اداریہ

خلافتِ احمدیہ اور اس کے قائم کردہ نظامِ جماعت کی اطاعت ضروری ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفۂ وقت کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جماعت احمدیہ میں خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت پر جو اس قدر زور دیا جاتا ہے یہ اس لئے ہے کہ جماعتی نظام کو چلانے کے لئے یک رنگی پیدا ہونی ضروری ہے اور اس زمانے کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے کہ مسیح موعودؑ کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہونی ہے وہ عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ ہونی ہے اور وہ دائمی خلافت ہے اور جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ’’خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں۔ ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)

پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اس دائمی قدرت کے ساتھ وابستہ رہنے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے جُڑے رہنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے، اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں جن سے باہر نکلنے کا کسی احمدی کے دل میں خیال تک پیدا نہ ہو۔ بہت سارے مقام آسکتے ہیں جب نظام جماعت کے خلاف شکوے پیدا ہوں۔ ہر ایک کی اپنی سوچ اور خیال ہوتا ہے اور کسی بھی معاملے میں آراء مختلف ہوسکتی ہیں، کسی کام کرنے کے طریق سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن نظام جماعت اور نظام خلافت کی مضبوطی کے لئے جماعتی نظام کے فیصلہ کو یا امیر کے فیصلہ کو تسلیم کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت نے اس فیصلے پر صاد کیا ہوتا ہے یا امیر کو اختیار دیا ہوتا ہے کہ تم میری طرف سے فیصلہ کردو۔ اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور اس سے جماعتی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو خلیفۂ وقت کو اطلاع کرنا کافی ہے۔ پھر خلیفۂ وقت جانے اور اس کا کام جانے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ذمہ دار اور نگران بنایا ہے اور جب خلیفہ، خلافت کے مقام پر اپنی مرضی سے نہیں آتا بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کو اس مقام پر اس منصب پر فائز کرتی ہے تو پھر خداتعالیٰ اس کے کسی غلط فیصلے کے خود ہی بہتر نتائج پیدا فرمادے گا۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ خلافت کی وجہ سے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا۔ مومنوں کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے احکامات کی بجاآوری کریں اور اس کے رسول کے حکموں کی پیروی کرنے کی کوشش کریں اور کیونکہ خلیفہ نبی کے جاری کردہ نظام کی بجاآوری کی جماعت کو تلقین کرتا ہے اور شریعت کے احکامات کو لاگو کرنے کی کوشش کرتاہے اس لئے اس کی اطاعت بھی کرو اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی کرو۔ اور افراد جماعت کی یہ کامل اطاعت اور خلیفہ ٔوقت کے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے کئے گئے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اپنے بنائے ہوئے خلیفہ کو دنیا کے سامنے رُسوا ہونے سے بچانے کے لئے برکت ڈال دے گا۔ کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمادے گا اور اپنے فضل سے بہتر نتائج پیدا فرمائے گا اور من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو ہمیشہ بڑے نقصان سے بچالیتا ہے اور یہی ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا جماعت سے اور خلافت احمدیہ سے سلوک دیکھا ہے اور دیکھتے آئے ہیں۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمْۡ…(النساء :60) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکّام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھاہے۔ یعنی تمہارا کام اطاعت کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پوری پیروی کرو۔ پہلے اپنے آپ کو دیکھو کہ تم اللہ کے حکموں کی پیروی کررہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے جو احکامات اتارے ہیں، پہلے تو ان کا فہم و ادراک حاصل کرو، کیا وہ تمہیں حاصل ہوگیا ہے۔ اور جب مکمل طور پر حاصل ہوگیا ہے تو پھر اُن احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ اور جب ایک شخص خود اس پر عمل کرنے لگ جائے گا اور اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کررہا ہوگا تو پھر وہ شاید اپنے خیال میں یہ کہنے کے قابل ہوسکتا ہے کہ ہاں اب مَیں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، یہ آیت ہمیں کچھ اور بھی کہتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم علمی اور عملی لحاظ سے احکام شریعت کے بہت پابند ہیں اور علم رکھنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو غیب کا علم بھی رکھتا ہے اور حاضر کا علم بھی رکھتاہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے اس کا علم بھی رکھتاہے اس کو پتہ تھا کہ اگر صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا کہہ دیا تو کئی نام نہاد علماء اور بزعم خویش سنت رسولؐ پر چلنے والے پیدا ہوں گے اور جو جماعت کی برکت ہے وہ نہیں رہے گی اور ہر ایک نے اپنی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوگی اور اپنے محدود علم کو ہی انتہا سمجھیں گے اور آج ہم مسلمانوں میں دیکھتے ہیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے۔ لیکن یہ جو زعم ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکم پر عمل کررہے ہیں، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوا کر ختم کردیا کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد اس کو ماننا ضروری ہے اور پھر اس کے بعد جو خلافت عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃقائم ہونی ہے اس کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کرلی۔ اور پھر اس سے آگے اللہ تعالیٰ نے نظام جماعت میں یک رنگی پیداکرنے کے لئے اور اس نظام کی حفاظت کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ اولوالامر کی بھی اطاعت کرو۔ صرف مسیح موعودؑ کو جو مان لیا اس کے بعد جو نظام مسیح موعودؑ کی جماعت میں، نظام خلافت کے قائم ہونے سے قائم ہوا ہے اس کی بھی اطاعت کرو۔

آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اور ہم اس نظام میں پروئے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف بھی توجہ دلاتا رہتا ہے اور ہم دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح بکھرے ہوئے نہیں بلکہ خلافت کی برکت کی وجہ سے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرمودہ۹؍ جون ۲۰۰۶ء))

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خلافتِ احمدیہ اور نظامِ جماعت سے منسلک ہر کڑی کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button