متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات حصہ سوم)

احمدیوں کے جذبات

اگلی صبح حضور انور نے کئی احمدی احباب سے ملاقات کی۔ اس دوران خاکسار کو ملاقات کے بعد چند خوش نصیب احباب سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ایک خاتون جن سے میں ملا ان کا نام Nasi Mustafa Omerصاحبہ تھا، جو عراقی کُرد تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہرفرہاد علی صاحب کے ساتھ چند سال قبل احمدیت قبول کی تھی اور ان دونوں نے پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کاشرف پایا تھا۔

Nasi صاحبہ نے بتایا کہ جب میں حضور انور کے دفتر میں داخل ہوئی تو میں نہایت پُرسکون تھی لیکن جونہی میں نے حضور انور کو دیکھا میری کیفیت یکسر بدل گئی ۔بے اختیار میں جذبات سے مغلوب ہو گئی اور ایسی محبت اور اطمینان محسوس کیا جو اس سے پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔

Nasi صاحبہ نے مزید بتایا کہ میرے شوہر گھر میں مستقل ایم ٹی اے لگا کررکھتے ہیں اور بسا اوقات میں ان کو کہتی ہوں کہ انہیں کوئی دوسرا چینل بھی لگا لینا چاہیے۔ تاہم حضور انور سے ملنے کے بعد میں ہمیشہ آپ کے قریب رہنا چاہتی ہوں اور اب مجھے سمجھ آئی ہے کہ ان گذشتہ سالوں میں میرے شوہر نے کوئی اَور چینل کیوں نہیں بدلا۔

بعد ازاں میں نے ان کے شوہر فرہاد علی صاحب سے گفتگو کی جنہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے انیس سال قبل بیعت کی تھی۔ جب ہم گفتگو کر رہے تھے تو وہ جذبات سے مغلوب ہو گئے اور کئی خوابوں کا تذکرہ کیا جو انہوں نے احمدیت قبول کرنے سے پہلے اور بعد میں دیکھی تھیں۔

ایک خواب انہوں نے یہ دیکھی تھی کہ وہ ایک بہت بڑے فٹ بال کے سٹیڈیم میں کھڑے ہیں اور چند مشتعل افراد نے ان پر پتھر پھینکنے شروع کر دیے یہاں تک کہ اچانک انہوں نے حضور انور کو دیکھا جنہوں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور محفوظ مقام پر لے گئے۔

فرہاد صاحب نے بتایاکہ میرے آج کے تجربات کئی سالوں سے اپنے مولیٰ کے حضور رونے اور استدعا کرنے کا نتیجہ ہیں کہ مجھے میرے محبوب آقا سے ملنے کا موقع دے ۔میں کس قدر خوش نصیب ہوں کہ مجھے احمدیت مل گئی ہے کیونکہ احمدیت کی وجہ سے مجھے تقویٰ،امانت داری اور پیار نصیب ہوا ہے اور یہی تینوں چیزیں آج میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت خلیفۃ المسیح میں مشاہدہ کی ہیں۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ جب سے انہوں نے احمدیت قبول کی ہے ان کو ظلم و تعدی کا سامنا ہے لیکن اس مخالفت نے ہمیشہ ان کا ایمان کم کرنے کی بجائےبڑھایا ہے۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ جس نفرت کا سامنا انہوں نے کیا ہے اس کا جواب وہ محبت سے دیں کیونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہی فرمایا ہے ۔

فرہاد صاحب نے بتایا کہ بسا اوقات مخالفین خود الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ میرے ساتھ ظلم و تعدی سے پیش آتے ہیں اور میں ان کو گلے سے لگاتا ہوں ۔صرف ایک مرتبہ میں غصے میں آیا تھا لیکن تب بھی ایک منٹ کے اندر میں نے اپنے غصے پر قابو پا لیا تھا اور اپنی آواز بلند کرنے پر ان سے معذرت کی تھی۔

میری ملاقات ایک احمدی خاتون درثمین سے ہوئی جنہوں نے مجھے ایم ٹی اے کے اس اثر کے بارے میں بتایا جو اس نے ان پر ڈالا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ بچپن سے ہی مجھے اللہ پر ایک کامل یقین تھا کہ اللہ ہماری دعاؤں کا جواب دیتا ہے اور یہی میں نے اپنی زندگی میں بھی دیکھا ہے۔ دراصل میری زندگی میں تبدیلی کا خاص لمحہ وہ تھا جب میں بارہ سال کی تھی اور میرے والدین نے گھر میں ایم ٹی اے لگوایا تھا۔ اسی وقت سے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھتی اور سنتی رہی اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بھی اور میں نے نماز کی حقیقی قدر آپ ہی سے سیکھی۔

ایک جذباتی واقعہ

میری ملاقات ایک نوجوان احمدی خاتون سے ہوئی جو ملاقات کر کے باہر آئیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے،جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ آنسو حضور انور سے ملاقات کی خوشی میں جذبات سے مغلوب ہو کر آئے ہیں۔ پھر انہوں نے مجھے اپنی ذاتی مشکلات کے بارے میں بتایا جن کا انہیں سامنا رہا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کس طرح چند سال قبل ان کے والدین نے ان کی شادی ان کے کزن کے ساتھ کر دی تھی جس کا تعلق پاکستان سے تھا، تاہم شادی کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ان کا شوہر صرف نام کا احمدی ہے اور یہ کہ حقیقت میں اسے احمدیت کی تعلیم کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے ۔اپنی زندگی کے اس نہایت مشکل وقت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میں ایسے گھر میں نہیں رہ سکتی تھی جہاں احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر عمل نہ ہو رہا ہو،اس لیے جلد ہی میرے اور میرے شوہر کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔

اس علیحدگی کے بعد سے انہیں دوبارہ شادی کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا، جب بھی ان کے گھر والے کہیں ان کی شادی کی بات کرتے تو دوسری طرف یہی بات ہوتی کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کسی مطلقہ سے نہیں کرنا چاہتے اگرچہ ان کے اپنے بیٹے کی بھی علیحدگی ہوئی ہو۔

یہ سن کر مجھے بہت افسوس ہوتا اور خیال آتا کہ کس قدر جہالت اور غلطی ہے کہ ایسے خاندان کس طرح اس بارے میں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے رو گردانی کر رہے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ایک دوسرا مسئلہ جو انہیں درپیش تھا کہ چند نوجوان احمدی لڑکوں نے غیر احمدی یا غیر مسلم لڑکیوں کی بیعت کروا کر،ان سے شادی کر لی ہے۔ اس بارے میں بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ انہوں نے کہا کہ پھر ہم پیدائشی احمدی لڑکیوں سے کون شادی کرے گا۔

مجھے ان سے ہمدردی پیدا ہوئی اور خیال آیا کہ کس طرح حضور انور نے چند ماہ قبل اس مسئلے کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ بعض احمدی نوجوان نو مبائعات سے شادی کر رہے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ بعض پیدائشی احمدی لڑکیوں کو شادی کرنے میں دشواری کا سامنا ہو گا۔ اس لیے ایسے احمدی مردوں کو دوسرے مردوں کو تبلیغ کرنی چاہیے تاکہ کچھ نو مبائع مرد ایسے ہوں جو احمدی لڑکیوں سے شادی کریں اور یوں یہ توازن برقرار رہ سکے ۔

اس خاتون نے اپنی داستان جاری رکھی اور شدت جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ میں سا ری زندگی بغیر دوبارہ شادی کیے زندہ رہ سکتی ہوں کیونکہ کم از کم ایک احمدی خاتون کے طور پر میں آزاد تو ہوں گی کہ عمر بھر کوئی بھی مجھے میرے دین کے مطابق زندگی گزارنے سے نہ روک سکے۔ میں ناصرات کو پڑھا سکتی ہوں اور جماعتی خدمت بھی کر سکتی ہوں۔ یہ میرے لیے زیادہ اہم ہے بجائے اس کے کہ میری ذاتی فیملی اور بچے ہوں ۔

جب میں نے ان کے یہ الفاظ سنے تو مجھے ان سے بےحد ہمدردی پیدا ہوئی جیسا کہ ہرکسی کو یہ سن کر ہوتی۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ چند احمدی لڑکیوں کو زندگی میں اس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے ایمان پر ثابت قدم ہونے سے بہت متاثر ہوا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ مجھے کیسا رد عمل دکھانا چاہیے اس لیے میں نے کہا کہ ان شاءاللہ حضور انور کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائے گا اور انہیں صبر عطا کرے گا۔

بعد ازاں مجھے خیال آیا کہ کس طرح اس ایک واقعہ نے مجھے بہت اداس کر دیا تھا اور پھر مجھے حضور انور کا خیال آیا کہ آپ احمدیوں سے کسی بھی دوسرے وجود سے زیادہ محبت رکھتے ہیں اور جب آپ ایسے مسائل سنتے ہوں گے تو آپ کو احمدیوں کے اس طرح کے مسائل سن کر کس قدر تکلیف اور درد محسوس ہوتا ہوگا۔

رات بھر ڈیوٹی

مالمو میں فجر کی نماز صبح چار بج کر پانچ منٹ پر ادا ہوتی تھی اس لیے ہم اپنے ہوٹل سے تین بج کر پچپن منٹ پر مسجد پہنچ جاتے تھے۔ صبح کے وقت اچھی خاصی ٹھنڈ ہوتی تھی تاہم نہ صرف خدام ڈیوٹی پر موجود ہوتے بلکہ کئی ممبرات لجنہ اماء اللہ بھی باہر کھڑی سیکیورٹی ڈیوٹی کر رہی ہوتی تھیں اور لجنہ کی ممبرات کو چیک کر رہی ہوتی تھیں ۔

میں سوچتا رہا کہ کس طرح یہ ہماری جماعت کا ہی شیوہ ہے کہ نوجوان لوگ اپنی نیند کو قربان کرنے اور جماعت کی خاطر اپنے آرام کو قربان کرنے کو باعث سعادت سمجھتے ہیں۔

ایک نو مبائع کی داستان

سویڈن میں ایک سویڈش نو مبائع جن کا نام سرمد احمد Hannes Huber (عمر۳۲؍سال )تھا،سے بہت اچھا تعارف ہو گیا۔ اس دورہ کے دوران وہ سویڈن کے خدام کی حفاظتِ خاص کی ٹیم کا حصہ رہے۔ ان کا رویہ نہایت دوستانہ تھا اور جماعت کے لیے نہایت پُرجوش تھے اور یوں انہوں نے میرے لندن میں مقیم ایک انگریز دوست Jonathan Butterworthکی یاد تازہ کروا دی۔

سرمد صاحب نے بتایا کہ سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات پڑھتے ہی میں جان گیا تھا کہ دین اسلام میرے لیے ہے اور یہ کہ ساری زندگی جس چیز کی تلاش کرتا رہا ہوں وہ مجھے مل گئی ہے۔ قرآن کریم کو پڑھنا ایسا ہے جیسے اللہ تعالیٰ براہ راست مجھ سے ہم کلام ہو رہا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے عمداًمسلمانوں سے ملنا پسند نہ کیا کیونکہ وہ مسلمانوں کے بارے میں ابھی بھی تعصب رکھتے تھے اور انہیں انتہا پسند خیال کرتے تھے جیسا کہ خبروں میں دکھایا جاتا ہے۔تاہم چند ماہ بعد انہیں مسلمانوں میں ایک اچھی صحبت میسر آئی تاکہ وہ اسلام کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کر سکیں۔ اس کے بارے میں بتاتے ہوئے سرمد صاحب نے مزید بتایا کہ ایک رات میں نے اپنا سر سجدے میں رکھ کر اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ مجھے اچھے مسلمانوں کی صحبت نصیب فرما۔ معین طور پر تین ماہ بعد میں Iceland میں ایک بازار سے گزر رہا تھا جہاں میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور میں نے ایک بزرگ میاں بیوی دیکھے جو مجھے نہایت مذہبی اور نیک معلوم ہوئے۔ میں ان کے پاس پہنچا تو پتا چلا کہ وہ آئس لینڈ کے احمدی مبلغ اور ان کی اہلیہ ہیں۔ میں فوری طور پر جان چکا تھا کہ وہ اچھے لوگ تھے اس لیے میں نے انہیں کہا کہ برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ اچھا مسلمان کیسے بنا جا سکتا ہے۔

اس داستان کو سنتے ہوئے میں بے حد منہمک ہو چکا تھا۔انہوں نے مجھے بتایا کہ احمدیوں کے اخلاق سے وہ بےحد متاثر ہو چکے تھےلیکن ساتھ ساتھ انہوں نے YouTubeپر چند دیگر مسلمانوں کی ویڈیوز دیکھی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بدزبانی کر رہے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ کاذب قرار دے رہے تھے ۔اس پر وہ الجھن کا شکار تھے اور پریشان بھی تھے کہ کہیں انہوں نے غلط راستہ تو نہیں چن لیا ۔ پھر سرمد صاحب نے مجھے اس لمحہ کےبارے میں بتایا جس نے ان کے جملہ خدشات کو دور کر دیا اور ان کو احمدیت کی سچائی کا یقین دلایا۔ انہوں نے بتایا کہ جب ۲۰۱۰ءمیں مجھے ۲۸؍مئی کو لاہور کے سانحہ کا علم ہوا اوریہ بھی کہ کئی احمدیوں کو شہید کر دیا گیا ہے تو مجھے بہت دکھ محسوس ہوا ۔لیکن جب میں نے حضور انور کا خطبہ جمعہ سنا تو میں حیران رہ گیا جس میں واضح طور پر حضور انور نے فرمایا کہ ہم ہرگز طیش نہیں دکھائیں گے بلکہ دعاؤں سے کام لیں گے۔ جب میں نے یہ سنا تو مجھے خیال آیا کہ یہ اللہ پر ایمان اور توکل کا اعلیٰ معیار ہے جو خلیفہ وقت اور جملہ احمدیوں کی طرف سے بھی دکھایا جا رہا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو صرف اور صرف اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔

سرمد صاحب نے بتایا کہ چھ سال بعد انہیں احمدیت قبول کرنے کے حوالہ سے کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور انہیں یقین تھا کہ انہوں نے حق کو پا لیا ہے اور اپنے دل میں اطمینان محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک خوش و خرم شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی ہے۔

(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button