الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ رضیہ شیخ صاحبہ کے قلم سے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔

خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑکو جہاں ایک موعود بیٹے کی خوشخبری دی تھی وہاں ایک پوتے کی بھی بشارت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے 26؍دسمبر 1905ء کو الہاماً فرمایا ’’اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ نَّافِلَۃً لَّکَ، نَافِلَۃً مِّنۡ عِنۡدِیۡ‘‘(تذکرہ صفحہ500)یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ تیرے لیے نافلہ ہے، وہ ہماری طرف سے نافلہ ہے۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بھی الہاماًفرمایا کہ ’’میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا۔‘‘ (الفضل8؍اپریل1915ء)

یہ دونوں الٰہی وعدے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بابرکت ذات میں ایک عظیم شان کے ساتھ پورے ہوئےاور 16؍نومبر1909ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے ہاں حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ کے بطن سے یہ موعود بیٹا پیدا ہوا۔

آپؒ کی پرورش حضرت امّاں جانؓ کی مبارک گود میں ہوئی۔ آپؒ بھی اپنی اس خوش بختی پر ناز فرماتے کیونکہ یہ کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر تھی کیونکہ آپؒ نے حضرت مسیح موعودؑ کے انوار کو دنیا میں پھیلانا تھا۔

خداتعالیٰ سے آپؒ کو بہت پیار تھا۔ آپؒ نے فرمایا: ’’ہماری منزل اور ہماری پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا اور اس کی محبت میں فنا کے لبادہ کو اوڑھنا ہے۔‘‘ آپؒ کے بچپن کے ساتھی مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب سابق لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربوہ بیان کرتے ہیں کہ1928ء میں جب مدرسہ احمدیہ سے الگ جامعہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ بھی جامعہ کے ابتدائی طلبہ میںشامل تھے۔ جامعہ ایک چھوٹی سی کوٹھی میں تھا جو چار مختصر کلاسوںکے لیے کافی تھی۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کو خیال آیاکہ اگر چہ مسجد نور بھی قریب ہی ہے مگر انفرادی طور پر نماز ادا کرنے کے لیے کوئی جگہ ہونی چاہیے چنانچہ کوٹھی کے ایک جانب نماز کی ادائیگی کے لیے ایک چبوترہ بنانے کا پروگرام بنا۔یہ سب کام طلبہ نے خود ہی کیاجس میں حضورؒ نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ شام تک یہ چبوترہ اینٹوں اور گارے سے مکمل ہوگیا۔ اس کے اوپر کی سطح زیادہ ہموار نہیں تھی کیونکہ ہم لیول کرنا تو جانتے نہ تھے … بہرحال ہم نے سوچا کہ اس نقص کو ہم سیمنٹ بچھا کر دُور کرلیں گے۔ ہمارے پڑوس میں ایک ماہر معمار ٹھیکیدار فیض احمد صاحب رہتے تھے۔ میری درخواست پر وہ اگلے روز فجر کے بعد آگئے اور تھوڑے سے وقت میں چبوترہ پر بڑا عمدہ فرش بچھا دیا ۔ جب آٹھ بجے طلبہ آئے، صاحبزادہ صاحبؒ بھی تشریف لائے تو سب حیران ہوئے۔ آپؒ کچھ بسکٹ اور ٹافیاں لائے تھے جو چبوترہ مکمل ہونے پر مجھے دیں کہ سب طلبہ میں بانٹ دیں نیز آپ نے دو روپے بھی مجھے دیے کہ یہ مستری صاحب کو دے دیں۔

حضورؒ کو آنحضرت ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی اسوۂ حسنہ کی پیروی فرماتے۔ چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں: ’’آنحضرت ﷺ کے متعلق احادیث میں بیان ہوا ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ گویا مسکرانا سنت نبوی ﷺہے۔ اس واسطے میں نے پہلے بھی متعدد بار کہا ہے کہ مجھے بھی اور مجھ سے پہلوں کو بھی بڑے مصائب اور پریشانیوں میں سے گزرنا پڑتا رہا ہے۔مگر ہماری مسکراہٹ کوئی نہیں چھین سکتا ۔‘‘

آپؒ نے فرمایا: ’’میں ذاتی تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا مجھ سے پیار کرتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں کچھ ہوں،میں تو ایک عاجز ترین انسان ہوں بلکہ اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے عظیم رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘

حضورؒ کو قرآن شریف سے بے پناہ عشق تھا۔ 13سال کی عمر میں آپؒ نے قرآن کریم حفظ کرلیا۔ اسی سال ماہ رمضان میںتراویح پڑھانے کی توفیق ملی۔آپؒ نے ساری عمر زندگی کے ہر شعبے میں قرآن کریم سے مدد لی اور آیات قرآنی کو تمام شعبوں میں اس طرح نافذ فرمایا کہ آپؒ کا ہر عمل آیات قرآن کی تفسیر بن گیا۔ چنانچہ فرمایا: ’’مَیں نے اپنی عمر میں سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم کا نہایت تدبّر سے مطالعہ کیا ہے۔ اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو دنیا وی معاملات میں ایک مسلم اور غیرمسلم میں تفریق کی تعلیم دیتی ہو۔ شریعت اسلامی بنی نوع انسان کے لیے خا لصاً باعث رحمت ہے۔ حضرت محمدﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے لوگوں کے دلوں کو محبت، پیار اور ہمدردی سے جیتا تھا اگر ہم بھی لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی اُن کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔‘‘

آپؒ کی خلیفۂ وقت کی اطاعت و فرمانبرداری کے بارے میں حضرت صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہؒ بیان فرماتی ہیں کہ آپؒ حضرت سیدی ابّاجان (سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ) کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتے اور ان کے مقام کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ یہاں باپ بیٹے کا سوال نہیں بلکہ امام مرید کا معاملہ تھا۔ اولاد بعض اوقات اپنے والدین سے شکوے شکایت بھی کرلیتی ہے مگر آپؒ کے منہ سے کبھی کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا جس میں شکوے کا شائبہ بھی ہو۔

2؍جولائی 1934ءکو آپؒ کی پہلی شادی حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ و حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ ہوئی۔ حضورؒ خود فرماتے ہیں: ’’ہماری شادی کے متعلق حضرت اماں جانؓ کو بہت سی بشارتیں ملی تھیں۔ … یہ رشتہ آپؓ نے کروایا تھا الٰہی بشارات کے مطابق اور جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ نے بعض اغراض کے مدّنظر خود کیا اور ایک ایسی ساتھی میرے لیے عطا کی جو میری زندگی کے مختلف ادوار میں میرے بوجھ کو بانٹنے کی اہلیت رکھتی تھیں۔‘‘

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کو بھی حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی پیدائش سے پہلے خواب آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م انہیں فرما رہے ہیں کہ تمہارے ہاں بیٹی ہوگی اس کا رشتہ میرے پیارے بیٹے محمود کے بیٹے سے کرنا، مبارک رشتہ ہوگا پاک نسلیں چلیں گی۔

حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہؒ کی وفات پر اُن کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا: ساری ذمہ داریاں جو میرے نفس کی تھیں وہ آپ نے سنبھال لیں۔… مجھے ہر قسم کے ذاتی فکروں سے آزاد کرکے، سارے اوقات کو احباب کی فکروں میں لگانے کے لیے موقع میسر کردیا۔

حضورؒ نے خالصتاً دینی اغراض کے لیے نکاح ثانی کا ارادہ فرمایا اور بہت دعائوں کے بعد11؍اپریل 1982ء کو آپؒ کی شادی محترمہ ڈاکٹر طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ سے ہوئی۔ حضورؒ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ بیان کرتی ہیں کہ بحیثیت بیوی میں دل کی گہرائی سے اس بات کی گواہی اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں دیتی ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے آقا حضرت محمدﷺ کے اسوۂ پر بھرپور عمل فرمایا۔ بسا اوقات میں آنحضورﷺ کا اپنی ازواج کے ساتھ حسن سلوک کا کوئی واقعہ پڑھتی ہوں تو معاً اُس سے ملتا جلتا واقعہ مجھے حضورؒ کی محبت وشفقت کا یاد آجاتا ہے۔

شادی سے ایک روز پہلے آپؒ نے میری اُمی کو ایک جائے نماز تحفۃًبھجوایا اور ساتھ پیغام بھیجاکہ جب بیٹی کی یاد آئے تو اس پر دو نفل پڑھ کر اس کے لیے دعا کردیا کریں۔

مزید لکھتی ہیں کہ حضورؒ کو رونا پسند نہیں تھا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ طبیعت میں نرمی تھی اور دوسرے کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ مجھ سے فرمایا میں تمہاری آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ میرے جذبات کا ہر طرح سے احساس فرماتے اور خیال رکھتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی پسند کا خیال رکھتے۔ آپؒ نے لان میں پڑے ہوئے للّی کے گملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ دیکھو کتنے خوب صورت ہیں۔ مَیں نے ایسے ہی کہہ دیا کہ سارے سفید ہیں۔ اگلے روز سرخ للّی کے پھولوں والے گملے بھی ساتھ رکھوا دیے۔ آپؒ نے مجھے پینے کے لیے سپین کا بناہوا جوس دیا۔ مجھے اچھا لگا اور مَیں نے اس کی تعریف کی۔ اُس کے بعد سے باقاعدہ میرے لیے کمرے میں جوس رکھوانا شروع کردیا۔

حضورؒ کی صاحبزادی امۃالشکور صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ہم بچوں کی چھوٹی معصوم نادانیوں کوEnjoy بھی کرتے تھے اور بلاوجہ روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ خاص طور پر ابا بالکل بھی نہیں ڈانٹتے تھے۔ تربیت کا انداز بڑا انوکھا تھا حضرت اماں جانؓ والا یعنی Indirectطریقے پر، کبھی یوں نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ یہ بری بات ہے، اس طرح نہیں کرتے بلکہ باتوں باتوں میں کبھی حدیث سنا دیتے ،کبھی بزرگوں کی کوئی مثال دے دیتے، ایک بار کھانا کھاتے ہوئے کسی بات پر کہنے لگے : حضرت اماں جانؓ اپنے بچوں کو بھی اور مجھے بھی کہا کرتیں کہ میرے بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے اس لیے ہم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ یہ کہہ کر ہمیں اس نظر سے دیکھا گویا یہی اعتماد میں اپنے بچوں پر بھی رکھتا ہوں۔

حضورؒ کی ایک بیٹی بیان کرتی ہیں کہ حضورؒ اس بات کو ناپسند فرماتے کہ حضورؒ کی کسی سے ناراضگی ہو اور اُس شخص کے بارے میں شکایات شروع کردی جائیں۔ کیونکہ وہ بے چارہ تو پہلے ہی ناراضگی کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔

حضورؒ کی ایک بہو نے بتایا کہ آپؒ اور حضرت بیگم صاحبہؒ بہوؤں سے بیٹیوں سے زیادہ حسن سلوک کرتے۔ چنانچہ ایک سفر سے واپسی پر سب کے لیے کپڑوں کے سُوٹ لے کر آئے تو مجھے بلاکر فرمایا کہ پہلے تم اپنی پسند کا لے لو پھر دوسروں میں تقسیم کردیں گے۔

حضورؒ کے ایک بیٹے کہتے ہیں کہ حضورؒ کا خدا سے زندہ تعلق تھا۔خدا آپؒ سے بولتا، ہم کلام ہوتا، آپؒ کی دعائوں کو سنتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے آپؒ کو تعلق باللہ اور قبولیت دعا کے نشان سے نوازا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ میرا امتحان تھا۔ رات مَیں پڑھ رہا تھا کہ رات گیارہ بجے کے قریب میں نے محسوس کیا کہ اس پرچہ کی بالکل تیاری نہیں اس لیے یہ پرچہ نہیں دیتا۔ اپنے دل میں فیصلہ کرکے کتاب بند کرکے سو گیا۔ صبح سات بجے کے قریب دروازہ کھٹکا ،کھولا تو دفتر کا آدمی تھا۔ انہوں نے حضورؒ کا خط دیا جس میں لکھا تھا کہ ’’میرا تمہارا ایسا تعلق ہے کہ رات خدا نے مجھے بتا دیا کہ تم صبح کا پرچہ نہیں دے رہے۔ صبح کا پرچہ ضرور دو خواہ فیل ہی ہوجائو۔‘‘ خدا کی شان دیکھیے کہ مَیں نے پرچہ دیا اور پاس ہوگیا۔

حضورؒ نے اپنا طالب علمی کے زمانہ کا ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان فرمایا کہ مَیں جن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا کرتا تھا ۔ کالج میں چھٹی تھی۔ مَیں قادیان جا رہا تھا۔ ایک تیز قسم کا مخالف بھی گاڑی کے اسی ڈبے میں بیٹھ گیا۔ لاہور سے امرتسر تک وہ میرے ساتھ سخت بد زبانی کرتا رہا اور مَیں مسکرا کر اُسے جواب دیتا رہا۔ جس وقت وہ امرتسر میں اترا تو کہنے لگا اگر آپ جیسے مبلغ آپ کو دو سو مل جائیں تو آپ ہم لوگوں کو جیت لیں گے کیونکہ میں نے آپ کو غصہ دلانے کی پوری کوشش کی مگر آپ تھے کہ ہنستے چلے جا رہے تھے۔

مکرم ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب بھی سابقہ مشرقی پاکستان سے لاہور آتا اور محترم شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم حضورؒ سے ملنے ربوہ جا رہے ہوتے تو خاکسار بھی اُن کے ساتھ ہو لیتا۔ ایسے ہی ایک موقع پر حضورؒ نے فرمایا کہ کھانا مل کر کھائیں گے۔ کھانے سے پیشتر نماز ظہر ادا کرنی تھی۔ خاکسار نے حضورؒ سے عرض کی کہ وضو کرنا ہے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ حضورؒ خود باہر تشریف لائے اور اس عاجز کو غسلخانہ دکھایا۔ خاکسار جب اطمینان سے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر غسلخانہ سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضورؒ تولیہ لیے کھڑے ہیں۔ خاکسار کے پائوں تلے سے تو زمین نکل گئی۔ شرم کے مارے سمجھ نہیں آتا تھاکہ کیا کہے۔ سچ ہے خدا تعالیٰ جنہیں خود چنتا ہے وہ عظیم اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔

حضورؒ نے مختلف حیثیتو ںسے بھرپور خدمت کی توفیق پائی۔ 1939ء میں بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ آپؒ کی تقرری ہوئی۔ 1939ء ہی میں مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر بنے 1949ء سے 1954ء تک نائب صدر کے فرائض انجام دیے۔ مئی 1944ء سے نومبر 1965ء انتخاب خلافت تک تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل رہے۔ جون 1948ء تاجون 1950ء فرقان فورس میں انتظامی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی۔ 1953ء میں اسیرراہ مولیٰ بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ 1954ء میں مجلس انصاراللہ کے صدر بنے اور 1955ء میں صدر انجمن احمدیہ کے صدر مقرر ہوئے۔ علاوہ ازیں تقسیم ہند سے قبل بائونڈری کمیشن کے لیے مواد فراہم کرنے اور حفاظت مرکز قادیان کے کام کی نگرانی میں نمایاں خدمات کی توفیق پائی۔

حضورؒ کے دَور کی معروف تحریکات یہ ہیں: (1)سورۃ البقرہ کی پہلی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک۔ (2)استغفار کرنے کی تحریک۔(3)بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک۔(4)نصرت جہاں لیپ فارورڈ (آگے بڑھو)منصوبہ۔ (5)ہمیشہ مسکراتے رہنے کی تحریک۔(6)وقف عارضی کی بابرکت تحریک۔(7)صدسالہ جوبلی کا دعائیہ روحانی پروگرام۔ (8)لاالہ الا اللہ کا ورد کرنے کی تحریک۔ (9)جماعت احمدیہ کو ’ستارہ احمدیت ‘کا تحفہ۔ (10)ہر گھر میں تفسیر صغیر رکھنے کی تحریک۔ (11)حفظ قرآن کی تحریک۔ (12)مجالس موصیان کا قیام۔ (13) سو زبانوں میں لٹریچر تیار کرنے کی تحریک۔ (14)اشاعت قرآن کی تحریک۔ (15)مساکین کو کھانا کھلانے کی تحریک۔ (16) مسجد اقصیٰ ربوہ کی تعمیر۔ (17)افریقہ کے لیے ڈاکٹروں اور اساتذہ کو وقف کرنے کی تحریک۔

اس کے علاوہ سپین میں مسجد بشارت کے سنگ بنیاد کے موقع پر حضورؓ نے ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا ماٹو جماعت کو دیا۔ 27؍دسمبر1981ء کو جلسہ سالانہ ربوہ میں حضورؓ نے جماعت احمدیہ کو ’ستارۂ احمدیت‘ عطا کرتے ہوئے فرمایا ’’ستارۂ احمدیت ان برگزیدہ احمدیوں کی علامت ہے جو پہلے پیدا ہوئے اورقیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے۔‘‘ چودہ کونوں والے اس ستارے کے وسط میں لاالٰہ الااللہ جبکہ ہر کونے میں اللہ اکبر لکھا ہوا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات9؍جون 1982ء کو رات ایک بجے اسلام آباد (پاکستان) میں ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button