خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ بدر کا پس منظر: خلاصہ خطبہ جمعہ ۲؍جون ۲۰۲۳ء

٭… کفار مکہ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو رويہ اور تدابير اختيار کيںوہ کسي بھي زمانے اور علاقے سے قطع نظر دو قوموں ميں جنگ چھڑجانے کے ليے کافي وجوہات تھيں

٭… مکرم خواجہ منیر الدین قمر صاحب آف یوکےکا جنازہ حاضر نیز مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب واقف زندگی فضل عمر ہسپتال ربوہ، مکرمہ سیدہ امۃ الباسط صاحبہ آف اسلام آباد پاکستان اور مکرم شریف احمد بندیشہ صاحب صدر جماعت چک نمبر۲۶۱ر۔ب ادھوالی ضلع فیصل آباد کی وفات پر
مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍جون۲۰۲۳ء بمطابق۲؍احسان ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،مورڈن، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲؍جون ۲۰۲۳ء کو مسجد بیت الفتوح، مورڈن، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

بدری صحابہ کی سیرت اور قربانیوں کے متعلق مَیں ایک سلسلہ خطبات میں بیان کرتا رہا ہوں۔ بہت سے لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا اور مجھے لکھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ بیان کی جائے تو تشنگی رہ جائے گی۔

اصل محور تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جس کے گرد صحابہ گھومتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر گذشتہ کچھ عرصے میں خطبات دیے بھی گئے ہیں۔ لیکن

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایسی ہے کہ جسے محدود نہیں کیا جاسکتا۔

ایک ایک وصف ایسا ہے کہ جس کا احاطہ کئی کئی خطبات میں بھی نہیں ہوسکتا۔

یہ سیرت ان شاءاللہ وقتاً فوقتاً بیان ہوتی بھی رہے گی۔ یہی ہماری زندگیوں کا محور ہے، اس کے بغیر ہمارا دین ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال اس وقت میں جنگِ بدر کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تاریخ کے واقعات پیش کروں گا اور یہ سلسلہ آئندہ چند خطبات میں بھی چلے گا۔

سب سے پہلے اس جنگ کا پس منظر بیان کرتا ہوں۔ اس پس منظر میں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بعض پہلو بیان ہوجاتے ہیں۔ جنگِ بدر کے اسباب بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ’’سیرت خاتم النبیینؐ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ کفار مکہ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو رویہ اور تدابیر اختیار کیں وہ کسی بھی زمانے اور علاقے سے قطع نظر دو قوموں میں جنگ چھڑجانے کے لیے کافی وجوہات تھیں۔طعن و تشنیع اور تحقیر آمیز رویّے کے ساتھ مسلمانوں کو خدائے واحد کی عبادت اور توحید کے اعلان سے جبراً روکا۔ انہیں مارا پیٹا، ان کے اموال لوٹ لیے، ان میں سے بعض کو قتل کیا، ان کی عورتوں کی بےحرمتی کی۔ جب بعض مسلمان حبشہ ہجرت کرگئے تو نجاشی کے دربار تک ان مسلمانوں کو واپس لانے کے لیے پیچھا کیا۔ مسلمانوں کے سردار یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح سے تکالیف دی گئیں، طائف میں پتھر برسائے گئے، اور بالآخر مکّے کی پارلیمان میں تمام سرداروں کے اتفاق سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کردیا جائے۔ پھر اس خونی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نوجوانانِ مکہ رات کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر حملہ آور ہوئے۔ تاہم خدا نے فضل کیا اور آپ محفوظ رہے اور جان بچاکر غارِثور میں پناہ لی۔ کیا یہ تمام منصوبے اور خونی قراردادیں کفارِ مکہ کی طرف سے اعلانِ جنگ نہ تھا؟ کیا قریش کے یہ مظالم مسلمانوں کی طرف سے دفاعی جنگ کی کافی بنیاد نہیں ہوسکتے؟ کیا دنیا میں کوئی باغیرت قوم ان حالات کے ہوتے ہوئے اس الٹی میٹم کو قبول کرسکتی ہے جو کفار نے مسلمانوں کو دیا؟ یقیناً یقیناً اگر مسلمانوں کی جگہ کوئی اور قوم ہوتی تو وہ اس سے بہت پہلے کفار کے خلاف جنگ میں اتر آتی۔ لیکن مسلمانوں کو ان کے آقا و مولا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے جنگ کا حکم نہ تھا۔

جب مکّے میں بعض صحابہ نے کفار کے مظالم پر ردِّعمل دینے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تو عفو کا حکم دیا گیا ہے۔

اس طرح ظلم سہتے سہتے جب ایک مدت گزر گئی اور مسلمانوں کو مکّے سے بےدخل ہونا پڑا تو خدا نے مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ پس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت قریش کے الٹی میٹم کو قبول کیے جانے کی علامت ہے اور اس میں خدا کی طرف سے اعلانِ جنگ کا ایک مخفی اشارہ تھا جسے کفار اور مسلمان دونوں سمجھتے تھے۔ افسوس کہ ظالم قریش نے اس مخفی اشارے کو نہ سمجھا وگرنہ اگر اب بھی کفار باز آجاتے اور دین کے معاملے میں جبر سے کام لینا چھوڑ دیتے اور مسلمانوں کو امن کی زندگی بسر کرنے دیتے تو یقیناً انہیں اب بھی معاف کردیا جاتا۔ مگر تقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد کفار نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ وہ آپ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور غارِثور کے منہ تک جا پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقعے پر آپ کی خاص نصرت فرمائی اور قریش کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ قریش اس پر بھی باز نہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر لانے والے کے لیے ایک سَو اونٹوں کے انعام کا اعلان کردیا۔ چنانچہ بیسیوں نو جوان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ سراقہ بن مالک کا واقعہ اسی تعاقب کا نتیجہ تھا۔ غرض اس تدبیر میں بھی قریش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کرگئے تو قریش مکہ نے مدینے کے رئیس عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی کو پناہ دی ہے۔ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم اس سے جنگ کرو یا اسے جلاوطن کردو۔ ورنہ ہم سب متحد ہوکر تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے جنگ جوؤں کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے ماتحت کرلیں گے۔ جب یہ خط عبد اللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کو ملا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ جب آپ کو اس بات کی خبر ملی تو آپ ان سے ملے اور انہیں سمجھایا اور جنگ سے روکا۔

اسی طرح قریشِ مکّہ نے بڑے منظم انداز میں عرب کے دیگر قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا اور جنگ پر آمادہ کیا۔ اس کے نتیجے میں تمام عرب اہل مدینہ کے دشمن ہوگئے اور یہ حال ہوگیا کہ گویا مدینہ کے ارد گرد آگ ہی آگ ہے۔

خود مدینے کے اندر یہ حالت تھی کہ ابھی تک اوس اور خزرج کے اندر ایک معتد بہ حصہ شرک پر قائم تھا اور گوکہ وہ بظاہر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ تھے لیکن ان حالات میں ایک مشرک کا کیا بھروسہ کیا جاسکتا تھا۔ پھر دوسرے نمبر پر منافقین تھے جو درپردہ اسلام کے دشمن تھے۔ تیسرے نمبر پر یہود تھے جن کے ساتھ گوکہ معاہدہ ہوچکا تھا مگر ان یہود کے نزدیک معاہدے کی کوئی قیمت نہ تھی۔ غرض اس وقت مدینے کے اندر کا ماحول مسلمانوں کے خلاف ایک مخفی ذخیرۂ بارود سے کم نہ تھا اور قبائل عرب کی ذرا سی چنگاری مسلمانان مدینہ کو بھک سے اڑا دینے کے لیے کافی تھی۔ اس سے زیادہ نازک وقت اسلام پرکبھی نہیں آیا۔ پس ایسے وقت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کی وحی نازل ہوئی اور جہاد بالسیف کا حکم نازل ہوا۔ جہاد بالسیف کے متعلق سب سے پہلی آیت ۱۲؍صفر ۲؍ہجری کو نازل ہوئی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ تشریف لائے تقریباً ایک سال کا عرصہ گزرا تھا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی تحقیق ہے۔ بعض کے نزدیک یہ آیت ہجرت کے معاً بعد نازل ہوئی تھی۔ کیونکہ ہجرت کے فوراً بعد ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کی بعض پارٹیوں کو روکنے کے لیے مسلح دستے روانہ فرمائے تھے۔

سورہ حج کی یہ دو آیات ہیں جن میں جہاد بالسیف کی پہلی بار اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جارہا ہے قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیے گئے۔ یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے، اور گرجے اور یہود کے معابد اور مساجد کہ جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے منہدم کردیے جاتے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ

یہاں ہر مذہب کی عبادت گاہ کا نام لے کر اس کی حفاظت کی بات کی گئی ہے۔

جہاد فرض ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ابتداءًچار تدابیر اختیار کیں۔ اوّل آپ نے خود سفر کرکے مدینے کے ارد گرد کی اقوام سے معاہدے کیے۔ دوم آپ نے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینے کے قرب و جوار میں روانہ کرنا شروع کیں۔ سوم یہ کہ ان پارٹیوں کی روانگی سے کمزور مسلمانوں کو مدینے آکر مسلمانوں سے مل جانے کا موقع میسر آگیا۔ چہارم یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرمادی جو مکّے سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینے کے پاس سے گزرتے تھے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ سلسلہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

۱۔مکرم خواجہ منیر الدین قمر صاحب آف یوکے

ابن مکرم مولوی قمر الدین صاحب (اولین صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ)مرحوم ۲۷؍مئی کو ۸۶؍سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کا جنازہ حاضر تھا۔ مرحوم ۱۹۶۶ء سے یوکے میں مسجد فضل کے نزدیک مقیم تھے۔ ۱۹۹۵ءمیں آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کی اور پہلے وکالت تبشیر اور بعد ازاں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں خدمات بجا لاتے رہے۔

۲۔مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب

جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے بیٹے تھے۔ مرحوم حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے نواسے تھے۔ گذشتہ دنوں ۷۹؍سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ یوکے میں رائل کالج آف سرجنز ایڈنبرا سے پوسٹ گریجوایشن ایف آر سی ایس کیا۔ آپ واقفِ زندگی تھے اور فضلِ عمر ہسپتال ربوہ میں تقریباً پچاس برس خدمت کی توفیق ملی۔۱۹۸۳ءسے تاوفات وقفِ جدید بورڈ کے ممبر رہے۔مرحوم غریب پرور، خلافت سے گہرا تعلق رکھنے والے، صلہ رحمی کے وصف سے متصف، بلا تفریق سب کا بے لوث علاج کرنے والے، نظامِ جماعت کے اطاعت گزار، نیک طبیعت کے مالک تھے۔آپ کی وفات پر آنے والوں میں اکثریت غریب طبقے کے لوگوں کی تھی جو یہ کہتے ہوئے آئے کہ ہمارے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ ہسپتال کے عملے نے لکھا کہ ہمارا ہسپتال یتیم ہوگیا۔

۳۔مکرمہ سیدہ امۃ الباسط صاحبہ اہلیہ سید محمود احمد صاحب آف اسلام آباد،پاکستان۔

گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ دین دار، صدقہ و خیرات میں پیش پیش، پردے کی پابندی کرنے والی، صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔

۴۔مکرم شریف احمد بندیشہ صاحب آف ادھوالی ضلع فیصل آباد۔

مرحوم کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے بیٹے مکرم رحمت اللہ بندیشہ صاحب مبلغِ سلسلہ ہیں اور جامعہ احمدیہ جرمنی میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

حضورِ انور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button