دادی جان کا آنگن

حضورانورایدہ اللہ کی بچوں پرشفقت

(درثمین احمد۔جرمنی)

اَحمد بیٹا آج آپ کھیلنے نہیں گئے؟ عصر کے بعد آپ سیدھے گھر واپس آگئے۔ دادی جان نے احمد کو گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔

دادی جان 27؍مئی کو یوم خلافت ہے ناں! تو مربی صاحب نے مجھے بھی جلسہ یوم خلافت کے لیے تقریر تیار کرنے کو کہا ہے۔اِس لیے گھر واپس آگیا کہ آپ کے اور ابو جان کے ساتھ مل کر اچھی سی تقریر تیار کروں اور بعد میں زبانی یاد کرلوں کیونکہ اگلے ہفتے سے تو امتحانات بھی شروع ہیں پھر وقت ہی نہیں ملے گا تیاری کا ۔

دادی جان نے احمد سے تقریر کا عنوان پوچھا تو احمد نے کہا کہ ’’حضور انور ایدہ اللہ کی بچوں پر شفقت ‘‘

دادی جان :واہ یہ تو بہت ہی اچھا عنوان ہے ۔ آئیں اِس کے حوالہ سے بات کریں۔ میرے ذہن میں کچھ واقعات آ رہے ہیں۔

اُن دونوں کو باتیں کرتا دیکھ کر محمود اور گڑیا بھی پاس آ کے بیٹھ گئے ۔تو احمد نے کہا : مگر دادی جان پہلے بتائیں کہ یہ ذاتی رابطہ کیا ہوتا ہے اور ہم کیسے کر سکتے ہیں ؟

دادی جان : سب سے پہلے توآپ بتائیں کہ کیا آپ حضور انور سے پیار کرتے ہیں؟ اُن کی صحت اور کاموں کے لیے دعا کرتے ہیں؟ اُن کے لیے صدقات دیتے ہیں؟ اُن کے خطبات کو غور سے سُن کر اُن کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ اُن کو خط لکھتے ہیں ؟ اُن سے ملاقات کرنے جاتے ہیں؟

تینوں نے ہر سوال کے آخر پر جی جی کہا۔

دادی جان : بیٹا یہی سب باتیں تو ذاتی رابطے میں آتی ہیں مگر سب سے اہم اور آسان طریق یہ ہے کہ آپ اُنہیں باقاعدگی سے خط لکھیں۔ کیونکہ ملاقات تو ہم روز نہیں کرسکتے مگر خط تو آپ ہر ہفتے یا کچھ دن بعد لکھ سکتے ہیں ۔ بعض بچے تو ایسے بھی کرتے ہیں کہ خط کے کونے میں اپنی تصویر لگا کر بھیجتے ہیں اس طرح اُن کا چہرہ بھی حضور انور کی نظروں میں رہ جاتا ہے ۔

احمد : جی جی بالکل مجھے یاد آگیا پچھلے دنوں امی جان نے ایک ویڈیو دکھائی تھی ایک ورچوئل ملاقات میں حضورِانور نے فرمایا تھا کہ مجھے یہ تعارف ہونا چاہیے کہ آپ کون ہیں؟ آپ کو مجھے باقاعدگی سے لکھنا چاہیے۔ اور کسی وقت کوئی اچھا لطیفہ بھی بھجوا دیا کریں یا اچھی تحریر بھی۔ یوں مجھے یاد رہے گا کہ آپ وہ ہو جس نے مجھے یہ لکھا تھا۔ اگر آپ کو پسند ہو تو اپنے خط پر اپنی تصویر بھی بھجوا دیا کرو۔(ملاقات: 2 نومبر 2021ء)

محمود: اِس کا مطلب کہ میں بھی خط پر تصویر لگا کر بھیجوں تو مجھے بھی پیارے حضور یاد رکھیں گے ۔

دادی جان : جی محمود میاں! خط تو آدھی ملاقات ہوتی ہے۔ حضور انور بچوں کی علیحدہ علیحدہ کلاس لیتے ہیں۔ ملاقات کرتےہیں۔ بچوں سے اُن کے مطابق باتیں کرتے ہیں۔ اُن کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ہم سب ایم ٹی اے پر دیکھتے ہیں۔ اور بچے اپنے آقا کی شفقت اور محبت سے خوش ہوجاتے ہیں۔

دادی جان تھوڑا سانس لے کر بولیں: حضور احمدیوں سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ ایک بار آسٹریلیا میں نمازِ ظہر و عصر کے بعد ایک احمدی راستے میں ہی حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آگیا اور درخواست کی کہ حضورانوراُن کے بیٹے کی آمین کروا دیں۔ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ آج شام کو جو تقریب آمین ہونی ہے اُس تقریب میں اپنے بیٹے کو بھی لے آنا۔اُس پر اُس احمدی نے کہا کہ حضور آج شام مجھے ایئر پورٹ کے لیے شام 6بجے نکلنا ہے۔سب لوگ اس قسم کی درخواست پر حیران ہو رہے تھے۔ حضورانورایدہ اللہ نے اُس احمدی کی درخواست آرام سے سنی اور فرمایا: اپنے بیٹے کو لے آؤ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزگھر تشریف لے گئے اور کچھ منٹ کے بعد واپس آئے اور اپنی رہائش گاہ کے سامنے اِس بچے کی آمین کی تقریب کی۔دیکھا آپ نے کہ پیارے حضور نے جو دورہ جات کے دوران عام دنوں سے بھی زیادہ مصروف ہوتے ہیں ، اپنی تمام تر مصروفیت کے باوجود اُس احمدی باپ بیٹے کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے اُسی وقت اُس بچے کی آمین کروا دی۔

پھر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر ایک معصوم بچہ حضور انور کی طرف بڑھا اور حضور پُرنور سے پیار لینے کے ساتھ ہی چاکلیٹ کی فرمائش کر دی۔ حضرت صاحب وہاں کھڑے ہو گئے اور ایک خادم کو اپنی رہائش گاہ پہ بھیجا اور بتایا کہ میری فلاں میز کی فلاں دراز میں چاکلیٹس پڑی ہیں وہ لے آوٴ۔ جب وہ خادم چاکلیٹس لے آیا تو حضور انور نے بچہ کو چاکلیٹ دی اور پھر پیار کر کے وہاں سے روانہ ہوئے۔ گوحضرت صاحب کو وہاں کئی منٹ ٹھہرنا پڑا تاہم بچے کی معصومانہ فرمائش پوری کرنے کے بعد ہی وہاں سے آگے بڑھے۔ اور سب لوگ اُس بچہ کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

گڑیا: احمد بھائی آپ کو یاد ہوگا کہ ایک ملاقات کی ویڈیو میں حضور انور ایدہ اللہ ایک عرب بچی کے

I love youکہنے پر اسے I love you too بھی کہتے ہیں۔ اور ایک بچے کی ڈرائنگ کو بھی قبول فرماتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہمارے اجلاس میں ایک آنٹی نے بتایا تھا کہ ایک بار وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئیں تو ان کی تین چار سالہ بیٹی آفس کی الماریوں کو چھیڑنے لگی۔ وہ اُٹھ کر اُسے پکڑنے لگیں تو حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ اُسے چھوڑ دیں جو کرتی ہے کرنے دیں۔ اور پھر اُسے محبت بھرے انداز میں اپنے پاس بلایا اور چاکلیٹس دیں۔

دادی جان : شاباش گڑیا بیٹا۔ آپ نے بھی بہت خوبصورت واقعات بتائے ہیں۔ آپ کے امتحانات قریب ہیں ناں! چلیں پھر سب مل کر حضور انور کو خط لکھتے ہیں ۔

احمد:جی ٹھیک ہے۔ ابھی پیارے حضور کی خدمت میں خط لکھتے ہیں اور جو باتیں آپ نے بتائی ہیں وہ ابو جان کے ساتھ مل کر تقریر میں شامل کرلیتا ہوں۔

محمود: میرا خط کون لکھے گا؟

دادی جان: میں لکھ دیتی ہوں اپنے پیارے بیٹے کے لیے ۔

محمود : میری تصویر بھی لگائیے گا۔
گڑیا اتنی دیر میں کاغذ قلم لے آئی اور سب مل کر خط لکھنے لگے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button