یادِ رفتگاں

ہدایت اللہ ہیوبش صاحب

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

جماعت جرمنی کو جن اہم بزرگوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی ہے ان میں ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جماعت جرمنی اپنی تاریخ کی پہلی صدی مکمل کر کے امسال دوسری صدی میں داخل ہو رہی ہے تو گذشتہ صدی کے بہت سے کاموں اور کامیابیوں میں ہیوبش صاحب کی کوششوں کا بھی عمل دخل ہے۔ الحمد للہ خاکسار کو ان کے ساتھ کام کرنے اور نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ آپ کے نام Hübsch کا لفظی مطلب ’’خوبصورت‘‘ہے، اور آپ واقعی اسم بامسمیٰ تھے۔ اس مضمون میں محترمی ہیوبش صاحب کے مختلف اوصاف کا ذاتی مشاہدہ کی بنا پر تذکرہ مقصود ہے۔

مختصر تعارف

اس سے پہلے کہ واقعات کا ذکر کیا جائے، ابتدائی طور پر اتنا بیان کرنا مناسب ہو گا کہ محترمی ہیوبش صاحب کا پیدائشی نام Paul-Gerhard Hübsch تھا۔ آپ ۸؍ جنوری ۱۹۴۶ء کو مشرقی جرمنی کے شہر کیمنٹس( Chemnitz)میں پیدا ہوئے۔ ان کی نوجوانی کا زمانہ وہ ہے جب مغربی دنیا میں بالخصوص اور ساری دنیا میں بالعموم آزادی اور بغاوت کی تحاریک چل رہی تھیں۔ نوجوان نسل دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعد ایک نسبتاً پر امن زمانہ میں تھی اور اقتصادی طور پر صورتحال بہتر ہو چکی تھی۔ اس نسل کی بغاوت کا رخ ہر چیز کی طرف تھا۔ خدا، مذہب، حکومت، معاشرہ، اخلاقیات، تہذیب، قانون، غرض ہر چیز کے خلاف بغاوت جاری تھی اور نوجوان اسے بہت اچھا سمجھتے تھے۔ ہیوبش صاحب بھی اپنے زمانہ کے نوجوانوں کی طرح ایسی تحاریک میں شامل ہوتے اور حکومتی پالیسیوں، خصوصاً امریکہ کی ویتنام کے خلاف ظالمانہ جنگ کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس تحریک کے عروج کا وقت ۱۹۶۸ءہے۔ اس کے اگلے سال یعنی ۱۹۶۹ءمیں ہیوبش صاحب مراکش کی سیر کو گئے وہاں پہلا کشف ہوا جس سے خدا تعالیٰ کے وجود کا احساس ہوا۔ واپس گھر آ کر دوسرا کشف ہوا جس کے نتیجہ میں اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر تیسرے کشف کی بنا پر ۱۹۷۰ءمیں جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوئے۔ ایک بھر پور زندگی گزارنے کے بعد ۴؍جنوری ۲۰۱۱ءکو فرینکفورٹ میں وفات پائی۔

آپ مسلمان ہونے سے پہلے بھی ایک مشہور شاعر اور اعلیٰ پائے کے ادیب تھے۔ جرمنی کے قریباً تمام بڑے اخبارات میں مضامین لکھتے تھے۔ ریڈیو کے لیے بھی پروگرام لکھتے تھے اور ان کاموں کی خطیر رقم ملتی تھی۔

قبولیت اسلام و احمدیت

اسلام اور احمدیت میں ہیوبش صاحب کے شامل ہونے کے متعلق اس حصہ میں دو کے سوا دیگر تمام امور ہیوبش صاحب کی اپنی تحریر سے اخذ شدہ ہیں۔ اس کے مطابق آپ کے والدین میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ ہیوبش صاحب کے اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کے نازی جرمنی کے زمانہ کے کردار کی وجہ سے اختلافات تھے۔ چنانچہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ رہتے تھے۔ علیحدگی کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کے والد کی وفات ہو گئی۔ نوجوانی میں آپ مختلف چیزوں میں سکون ڈھونڈتے رہے، کبھی سوشل ازم تو کبھی کیمونزم اور کبھی ہپی ازم کی طرف چلے جاتے آخر بدھ مت کی جانب راغب ہوئے۔ اس دوران ہپی طریق کے مطابق بعض منشیات بھی استعمال کیں۔ آخر مراکش کے ایک سفر کےدوران اچانک ان کو یوں لگا جیسے ان کے اندر موٹے موٹے اور گندے سانپ ہیں۔ چنانچہ گاڑی سے اتر کر ایک طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ اس وقت کسی طاقت نے ان کو پکڑ لیا اور ان کے دل سے یہ آواز نکلی کہ ’’اے اللہ! مجھے پاک کر‘‘۔ اس وقت آپ کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ ’’اللہ‘‘ کون ہے۔ چنانچہ مراکش سے واپس آ کر بدھ طریق کے مطابق یوگا کی مشقوں میں مشغول ہو گئے۔

ہیوبش صاحب نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ ایک دن اپنی والدہ کے گھر، جن کے پاس ہیوبش صاحب اس وقت رہتے تھے، انہوں نے کشفی طور پر روشنی کی ایک شعاع کتابوں کی الماری میں رکھی ایک کتاب پر پڑتی دیکھی۔ جب پاس جاکر کتاب دیکھی تو وہ قرآن کریم تھا۔ چنانچہ اسلام کی جانب راغب ہوئے۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے بتایا کہ جب اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی مسجد کی تلاش شروع کی تو عرب ممالک کےکونسل خانوں کو فون کیے۔ کسی کو فرینکفورٹ میں مسجد کا علم نہیں تھا۔ آخری کونسل خانہ لبنان کا تھا اور انہوں نے ہی مسجد نور کا پتا بتایا۔

جب مسجد نور پہنچے تو آپ کی حالت ایسی تھی کہ ایک پھٹی ہوئی جیکٹ اور ایک میلی جینز کی پینٹ پہنی ہوئی تھی جبکہ سر کے بال سپین کی پولیس نے مونڈ دئے ہویے تھے! اس وقت مسعود جہلمی صاحب امام مسجد تھے جنہوں نے بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا اور قرآن کریم کا ترجمہ، نماز کی کتاب اور حضرت مسیح موعودؑ کا اقتباس ’’ہماری تعلیم‘‘ دیے۔ گھر پہنچ کر آپ نے نماز سیکھی اور پڑھنی شروع کی۔ ’’ہماری تعلیم‘‘ کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ پھر حج کے لیے زمینی راستہ سے مکہ جانے کی کوشش کی مگر پولیس نے مراکش میں داخل نہ ہونے دیا۔ چنانچہ واپس جرمنی آ گئے۔ اگلے دن پھر مسجد نور پہنچے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ مسجد میں داخل ہونے لگے تو ایک شخص نے روک دیا۔ ان کو بڑا دکھ ہوا کہ اللہ نے پہلے حج کے لیے مراکش میں داخل ہونے سے روک دیا حالانکہ پہلے وہاں جا چکے تھے اور اب مسجدنور، جہاں کئی مرتبہ جا چکے تھے، بھی نہیں جانے دے رہا۔ اس پر خیال آیا کہ اللہ نے کہا ہے کہ تم نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی پیاری چیز قربان نہ کرو۔ اسی وقت دعا کی کہ میرے پاس اور تو کچھ ہے نہیں البتہ میری سب سے پیاری چیزیں میری آنکھیں ہیں وہ میں قربان کرتا ہوں۔ اتنے میں ایک اور شخص نے ان کو مسجد کے اندر جانے کی اجازت دے دی اور آپ اسی حالت کے ساتھ مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ ہیوبش صاحب کو کچھ پتا نہیں تھا کہ جمعہ کیا ہوتا ہے اور خطبہ کیا اور حضور کون ہیں۔ جب حضورؒ خطبہ ثانیہ سے پہلے بیٹھ کر کھڑے ہوئے تو کشفاً دیکھا کہ حضورؒ کی آنکھوں سے دو سفید شعاعیں نکل کر ہیوبش صاحب کی دونوں آنکھوں میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد آپ جماعت میں داخل ہو گئے۔

دعا کی اہمیت

جماعت میں لوگ مختلف وجوہات اور طریقوں سے داخل ہوتے ہیں۔ اور الا ما شاء اللہ یہ وجہ یا طریق آخر تک ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہیوبش صاحب کسی علمی دلیل یا کسی کی تبلیغ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ روحانی تجربات کے ذریعہ جماعت میں داخل ہوئے تھے اور اس وجہ سے آخر تک ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور دعا اور توکل کا الگ ہی رنگ تھا۔

ایک مرتبہ مولانا الیاس منیر صاحب نے برادرم نوید حمید صاحب اور خاکسار کو بھیجا کہ ہیوبش صاحب کو گاڑی پر جماعت کے مرکز، جو کہ اس وقت مٹل ویگ( Mittelweg) میں تھا، سے اشاعت کے دفتر، جو کہ Hanauerlandstrasse پر تھا، لائیں جہاں شعبہ اشاعت کی ضروری نوعیت کی میٹنگ ہونی تھی۔ الیاس منیر صاحب اس وقت نیشنل سیکرٹری اشاعت تھے اور ہم دونوں شعبہ اشاعت میں کام کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم مٹل ویگ پہنچے اور ہیوبش صاحب سے عرض کیا کہ آپ کو لینے آئے ہیں۔ آپ کہنے لگے کہ ایک میٹنگ ہونے والی ہے اس میں بھی میں نے شامل ہونا تھا چنانچہ امیر صاحب سے اجازت لے لوں۔ تھوڑی دیر میں امیر صاحب تشریف لائے تو ہیوبش صاحب نے تہ خانہ کو جانے والی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر امیر صاحب سے اجازت کی درخواست کی۔ امیر صاحب نے اجازت دے دی اور خود نیچے میٹنگ میں تشریف لے گئے۔ لیکن ہیوبش صاحب وہیں کھڑے رہے۔ میں حیران ہوا کہ اجازت مل گئی ہے تو اب چل کیوں نہیں رہے؟ چند سیکنڈ کے توقف کے بعد ہیوبش صاحب میرا چہرہ پڑھ کر کہنے لگے کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں اس میٹنگ کی دعا میں شامل ہو جاؤں؟ ہم نے بھلا کیا اجازت دینی تھی لیکن اس واقعہ کا مجھ پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ درحقیقت جماعتی میٹنگز کا اہم ترین حصہ دعا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اس حصہ کو معمولی اور رسمی چیز نہیں سمجھنا چاہیے۔ جس قدر سنجیدگی اور غور سے اس حصہ کو ادا کیا جائے، اتنا ہی میٹنگ مفید اور باثمر ہوتی ہے۔

صبر اور دعا

ایک مرتبہ ایک دور دراز کی جماعت نے تبلیغی میٹنگ رکھی۔ اس زمانہ میں جرمنی بھر میں جہاں بھی تبلیغی میٹنگ ہوتی، ہیوبش صاحب کو ہی مدعو کیا جاتا تھا۔ جماعت کے تعلقات بھی بہت محدود تھے کسی میٹنگ میں چند لوگ ہوتے ،کسی میں کوئی بھی نہیں ہوتا۔ خیر میٹنگ رکھی گئی۔ ہیوبش صاحب کئی گھنٹے کا لمبا سفر کر کے وہاں پہنچے۔ آگے ایک بھی سامع نہیں تھا! میں بھی وہاں مدعو تھا۔ چنانچہ صورتحال دیکھ کر ان سے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے؟ تو کہنے لگے کہ میں اپنی تقریر، جو تیار کر کے ساتھ لائے تھے، وہ کروں گا اور دعا کر کے ہم واپس چلے جائیں گے۔ چنانچہ خالی ہال میں اکیلے پورے اطمینان کے ساتھ مکمل تقریر کی اور اس کے بعد دعا کر کے واپس تشریف لے گئے! یہ خیال نہیں کیا کہ کوئی ہے ہی نہیں تو تقریر کرنے کا کیا فائدہ؟ ساتھ پھر وہی بات کہ دعا کریں گے۔ یعنی میٹنگ کا اہم ترین حصہ جو ہے وہ تو پورا ہو جائے گا اس لیے افسوس کس بات کا؟ اور ایسا میں نے کئی مرتبہ ہوتا دیکھا ہے۔ مقامی جماعت سے بھی خفا نہیں ہوتے تھے کہ اتنی دور سے بلایا ہے اور آگے کوئی سننے والا ہی نہیں۔ صرف اتنا کہتے تھے کہ ذاتی تعلقات بنائیں تب ہی لوگ تبلیغی میٹنگز میں آئیں گے۔ اس کی کوشش کریں۔

علاج اور دعا

ایک مرتبہ بتانے لگے کہ میرا علاج ہو رہا ہے اور کوئی نیا تجرباتی طریق یا شاید کوئی نئی مشین تھی، اس کا ذکر کیا کہ وہ مجھ پر آزمایا گیا ہے۔ میں ذرا حیران ہوا کہ تجربہ کر لیا؟ تو کہنے لگے کہ ہاں۔ میں وہاں جا کر اطمینان سے لیٹ گیا تھا۔ وہ لوگ اپنا کام کرتے رہے میں اس دوران خاموشی سے دعا کرتا رہا کہ کوئی سائڈ ایفیکٹ یا نقصان نہ ہو۔ اللہ نے فضل فرمایا اور فائدہ ہوا۔

خلیفہ وقت کا ادب

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک مرتبہ کچھ آیات کے انگریزی ترجمہ میں ترامیم فرمائیں۔ جب وہ ترجمہ چھپ کر آیا تو اس کے مطابق جرمن ترجمہ میں ترامیم کا کام شروع ہوا۔ ترجمہ کرنے والی ٹیم میں خاکسار بھی شامل تھا۔ ایک جگہ پر میرا خیال تھا کہ انگریزی ترجمہ غلط چھپا ہوا ہے۔ غلطی ایک جگہ نہیں تھی بلکہ مسلسل کئی آیات کے ترجمہ میں اسی طرح، میرے خیال میں، غلطی تھی۔ میں نے ہیوبش صاحب سے عرض کیا کہ یہ ترجمہ عربی کے مطابق نہیں ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں جس طرح لکھا ہے اسی طرح ترجمہ کرو۔ میں نے کچھ دلائل دیے لیکن وہ نہیں مانے۔ جوانی کا جوش بھی ایک مصیبت ہے۔ میں نے جب دیکھا کہ یہ نہیں مانتے تو حضورؒ کی خدمت میں لکھ دیا کہ ترجمہ یوں چھپا ہوا ہے جبکہ میرے نزدیک اس کی بجائے یوں ہونا چاہیے۔ کچھ دنوں بعد حضورؒ کی طرف سے خط آ گیا جس میں میری بات کی توثیق فرمائی گئی تھی۔ اس کے بعد جب میٹنگ ہوئی تو میں نے ہیوبش صاحب کو بتایا کہ یوں حضور کی خدمت میں لکھا تھا اور یہ جواب آیا ہے۔ وہ سخت ناراض ہوئے۔ اور کہنے لگے کہ حضور کو کیوں لکھا تھا؟ میں حیران ہوا کہ ایک غلطی تھی میں نے نشان دہی کی اور حضورؒ نے میری بات کی تصدیق بھی فرمائی ہے تو یہ ناراض کیوں ہو رہے ہیں۔ اس پر ہیوبش صاحب نے اپنی عادت کے مطابق ملا نصر الدین کا ایک قصہ سنایا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انسان زیادہ گرم روٹی پکڑ لے تو ہاتھ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اسی منہ سے پھونک مارتا ہے جس سے سردی میں ہاتھ کو گرم کرنے کے لیے پھونک مارتا ہے۔ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہوتی ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ حضور کو نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ اگر حضور نے بدل دیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے درست نہیں تھا۔ جو ترجمہ چھپا ہے اس کے مطابق ترجمہ کرنا تھا، بس۔

نوٹ: اس واقعہ سے صرف ہیوبش صاحب کا خلیفہ وقت کا ادب ظاہر کرنا مقصود ہے۔ ورنہ میرے خیال میں اگر کوئی غلطی نظر آئے تو ادب سے ایک مرتبہ خلیفہ وقت کی خدمت میں ذکر کرنا جائز ہے۔ البتہ میرا طریق اس بارےمیں یہ ہے کہ ہمیشہ پہلے متعلقہ مضمون کے چند ماہرین کے ساتھ بات کر لی جائے تاکہ اگر مجھے سمجھنے میں کوئی غلطی لگی ہو تو وہ دور ہو جائے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر اوقات قصور اپنی سمجھ کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے پوری طرح تسلی کرنے کے بعد ہی بات کرنی چاہیے۔ مگر بعض بزرگ خلیفہ وقت کو توجہ دلانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے ہیں۔ باغ میں ہر قسم کے پھول ہوتے ہیں اور ہر ایک کا اپنا رنگ اور خوشبو ہوتی ہے۔

قادیان کے ساتھ عشق

ہیوبش صاحب کی ایک خاص بات ان کا قادیان کے ساتھ عشق تھا۔ بار بار قادیان جایا کرتے تھے۔ میرا نہیں خیال اس زمانہ میں کوئی شخص اتنی مرتبہ قادیان گیا ہو جتنا ہیوبش صاحب۔ ہر سال جوں جوں جلسہ سالانہ قادیان قریب آتا جاتا، ہیوبش صاحب کی بے چینی بڑھتی جاتی۔ نمازوں میں رونا اور دعائیں زیادہ ہوتی جاتیںاور آخر ان کو اسی وقت چین آتا جب قادیان سے ہو کر واپس آتے۔ قادیان میں دعائیں کرنے کا شوق تھا۔ ایک دفعہ بڑی خوشی سے بتانے لگے کہ ایک مرتبہ میں بیت الدعا میں گیا تو کسی نے پیچھے سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ بس پھر تو میں نے تسلی کے ساتھ خوب دعائیں کیں۔

مالی قربانی

ایک دن بتانے لگے کہ میں نے ایک ریڈیو پروگرام لکھا تھا۔ اس زمانہ میں اس کام کی خطیر رقم ملی جو اگر مجھے صحیح یاد ہے تو بیس ہزار مارک سے زائد بتائی تھی۔ خیر ہیوبش صاحب نے وہ ساری کی ساری رقم چندہ میں دے دی۔ پھر ہنستے ہوئے بتانے لگے کہ جب میری والدہ کو پتا چلا کہ میں نے ساری رقم ہی چندہ میں دے دی ہے تو انہوں نے خیال کیا کہ اب یہ بالکل ہی پاگل ہو گیا ہے۔ اس وقت تک ہیوبش صاحب کا یہ چندہ جرمنی میں سب سے زیادہ تھا۔ ایک وہ وقت تھا اور اب یہ وقت ہے کہ متعدد لوگ ایسے ہیں جو کئی کئی لاکھ یورو چندہ دیتے ہیں اور جماعت جرمنی کا بجٹ ۵۰؍ ملین یورو سے بڑھ چکا ہے جو کہ ایک سو ملین مارک سے زائد بنتے ہیں۔

محترمی عبد اللہ واگس ہاؤزر، امیر صاحب جرمنی، نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ ہیوبش صاحب کو کوئی ادبی انعام ملا جو کہ دس ہزار یورو یا مارک تھا۔ ہیوبش صاحب نے اس میں سے سات ہزار چندہ دے دیا اور تین ہزار اپنے اہل و عیال کے لیے رکھ لیے! مطلب یہ کہ شرح چندہ وغیرہ کا کوئی حساب نہیں تھا۔ سب کچھ ہی چندہ میں پیش کر دیتے تھے اور کچھ حصہ اپنے اخراجات کے لیے رکھتے تھے۔

عمل

ایک مرتبہ مجھے امیر جماعت جرمنی، عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب، نے بتایا کہ ایک دن ہیوبش صاحب ان کو کہنے لگے کہ عمرہ کرنا ہے؟ امیر صاحب بہت خوش ہوئے اور فوراً کہا کہ ہاں ضرور۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مکہ جانے کا کوئی پلان بنے گا۔ کچھ دیر بعد ہیوبش صاحب ان کو ایک کمرے میں لے گئے اور کہنے لگے کہ آؤ فلاں نماز تک خاموش بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص فلاں وقت سے فلاں وقت تک ذکر الٰہی میں مصروف رہتا ہے اسے اتنا ثواب ملتا ہے جتنا عمرہ کرنے کا! چنانچہ دونوں بیٹھ کر مقرر وقت تک ذکر الٰہی کرتے رہے۔ کتنی چھوٹی سی بات ہے مگر ہمارے لیے کتنا بڑا سبق ہے۔ ہم اکثر ایسی روایات سنتے ہیں لیکن سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے وہ عمل کرتے اور فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

وضو

ہیوبش صاحب ہر عمل کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنے کا شوق رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ وضو کا ذکر ہو رہا تھا تو ہیوبش صاحب بتانے لگے کہ افسوس کہ لوگ وضو سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھاتے جیسے اس کا حق ہے۔ پھر بتایا کہ میرا خیال ہے کہ جرمنی میں شاید ہی کوئی احمدی ہو جس نے وضو پر اتنی تحقیق کی ہو جتنی میں نے کی ہے۔ پھر وضو کے متعلق مختلف احادیث اور روایات بتائیں۔

نماز میں ہاتھ باندھنا

ایک مرتبہ نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق بات ہو رہی تھی تو آپ نے مجھے بتایا کہ ایک دن میں نماز پڑھ رہا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشریف لائے۔ آپؒ نے آگے بڑھ کر میرے دونوں ہاتھوں کو کھینچ کر ایک ہاتھ دوسرے بازو کی کہنی تک پہنچا دیا۔ چنانچہ میں اسی طریق کے مطابق ہاتھ باندھتا ہوں۔

سیکرٹری

ستّر کی دہائی میں تو بالخصوص اور پھر اسّی کی دہائی تک بھی جماعت جرمنی میں جرمن پڑھنے لکھنے والے بہت کم تھے۔ چنانچہ جماعت کی اکثر خط و کتابت، خواہ وہ کسی معاملہ اور کسی موضوع پر ہو، ہیوبش صاحب ہی کیا کرتے تھے۔ تبلیغی خطوط ہوں۔ لوگوں کے اسلام کے متعلق سوالات ہوں یا اعتراضات۔ نومبائعین کے سوالات ہوں۔ نئے آنے والے احمدیوں کے اسائیلم کیس کے معاملات ہوں۔ شہری انتظامیہ سے کوئی بات ہو۔ اخبارات کے کسی آرٹیکل کا جواب دینا ہو۔ ہر بات میں ہیوبش صاحب شامل ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں ٹائپ رائٹر پر سب کچھ لکھا جاتا تھا۔مسجد نور کے ایک کمرے میں آپ کا دفتر ہوتا تھا اور آخر تک اسی کمرے میں رہا۔ آپ غالباً باقاعدہ سیکرٹری تو نہیں تھے لیکن عملاً سیکرٹری امور خارجیہ، سیکرٹری تربیت نو مبائعین، اور سیکرٹری تبلیغ بھی تھے۔ امیر صاحب نے ان کے لیے سیکرٹری بلا محکمہ کی اجازت لے لی تھی اور اسی حیثیت سے مجلس عاملہ کی میٹنگز میں شامل ہوتے دیکھا ہے۔

پہلی بیوی کی وفات

ہیوبش صاحب کی پہلی شادی ماریشس سے تعلق رکھنے والی ایک سفارت کار، جن کا نام ہدایت بیگم سوکیہ تھا، سے ہوئی تھی۔ اس کی تفصیل تو مجھے معلوم نہیں لیکن ان کی وفات کے متعلق مجھے خالہ عفیفہ محمود صاحبہ نے بتایا۔ اس لیے درج کر رہا ہوں کہ معلوم ہو کہ یہ جماعت کس حالت میں تھی اور کیسی کیسی مشکلات تھیں۔ اب تو ان باتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جن میں اس زمانہ کے بزرگوں نے وقت گزارا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب ہیوبش صاحب کی پہلی بیگم کی وفات ہوئی تو ان کی تجہیز و تکفین کا مسئلہ ہو گیا۔ کوئی ایسی احمدی عورت یہاں موجود نہیں تھی جس کو علم ہو کہ غسل کیسے دیا جاتا ہے اور کفن کیسے پہنایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس حالت میں چند احمدی عورتیں، جن میں خالہ عفیفہ بھی شامل تھیں، غسل دینے اور کفن دینے کے لیے قبرستان میں جمع ہوئیں۔ مربی صاحب اس کمرے کے باہر کھڑے ہو گئے۔ اور بلند آواز سے ان کو بتاتے رہے کہ اب ایسے کریں اب یوں کریں اور اندر یہ چند احمدی خواتین ان ہدایات کے مطابق غسل و کفن کا کام کرتی رہیں۔ کجا وہ حالت تھی اور کجا یہ کہ اب ماشاءاللہ جماعت جرمنی کا اپنا رجسٹرڈ ادارہ ’’النصرت‘‘ ہے جو تجہیز و تکفین اور تدفین کا سارا کام کرتا ہے! ہیوبش صاحب کی ان خاتون سے ایک ہی بیٹی، عطیہ نور ہیوبش صاحبہ، ہیں جن کو نیشنل صدر لجنہ کے طور پر خدمت کی بھی توفیق ملی۔

دوسری شادی اور اولاد

پہلی بیگم کی وفات کے بعد آپ کی دوسری شادی قادیان میں ایک درویش کی صاحبزادی سے ہوئی۔ قانتہ احمد صاحبہ ماشاء اللہ حیات ہیں۔ آپ سے ہیوبش صاحب کے سات بچے ہیں، خولہ، طارق، محمد، ثناء، شافی، عالیہ اور خالد۔ ان میں سے متعدد کو نیشنل سطح پر جماعتی خدمت کی توفیق بھی ملی ہے۔

چاکلیٹ کا قصہ

مغربی تہذیب میں جو ایک بات مشرقی تہذیب سے اور اسلامی تہذیب سے بہت مختلف ہے وہ یہ ہے کہ کھانے کے وقت ہر کوئی اپنا اپنا کھانا کھاتا ہے۔ کھانا تقسیم کرنے اور آپس میں بانٹ کر کھانے کا رواج، جو کہ مشرقی تہذیبوں میں پایا جاتا ہے مغرب میں بالکل نہیں۔ اسلام نے بھائی چارہ پر زور دیا ہے اس لیے بانٹ کر اور مل کر کھانے کی روایت کو اسلامی تہذیب میں مزید جلا بخشی گئی ہے۔ ایک دن شعبہ اشاعت کی میٹنگ تھی۔ میں میٹنگ سے پہلے کسی کام سے دفتر میں گیا تو ہیوبش صاحب وہاں Toblerone چاکلیٹ نکال کر اس کے کنگرے گن رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد سب لوگ جمع ہو گئے تو کہنے لگے کہ یہ نئی چاکلیٹ مارکیٹ میں آئی ہے۔ اس میں شہد ہے۔ ہم سب اتنے لوگ ہیں، ہر ایک کے حصہ میں اتنا ٹکڑا آئے گا۔ اس کے بعد چھری سے چاکلیٹ کے اتنے حصے کر کے ہر ایک کو ایک ایک ٹکڑا دیا کہ دیکھو کتنی مزے دار ہے۔ کہنے کو یہ ایک معمولی بات ہے۔ مگر جو شخص مغربی معاشرہ میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہو، اس کا ایسا کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس نے کس حد تک اسلامی روایات اور تہذیب کو اپنا لیا ہے۔

حالتِ زار

قبولیت اسلام کے وقت ان کی جو حالت تھی اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ناصر باغ میں ہمارے دوست میر عبداللطیف صاحب ایک جرمن واقف کار کو لائے جو وہیل چیئر پر تھا اور نشہ کے بد اثرات کی وجہ سے اس سے صحیح طرح سے بات کرنے میں بھی مشکل ہو رہی تھی۔ میر صاحب اسے ہیوبش صاحب سے بھی ملانے کے لیے لائے۔ میں اس وقت پاس ہی کھڑا تھا۔ بات کرنے کے بعد ہیوبش صاحب نے میر صاحب کو کہا کہ آپ نے اچھا کیا جو اسے یہاں لے آئے۔ اس کی موجودہ حالت دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے۔ جب میں پہلی مرتبہ آیا تھا تو میری حالت اس سے بھی زیادہ خراب تھی!

تحمل و برداشت

ایک مرتبہ ہیوبش صاحب ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ جس کمپنی کے لیے کتاب لکھنی تھی وہ جلد لکھنے پر زور دے رہی تھی کیونکہ اس وقت ایسا مسئلہ خبروں میں اٹھا ہوا تھا جس میں وہ کتاب خوب فروخت ہونے کی امید تھی۔ ہم لوگوں کو علم تھا کہ ہیوبش صاحب آج کل شدید مصروف ہیں۔ انہی دنوں مجھے اپنی چچا زاد بہن عافیہ صاحبہ کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہیوبش صاحب کی اہلیہ ذکر کر رہی تھیں کہ ان کے بیٹے نے کمپیوٹر پر کھیلتے ہوئے کتاب کا مسودہ ضائع کر دیا ہے! ساری کتاب تو شاید ضائع نہیں ہوئی ہو گی کیونکہ کچھ ابواب لکھ کر کمپنی کو بھیجتے رہتے تھے۔ لیکن کئی دنوں کی محنت بہرحال ضائع ہو گئی اور وقت پر مسودہ دینے کا جو معاہدہ تھا اس کا پورا کرنا مشکل ہو گیا۔ جب ہیوبش صاحب کو معلوم ہوا کہ بچے سے ایسا ہو گیا ہے تو کسی کو ایک لفظ تک نہیں کہا اور اناللہ پڑھ کر خاموشی سے دوبارہ لکھنا شروع کر دیا۔

اکثر لوگ ایسی صورت میں بچے کو اور بیوی کو ضرور کچھ سنا دیں گے۔ یا پھر اپنے آپ کو ہی کوس کر غصہ ٹھنڈا کر لیں گے۔ مگر ایسا نمونہ کتنے دکھا سکتے ہیں؟ حضرت مسیح موعودؑ کا مسودہ میاں محمود صاحب (بعدہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ) نے جلا دیا تھا تو آپؑ نے یہ نمونہ قائم فرمایا تھا۔ آپؑ کی پیروی کی برکت سے ایک سو سال بعد ہزاروں کلومیٹر دور ایک مختلف قوم اور زبان و ثقافت سے تعلق رکھنے والے ادنیٰ غلام نے وہی اخلاق دکھا کر ثابت کر دیا کہ وہ آپؑ کے درختِ وجود سے پیوستہ سرسبز شاخ ہے۔

ایک درخواست دعا

ایک مرتبہ مجھے کوئی مسئلہ در پیش تھا۔ میں نے ہیوبش صاحب کو فون کیا اور کہا ایک مسئلہ ہے لیکن ابھی بتانا نہیں کہ کیا ہے۔ بس آپ دعا کریں۔ کہنے لگے کہ اچھا ٹھیک ہے۔ ایک دن ان کے جرمن زبان میں لکھے چند اشعار موصول ہوئے جن میں ذکر کیا گیا تھا کہ ایک دوست کو کوئی مسئلہ ہے اور دوسرا دوست جانتا نہیں کہ وہ کیا ہے۔ تاہم وہ دعا گو ہے کہ اللہ اس کا مسئلہ حل فرمائے۔ مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی کہ ہیوبش صاحب نے مجھے اپنا دوست کہا ہے۔ اور میرے لیے اشعار کہے ہیں۔

دوستی

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ہیوبش صاحب بہت مشہور اور اعلیٰ پائے کے شاعر و ادیب تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ کم و بیش تمام جرمن نو مبائعین کے ساتھ ان کا ذاتی اور براہ راست تعلق رہتا تھا۔ جماعت کے باہر بھی ان کی دوستیاں تھیں۔ اکثر بتایا کرتے تھے کہ آج فلاں کے ساتھ کافی پینے گیا ہوا تھا۔ ان تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو جنازے میں ایک غیر مسلم جرمن خاتون بھی شامل تھیں جو کہ تدفین مکمل ہونے تک وہاں رہیں۔ ان کے چہرے پر ہیوبش صاحب کی وفات کا غم صاف نظر آ رہا تھا اور مسلسل روتی جا رہی تھیں۔ بعد میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ صوبہ ہیسن کے ادیبوں کی تنظیم سے تھیں اور ادب کے حوالہ سے ہیوبش صاحب سے تعلق تھا۔

پاکستان

ایک دن پاکستان کا ذکر ہو رہا تھا تو ہیوبش صاحب کہنے لگے کہ جتنا میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں اور جتنی میں پاکستان کے لیے دعائیں کرتا ہوں، پاکستانی احمدیوں میں سے بھی کم ایسا کرتے ہوں گے! وجہ ظاہر ہے کہ یہ تھی کہ بالخصوص خلیفہ وقت اور عمومی طور پر جماعت کے بہت سے بزرگوں کا تعلق پاکستان سے تھا اور پاکستانی احمدیوں نے ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا تھا۔ پھر جرمنی میں جماعت کے پھیلاؤ اور ترقی میں پاکستانی احمدیوں کا فیصلہ کن کردار تھا۔ آپ کی حضرت مسیح موعودؑ کی بستی قادیان سے محبت و تعلق کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔

لباس

مجھے نہیں یاد کہ ہیوبش صاحب کو ٹائی پہنے دیکھا ہو۔ اکثر و بیشتر نہایت سادہ لباس ہوتا تھا۔ اکثر پینٹ اور شرٹ کے اوپر کوٹ۔ کوٹ کی جیبوں میں مختلف چیزیں اور کاغذات ہوتے تھے۔ سر پر عام طور پر ٹوپی پہنتے تھے البتہ کبھی کبھی اچکن پہنتے تو ساتھ پگڑی بھی استعمال کرتے تھے۔ لباس کے معاملہ میں بھی بالکل درویش تھے۔ ہاتھ میں الیس اللہ والی انگوٹھی ضرور ہوتی تھی جس کا نگ مجھے سبز رنگ کا یاد ہے۔ کبھی سیاہ رنگ کا بھی ہوتا تھا۔

ہیوبش صاحب کا مقام

ہم عصری بھی ایک کمزوری ہے۔ انسان اپنے ہم عصر شخص کو اپنی ہی طرح کھاتا، سوتا، ہنستا، روتا دیکھتا ہے، اس کی بعض کمزوریاں علم میں آ جاتی ہیں، بسا اوقات کسی غلطی پر نظر پڑ جاتی ہے، اس لیے اس کا مرتبہ پہچاننے میں دھوکا کھا جاتا ہے۔ اس میں کچھ قصور ان تاریخ نویسوں کا بھی ہے جو پرانے بزرگوں کے قصے اتنے بڑھا چڑھا کر اور مبالغہ آرائیوں اور ملمع سازیوں کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صرف مافوق الفطرت مخلوق ہی نیک ہو سکتی ہے۔ ہیوبش صاحب کی زندگی میں جب ہم ان کے ساتھ کام کیا کرتے تھے تو کئی مرتبہ الیاس منیر صاحب ہمیں کہا کرتے تھے کہ جب یہ بابا جی فوت ہوں گے تب لوگوں کو پتا چلے گا کہ یہ کیا بلا تھے! اور سچ یہی ہے کہ ان کی وفات کے بعد ہی ہمیں احساس ہوا کہ کس پائے کا منکسر مزاج، پرانا خادم دین اور نیک بزرگ چلا گیا ہے۔ اب واقعی افسوس ہوتا ہے کہ کاش ان کی صحبت سے مزید فائدہ اٹھا لیتے۔

تربیت کا درد

ہیوبش صاحب کو یہ بڑا غم رہتا تھا کہ ہم لوگ تربیتی طور پر کمزور ہو رہے ہیں۔ تنظیم، ترتیب، آرائش، اعداد و شمار وغیرہ کا تو بہت خیال کیا جاتا ہے لیکن بھائی چارہ اور روحانیت کی طرف وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہیے۔ چنانچہ جب بھی ان کا دل زیادہ دکھتا تو انتہائی جوش کے عالم میں اس موضوع پر بات کرتے اور تعلق باللہ اور بھائی چارہ کی طرف توجہ دلاتے۔ اس کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں تھی۔ کسی میٹنگ، شوریٰ، تبلیغی ورک شاپ، تربیتی کلاس، غرض جہاں کہیں جب کہیں موقع بنتا اس طرف توجہ دلاتے۔ اس وقت ان کا جوش انتہا کو پہنچا ہوتا تھا۔ کھڑے ہو کر بات کرتے اور آواز بلند ہو جاتی۔ ہم لوگ تو خیر ان کے سامنے ویسے ہی بچے تھے، کسی بڑے کو بھی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ کچھ بولے۔ سب جانتے تھے کہ وہ باعمل بزرگ ہیں اور بات دلی درد اور ہمدردی سے کر رہے ہیں اور بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ ان کی بات مکمل ہونے تک سب خاموشی سے سنتے، خواہ اس میں کتنا ہی وقت لگتا۔

اطاعت

اطاعت ایک مشکل امر ہے بلکہ حضرت مسیح موعودؑکے الفاظ میں ایسا ہے جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے! ایک مرتبہ ایک معاملہ ہوا۔ میرے نزدیک بالکل معمولی بات کو عجیب رنگ دے دیا گیا تھا۔ بہرحال جب فیصلہ ہو گیا تو آپ بالکل خاموش ہو گئے اور نظام کے فیصلے کو تسلیم کیا۔ میں ذاتی طور پر آج تک یہ سمجھتا ہوں کہ فیصلہ میں سختی تھی۔ مگر ہیوبش صاحب نے کچھ نہیں کہا۔ البتہ ان دنوں بہت غمزدہ رہا کرتے تھے اور اکثر نماز میں رو پڑتے تھے۔

صاف گوئی اور جرأت

ہیوبش صاحب میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی جرأت بھی تھی اور دوسروں کی غلطی کی نشاندہی کرنے کی بھی۔ ایک مرتبہ ایک رسالے میں کچھ چیزیں چھپ گئیں جو کہ درست نہ تھیں۔ معاملہ حضرت صاحب تک پہنچا۔ حضور ایدہ اللہ نے دورہ جرمنی کے دوران مجلس شوریٰ بلائی ہوئی تھی۔ حضور نے اس معاملہ کا بھی ذکر فرمایا۔ اس پر ہیوبش صاحب نے عرض کیا کہ حضور آخری چیکنگ میں نے کرنی تھی لیکن میں دیکھ نہیں سکا،یہ میری غلطی تھی۔ حضور ایدہ اللہ نے ان کی اس صاف گوئی کو بہت پسند فرمایا۔

ایک مرتبہ ایک میٹنگ ہو رہی تھی کہ اپنے سے بڑی عمر اور تجربہ کے صاحب کی پیچیدہ بات پر، جو کہ نظر آ رہا تھا کہ کیوں کی گئی ہے، میرے منہ سے نکل گیا کہ صاف کہیں کہ یہ مقصد ہے اس لیے یوں کرنا ہے۔ اس پر ہیوبش صاحب نے فوراً ان صاحب کو کہا کہ ہاں بات صاف اور سیدھی کرنی چاہیے، ادھر ادھر گھما پھرا کر نہیں۔

وفات

ہیوبش صاحب کی وفات ۴؍جنوری ۲۰۱۱ء کو گھر پر حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی۔ جوں ہی احباب جماعت کو پتا چلا تو ہر طرف سے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ کثرت کے ساتھ اور دور دور سے احباب جنازہ میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ چنانچہ گروس گیراؤ کے ایک سکول میں نماز جنازہ کا انتظام کیا گیا۔ جرمنی سے باہر بھی جہاں جہاں جماعتیں موجود ہیں اکثر جگہ سے تعزیت کے پیغامات موصول ہوئے۔ حضور ایدہ اللہ نے محترمی عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر کو اپنے نمائندہ کے طور پر لندن سے جنازہ میں شرکت کے لیے بھجوایا انہوں نے ہی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسی روز خطبہ جمعہ میں حضور نے ہیوبش صاحب کا ذکر خیر بھی فرمایا۔ اگلے روز فرینکفورٹ کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ اللہ کے فضل سے مجھے جنازہ و تدفین میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ اس کے بعد سے آج تک جب بھی اس قبرستان جانا ہو، ہمیشہ آپ کی قبر پر جانے اور دعا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے اور اپنے پیاروں کے ساتھ جگہ دے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button