یادِ رفتگاں

ماسٹر محمد عیسیٰ ظفر صاحب

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

خاکسار کے والد مکرم ماسٹر محمد عیسیٰ ظفر صاحب ۱۰؍اکتوبر ۱۹۳۶ءکو غوث گڑھ ضلع لدھیانہ (انڈیا) میں، مکرم چودھری محمد یوسف صاحب اور مکرمہ رقیہ بی بی صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ ۳۸ چک ضلع سرگودھا رہائش پذیر ہوئے تاہم بعدازاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کی تعمیل میں احمدنگر نزد ربوہ منتقل ہوگئے۔

ہمارے والد صاحب ایک ہمدرد، خوددار اورانتہائی بہادر شخص تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے استاد تھےلیکن جماعتِ احمدیہ کے ایسے مجاہد تھے جن کا نصب العین صرف اور صرف تبلیغ دینِ اور دفاعِ احمدیت تھا۔

میرے والد صاحب کی شادی حضرت حکیم محمد رشید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حلیمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی۔ اکتوبر ۱۹۶۰ء میں احمدیہ مسجد احمدنگر میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے نکاح پڑھایا اور ۱۸؍مارچ ۱۹۶۲ء کو شادی سرانجام پائی۔ بفضلہ تعالیٰ ان کی عائلی زندگی نہایت مثالی رہی۔

آپ نے ۱۹۷۰ء کی پُرآشوب دہائی میں احمدیت کے دفاع کے لیے قومی اخبارات کو بہت خطوط لکھے، جن میں سے اکثر ’’ایک قادیانی کا خط‘‘ کے عنوان سے ’’روزنامہ مشرق ‘‘ اور ’’روزنامہ امروز‘‘ میں شائع بھی ہوئے۔معاندِاحمدیت شورش کاشمیری کے رسالہ چٹان میں اُن کے خط کا کچھ حصہ شامل کرکے اس پر تبصرہ کیا گیا جس کی نقل اس مضمون میں شامل کی جارہی ہے۔

خاکسار کی شیرخواری کی عمر میں والد صاحب کے جس خط کے کچھ فقرات شورش کشمیری صاحب نے درج کیے ہیں اس کے مکمل متن کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور آج نصف صدی گزرنے کے بعد ببانگ دہل کہا جاسکتا ہے کہ اسلام احمدیت کے اس خادم نے جس مسیحِ وقت پر ایمان کا دعویٰ کیا اس مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ پوری شان کے ساتھ کھڑا تھا اور کھڑا ہے۔اس چھوٹے سے قصبہ قادیان کا نام آج پوری شان و شوکت سے ۲۱۴؍ممالک میں پہنچ چکا ہے، جماعت کا بجٹ چند لاکھ روپوں سے بڑھ کر اربوں روپے تک پہنچ چکا ہے۔اور جہاں تک شورش کشمیری صاحب کے اس دعویٰ کا تعلق تھا کہ وہ ’’جشن صد سالہ کی آڑ میں ہونے والے منصوبےکا عنقریب انکشاف کریں گے‘‘ آج پچاس سال بعد بھی پورا ہونے کا منتظر ہے جبکہ صد سالہ جوبلی کو گزرے بھی ۳۳ سال گزر گئے۔

ایک قادیانی کا خط

آپ اپنے ایک اور خط میں تحریر کرتے ہیں:’’مکرمی! دورِ حاضر میں استاد اور حضرت کے الفاظ اُن احباب کیلئے استعمال ہورہیں جو انتہائی درجہ کے چکرباز اور مکروفریب دینے والے ہوں جبکہ یہی الفاظ ماضی میں خالصاً مقدس وجودوں کیلئے اور دورِ حاضر میں مقدس وجودوں کے لیے بھی اور چالاک اور چال باز لوگوں کے لئے بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی طرح لفظ مسلمان کو بھی وناسپتی بنانا چاہتے ہیں کیونکہ آپ نے ۱۳؍ جنوری ۱۹۷۶ء کے ’’نوائے وقت‘‘ کے اداریہ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ احمدی اپنے آپ کو ’’مسلمان ظاہر‘‘ کرنے اور مسلمان کہلانے پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ احمدی مسلمان اپنے آپ کو قرآنی آئین کی رو سے مسلمان کہلانے کے لئے اظہار اور اصرار کرتے ہیں مگر اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ احمدی مسلمان قرآنی آئینی حقوق کو کیوں استعمال نہ کریں؟

کیا وہ حج بیت اللہ سے واپسی پر چار لاکھ کا سامان سمگل کرنے … ریڈیو پر فحش گانے وغیرہ نشر کرنے کی تائید کرنے والے چکلے باز، سینما باز، افیم کے ٹھیکیدار، شرابی، ڈکیت، زناکار اور اغوا وغیرہ کی خوبیوں کو اپنا کر مسلمان کہلائیں؟

آپ نے آج تک ان اخلاقی اور سماجی برائیوں کے خاتمہ کا بل قومی اسمبلی میں کیوں پیش نہیں کرایا؟آپ نے آج تک مسلمان کی تعریف قرآن اور حدیث کی رُو سے آئین میں درج کرانے کیلئے کیوں آواز نہیں اٹھائی؟ ہم نے اِسلامی مسلمان کی تعریف پسِ پشت ڈال کر ستمبر۱۹۷۴ء میں جو تمغہ حاصل کیا تھا، اس کو بحال رکھنے اور اپنے نامہ اعمال کی پردہ پوشی کے لئے ضروری ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر احمدی مسلمانوں کی پیشانی پر ’’غیرمسلم‘‘ کا بورڈ لگادیا جائے اگرچہ قرارداد سیاسی اغراض و مقاصد کے لئے ہے۔ اگر آپ ستمبر ۱۹۷۴ء کی قرارداد کو خدا کو حاضر ناظر جان کر قرآنی آئین کے مطابق تصور کرتے ہیں تو پھر آپ اپنے اخبار کے ذریعے قومی اسمبلی کی ٹیپ شدہ کارروائی کو من و عن ریڈیو پر نشر کرنے اور شائع کرنے کا حکومت سے مطالبہ کریں۔

(محمد عیسٰے ظفر احمدنگر براستہ ربوہ ضلع جھنگ)‘‘(روزنامہ نوائے وقت، لاہور/راولپنڈی (اتوار ۱۸؍ جنوری ۱۹۷۶ء)

۱۹۷۴ء میں جب احمدیوں کے خلافت فسادات عروج پر تھے، خاکسار کے والد صاحب، جماعتی ہدایت پرچنیوٹ جاکر مخالفین کے جلسوں میں شامل ہوکر، اہم نکات نوٹ کرتے اور اس کی رپورٹ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو پہنچا کرآتے۔ اُن کانکات نوٹ کرنے کاطریقہ بہت دلچسپ تھا۔ آپ کو اُلٹی تحریر، بڑی تیزی سے لکھنے میں مہارت تھی۔ آپ کالکھا ہوا اُسی طرح نظر آتا تھا جس طرح عام لکھا ہوا آئینہ میں الٹ نظر آتا ہے۔اس طرح کسی دیکھنے والے کو فوری طور پر سمجھ بھی نہیں آتا تھا کہ کیا لکھا گیا ہے۔

میری یادداشت میں ابھی تک وہ نظارہ محفوظ ہے جب آپ گھر کے صحن میں، ایک میز پر آئینہ کے سامنے اپنے نوٹس رکھ کر، رپورٹ بنارہے تھے۔ اُن کاغذات پرتحریر اُلٹی لکھی ہوئی تھی جبکہ آئینہ میں وہ تحریر سیدھی نظر آرہی تھی۔

۱۹۷۴ء میں آپ چنیوٹ ہی میں تھے جب متعدد احمدی گھروں اور دکانوں کو لوٹا جانے لگا اور کئی احمدی خاندانوں کو ہجرت کرکے جان بچانا پڑی۔ ایسے ہی ایک دن مخالفین کا ایک گروہ ایک احمدی گھر کو لوٹنے جارہا تھا کہ آپ بھی بڑی حکمت کے ساتھ جلوس میں شامل ہوگئے۔ گھر کے لوگ تو جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن لوگوں نے اشیا کو لوٹنا شروع کردیا۔ والدصاحب گھر کا جائزہ لے کر ایک ایسی الماری تک دوسروں سے پہلے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جس میں سونے کے زیورات اور نقدی رکھی ہوئی تھی۔ آپ وہ زیورات اور نقدی اپنے قبضہ میں کرکے وہاں سے نکل آئے اور رات گئے اس مقام تک پہنچے جہاں چنیوٹ کے ستم رسیدہ افرادِ جماعت پناہ لیے ہوئے تھے۔ اورمذکورہ گھرانے کے افراد کو ڈھونڈ کرتمام زیوارت اور نقدی ان کے حوالے کرکے واپسی ہوئی۔

۱۹۷۴ء میں،احمدیوں کے خلاف پورے پاکستان میں ہونے والے فسادات میں،ربوہ میں آنے جانے والے لوگوں کے لیے بھی زمین تنگ ہونے لگی۔ربوہ جانے والے مسافروں کو بسوں سے اتار دیا جاتا یا مارا پیٹا جاتا۔ ایسے میں احمدنگر کا بسوں کا اڈہ، ربوہ کے مسافروں کے لیے نشانِ منزل بن گیا تھا۔ ربوہ جانے والے مسافر احمدنگر اُتر جاتے اور یہاں سے پیدل ربوہ جاتے۔ مکرم ومحترم والد صاحب نے احمدنگر کے خدام کی ڈیوٹی احمدنگر کے اڈہ پر لگائی اور جو بس بھی سرگودھا کی طرف سے آتی، اُس کو رکوا کر اُس میں سے ربوہ کے مسافر اتروالیتے اور پھر خدام اپنی سائیکلوں پر، اُنہیں ربوہ چھوڑ کرآتے۔یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔

فسادات کی آگ بڑھتی جارہی تھی۔ نہتے معصوم احمدیوں کی حفاظت کے لیے نہ تو حکومت کی کوئی کوشش تھی نہ نیت۔ ایسے میں والد صاحب نے خودحفاظتی نقطہ نظر سے خدام کو بعض ’’خود ساختہ ہتھیاروں‘‘ سے لیس کرنا شروع کردیا۔ ان ’’خودساختہ ہتھیاروں‘‘ میں سرخ مرچوں کو پیس کرسفوف بنانا تاکہ اگر دشمن حملہ آور ہو تو اُس کی آنکھوں میں ڈالا جاسکے، غلیلیں اور اُن کے لیے مٹی کی گولیاں بنانا شامل تھا۔

اُنہی دِنوں کی بات ہے کہ محترم والد صاحب، اپنے زیرِ تعمیر گھر کے لیے کچھ سامان لینے کے لیے ٹرک لے کر سرگودھا گئے ہوئے تھے۔ خریداری کے دوران آپ کو علم ہوا کہ کچھ فسادیوں نے ایک احمدی کے گھرکا گھیراؤ کیا ہوا ہے اور آگ لگانے لگے ہیں۔ آپ نے ٹرک ڈرائیور کو ہدایت کی کہ وہ خود ہی سامان لوڈکرواکر احمدنگر اتار دے اور آپ خود اس محلہ میں چلے گئے جہاں اس احمدی کے گھر کوفسادیوں نے گھیر کے آگ لگادی ہوئی تھی۔ محترم والد صاحب کو معلوم ہوا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں اور صرف خواتین ہیں جو بالائی منزل پر موجود ہیں۔۔ محترم والد صاحب پچھلی گلی میں جاکر کسی اورکے گھر کی چھت سے اوپر چڑھ کر چوبارے پر چلے گئے اور وہاں جاکر خواتین کو تسلی دی اور پھر اپنی چادر پچھلی کھڑکی سے لٹکاکر خواتین کو پچھلے گھر کی چھت پر پہنچادیا اور پھر وہاں سے ایک محفوظ جگہ پر پہنچا دیا جہاں پر اَور بھی احمدی پناہ لیے ہوئے تھے۔ فسادیوں کو علم بھی نہ ہوسکا اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ آگ کے ساتھ گھر کی خواتین بھی جل گئی ہیں۔

مکرم ومحترم والد صاحب نے جماعتی ذمہ داریوں کوہمیشہ ترجیح دی۔ میری یادداشت میں اُن کی جو چند یادیں محفوظ ہیں اُن میں سے یہ بات بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ سکول سے آکرکھانا کھاتے اور ربوہ چلے جاتے اور پھر رات گئے واپس آتے۔ اُن کے جانے کا تو مجھے پتا ہوتا تھا جبکہ اُن کی واپسی کے وقت تک میں سوچکا ہوتا تھا۔ صرف ایک دفعہ میں سوتے سے اُٹھ گیا تھا دیکھا کہ آپ رات کا کھانا کھارہے ہیں۔

ربوہ میں اُن کی خدمات کی نوعیت کیا ہوتی تھی اس کا مجھے تفصیلی پتا تو نہیں لیکن ایک دفعہ ہم اپنی والدہ حلیمہ بی بی صاحبہ کے ہمراہ کسی عزیز کے گھر گئے تو واپسی پرحسبِ پروگرام خلافت لائبریری آئے تھے۔ لائبریری بندہوچکی تھی اور محترم والد صاحب کسی شخص کے ساتھ بیٹھے لکھنے کا کام کررہے تھے۔

۱۹۷۴ء میں جب احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا اُس کے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ احباب کی میٹنگ تھی جس میں محترم والد صاحب بھی شامل تھے۔اس میٹنگ میں والدصاحب کو بتایا گیا کہ اُن کو ایک اہم ذمہ داری تفویض کی جائے گی جس کی نوعیت اور وقت کے بارے میں بوقتِ ضرورت بتایا جائے گا۔

اس میٹنگ کے چند دِنوں بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک کارکن کے ذریعہ والد صاحب کو طلب فرمایا۔ والد صاحب اُس وقت سکول پڑھانے گئے ہوئے تھے۔ جب وہ واپس آئے اور آکر کھانا شروع کیا تو والدہ صاحبہ نے بتایا کہ حضور نے پیغام بھیجا ہے کہ آپ اُن کو جاکر ملیں۔ والدصاحب نے کھانا وہیں چھوڑ دیا اور جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ والدہ صاحبہ نے اصرار کیا کہ کھانا توکھا کر جائیں۔ والدصاحب نے کہا کہ نہیں ! حضور نے بلایا ہے لہٰذا میں رُک نہیں سکتا۔

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پرآپ ربوہ سے ہی ایک امانت لے کر دوردراز کے علاقہ میں چلے گئے اور جانے سے پہلے گھر پیغام بھجوادیا کہ میں حضور کی ہدایت کے مطابق کسی کام پر جارہا ہوں اور معلوم نہیں کب واپس آؤں گا۔

والد صاحب کا یہ سفر اس لحاظ سے انتہائی دشوار گزار تھا کہ منزلِ مقصود جو کہ ایک سرحدی گاؤں تھا تک جانے کا کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا۔ اورسرحدپر دونوں جانب پاکستان اور بھارت کے فوجی ہائی الرٹ تھے اور کسی بھی مشکوک شخص کو بلاتوقف گولی ماردیتے تھے۔ یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں غلطی سے سرحد ہی پار نہ کرجائیں لہٰذا آخری ریلوے اسٹیشن کے بعد ایک گاؤں میں ایک شخص کو مقرر کیاگیا تھا کہ وہ والد صاحب کی راہنمائی کریں۔اس شخص کے پاس پہنچ کر والد صاحب نے رات تک کا انتظار کیا اور پھر پیدل سفر کے لیے روانہ ہوگئے اور مقررہ مقام پر انتہائی خطرناک حالات میں متعلقہ دوست سے ملاقات کی اور مذکورہ امانت اُس کے سپرد کی۔

والد صاحب نے مذکورہ امانت متعلقہ شخص تک پہنچا کر بقیہ رات اور اگلا دن وہیں گزارا اور رات کو واپسی کا سفر شروع کیا۔ اپنے ساتھی کے ساتھ جب واپس اُس کے گاؤں پہنچے تو پتا چلا کہ اُس دن کی ٹرین جاچکی ہے اور اب اگلے دن جائے گی۔ اس کا والد صاحب کو سخت افسوس ہوا کیونکہ مرکز میں اُن کے منتظر لوگ اس ٹرین سے واپسی کی توقع رکھے ہوئے تھے۔ وہاں پر نہ تو کوئی فون کی سہولت تھی اور نہ تار کی۔ لہٰذا ناچار انتہائی بے چینی سے وہ دن اور رات گزاری۔ اور اگلے دن، رات گئے بذریعہ ٹرین براستہ لاہور، ربوہ پہنچے۔ اپنی رپورٹ حضورِ انور کی خدمت میں پیش کی اور علی الصبح بخیریت واپس احمدنگر پہنچ گئے۔

والد صاحب کی غیرموجودگی میں والدہ صاحبہ نے ایک دو دن انتظار کیا پھر ممکنہ امکانی مقامات سے پتا کروایا کہ ماسٹر صاحب کہاں گئے ہیں لیکن وہاں کسی کوبھی علم نہ تھا۔ بلکہ اکثر کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کو کہیں بھجوایا گیا ہے۔ اس کیفیت میں والدہ صاحبہ انجانے خوف کی وجہ سے سخت بیمار ہوگئیں اور جوں جوں وقت گزرتا گیا اُن کی طبیعت مزید خراب ہوتی گئی۔ ساتویں دن صبح والدصاحب کی واپسی ہوئی اور گھر آکر انہوں نے کئی دن تک ہماری والدہ کی تیمارداری کی۔

ایک دفعہ بہاولنگر کے کسی دور دراز علاقہ میں بعض احمدی احباب کی خبر گیری کے لیے جماعت کی طرف سے ہمارے والدِ محترم کو بھجوایا گیا۔ بہاولنگر سے ایک اَور دوست بھی ہمراہ ہوئے۔ آدھی رات کو ایک قبرستان کے درمیان سے گزررہے تھے تو آپ نے ایک نیم برہنہ عورت کو ایک لاش (جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ ایک بچہ کی تھی جس کی تدفین اسی دن ہوئی تھی) پر بیٹھ کر نہاتے دیکھا۔عورت نے پہلے تو ڈرانے کی کوشش کی۔ جب ناکام ہوگئی تو اُس نے بتایا کہ اُس کا گاؤں تھوڑی دور ہے اور اُس کی اولاد نہیں ہے۔ ایک پیر نے اُسے ہدایت کی ہے کہ اگر وہ کسی نئے دفن شدہ مردہ کی قبر پر نہا نے کے فوراً بعد اُس پیر سے دَم کروائے گی تو اُس کے ہاں ضرور اولاد پیدا ہوگی۔ والد صاحب نے اُسےواپس گھر جانے کا مشورہ دیا تو اُس عورت نے پہلے تو انکارکیا لیکن جب والد صاحب نے سختی سے کہا تو جانے پر رضامند ہوگئی۔ اُدھر وہ پیر صاحب جو ’’دَم ‘‘ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے،اُن کو پتا چلا کہ کس طرح دواشخاص نے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے تو وہ کچھ مریدوں کے ساتھ آپ لوگوں کے تعاقب میں آئے۔ لیکن والد صاحب اوراُن کے ساتھی بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن اس تگ و دو میں اُن کو کافی دیر ہوگئی اور اُن کو بقیہ سفر اگلی رات کرنا پڑا۔

ہمارے قصبہ احمدنگر میں ایک بڑے زمینداراور چیئرمین یونین کونسل مہرمحمد عیسیٰ صاحب بھی تھے۔ جن کے اثرورسوخ کی وجہ سے احمدنگر کی اکثریت ان کی بات کو بلاچوں چرا مان لیا کرتی تھی۔ ایک موقع پر ایک اہم مسئلہ پر احمدنگر کے بیشتر افراد اکٹھے ہوئے جس میں مہر محمد عیسیٰ صاحب بھی تھے۔ اُنہوں نے اس مسئلہ کا جو حل بتایا وہ منصفانہ نہیں تھا اس پر صرف میرے والد صاحب کو یہ جرأت ہوئی کہ سب کے سامنے کہا کہ’’ مہر صاحب ! یہ مت سمجھیں کہ یہاں صرف ایک ہی محمدعیسیٰ ہے۔ یہ مسئلہ ایسے نہیں، ایسے حل ہوگا۔ ‘‘ اس پر مہر صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے ماسٹر صاحب! جیسا آپ کہتے ہیں ویسے ہی کرلیتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ والد صاحب بطور استاد سرکاری ملازمت کرتے تھے۔ اُن کی تعیناتی جہاں بھی ہوتی وہیں اپنے شاگردوں اور دیگر مقامی افراد سے دوستانہ تعلقات استوار کرلیتےاور آج بھی ان کے شاگرد بلکہ اُن کے والدین بھی ہماری عزت ایسے کرتے ہیں کہ جیسے ہم خود اُن کے استاد یا ان کے بچوں کے استاد ہیں اور ہمیں بھی ’’استاد جی‘‘ کہتے ہیں۔

مکرم ومحترم والد صاحب نے زیادہ عرصہ موضع جگوکے نزد لالیاں میں پڑھایا۔ پورا گاؤں اُن کی بہت عزت کرتا تھا۔ ایک لالی صاحب جو قومی اسمبلی کے ممبر بھی بنے، والد صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے خاندان میں ہونے والی شادیوں اور دیگر تقریبات میں خصوصی طورپر بُلاتے۔ ایک دفعہ اُنھوں نے ہم سب اہلِ خانہ کو بھی ایک شادی میں بُلایا تھا۔ اُن کی یہ عزت اُس روایتی عزت اور احترام سے بالا تھی جو عموماً دیہاتوں میں اساتذہ کی، کی جاتی تھی۔ سکول کے ہیڈماسٹر اور دوسرے اساتذہ کو لالی صاحب نے شاذ ہی کبھی دعوت دی ہوگی۔

مکرم والد صاحب کو تبلیغِ احمدیت کا بہت شوق تھا اور اکثر دوستوں کے ساتھ دیہات میں اس غرض سے جاتے رہتے تھے اور ان کے ذریعہ کئی دوستوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ مکرم و محترم ساجدمنورصاحب مربی سلسلہ و صدر جماعت احمدنگر اپنے والد مکرم اللہ یار منورصاحب کے حالاتِ زندگی اور قبولِ احمدیت کے واقعات اپنے والد اللہ یار منور صاحب کے الفاظ میں تحریرکرتے ہیں کہ’’ایک احمدی دوست مکرم محمد عیسیٰ ظفر صاحب کے ذریعہ ربوہ پیدل جاکرحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیعت کرنے کی درخواست کی۔ یہ ۱۹۵۶ء کی گرمیوں کا دن تھا کہ نمازِ عصر کے بعد مسجد مبارک ربوہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ۱۶ سال کی عمر میں بیعت کی سعادت پائی۔‘‘(تاریخ احمدیت احمدنگر، صفحہ ۸۱)

اس وقت خاکسار کے والد صاحب کی عمر تقریباً ۲۰ سال تھی۔

انہی دنوں کا ایک واقعہ ہے کہ والد صاحب نے امتحانات کے بعد رزلٹ کا اعلان کرنا تھا۔ نتیجہ والے دن سکول میں تمام اساتذہ چھٹی پر تھے اور صرف والد صاحب نے ہی نتیجہ سنانا تھا۔ اس موقع پر والد صاحب ہم سب اہلِ خانہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ والد صاحب نے جب اپنی کلاس کانتیجہ سنایا تو پوری کلاس میں سوائے ایک لڑکے کے سب پاس تھے۔ فیل ہونے والے لڑکے نے رونا شروع کردیا۔ جب ہماری والدہ صاحبہ نے یہ دیکھا تو والد صاحب کو کہنے لگیں آپ اس لڑکےکوبھی پاس کردیں۔ والدصاحب نے کہاکہ یہ فیل ہے لہٰذا فیل کرنا تھا۔ اس پر والدہ صاحبہ نے کہا کہ مجھ سے اس کا رونا نہیں دیکھا جارہا۔ آپ اس کو پاس کردیں۔ اس پر والد صاحب نے اُس بچہ کو بھی پاس کردیا۔ وہ بچہ خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا۔ والدہ صاحبہ بھی اُس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہیں۔

والد صاحب بہت منظم تھےاور ہر چیز کا ریکارڈ رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ خاندان اور برادری کے تمام لوگوں کی پیدائش اور وفات کا دن اور وقت تک نوٹ کرنے کے لیے ایک الگ رجسٹر بنایا ہوا تھا جس سے تمام احباب نے سالہا سال فائدہ اُٹھایا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ اُن دِنوں تو بچوں کی پیدائش کا اندراج کروانے کا کوئی رواج نہ تھا اور بعد میں جب بچے سکول جاتے تھے تو اکثر داخلے کے وقت سکول کے اساتذہ خود ہی کوئی تاریخ پیدائش لکھ دیتے تھے جو ان بچوں کی سرکاری تاریخ پیدائش سمجھی جاتی تھی۔

والد صاحب، شادی کے بعد والدہ صاحبہ کے تمام رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ بالخصوص اپنے سسر اور ہمارے نانا جان حضرت حکیم محمد رشیدؓ سے عقیدت اور احترام کا تعلق تھاجس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ اکثر اپنے سسرال، گھنو کے ججہ ضلع سیالکوٹ جاتےتو سب سے گاؤں میں رابطہ رکھتے اور ہمیشہ عقیدت کا تعلق رہا جو تاحال ہمارے ساتھ قائم ہے۔ خصوصاً والدہ صاحبہ کی سہیلیوںسے بہت احترام کاتعلق رہا۔

ایک عرصہ گزرجانے کے بعد جب بھی مجھے اپنے ننھیال گھنو کے ججہ جانے کا موقع ملتا یا وہاں کے کوئی دوست کہیں ملتےتو میرے والدمحترم کا ذکر ہمیشہ بہت محبت کے ساتھ کرتے ہیں اور تاحال یہ کیفیت قائم ہے۔

انیس فروری ۱۹۷۸ءکو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں دل کے عارضہ کی وجہ سے والد صاحب اس دارِ فانی سے بیالیس سال کی عمر میں کوچ کرگئے۔ اس موقع پر مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب تعزیت کے لیے تشریف لانے سے قبل بغرضِ اطلاع و اجازت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو پیارے آقا نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ان کی طرف سے بھی اہلِ خانہ سے تعزیت کرکے آئیں۔ محترم صاحبزادہ صاحب کے ہمراہ مکرم ناصر ظفر بلوچ صاحب، مکرم عبدالکریم نمبردار صاحب اور دوسرے سرکردہ احباب تشریف لائے۔

اس وقت کے صدر جماعت محترم ناصر ظفر بلوچ صاحب نے ایک دفعہ ہمیں بتایا کہ ماسٹر صاحب کے کاموں کی وجہ سے مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ جب ان کی وفات ہوئی تو میں نے اُن کو لحد میں اپنے ہاتھوں سے اتارا۔ حالانکہ بوجوہ، ان سے پہلے یا بعد میں، مَیں نے کبھی کسی کو لحد میں نہیں اتارا۔

ہمارے گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کا اختتام حضرت میاں طاہر احمد (خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) کے فارم پر ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے گھرانے کا حضرت میاں صاحب سے تعلق معمول سے زیادہ تھا۔ نیز جماعتی خدمات کی وجہ سے حضرت میاں صاحب والد صاحب سے ایک خاص تعلق رکھتے تھے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد بھی حضرت میاں صاحب ہمارے ساتھ خصوصی شفقت کا سلوک فرماتے اور مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ان محبتوں اور شفقتوں میں بےحد و حساب اضافہ ہوگیا۔ اس بارے میں ایک خصوصی مضمون الفضل انٹرنیشنل میں پہلے شائع ہوچکا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے والدصاحب سے مغفرت کا سلوک فرمائے، جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائےاور اُن خلفاء کا ساتھ نصیب ہوجن کی خدمت کی توفیق اس دُنیا میں بھی پاتے رہے ہیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button