یادِ رفتگاں

محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

نصف صدی سے زائد عرصہ تک فضل عمر ہسپتال ربوہ میں طبی خدمات اور خدمت انسانیت بجا لانے والے واقف زندگی ماہر آرتھو پیڈک و جنرل سرجن محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

احباب جماعت کو نہایت افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک فضل عمر ہسپتال ربوہ میں طبی خدمات بجا لانے والےواقف زندگی، پاکستان کے معروف اور ماہر سرجن محتر م ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب مورخہ ۲۹؍مئی ۲۰۲۳ء بروزسوموار علی الصبح ایک بجے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں بعمر ۷۹؍ سال وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کچھ عرصہ سے جگراور گردوں میں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ آپ ۱۴؍اپریل ۲۰۲۳ءتک فضل عمر ہسپتال میں طبی خدمات بجا لاتے رہے۔۱۵؍اپریل کو کمزوری اور طبیعت خراب ہونے کے باعث ہسپتال لے جایا گیا، جہاں مختلف ٹیسٹوں کے بعد کینسر کی تشخیص ہوئی۔یہ کینسر ایسی قسم سے تعلق رکھتا تھا جو زیادہ پھیلنے والا اورجس کاعلاج مشکل ہوتا ہے۔ آپ کے کئی ٹیسٹ کیے گئے اور ادویات دی جاتی رہیں۔ آپ کو خون کی منتقلی کے لیے مورخہ ۱۱؍مئی کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں داخل کرایا گیا لیکن طبیعت دن بدن خراب ہوتی گئی اور سنبھل نہ سکی۔ آپ کی صحت کو بحال کرنے کے لیے جملہ انسانی کوششیں کی گئیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کو آخر وقت تک اللہ تعالیٰ پرتوکل رہااور زیر لب دعائیں کرتے رہے۔

آپ کی نماز جنازہ اسی دن شام چھ بجے احاطہ بہشتی مقبرہ دارالفضل میں ادا کی گئی، ربوہ اور دور و نزدیک کے اضلاع سے آنے والے احباب سے احاطہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آپ کو بہشتی مقبرہ کی اندرونی چار دیواری میں آپ کی والدہ محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ کے بالکل ساتھ دائیں طرف سپرد خاک کیا گیا۔ قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا ہوئی ۔ جس میں چار دیواری کے اندر موجود احباب سمیت اس کے اردگرد کھڑے ہزاروں احباب شامل ہوئے۔ نظم وضبط کو قائم رکھنے کے لیے ربوہ کے مستعد خدام و اطفال نے جانفشانی سے اپنے فرائض ادا کیے۔ بزرگوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا انتظام تھا ، ٹھنڈا پانی پلانے کی ڈیوٹی اطفال نے سرانجام دی۔آپ کی اقامت گاہ سے بہشتی مقبرہ تک جنازہ ایمبو لینس میں لایا گیا۔ نماز جنازہ کے بعدچار دیواری تک چارپائی پر لے جایا گیا جس کے ساتھ لمبے بانس لگائے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ احباب کندھا دے سکیں۔

محترم صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب،حضرت مسیح موعودؑ کے پڑپوتے، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے پوتے اور محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب (جو فضل عمر ہسپتال کےچیف میڈیکل آفیسر اور اس کی ترقی میں آغاز سے ہی ممد ومعاون رہے ) کے بیٹے تھے۔

اسی طرح آپ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓاور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے نواسے تھے۔

آپ مورخہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۴۳ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے مراحل تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ اور تعلیم الاسلام کالج سے مکمل کرنے کے بعد آپ نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ۱۹۶۸ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ہاؤس جاب کےبعد آپ کی شادی ۱۴؍اپریل ۱۹۶۸ء کو محترمہ صاحبزادی امۃ الرقیب بیگم صاحبہ بنت مکرم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب (حضرت مصلح موعودؓ کی نواسی اور حضرت مرزا بشیر احمد صا حبؓ کی پوتی )کے ساتھ عمل میں آئی۔ آپ کا نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے پڑھایا۔ آپ کا تقرر ۳۰؍نومبر۱۹۶۸ء کو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بطور ڈپٹی چیف میڈیکل آفیسر ہوا۔ اس طرح آپ نے بطور واقف زندگی اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ یہاں کام کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے یوکے تشریف لے گئے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حصول تعلیم کے لیے یوکے روانہ ہونے سے قبل جب ڈاکٹر صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؒ نے ازراہ شفقت اس وقت اپنی اوڑھی ہوئی چادرڈاکٹر صاحب کو پہنا دی اوربوقتِ رخصت دعاؤں اور بعض نصائح سے نوازا۔

آپ نے رائل کالج آف سرجنز ایڈنبرا میں ایف آر سی ایس (فیلوشپ آف رائل کالج آف سرجنز)کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ اس دوران کچھ عرصہ کے لیے ربوہ تشریف لائے اور پھر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے واسطے واپس چلے گئے۔جنرل سرجری میں ایف آر سی ایس کی ڈگری مکمل کرنے کے بعدیوکے میں مختلف شہروں کے علاوہ High Wycombeمیں بھی عملی تجربہ حاصل کرنے کی غرض سے ایک سال تک رُکے رہےاور دسمبر ۱۹۷۷ء میں ربوہ تشریف لے آئے۔ اُن دنوں فضل عمر ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر آپ کے والد محتر م صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب تھے۔ ان کی سربراہی میں آپ نے سرجری کا شعبہ سنبھالا اور ۴۵؍ سال تک اسی شعبہ میں کامیابی کے ساتھ ایسی فقید المثال خدمات سرانجام دیں کہ ایک زمانہ آپ کا قائل ہوگیا۔فضل عمر ہسپتال میں آپ کا کُل عرصہ خدمت ۵۴؍ سال ۶؍ ماہ اور ۲۷؍دن ہے۔

آپ ہسپتال کے شعبہ سرجری کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ۱۹۹۹ء سے انتظامیہ کمیٹی فضل عمر ہسپتال کے رُکن تھے اور اس وقت ڈائریکٹر پروفیشنل سروسزکے فرائض بھی سرانجام دے رہے تھے۔ہسپتال کی ڈویلپمنٹ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے جو بھی کمیٹیاں بنائی گئیں ان کے آپ ممبر رہے۔بوقتِ وفات صدر کمیٹی بورڈ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دستِ شفا عطا ہواتھا۔ اسی وجہ سے پاکستان بھر کے دُور و نزدیک کے شہروں سے مریض آپ سے علاج کرانے کے لیے آتے اور شفایاب ہوکر واپس جاتے۔ آپ کا مریض کو دیکھنے اور علاج کرنے کا ایک خاص انداز تھا۔ تفصیلی چیک اپ کرکے اور ٹیسٹوں کو دیکھ کرآپریشن یا ادویات دینے کا فیصلہ کرتے۔ پاکستان میں آپ کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک مرتبہ کسی نے بیرون ملک سے ڈاک کے لفافے پر مکمل ایڈریس کی بجائے صرف آپ کا نام اور پنجاب، پاکستان لکھ کر بھیجا جو بغیر رکاوٹ کے آپ تک پہنچ گیا۔

آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجلسِ عاملہ میں بطور مہتمم خدمتِ خلق اور مہتمم مجالس بیرون جبکہ مجلس انصاراللہ پاکستان کی مجلس عاملہ میں قائد ایثار کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔

۱۹۸۳ء سے تاحیات آپ وقفِ جدید انجمن احمدیہ کے ممبر رہے۔ بوقت وفات آپ وقف جدید کے سینئر ترین ممبر تھے۔

آپ بہت غریب پرور اور محبت و شفقت کرنے والے انسان تھے۔ مستحقین مریضان کی مالی امداد خودکردیتے حتیٰ کہ ہسپتال کی پرچی کے پیسے بھی خودادا کرتے۔ بعض اوقات مہنگے آپریشنز کے اخراجات بھی خود اٹھالیتے۔گھر میں کام کرنے والوں کو کبھی سخت الفاظ میں مخاطب نہیں کیا۔ غریب بچیوں کی شادیاں ذاتی خرچ پر کرائیں ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے سسرال جانے کے بعد بھی عیدوں اور خوشی کے مواقع پر ان کا خیال رکھا کرتے اوراگر بچیوں کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اس کو بھی حل کرا دیتے۔

بعض طلبہ کی تعلیمی امداد جاری کر رکھی تھی اور بڑی کلاسوں کے طالبعلموں کی فیسوں کی ادائیگی بھی خود کردیتے۔ آپ کے گھر کے دروازے اور ٹیلیفون کی گھنٹی دن میں کئی مرتبہ بجتی ، شفا حاصل کرنے کے علاوہ مختلف کاموں کے لیے اپنے اور غیر آپ کے پاس آتے لیکن آپ ہمیشہ ان کو خوش دلی اور شفقت سے ملتےاور پوری کوشش کے ساتھ مسائل حل کرکے بھیجتے۔گھر میں اگر کوئی بچہ ان باتوں سے پریشان ہوکر ان غریبوں کو کچھ کہتا تو اس کوپیار سے سمجھاتے کہ غریبوں اور مسکینوں کو ایسا نہیں کہتے بلکہ محبت سے پیش آتے ہیں۔آپ کا دوسروں کو سمجھانے کا اپنا انداز تھا۔

آپ کے بہت سے شوق ایسے تھے جن کو آپ فارغ اوقات میں انجام دیا کرتے تھے۔ پھولوں کا بہت شوق رکھتے تھے۔ بیرون ممالک سے بیج منگواتے اور گھر کے سبزہ زار میں ان کی کاشت کرتے اور مختلف کامیاب تجربات کے ذریعہ اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرتے۔ اور ربوہ سمیت لاہور کی نرسریوں کو ان پھولوں کی پنیری اور پودے تحفہ کے طور پر دیتے۔ گلشن احمد نرسری ربوہ کی دسمبر ۱۹۹۸ء میں پہلی گلِ داؤدی کی نمائش اور مارچ ۱۹۹۹ء میں موسمی پھولوں کی نمائش میں بہت شوق سے حصہ لیا اور محظو ظ ہوئے ۔ آپ کو زمینداری کے معاملات کا خوب علم تھا۔ جب کبھی اپنی زمینوں پر جاتے تو فصلوں کا تفصیلی جائزہ لیتے اور موقع محل کی مناسبت سے ہدایات دیتے۔اکثر زمیندار اچھی فصل حاصل کرنے کے لیے آپ سے راہنمائی لیا کرتے تھے۔ آپ کو فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا ۔ بتایا کرتے تھے کہ ان کے پاس خلفائے سلسلہ اور جماعت کی بہت سی اہم تاریخی اور نایاب تصاویر کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ آپ شکار پر بھی باقاعدہ جایا کرتے تھے۔ خوش لباس اور خوش وضع ہونے کی وجہ سے جہاں جاتے لوگوں کے مرکز نگاہ ہوتے ۔آپ کوٹ کی جیب کا رومال، ٹائی وغیرہ کا انتخاب بہت اچھے انداز سے کرتے۔ کسی تقریب میں جانے سے پہلے خوب اہتمام سے تیار ہوتے۔ وفات سے چند دن پہلے بھی آپ کو اپنے لباس کی فرنٹ جیب کے رومال کا خیال تھا ، اپنے چھوٹے بیٹے سے اس کی موجودگی کا پوچھتے رہے۔ ایسی نستعلیق انداز کی شخصیات اور خوبیوں کے مالک افراد روز روز پیدا نہیں ہواکرتے ۔ آپ ہمیشہ اس نیت سے بھی جیب میں پیسے رکھتے تا کہ کسی مستحق کی بروقت امداد کی جا سکے۔ چنانچہ وقتِ وفات بھی ان کی جیب میں کچھ رقم موجود تھی۔

بہت سے غیر از جماعت افراد افسوس کے لیے آپ کے گھر آرہے ہیں اور اپنے اپنے انداز سے محترم ڈاکٹر صاحب کی خوبیوں اور خدمت انسانیت کا تذکرہ کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے کہا کہ وہ ہمارے ڈاکٹر نہیں بلکہ محسن تھے۔ ان کی صفات ان کے کردار سے عیاں ہوتی تھیں۔ یہ با ت صحیح ہے کہ آپ احمدیت کی تعلیمات کا چلتا پھرتانمونہ تھے جن کے کردار سے ایک مخلص احمدی کے اوصاف جھلکتے تھے۔

آپ کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ صاحبزادی امۃالرقیب بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے محترم مرزا بشیرالدین فخر احمدصاحب (ہالینڈ)، محترم مرزا محمود احمد صاحب (یوکے) اور ایک بیٹی محترمہ امۃ العلی زینوبیہ صاحبہ اہلیہ محترم مرزا محمود احمد صاحب (یوکے) شامل ہیں۔

ادارہ الفضل انٹر نیشنل سیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، افرادِ خاندان حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور مرحوم کے پسماندگان سے اظہار افسوس اور تعزیت کرتاہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم صاحبزادہ صاحب مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button