متفرق مضامین

شرک سے اجتناب

(منصور احمد۔ مربی سلسلہ)

شرطِ بیعت اول

’’بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو، شرک سے مجتنب رہے گا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۵۹)

’’شرک‘‘ کسی چیز میں حصہ دار بنانے کو کہتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں شرک سے مراد کسی چیز یا قول یا فعل میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی پر بھروسا کرنا ہے۔ اسلام میں شرک کرنا گناہِ کبیرہ ہے اسی لیے قرآن کریم نے اسے ظلم عظیم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا(سورۃ النساء آیت:۴۸)یقیناً اللہ معاف نہیں کرے گا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ سب کچھ معاف کر دے گا جس کے لئے وہ چاہے۔ اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ افترا کیا ہے۔

حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ انسان جب پیدا ہوا تو موحد تھا بعد میں اسے شرک کی بیماری لاحق ہوئی۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب الجنائز میں درج ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَعَنَ اللّٰهُ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا۔یعنی اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا یا۔ بس یہی اندیشہ تھا جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو بھی ظاہر نہیں کیا گیا یعنی کسی کھلی جگہ پر نہیں بنائی گئی۔

یہودی شرک کا آغاز کرنے والے اور مشرکوں کے پیشوا سمجھے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہود کے متعلق فرماتے ہیں:’’ وہ لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور جسم قرار دینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت وغیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک گرداننے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۴۶۶حاشیہ نمبر۱۱)

حدیث میں آتا ہے کہ نَهَى رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأنْ يُبْنَى عَلَيْهِ لا تُصَلُّوْا إلَى الْقُبُوْرِ، وَلَا تَجْلِسُوْا عَلَيْهَا۔(صحیح مسلم کتاب الجنائز)رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے، ان کے اوپر عمارت تعمیر کرنے، ان کی طرف نماز پڑھنے اور ان کے اوپر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

شرک کی اقسام بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’شرک تین قسم کا ہے۔ اول یہ کہ عام طور پر بت پرستی، درخت پرستی وغیرہ کی جاوے۔ یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے۔ دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فلاں کام نہ ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ یہ بھی شرک ہے۔ تیسری قسم شرک کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے سامنے اپنے وجود کو بھی کوئی شے سمجھا جاوے۔ موٹے شرک میں تو آجکل اس روشنی اور عقل کے زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا البتہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۱۶,۲۵۵، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خداتعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے۔ ان سب صورتوں میں وہ خداتعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے۔ بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل‘‘(کوئی بات، کوئی چیز، کوئی عمل) ’’جس کو وہ عظمت دی جائے جو خداتعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بُت ہے…یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزّہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعِز اور مُذِل خیال نہ کرنا۔‘‘ (یعنی کوئی ایسا شخص خیال نہ کرنا جو عزت دینے والا ہے یا ذلیل کرنے والا ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ ہی عزتیں دیتا ہے اور ذلت دیتا ہے) ’’کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا۔ اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا۔ اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا۔‘‘(اُسی سے وابستہ رکھنا) ’’اپنا خوف اسی سے خاص کرنا۔ پس کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی۔‘‘(وہ کون سی تین قسم کی خاص باتیں ہیں۔ فرمایا) ’’اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا‘‘(جو کچھ بھی دنیا میں موجود ہے اُس کی کوئی حیثیت نہیں) ’’تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔‘‘(ہر چیز جو ہے وہ ہلاک ہونے والی ہے اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی، ختم ہونے والی ہے اور اُس کی کوئی حقیقت نہیں، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سب جھوٹ ہے)۔ ’’دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا‘‘(کہ ربّ صرف ہمارا خدا ہے وہی ہمارا پالنے والا ہے اور وہی ہے جس کو خدائی طاقت حاصل ہے جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور منبع ہے)۔ فرمایا ’’اور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں‘‘(یہ مختلف قسم کے جو پالنے والے نظر آتے ہیں یا جن سے ہم فائدہ اُٹھاتے ہیں) ’’یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا‘‘(یہ سب لوگ بھی، جن سے ہمیں فائدہ دنیا میں مل رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہی مل رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے نظام کا ایک حصہ ہیں)۔ ’’تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خداتعالیٰ کا شریک نہ گرداننا۔ اور اسی میں کھوئے جانا۔‘‘(یعنی عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی کرنا۔)(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کاجواب، روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ۳۴۹-۳۵۰ ماخوذ ازخطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۲ء)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’بعض شرک تو ظاہری ہوتے ہیں لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں شرک کرتے ہیں جو مشرکین تھے وہ اس زمانے میں بھی کیا کرتے تھے آج کل بھی بتوں کی پوجا کرنے والے ہیں جو خود انہوں نے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں جو نہ ہی کسی قسم کا نفع دے سکتے ہیں نہ کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ شرک جو ظاہری شرک ہے یہ ہر ایک کو نظر آرہا ہوتا ہے بعض مخفی شرک بھی ہوتے ہیں کسی مشکل وقت میں دنیاوی وسائل کی طرف نظر رکھنا دنیاوی اسباب کو ضرورت سے زیادہ توجہ دینا اور تلاش کرنا۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ اپریل ۲۰۰۹ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍ مئی ۲۰۰۹ء)

شرک کو اللہ تعالیٰ انتہائی ناپسند فرماتا ہے اور مشرک کو کبھی معاف نہیں فرماتا یہی وجہ ہے کہ شرک کو گناہ کبیرہ کہا گیا ہے۔ ہم احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے لیے جن دس شرائط پر عمل کا عہد کرتے ہیں ان میں سے پہلی شرط شرک سے اجتناب کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے عہد بیعت کو کماحقہ نبھانے والے ہوں اور خدا تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کرنے والے ہوں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button