کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ

دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشانِ پا یہاں تک ہی آ کر ختم ہو جا تا ہے۔ لیکن اُن میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گذر اور دخل کیسے ہوگا ۔مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے۔ کبوتر نے انڈے دئیے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپؐ بڑی صفائی سے اُن کو سن رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آئے ہیں، لیکن آپؐ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیق صادق صدیق ؓ کو فرماتے ہیں لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبۃ:۴۰)۔ یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہرکرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں۔ اشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خداتعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لیے تو یہ نمونہ کافی ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۵۰-۲۵۱، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آ جاتی ہے اس لیے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا۔ اہل دنیا بزدل ہوتے ہیں۔ ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۳۱۷، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

ایک وقت ہے کہ آپؐ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ تیرو تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔ سخاوت پر آتے ہیں، تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں، تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خداتعالیٰ نے دکھا دیا ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے۔ اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتےّ غرضیکہ ہر چیز مفید ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام او رپناہ لیتی ہے۔ لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا، کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے۔ اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ ؓ برداشت نہیں کر سکتے، مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے۔ اس میں صحابہؓ کا قصور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کوبخش دیا ،بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔ ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے تھےکہ محمد رسول اللہ مَیں ہوں۔ کہتے ہیں حضرتؐ کی پیشانی پر ستر زخم لگے مگر زخم خفیف تھے، یہ خُلقِ عظیم تھا۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۸۴ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button