متفرق مضامین

إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ

(ملک محمد فراز مجوکہ)

اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم سے لے کر ۶۱۰؍ عیسوی تک مختلف آسمانی کتب کے ذریعہ جہاں انسانیت کو اپنی ذات سے روشناس کروایا وہاں انسانوں کو آپس کی بودوباش کے اصول بھی سکھائے۔پھر ۶۱۰ عیسوی کا سال آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری اور کامل شریعت کا نزول فرمایا۔ وہ کامل شریعت نہ صرف ہر قسم کے سوالات کے جوابات اپنے اند ر رکھتی تھی بلکہ وہ شریعت ایک طرف خدا سے ملاتی تھی اور دوسری طرف معاشرے کو جنت نظیر بنانے کے سارے اصول اپنے اندر رکھتی تھی۔

اس پر کمال یہ کہ جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے اس کامل کتاب کے نزول کے لیے چنا وہ اشرف المخلوقات میں بھی افضل ترین تھی۔ آپﷺ نے اپنے آئندہ بائیس سالوں میں اس کامل شریعت کی وضاحت ہر طرح سے فرما دی۔

پھر یہ کمال کا سلسلہ آپﷺ کے صحابہ نے اس طرح جاری رکھا(جن کے بارے میں آپﷺ فرما چکے تھے کہ وہ ستاروں کی مانند ہیں ) کہ ایک طرف تو قرآن کریم کو حفظ کیا اوردوسری طرف آنحضرت ﷺ کے اقوال کو لفظاً لفظاً یاد رکھا۔

دراصل یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر اور اس کا وعدہ تھا اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ(الحجر:۱۰)جس نے اس کامل تعلیم کی حفاظت کا سامان باہم مہیا فرمایا۔

وقت اپنے قانون کے مطابق گزرتا گیا اور ۸۱۰ عیسوی کا سال آ گیا۔ اس سال اللہ تعالیٰ نے رو ئے زمین پر ایک ایسی ہستی کو پیدا کیا جس کا نام آنحضرت ﷺ کے نام کی طرح محمد تھا، اور آپ نے اپنے آقا کا ہم نام ہونے کا حق بھی اس طرح ادا کیا کہ اپنے آقا کے اقوال و ارشادات کی خدمت گزاری میں ہی اپنی زندگی بسر کر دی اور خدمت دین میں اُس انتہا کو پایا جس کی تمنا یقیناً ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے۔ آپ کا پورا نام تھا۔ ’’ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ بن بذذبہ الجعفی البخاری‘‘۔ جنہیں عرف عام میں امام بخاری کہا جاتا ہے۔

چونکہ مضمون کا تعلق آپ کی تصنیف سے ہے اس لیے آپ کا تعارف پیش ہے۔ امام بخاری بخارا (جیسا کہ نام سے واضح ہے) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی زندگی میں خراسان، عراق، شام، مصر اور مکہ و مدینہ کا سفر اختیار کیا۔ قارئین کی آسانی کے لیے اس طویل سفر کا نقشہ تصویر میں دیا گیا ہے۔

آپ نے ۷۵۶۳؍ روایات(تعدادمیں اختلاف پایا جاتا ہے) پر مشتمل ایک مجموعہ تصنیف فرمایا اور اس کا نام الْجَامِعُ الْمُسْنَدُ الصَّحیحُ الْمُختَصَرُ مِنْ اُمُوْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسُنَنِہ وَاَیَّامِہِ رکھا جو صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہے۔ اور یہی وہ کتاب ہے جس نے اَصَحُّ الْکُتُب بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہ (کہ صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے) کا اعزاز پایا۔

آپ کو چھ لاکھ روایات یاد تھیں جو آپ نے مختلف اساتذہ سے سنیں اور ان کو یاد کیا۔ ان میں سے آپ نے جانچ پڑتال کے بعد صرف تقریباً سات ہزار روایات کو اپنے مجموعہ میں شامل کیا۔

جس روایت کو ۳۶ سال کے سفروں اور چھ لاکھ روایات کو حفظ کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ نےشامل کیا وہ تھی إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ۔

اعمال کے لحاظ سے یہی ارشاد اوّلین درجہ کا حامل ہے۔ ہر قسم کا عمل، ہر حکم کی پیروی اس روایت کی کسوٹی سے باہر نہیں جا پاتی۔

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اس روایت کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی حدیث بھی جوامع میں سے ہے۔اور اسی وجہ سے بعض علماء نے اس کو ایک تہائی اسلام قرار دیا ہے اور بعض نے ایک تہائی علم کا اور امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بڑھ کر پر حکمت، پر معانی اور کوئی حدیث نہیں۔(فتح الباری جزء اول صفحہ ۴)بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دین کی ساری ماہیت اس ایک جملہ میں کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور یہ جملہ در حقیقت بطور اس اصل الاصول کے ہے کہ جس سے انسان کو حیوان سے امتیاز حاصل ہوتا ہے اور جس کی بنا ء پر انسان کے طبعی افعال دائرہ اخلاق میں داخل ہو کر انسان کو ذمہ وا ر اور اعمال کی جوابدہ ہستی بنا دیتے ہیں اور شریعت کی تمام پابندیاں اس پر عائد ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اس حدیث کی تھوڑی سی وضاحت کرنی از بس ضروری معلوم ہوتی ہے…

۱۔ علماء اسلام نے فعل اور عمل کے درمیان یہ فرق بتلایا ہے کہ فعل طبعی حرکت کو کہتے ہیں جس میں نیت کا دخل نہیں اور عمل وہ فعل ہے جس میں نیت کا دخل ہو۔جو با لارادہ قصداًکیا جائے۔ جس کے کرنے پر انسان کا طبعی فعل اچھا یا برا کہلاتا ہے اور اس لئے وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے۔اس تعریف کو مد نظر رکھ کر إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کا یہ مفہوم ہو گا کہ طبعی افعال کو عملی یا اخلاقی حیثیت نیتوں کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ان معنوں کے اعتبار سے بِالنِّيَّاتِ میں (ب) سببیہ ہے۔

۲۔دوسرا مفہوم اس حدیث کا یہ ہے کہ اعمال نیتوں ہی کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔کام کرنے کے لئے نیت کی ضرورت ہے محض خیال یا آرزو یا میلان طبع یا رغبت یعنی دل کی پسند یدگی یا چاہت کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے ہر گز کافی نہیں۔نیت جس کا ماخذ’’نَوَاۃ‘‘ہے اعمال کے لئے گٹھلی یا بیج کا وہ درمیانی گودا ہے جس میں زندگی کی ساری قوتیں جمع ہوتی ہیں اور جس سے کونپلیں پھوٹتی ہیں اور اعمال کا درخت پھلتا پھولتا اور پھیلتاہے۔

۳۔لفظ ’’إِنَّمَا ‘‘جو حصر کے لئے آتا ہے اس کا مفہوم اردو میں (ہی) کے لفظ سے ہم ادا کرتے ہیں۔اس لفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کے تیسرے معنے یہ ہوں گے کہ انسانی اعمال کے پیچھے ضرور ہے کہ نیتیں در پردہ کام کر رہی ہوں۔یعنی یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان کام تو کر رہا ہو مگر اس کے پیچھے کوئی نیت نہ ہو۔ اگر کوئی نیت نہیں تو وہ فعل محض ایک طبعی حرکت ہو گی جس کو کوئی عملی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔

۴۔اس حدیث کا ایک چوتھا مفہوم بھی ہے۔جس کی طرف امام بخاری علیہ الرحمۃ گئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نتائج کے اعتبار سے اعمال کی اہمیت نیتوں پر موقوف ہے جس قدرقوت اور سنجیدگی نیت میں ہوگی اس قدر قوت اور سنجیدگی سے عمل بھی صادر ہوگا۔نیز اسی نسبت سے اس کے ساتھ انسان کے باقی اعمال بھی متاثر ہو ں گے۔ایک شخص جو گھر بنانے کی نیت کر لیتا ہے، اس نیت کے ساتھ معاً اس کے عام اخراجات کی اقتصادی حالت میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی بلکہ وہ آمدنی کے اورنئے نئے ذرائع سوچے گااور اس کے لئے عمل کی نئی نئی صورتیں پیدا کرے گا۔محنت و مشقت برداشت کرے گا۔اس کے کھانے پینے اور سونے جاگنے اس کی خوشی اور راحت کی گھڑیوں وغیرہ سب میں فرق آجائے گا۔غرض نیت میں جس قدر پختگی، جس قدر وضاحت، جس قدر یقین، جس قدر وسعت و بلندی و ہمت ہوگی؛ٹھیک اسی تناسب سے اعمال بھی متاثر ہوں گے اور وہ مختلف شکل اختیار کرتے چلے جائیں گے۔یہی ایک سر بستہ راز ہے انسان کی ترقی کا اور اس کی ساری عملی زینت کا۔

۵۔اس ضمن میں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ بعض لوگ نا جائز اعمال کو اچھی نیت سے جائز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔مثلاً رشوت اس لئے لیتے ہیں کہ صدقہ کریں۔مگر یہ جائز نہیں۔ اور اس اعتبار سے پانچویں معنے حدیث کے یہ ہوں گے کہ اعمال کی صحت تو نیتوں کی صحت کے ساتھ ہے۔نہ برا عمل اچھی نیت سےنیک بن جاتا ہے اور نہ بری نیت سے کوئی عمل جو بظاہر نیک ہو، نیک ہوتا ہے جیسے ریا کی نماز۔‘‘ (بخاری مترجم سید زین العابدین صفحہ۳،۲)

یہ روایت صحاح کی تقریباً تمام کتب میں آئی ہے۔ جب یہ روایت امام ترمذی نے اپنی کتاب سنن ترمذی میں تحریر کی تو اس کے آخر پر یہ جملہ تحریر فرمایا:قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: يَنْبَغِي أَنْ نَضَعَ هَذَا الحَدِيْثَ فِي كُلِّ بَابٍ(سنن ترمذی، ابواب فضائل الجهاد، باب ما جاء فی من یقاتل ریاء و للدنیا) یعنی عبد الرحمان بن مہدی نے کہا: چاہیے کہ ہم اس روایت کو ہر باب میں رکھیں۔

پس یہ جملہ ہی اس روایت کی اہمیت کو روزروشن کی طرح ظاہر کرنے والا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اسے وہ بھی پتہ ہے جو ہم ظاہر کرتے ہیں اور اس کے علم میں وہ بھی ہے جو ہم چھپاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کبھی بھی اور کسی رنگ میں بھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔

حدیث میں آتا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ خداتعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ بندے کے عمل کرنے کی نیت کا علم رکھتا ہے۔ بظاہر نیکیاں کرنے والے، عبادتیں کرنے والے، روزے رکھنے والے، حتیٰ کہ کئی کئی حج کرنے والے بھی ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی نیتوں میں فتور ہے تو اس فتور کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں۔یہ تمام عبادتیں اور نیکیاں نہ صرف رد کر دی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں جس کا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایاہے۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ جہاں انذار کے ذریعہ سے ہمیں ڈراتا ہے، توجہ دلاتا ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ وہاں اپنی وسیع تر رحمت کا حوالہ دے کر بخشش کی امید بھی دلاتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍مئی ۲۰۰۹ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۲؍جون ۲۰۰۹ء)

پھر فرمایا:’’قرآن کریم میں ایک اور مقام پر خداتعالیٰ فرماتا ہے وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ لِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَیۡنَا بِہَا ؕ وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ (الانبیاء: ۴۸) اور ہم قیامت کے دن ایسا پورا تولنے والے سامان پیدا کریں گے کہ جن کی وجہ سے کسی جان پر ذرا سا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہوگا تو ہم اسے موجود کر دیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ہر جزا سزا انسان کے عمل کے مطابق دیتا ہے اور کبھی ظلم نہیں کرتا۔ لیکن کیونکہ دلوں کی پاتال تک سے بھی واقف ہے۔ ہر عمل کا محرک اور نیت اس کے علم میں ہے اس لئے اس بات کا بھی حساب ہوگا کہ نمازیں خداتعالیٰ کی خاطر پڑھی جارہی تھیں یا دکھاوے کے لئے۔ صدقات خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے جارہے تھے یا دئے جارہے تھے یا دکھاوے کے لئے۔ یا جو بھی نیکیاں ہیں ان کے کرنے کا محرک کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تزکیہ نفس ہر وقت تمہارے مدّنظر رہنا چاہئے اور اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہر عمل بجالانا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹؍ مارچ ۲۰۱۰ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍اپریل ۲۰۱۰ء)

پس اس ایک روایت نے تمام اعمال کو گھیر لیا چاہے وہ نماز ہی کیوں نہ ہو۔ اس بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الصَّلَاةِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ سُخْطِكَ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِكَ فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُعِيذَنِي مِنْ النَّارِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ أَقْبَلَ اللّٰهُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفِ مَلَكٍ (سنن ابن ماجه)یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجو اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اور یہ کہے اَے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اُس حق کی بنا پر جو مانگنے والوں کا تجھ پر ہے اور میں تجھ سے مانگتا ہوں، اُس حق کی وجہ سے جو میرے اس چلنے کاہے،میں ہر گز تکبر اور غرور اور دکھاوے اور شہرت کی غرض سے باہر نہیں نکلا۔ میں نکلا ہوں، تیری ناراضگی سے بچنے کے لیے، تیری خوشنودی کے حصول کے لیے، میں تجھ سے مانگتا ہوں کہ تو مجھے آگ کے عذاب سے بچا اور میرے گناہ مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔ (جو یہ دعا مانگتا ہے) اللہ اس کی طرف اپنا رُخ کرے گا اور اس کے لیے ستّر ہزار فرشتے استغفار کریں گے۔

یہی بات جہاد اور جنگ کے بارے میں بھی فرمائی جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ: يُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ رِيَاءً، فَأَيُّ ذَالِكَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ؟ قَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ العُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (بخاری) یعنی ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ آدمی حمیت کی وجہ سے بھی لڑتا ہے اور بہادری کی وجہ سے بھی لڑتا ہے اور دکھاوے کے لیے بھی لڑتا ہے ان میں سے کونسی لڑائی اللہ کی راہ میں ہے؟ آپ نے فرمایا۔ جو اس لیے لڑے کہ اللہ کا ہی بول بالا ہو تو یہ اللہ کی راہ میں ہے۔

خطاب کرنے کے بارے میں فرما یا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ قَامَ يَخْطُبُ لَا يَلْتَمِسُ بِهَا إِلَّا رِيَاءً وَسُمْعَةً أَوْقَفَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَوْقِفَ رِيَاءٍ وَسُمْعَةٍ(مسند احمد كتاب مسند المكيين)یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جوکوئی خطبہ دینے کھڑا ہو جس میں اس کا مقصودصرف دکھاوا اور شہرت ہو تو روزِقیامت اللہ اسے ریا اور شہرت کے مقام پر کھڑا کرے گا۔

اور دنیاوی معاملات کے بعد آخرت کے انجام کے بارے میں بھی فرما دیا :قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ (ابن ماجہ)حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں کو ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔

اور اسی طرح نیت کے اجر کے بارے میں فرمایا:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ، كَمَثَلِ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ، رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ مَالًا وَعِلْمًا، فَهُوَ يَعْمَلُ بِعِلْمِهِ فِي مَالِهِ، يُنْفِقُهُ فِي حَقِّهِ، وَ رَجُلٍ آتَاهُ اللّٰهُ عِلْمًا، وَلَمْ يُؤْتِهِ مَالًا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ هَذَا عَمِلْتُ فِيْهِ مِثْلَ الَّذِي ْيَعْمَلُ، قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُمَا فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ (ابن ماجہ)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس امت کی مثال چار آدمیوں کی طرح ہے۔ ایک وہ جس کو اللہ نے مال اور علم دیا ہو اور وہ اپنے مال میں اپنے علم کے مطابق عم کرتا ہو اور اس کو اس کے حق کی جگہ خرچ کرتا ہو اور ایک وہ شخص جس کو اللہ نے علم دیا ہواور مال نہ دیا ہو اور اس پر وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس اس کے جیسا ہوتاتو میں اس کی طرح عمل کرتا جیسے وہ کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا وہ دونوں اجر میں برابر ہیں۔

صدقہ کے بارے میں نیت کو فوقیت حاصل ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيْدَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِّي، وَخَطَبَ عَلَيَّ، فَأَنْكَحَنِي وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبِيْ يَزِيْدُ أَخْرَجَ دَنَانِيْرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا، فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي المَسْجِدِ، فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ: وَاللّٰهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ، فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَكَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ، وَلَكَ مَا أَخَذْتَ يَا مَعْنُ (بخاری)حضرت معن بن یزیدؓ نے بیان کیا کہ میں نے اور میرے والد اور میرے دادا نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اور آپؐ نے میر ے لیے رشتہ کا پیغام بھیجا اور میری شادی کروائی اور میں آپؐ کے پاس ایک مقدمہ لے کر گیا۔ میرے باپ یزید ؓنے( کچھ )دینار نکالے تھےجن کے ذریعہ وہ صدقہ کریں اورانہوں نے وہ (دینار) مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیے۔میں آیا اور میں نے وہ (دینار) لے لیے اور انہیں لے کران (اپنے والد)کے پاس آیاتو انہوں نے کہا اللہ کی قسم! تیرے متعلق میرا ارادہ نہیں تھا۔ تومیں نے رسول اللہﷺ کے پاس وہ مقدمہ پیش کیا۔ آپؐ نے فرمایا:اے یزید! تیرے لیے ہے جس کی تو نے نیت کی اوراے معن!تیرے لیے ہے جو تو نے لے لیاہے۔

رات کی نفلی عبادت کے ضمن میں فرمایا:عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ، وَهُوَ يَنْوِي أَنْ يَقُومَ فَيُصَلِّيَ مِنَ اللَّيْلِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ حَتَّى يُصْبِحَ، كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى، وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ (ابن ماجہ)حضرت ابو درداء ؓنے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا جو اپنے بستر پر آیا اور اس نے نیت کی کہ وہ رات کو اُٹھے گااور رات کو نماز پڑھے گا پھر اس پر نیند کا غلبہ ہوگیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو اس کے لیے وہی لکھا جائے گا جو اس نے نیت کی اور اس کی نیند اس کے رب کی طرف سے اس کے لیے صدقہ ہوجاتی ہے۔

وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں نکلنے کا شوق رکھتے ہیں مگر بوجوہ نہیں جا پاتے ان کے لیے بھی ان کے اجر کی جزا ہے۔ اس سلسلہ میں حدیث کچھ اس طرح ہے:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَأَلَ اللّٰهَ الشَّهَادَةَ صَادِقًا، بَلَّغَهُ اللّٰهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ (سنن ابو داؤد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص صدق کے ساتھ اللہ سے شہادت مانگے تو اللہ اس کو شہیدوں کے مدارج پر پہنچا دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے بستر پر ہی مرے۔

اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو مجبور تھے اور نہ چاہتے ہوئے ہمیں کسی بھی مکروہ فعل میں شامل کیا گیا۔ ایسے لوگوں کی مثال بھی احادیث مبارکہ میں ملتی ہے۔

چنانچہ الفاظ حدیث کچھ اس طرح ہیں :عَائِشَةُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَغْزُو جَيْشٌ الكَعْبَةَ، فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الأَرْضِ، يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، كَيْفَ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، وَفِيهِمْ أَسْوَاقُهُمْ، وَمَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ؟ قَالَ: يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، ثُمَّ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ (بخاری)حضرت عائشہؓ نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ پر ایک لشکر چڑھائی کرے گا۔ جب وہ بیداء کے علاقہ میں ہوں گے ان کے اول اور آخر کو دھنسا دیاجائےگا۔انہوں نے کہا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ان کے اوّل اور آخر کو کیسے دھنسایا جائے گا؟اور ان میں ان کی منڈیوں(والے) ہیں اور وہ بھی جو اُن( لشکر) میں سے نہیں ہیں۔ فرمایا:ان کے اوّل اور آخر تک کو دھنسا دیاجائےگا۔ پھر وہ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔

پس آنحضرت ﷺ کا مندرجہ ذیل ارشاد اس سارے مضمون کو چند لفظوں میں سمو دیتا ہے کہ قَالَ: إِنَّ اللّٰهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ (نسائی )کہ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اس کے لیے ہو اور اس کے ذریعہ سے اللہ کی رضامقصود ہو۔پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں کہ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكهف :۱۱۱)یعنی جو کوئى اپنے ربّ کى لقاءچاہتا ہے وہ (بھى) نىک عمل بجا لائے اور اپنے ربّ کى عبادت مىں کسى کو شرىک نہ ٹھہرائے۔

پس اس جستجو میں رہیں کہ نیتیں صاف ہوں اور اعمال صالح ہوں تا اس دنیا میں بھی اللہ کی رضا کو پانے والے ہوں اور آخرت میں بھی جنتوں کے وارث بنائے جائیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button