا بادشاہت اور جرمن ریاستوں کی پارلیمنٹ کے طور پر استعمال ہوئی اور یہاں ہی جرمنی کا پہلا دستور تیار کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران مارچ ۱۹۴۴ء میں فضائی بمباری کا شکار بنی۔دوبارہ از سر نو تعمیر کے بعد اس کو تاریخی ورثہ کا درجہ دے دیا گیا۔

انیسویں صدی میں جب یورپ کے بڑے حصہ میں انقلاب نے جنم لیا تو جرمنی کی ریاستوں میں بھی آزادی اور جمہوریت کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہویں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جرمن عوام غربت کی زندگی بسر کر رہے تھے اور عدم اطمینان کا شکار تھے۔جرمنوں میں یہ خواہش بیدار ہو رہی تھی کہ انقلاب فرانس کے اثرات جرمنی میں بھی نظر آنے چاہیں۔ پروفیسرز، طلبہ اور عوام میں یہ شعور زور پکڑ رہا تھا کہ ہم ریاستوں کے شہری ہونے کی بجائے ایک قوم کی صورت اختیار کریں۔ جرمن قومیت کا تصور زیادہ تیزی سے سامنے آنے لگا تھا۔ اسی آئیڈیا کے پس منظر میں ۱۸؍مئی ۱۸۴۸ء کو ریاستوں سے منتخب ہونے والے نمائندے فرینکفرٹ کے St.Pauls چرچ میں جمع ہوے اور ایک آئین ترتیب دیا۔ یہ آئین اپنے وقت کے اعتبار سے پروگریسو progressive آئین گردانا گیا۔ اس میں سِول حقوق شخصی آزادی کو خاص اہمیت دی گئی۔ قانونی اعتبار سے ریاست کے ہر شہری کی حیثیت برابر تسلیم کی گئی۔ ووٹ ڈالنے کی عمر پچیس سال مقرر کی گئی۔خواتین، یہودیوں،اظہار رائے اور پریس کی آزادی کے حوالہ سے جو دفعات اس آئین کا حصہ بنیں ان کو آج کے زمانہ میں سراہا نہیں جا سکتا۔اس اسمبلی کو آئین کو منظور کرنے میں دس ماہ لگے۔اس میں بادشاہ کو ریاستوں کے سربراہ کا درجہ حاصل رہا۔ پارلیمنٹ ون نیشن تھیوری کے اعتبار سے اپنی کارکردگی پر بہت مطمئن اور پر امید تھی۔ اسی لیے اس اسمبلی نے اپنا ایک نمائندہ وفد ترتیب دے کر بادشاہ کے پاس بھیجا اور تجویز کیا کہ بادشاہ کو صرف Kaiser نہ پکارا جاے بلکہ بادشاہت کا نام Prussian king Friedrich Wilhelm IVرکھ دیا جائے۔ بادشاہ نے اس تجویز کو نہ صرف قبول نہ کیا بلکہ خود کو لوگوں کے دئے ٹائٹل کا پابند بنا دینا گستاخی جانا۔جب بادشاہ نے پارلیمانی وفد کو عزت نہ دی تو رایاستی سربراہان نے اس آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔اس طرح جرمنی کی اولین پارلیمنٹ عوامی مقبولیت کھو بیٹھی اور پھر وجود سے محروم کر دی گئی۔ پارلیمنٹ کا محنت سے تیارکردہ آئین کاغذوں پر لکھا رہ گیا۔ ریڈیکل ڈیموکریٹ جیل بھیج دیے گئے۔ بہت سارے امریکہ کی طرف کوچ کر گئے۔

سن ۱۹۱۹ء میں جو Weimarکنونشن ہوا اور جو آئین تیار کیا گیا اس میں بنیادی حقوق اور آزادی اظہار کا باب ۱۸۴۸ءوالے آئین سے ہی لیا گیا تھا لیکن ۱۹۳۳ء میں نازی ازم نے بنیادی حقوق کا یہ باب Weimar آئین سے نکال باہر پھینکا۔ ۲۷؍فروری ۱۹۳۳ء کو کمیونسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹ اور سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں اور یہودیوں پر مظالم کے دوران جرمن آئین نے مظلوموں کی کوئی مدد نہ کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جرمنی نے اپنی سیاسی زندگی از سر نو شروع کی تو ۱۸۴۸ء میں St. Paul’s چرچ میں بنایا جانے والا آئین لفظ با لفظ بحال کر دیا گیا اس طرح انسان کے بنیادی حقوق جو ۱۸۴۸ء سے ۱۹۴۹ء کے دوران معطل رہے دوبارہ بحال ہو گئے۔

St. Paul’s Church میں بناے جانے والے آئین نے جرمنی میں جمہوریت کو پروان چڑھانے میں جو کردار ادا کیا اس کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔امریکن صدر جان ایف کینیڈی نے ۱۹۶۳ء میں St. Paul’s میں سیاست دانوں اور جرمن دانشوروں کے سامنے جو تقریر کی اس میں اس بلڈنگ کو the cradle of German democracy قرار دیا۔ جان ایف کینیڈی نے کہا کہ اگرچہ اس بلڈنگ میں بنایا جانے والا آئین برقرار نہ رہ سکا لیکن اس آئین میں سِول سوسائٹی اور شخصی آزادی کے لیے جو راہیں متعین کی گئیں ان سے دنیا اور جمہوریت کو راہ نمائی ملی۔ جرمنی کا موجودہ آئین جو ۱۹۴۹ءسے نافزالعمل ہے اس کا وہ حصہ جو شخصی آزادی، سِول حقوق، میڈیا کی آزادی اور مذہبی آزادی سے متعلق ہے اس کو بنیادی قانون Basic Low کا نام دیا گیا ہے۔ ۱۹۹۰ءمیں مشرقی جرمنی کے شامل ہو جانے کے بعد یہ آئین پورے جرمنی کا آئین بن چکا ہے جس میں Basic low بنیادی حقوق کے ۱۹؍ارٹیکل ہیں۔

جرمنی کی ہر وہ تقریب جس کو خاص اہمیت دی جانی مقصود ہو اس کا انعقاد اس بلڈنگ میں کیا جاتا ہے۔ملکہ الیزبتھ کو ان کی ۹۰ویں سالگرہ پر جرمن حکومت نے بطور خاص جرمنی آنے کی دعوت دی تو وہ برلن میں قیام پزیر رہیں لیکن واپس روانگی سے قبل جرمن حکومت کی طرف سے منعقد کی جانے والی سرکاری تقریب فرینکفرٹ کی اسی بلڈنگ میں منعقد کی جس کا جمہوریت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ہر سال اکتوبر میں انٹرنیشنل بک فیر پر دیا جانے والے امن انعام کی تقریب بھی اسی بلڈنگ میں منعقد ہوتی ہے۔ ۱۹۹۸ءمیں جرمن جمہوریت کے ۱۵۰؍سال کا انٹرنیشنل جشن بھی یہاں ہی ہوا اور اب جبکہ ۱۷۵؍سال پورے ہوے ہیں تو ۱۸؍مئی کو یادگار دن کی یاد میں ایک گلوبل اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا جس میں دنیا بھر سے دانشور اور پرانے سیاست دان مدعو کیے گئے تھے۔مہمانوں کی تعداد اور شخصیات کے چناؤ کے حوالے سے یہ ایک یادگار تقریب تھی جس میں سب مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوے اتفاق کیا کہ دنیا کو سرحدوں کے بغیر ایسی جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں شخصی اور مذہبی آزادی ہر شہری کو حاصل ہو۔مذہب پر اپنے عقیدہ اور طریق کے مطابق عمل کرنے کا حق تسلیم کیا جائے یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اس کے بغیر جمہوریت مکمل نہی ہوتی۔ گلوبل اسمبلی کے دانشور مقررین دنیا سے مخاطب تھے۔پاکستان کے سیاست دانوں اور ریاست کے شہریوں نے ان تقاریر کا کیا اثر لیا ؟اس کا جائزہ ڈاکٹر شعیب سڈل کے یک رکنی کمشن کو لینا ہو گا جو ہر ماہ پاکستان میں مخصوص کمیونیٹیز سے ریاست اور شہریوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں پر سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرواتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button