متفرق مضامین

دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے سربراہان اور عرب لیگ کا اجلاس

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

گزشتہ ویک اینڈ پر دو اہم انٹرنیشنل کانفرنسز کا انعقاد دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ ایک تو سات بڑے صنعتی ممالک جن کو G 7 کے نام سے پکارا جاتا ہے کے سربراہان کی جاپان کے شہر ہیروشیما میں منعقد ہونے والی سالانہ میٹنگ میں شرکت تھی دوسرے عرب لیگ کے سربراہان کا جدہ میں اجلاس تھا۔ دونوں کانفرنسز ۱۹، ۲۰، ۲۱ مئی تین روز جاری رہیں۔ حالات کی کروٹ کہہ لیں یا زمانہ کی ستم ظریفی کہ یوکرائن کے صدر Volodymyr Zelenskyy دونوں کانفرنسز میں دیکھے گئے جس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ دونوں کانفرنسز میں یوکرائن میں جاری جنگ کو خاص اہمیت دی گئی۔ یوکرائن کا رسہ دونوں سروں سے کھینچا جا رہا ہے عرب لیگ جس کا جھکاؤ روس اور چین کی طرف بڑھ رہا ہے اس صورت حال میں مشترکہ موقف اپنا پائیں گے وقت کا سب سے مشکل سوال ہے۔

جی سیون کانفرنس

جی سیون کی گزشتہ ویک اینڈ پر ہونے والی سالانہ کانفرنس کا یہ انچاسواں سربراہی اجلاس تھا۔ ۱۹۷۳ء میں تیل کے بحران کے بعد یہ آواز اٹھی تھی کہ گلوبل چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے انٹرنیشنل کمیونیٹی کو ایک مشترکہ موقف اپنا کر ایسے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ نومبر ۱۹۷۵ء میں فرانس کے صدر Giscard نے دنیا کے چھ اہم ممالک کی قیادت کو پیرس کے قریب Château de Rambouillet میں جمع کیا۔ فرانس، امریکہ،برطانیہ،جرمنی، جاپان، اور اٹلی وہ پہلے چھ ممالک تھے جنہوں نے مل کر اس فورَم کی بنیاد رکھی۔ کینیڈا کی شمولیت کے بعد اس کو جی سیون کا نام دیا گیا۔ ۱۹۹۷ء میں روس اس کا ممبر بنا تو یہ فورم جی ایٹ کہلانے لگا۔ کریمیا وار کی وجہ سے ۲۰۱۴ء میں روس کی رکنیت معطل کر دی گئی اور اسی معطلی کے دوران ۲۰۱۷ء میں روس نے از خود اس فورم کو خیر آباد کہنے کا اعلان کر دیا۔ ۲۰۱۷ء سے اب اس فورم کو جی سیون کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ لیکن اب اس کی حیثیت ۱۹۷۵ء سے بہت بڑھ کر ہے۔ جی سیون کے مور نے پر پھیلا کر آدھی سے زیادہ ترقی یافتہ دنیا اور ان سے متعلق معاملات کو اپنے پروں میں سمیٹ لیا ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر جاپان میں جی سیون ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، برازیل، انڈیا، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، ویتنام، کو بھی بطور مبصر کے مدعو کیا گیا تھا۔ یورپی یونین بھی مستقل ممبر کے طور پر مدعو کی جاتی ہے۔ ہیروشیما میں صدر یورپی یونین Ursula von der Leyer اور صدر یورپین کونسل Charles Michel دونوں موجود تھے۔ افریقین ممالک پر مشتمل فورم افریقن یونین کے صدر اور پیسفک آئس لینڈ یونین کے صدر بھی مدعو کیے گئے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نہ صرف خود موجود تھے بلکہ ان سے منسلک درج زیل اداروں کے سربراہان نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔

IEA – international Energy Agency, IMF -international Monetary Fund, OECD – Organisation for Economic cooperation and development, WHO – World health Organisation, WTO – World trade Organisation, World Bank

جی سیون کے نام پر اتنے بڑے مجمع میں تقریر کرتے ہوے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو کہنا پڑا کہ ایک بار پھر دنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہیروشیما کی تباہی تاریخ کا ایک سبق ہے اور اس سبق کی یاد آوری کے لیے جاپان نے اپنی باری پر کانفرنس کا انعقاد ہیروشیما میں کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی بات ایک حد تک درست اس لیے بھی لگتی ہے کہ کانفرنس کے دوران مائیکرو اکانومی، کرنسی،تجارت، انرجی،موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ وقت یوکرائن وار پر روس کو دھمکانے اور انڈو پیسیفک کی انٹرنیشنل پوزیشن میں چین کی مخالفت پر خرچ ہوا۔ البتہ دنیا کو موسمی تبدیلی اور خصوصاً گرمی کی حدت سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک سو بلین سالانہ خرچ کرنے کی توثیق کی گئی۔ گلوبل فوڈ سیکورٹی کے لیے چودہ بلین ڈالر مہیا کیے جائیں گے۔اس کانفرنس میں جس طرح یو کرائن کے صدر کو خوش آمدید کہا گیا اس سے تبصرہ نگار یہی بتا رہے ہیں کہ آدھی دنیا سے قیادت کو جمع کرنے کا مقصد یو کرائن کو مشن جاری رکھنے پر حمایت کا یقین دلانا ہے۔ یو کرائن کے صدر جو اپنی تقریر کے دوران ڈپلومیٹ لباس سے بے نیاز ہو کر کالی شرٹ پہنے ہوئے تھے نے ہیرو شیما شہر کو یوکرائن کے قومی پرچموں سے سجا دینے پر جاپان کی حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ لیکن دنیا کی ان بڑی طاقتوں کو یہ سچ بھی بتا دیا کہ نیوکلیر وار میں فاتح کوئی بھی نہیں ہوا کرتا۔ امریکن صدر نے یو کرائن کے لیے مزید تین سو پچہتر ملین ڈالرز دینے کا اعلان کیا اور امید ظاہر کی کہ G7 ممالک یوکرائن کی امداد میں اضافہ کریں گے… کانفرنس کے لیے ہیروشیما شہر کا انتخاب امن کی ضرورت کے فروغ کے لیے کیا گیا تھا لیکن اختتامی کلمات میں یو کرائن اور ایشیا پیسیفک ریجن میں امن کے نام پر جنگ جاری رکھنے کے اعادہ کا اظہار بھی کیا گیا۔

عرب لیگ کا بتیسواں اجلاس

عرب ممالک میں کچھ عرصہ سے جو علاقائی تبدیلیاں آ رہی ہیں ان کے خوش کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ عربوں کا اسرائیل سے روابط بڑھانا اس اعتبار سے بھی سودمند ثابت ہوا ہے کہ عرب اب ایک دوسرے کے خلاف برسوں پرانے موقف سے دستبردار ہو کر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن ۲۰۳۰ءکا بڑا دخل ہے۔ اسی پالیسی کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بحال ہوئے ہیں۔ بارہ سال بعد ملک شام کو عرب لیگ نے دوبارہ قبول کیا ہے۔ عرب لیگ ۱۹۴۵ءسے قائم ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے تمام عرب لیگ کے سربراہی اجلاس علاقائی بحرانوں اور باہمی اختلاف رائے کی وجہ سے اس حد تک متاثر ہوتے رہے کہ ان میں سے بہت سارے اجلاس منسوخ کر دیے گئے یا ان کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ صدام حسین، معمر قذافی کے ساتھ دوسرے ممبران کی تکرار عرب لیگ کے اجلاس کے ماحول کو متاثر کرتی رہی۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں جب شام کی حکومت نے ملک گیر مظاہروں کے خلاف پُر تشدد کارروائی کا آغاز کیا تو عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ عالمی پریس کے مطابق اس تنازعہ میں پانچ لاکھ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔ متحدہ عرب امارات نے ۲۰۱۸ء میں شام کے ساتھ دوبارہ تعلقات قائم کر لیے تھے اور وہ دمشق کی رکنیت بحال کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔ گزشتہ ویک اینڈ پر ہونے والے عرب لیگ اجلاس کا مقصد بھی عرب ریاستوں کے درمیان تناؤ کم کرنے کی خواہش اور ضرورت بیان کی گئی ہے۔ محمد بن سلمان کی خواہش ہے کہ دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کی کوششوں میں کسی بھی بلاک کا ساتھ دینے سے قبل عرب ریاستوں کے درمیان ایک اجتماعی فریم ورک پر اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ مغربی پریس کے مطابق عرب لیگ کے اجلاس میں اس حوالے سے سرد مہری دیکھنے میں آئی۔ البتہ سوڈان کی غیر مستحکم صورت حال، فلسطین کاز، یمن، لیبیا، لبنان کے موضوعات پر اتفاقِ رائے حاصل کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ملک شام کے لیے عرب ممالک فکرمند نظر آتے ہیں۔ بشار الاسد نے انٹرنیشنل کمونیٹی کا کوئی مطالبہ بھی پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے شام کے عوام بارہ سال سے تکلیف میں ہیں۔ نوے فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ بھی عرب ہیں اور ان کا درد محسوس کرنا، ان کا دکھ دور کرنا عرب لیگ کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے اردن کے وزیر خارجہ کی طرف سے بیان کردہ اعداد و شمار تمام مسلمان ممالک کےلیے قابل توجہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب بھی تیرہ لاکھ شامی باشندے اردن میں رہائش پذیر ہیں جن میں سے صرف دس فیصد مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ان میں پچاس فیصد تعداد ایسے بچوں کی ہے جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے۔ ان بچوں کو اردن کے سکولوں میں تعلیم دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پینتیس لاکھ شامی بچے سکول نہیں جا سکے۔ ہم نے آپس کے تنازعہ میں شام کی ایک پوری نسل کو تعلیم سے محروم رکھا۔ اردن میں بیروزگاری چوبیس فیصد ہے۔پھر بھی تین لاکھ بیس ہزار شامی باشندوں کو ورک پرمٹ دیے گئے ہیں۔ اردن نے عرب لیگ سے اپیل کی کہ ملک شام کو بچایا جائے۔ بد امنی اور خانہ جنگی کے ماحول میں ڈرگ ڈیلرز نڈر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اردن کے فوجیوں کو بھی ہلاک کر دیا۔ ڈرگ ڈیلرجدید اسلحہ اور مارڈرن آلات سے لیس ہیں۔ سمگلروں کے پاس رات میں کام کرنے والے ڈرون بھی ہیں۔ شام کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے جس میں عرب لیگ کو شام کے عوام کی مدد کرنی چاہیے۔

اردن کے وزیر خارجہ نے شام کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا ہے پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی، بد امنی اور خانہ جنگی انہی خطرات کی نشان دہی کر رہی ہے جن کا سامنا شام کے پر امن شہریوں اور ریاست کو ہے۔ تاریخ نے جو سبق سکھائے ہم نے ان کو اہمیت نہ دی۔ ملک شام پر جو گزر رہی ہے،لیبیا کو جن حالات کا سامنا ہے اس کا آنکھوں دیکھا حال عرب لیگ نے عقل کی راہ سجھانےکو بیان کر دیا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button