متفرق مضامین

درود شریف کے ذریعہ امت محمدؐیہ میں نبوت کے انعام کی دعا مانگی جاتی ہے

(قمر داؤد کھوکھر۔ آسٹریلیا)

حافظ شمس الدین محمد بن عبد الرحمٰن السخاویؒ مصر میں سخا کے مقام پر ۸۳۱؍ ہجری میں پیدا ہوئے۔ قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد حدیث وعلوم دینیہ کے لیے بہت سے علمائے وقت کی شاگردی اختیار کیاور ابن حجر العسقلانیؒ جیسے فاضل علماء سے اکتساب فیض کیااور متعدد کتب وتصانیف علمی ورثہ کے طور پر چھوڑ کر شعبان ۹۰۳؍ ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائی۔

امام سخاوی ؒنے درود و سلام کے فضائل وبرکات، اسرار و رموز اور اجر و ثواب کے موضوع پر’’ اَلْقَوْلُ الْبَدِیْعِ فِی الصَّلوٰۃِ عَلَی الْحَبِیْبِ الشَّفِیْعِ ﷺ‘‘کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی جو اس موضوع پر بڑی جامع ومانع اور عظیم الشان کتاب ہے۔اس کتاب سے ایک اقتباس بغیر کسی تبصرہ کے آئندہ سطور میں پیش کیا جا رہا ہے۔

امام صاحب موصوف اس کتاب کے صفحہ۲۰۷ میں درود شریف میں نبی کریم ﷺ کی حضرت ابراہیم ؑ سے تشبیہ کی دسویں وجہ بیان کرتے ہو ئے یہ لکھتے ہیں کہ وَ نَقَلَ شَیْخُنَا عَنِ الْمَجِدِ اللُّغَوِیِّ جَوَابًا، نَقَلَہٗ عَنْ بَعْضِ اَہْلِ الْکَشْفِ حَاصِلُہٗ اَنَّ التَّشْبِیْہَ لِغَیْرِ اللَّفْظِ الْمُشَبَّہِ بِہِ لَا لِعَیْنِہِ، وَذَالِکَ اَنَّ الْمُرَادَبِقَوْلِنَا اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ اِجْعَلْ مِنْ اَتِّبَاعِہِ مَنْ یَبْلُغَ النِّہَایَۃَ فِیْ اَمْرِ الدِّیْنِ، کَالْعُلَمَاءِ بِشَرْعِہِ بِتَقْدِیْرِہِمْ اَمْرَ الشَّرِیْعَۃِ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ بِأَنْ جَعَلْتَ فِیْہِمْ اَنْبِیَاءَ یُخْبِرُوْنَ بِالْمُغَیَّبَاتِ، فَالْمَطْلُوْبُ حُصُوْلُ صِفَاتِ الْاَنْبِیَاءِ لِآلِ مُحَمَّدٍ، وَہُمْ اَتْبَاعُہٗ فِیْ الدِّیْنِ، کَمَا کَانَتْ حَاصِلَۃً بِسُؤَالِ اِبْرَاہِیْمَ۔ ہٰذَا حَاصِلٌ مَا ذَکَرَہٗ۔

قَالَ شَیْخُنَا وَہُوَ جَیِّدٌ اِنْ سُلِّمَ اَنَّ الْمُرَادَ بِالصَّلَاۃِ ہُنَا مَا اِدَّعَاہُ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔

وَفِیْ نَحْوِ ہَذِہِ الدَّعْوَی جَوَابٌ آخَر، اَلْمُرَادُ اَللّٰہُمَّ اسْتَجِبْ دَعُاءَ مُحَمَّدٍ فِیْ اُمَّتِہِ، کَمَا اسْتَجَبْتَ دُعَاءَ اِبْرَاہِیْم فِیْ بَنِیْہِ۔ وَیُعَکِّر عَلَی ہَذَا عَطْفُ الآلِ فِیْ الْمَوْضعَیْنِ، وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ۔

قُلْتُ وَقَدْ أَطَالَ الْمَجْدُ اللُّغَوِیِّ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ تَقْرِیْرٍ مَا تَقَدَّمَ عَزّوہ اِلَیْہِ، وَخَتَمَ بِقَوْلِہِ وَتَلْخِیْصُ ذٰلِکَ أَنْ یَّقُوْلَ الْمُصَلِّی اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ بِاَنْ تَجْعَل مِنْ اُمَّتِہِ عُلَمَاءَ وَصُلَحَاءَ بَالِغِیْنَ نِہَایَاتِ الْمَرَاتِبِ عِنْدِکَ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ بِاَنْ جَعَلْتَ آلَہٗ اَنْبِیَاءَ وَ رُسُلاً بَالِغِیْنَ نِہَایَاتِ الْمَرَاتِبِ عِنْدَکَ، وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ اِبْرَاہِیْمَ بِمَا أَعْطَیْتَہُمْ مِنْ التَّشْرِیْعِ وَالْوَحْیِ، اَعْطَاہُمُ التَّحْدِیْثَ، فَمِنْہُمْ مُحَدَّثُوْنَ، وَ شَرَعَ لَہُمُ الْاِجْتِہَادَ وَ قَرَّرَہُ حُکْمًا شَرْعِیًّا، فَأَشْبَہَتِ الْاَنْبِیَاءَ فِیْ ذٰلِکَ فَافْہَمْ، فَاِنَّ فِیْ ہٰذِہِ فَائِدَۃٌ جَلِیْلَۃٌ عَظِیْمَۃٌ، وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیْل۔ ( اَلْقَوْلُ الْبَدِیْعِ فِیْ الصَّلٰوۃِ عَلَی الْحَبِیْبِ الشَّفِیْعِ لامام الحافظ المورخ محمد بن عبد الرحمان السخاوی المتوفی ۹۰۲ ہجری صفحہ ۲۰۷، شائع کردہ مؤ سسۃ الریان مدینہ منورہ ۲۰۰۲ء)

ترجمہ: ہمارے شیخ نے اس کے جواب میں المجد اللغوی کا قول بعض اہل کشف کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں (درود شریف میں) مشبہ بہ کے الفاظ کے ساتھ تشبیہ نہیں ہے اور نہ ہی مشبہ بہ کے عین کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس لیے ہمارے اس قول اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ ! آنحضرت ﷺ کے متبعین کو دین کے معاملہ میں انتہائی مقام پانے والا بنا دے۔ جیسے کہ آپؐ کی شریعت کے علماء جو شریعت کے معاملات کو قائم کرنے والے ہیں۔ (اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ )کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ تو اس سے مراد یہ ہے کہ جیسے کہ (اے اللہ!) تو نے ابراہیم ؑ (کی اولاد میں ) ایسے انبیاء پیدا فرمائے جو غیب کی خبریں دیتے تھے۔ پس یہاں آل محمد ﷺ جو آپؐ کے متبعین ہیں،ان کے لیے (بھی) انبیاء کی صفات کا حصول ہی مطلوب ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے سوال سے ثابت ہے۔ المجد اللغوی نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ اس کا خلاصہ ہے۔

ہمارے شیخ کہتے ہیں کہ یہ جواب بہت اچھا ہے (اس صورت میں کہ ) اگر صلاۃ سے مراد وہ مفہوم تسلیم کر لیا جائے جو انہو ں نے بیان کیا ہے۔ اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

اور اس طرح کے دعویٰ میں ایک اَور جواب یہ بھی ہے کہ (درود شریف کی دعا ) سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ ! حضرت محمد ﷺ کی دعا آپؐ کی امت کے حق میں بھی قبول فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم ؑ کی دعا ان کے بیٹوں کے حق میں قبول فرمائی تھی۔

لیکن اس صورت میں دونوں جگہ آل کے عطف کا التباس ہو گا۔ اور اس بات پر اللہ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔

میں(امام سخاویؒ) یہ کہتا ہوں کہ المجد اللغوی نے اپنے اس نکتہ کی وضاحت کو طویل کر دیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب درود بھیجنے والا اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍکہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ ! آنحضرت ﷺ کی امت میں ایسے علماء اور صالحین پیدا فرما جو تیرے حضور انتہائی بلند مقامات پانے والے ہوں۔(اسی طرح)کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمجیسے تو نے ابراہیم ؑ کی آل میں ایسے انبیاء اور رسول مقررفرمائے جو تیرے حضور انتہائی اعلیٰ مراتب کو پہنچے ہوئے تھے۔ (اور جب درود بھیجنے والا یہ کہتا ہے کہ) وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ اِبْرَاہِیْمَ (تو وہ دراصل اللہ تعا لیٰ سے یہ طلب کر رہا ہو تا ہے کہ)آل محمد ؐ کو بھی اسی طرح کی(نعمت عطا فرما) جیسے تو نے آل ابرہیم ؑ کو شریعت اور وحی کی نعمت عطا فرمائی تھی اور انہیں مُحَدَّثِیَّتْ عطا کی تھی اور ان میں بعض مُحَدَّثِیْن تھے، اجتہاد ان کے لیے مشروع ہو گیا اور حکم شرعی ان کے لیے قائم ہوا۔ پس اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لو کہ اس لحاظ سے آل محمد ؐ انبیاء کے مشابہ ہو گئے ہیں۔ اور اس بات میں ایک بڑا ہی عظیم الشان فائدہ بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حق بات ہی فرماتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی راہ دکھاتا ہے۔

(نوٹ: عربی عبارت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ترجمہ میں بریکٹس میں بعض الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ امام سخاویؒ نے اس مذکورہ بالا اقتباس میں اپنے شیخ کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد علامہ ابن حجر العسقلانی ؒہیں۔ اس کی وضاحت انہو ں نے اپنی اس کتاب کے صفحہ ۵۶اور ۴۸۲پر کی ہے۔ اسی طرح مجد اللغوی سے مراد ’’القاموس المحیط ‘‘کے مصنف مجد الدین محمد بن یعقوب فیروزآبادی ہیں۔ اس کا ذکر بھی امام موصوف نے صفحہ ۴۷۷پر کیا ہے۔ مجدالدین فیروزآبادی نے اس اقتباس میں مذکور امور کا ذکر اپنی تصنیف ’’ اَلصِّلاَتُ وَالْبُشَرُ فِی الصَّلوٰۃ عَلَی خَیْرِ الْبَشَرِ‘‘میں کیا ہے جس کا ذکر امام سخاوی ؒ نے اپنی کتاب کے صفحہ۴۰، ۳۸۸اور ۴۷۷پر کیا ہے۔مجد الدین فیروزآبادی کی یہ کتاب شاید پاکستان یا ہندوستان میں کسی جگہ دستیاب ہوسکے۔واللہ اعلم )

کتاب کی عنداللہ قبولیت کے بارہ میں ایک رؤیا

اس کتاب کے عنداللہ مقبول ہونے سے متعلق امام سخاویؒ نے اپنی اس کتاب کے بارےمیں اپنے دور کے ایک ولی اللہ شیخ احمد بن رسلانؒ کے ایک رؤیا کا ذکر کیا ہے کہ شیخ احمد ؒ نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا اور امام سخاویؒ کی یہ کتاب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش فرمائی۔ یہ کتاب رسول اللہ ﷺ نے اپنے سامنے رکھ دی اور پھر اس کتاب کی تصدیق فرمائی۔ امام سخاویؒ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور مجھے اس کتاب کے نبی کریم ﷺ کے حضور اور اللہ تعا لیٰ کی بارگاہ میں قبول ہونے کی اور ثواب کی امید ہو گئی۔( صفحہ ۳۳۳ )

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَ صَلّی اللّٰہ تَعَا لیٰ عَلیٰ حَبِیْبِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلیٰ آلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button