حضرت مصلح موعود ؓ

اللہ کی راہ میں خرچ کرو (قسط اول)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۰؍اگست ۱۹۱۷ء)

حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی۔

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔( البقرہ : ۲۶۲)

بعد ازاں فرمایا :

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت قدیم سے چلی آتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کی ترقیٔ مدارج کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ کسی بات کا محتاج نہیں۔ وہ غنی ہے۔ ہاں لوگ اس کے محتاج ہیں۔ پس وہ بندوں کو اگر کوئی کام کرنے کا موقعہ دیتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اس کو ضرورت ہے۔ بلکہ وہ ان پر رحم کرنا چاہتا ہے۔

اس سنت کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی آتے رہے ہیں۔ اور وہ دو قسم کے تھے

…اوّل وہ جو ایک ستون کے طور پر ہوتے تھے کہ عمارت کے قیام اور سہارے کے لئے ان کو نیچے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عليهم السلام وغیرہ۔ ان کے سپرد صرف جماعت کو سنبھالنے کا کام ہوتا تھا۔ لیکن جو دوسری قسم کے انبیاء ہوتے ہیں ان کو نئے سرے سے جماعت قائم کرنا پڑتی تھی۔ مثلاً حضرت مسیح ناصریؑ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے حضرت مسیح موعودؑ۔ ان کی ابتداء ایسی ہوتی ہے کہ دنیا ان کو دیکھ کر خیال نہیں کر سکتی کہ یہ لوگ بھی دنیا کے لئے کچھ مفید ثابت ہوں گے۔ مگر خدا ان کے ذریعہ دنیا کی حالت کو درست کر دیتا ہے اور ان انبیاء کو کمزوری کی حالت سے بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس وقت دنیا معلوم کرتی ہے کہ خدا ہے جس کے آگے کوئی کام ان ہونا نہیں۔

ثواب کا اعلیٰ موقعہ

ایسے انبیاء کے وقت ان کی امتوں کو موقعہ دیا جاتا ہے کہ وہ جس طرح بھی ہو سکے دین کی خدمت کریں۔ چونکہ وہ وقت تعمیر قوم کا وقت ہوتا ہے۔ اس لئے لوگوں کو مقابلہ کا موقعہ دیا جاتا ہے۔ اور و ہی ثواب کا وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ ابتداء میں جبکہ انبیاء کمزور نظر آتے ہیں جو لوگ ان کو قبول کرتے ہیں وہ سب انعام کے وارث ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ایمان کی طرف بلاتے ہیں اور ایمان کے ساتھ ان کو روحانی طاقت و قوت ملتی ہے۔ یہ محض خدا کا فضل ہے۔ اور انسان کا اس میں نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان خدا کی راہ میں خرچ کر کے ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اس کو اَور زیادہ ملتا ہے۔

صحابہ کرام ؓکی مثال

صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنے وطن کو چھوڑا ان کو ان کے وطن سے بہتر وطن ملا ۔ مکان چھوڑے ان سے بہتر مکان ملے۔بہن بھائی چھوڑے ان کو بہتر بہن بھائی ملے۔ اور انہوں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑاانہیں کروڑوں ماں باپ سے بہتر محبت کرنےوالے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مل گئے۔ تو خدا کی راہ میں چھوڑنے والا ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کو بہت بہت بڑھ چڑھ کر واپس ملتا ہے۔ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔ خدا کے رستے میں جس طرح اَور چیزیں خرچ کی جاتی ہیں۔ اسی طرح مال خرچ کرنے کے بھی موقعے پیش آتے ہیں۔لیکن کسی کو مال پیارا ہوتا ہے۔ کسی کو جان عزیز ہوتی ہے۔ کسی کو عزت و آبرو کا پاس و لحاظ ہوتا ہے۔ اس لئے مومن کی ہر طرح کی آزمائش ہوتی ہے۔ اور جس طرح کا انسان ہو اس کی اسی طرح کی آزمائش ہوتی ہے۔ اگر کسی کو مال پیارا ہو تو وہ مال خرچ کرے۔ اگر کسی کو جان عزیز ہو تو وہ جان کو قربان کرے تاکہ معلوم ہو کہ اس کا ایمان اس قدر مضبوط ہے کہ خدا کی راہ میں پیاری سے پیاری چیز خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

خداتعالیٰ کی راہ میں دیا ہوا کس قدر بڑھتا ہے

خدا تعالیٰ فرماتاہے : مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ(الآية) وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی دانہ کھیت میں ڈالا جائے اور وہ دانہ سات بالیں نکالے اور ہربال میں ۱۰۰ دانہ ہو گویا ایک دانہ سے سات سو گنا پیدا ہوا۔ یہ ایک مثال ہے۔ورنہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑھا کر دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ بڑھاتا ہے۔ خدا کی طرف سے دینے میں بخل تو تب ہو جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی چیز کی کمی ہو۔ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ۔اللہ بڑی وسعت بڑی فراخی والا ہے۔ اور پھر اللہ علیم ہے وہ جانتا ہے کہ یہ شخص کس قدر انعام کا مستحق ہے۔ اگر کوئی کر وڑوں گنے کا بھی مستحق ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اس کے خرچ کئے ہوئے کو اس کے لئے بڑھا دےگا۔

دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب زمیندار دانہ زمین میں ڈال دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر دیتا ہے تو جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا کیسے ممکن ہے کہ اس کا خرچ کیا ہوا ضائع جائے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے کا تو کم از کم سات سو ملتا ہے اور اس سے زیادہ کی کچھ حد بندی ہی نہیں۔ اگر انتہائی حد مقررہ کر دی جاتی تواللہ تعالیٰ کی ذات کو بھی محدود ماننا پڑتا۔ جو خدا تعالیٰ میں ایک نقص ہوتا۔ اس لئے فرمایا کہ تم خدا کی راہ میں ایک دانہ خرچ کرو گے تو کم از کم سات سو دانہ ملے گا۔ اور زیادہ کی کوئی حد نہیں جتنا بھی مل جائے تو خوب یاد رکھو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضائع کرنا نہیںبلکہ بڑھانا ہے۔

حضرت مسیح ناصریؑ نے فرمایا ہے کہ اپنے مال کو وہاں جمع کرو جہاں کوئی چور چرا نہیں سکتا۔ اور غلہ کو وہاں رکھو جہاں کوئی کیڑا کھا نہیں سکتا (متی ۲:۲۰)۔ یہ حضرت مسیحؑ نے اپنے رنگ میں اچھی بات کہی ہے۔ مگر قرآن کریم ان سے بڑھ کر کہتا ہے۔ انہوں نے صرف یہ فرمایا ہےکہ تم اگر خدا کے خزانہ میں جمع کرو گے تو کوئی چرا نہیں سکے گا۔ لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے خزانہ میں جمع کروگے تو یہی نہیں کہ کوئی اس کو چرائے گا نہیں بلکہ تمہیں کم از کم سات سو گنا ہو کر ملے گا۔ اور اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں پھر حضرت مسیحؑ کہتے ہیں کہ وہاں غلہ کو کوئی کیڑا نہیں کھا سکتا۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ صرف کیڑے سے ہی محفوظ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک سے سات سو گنا بڑھ بھی جاتا ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے

ہمارا زمانہ ایسی قربانی کا نہیں کہ جنگ کریں اور جان دیںہاں اس طرح جانی قربانی بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی محض اپنا وقت خرچ کرے محنت اٹھائے۔ یا جس طرح ہمارے دو بزرگ کابل میں مارے گئے یا بعض کو اپنے وطن چھوڑنے پڑے اور یہاں آکر آباد ہوئے۔ یہاں کے لئے برکتوں کا وعدہ ہے مگر اس میں اس طرح ہجرت کر کے آنا جس طرح مدینہ میں حکماً ہجرت کرنا پڑی تھی فرض نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی ہجرت کر کے آئے تو اس کے لئے بہت برکت کا موجب ہوگا۔

پس خوب یاد رکھو اس وقت صرف ایک ہی راستہ کھلا ہے۔ اگر وہ بھی بند ہو گیا تو پھر کوئی رستہ نہیں جس سے تمہیں دین کی خدمت کے لئے بلایا جائے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button