بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۵۵)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…’’یا من اسمہ دوا و ذکرہ شفاء‘‘ اس دعا کا حوالہ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

٭…روزہ کے بغیر رمضان کا اعتکاف بدعت تو شمار نہیں ہوتا اور کیا روزہ کے بغیر اعتکاف کی کوئی سنت یا اصحاب رسولﷺ سے کوئی مثال ملتی ہے؟

٭…سوموار اور جمعرات کو نفلی روزے رکھنے میں کیا حکمت ہے، نیز ان دو ایام کے علاوہ اور دنوں میں بھی نفلی روزے رکھے جا سکتے ہیں؟

٭…سود لینا اور دینا حرام ہے، مغربی دنیا میں جب کوئی اپنا مکان خریدنا چاہتا ہے تو اسے اس پر بھی سود دینا پڑتا ہے۔ تو کیا ایک مسلمان ان ممالک میں اپنا گھر نہیں خرید سکتا؟

٭…رمضان میں گھروں کو سجانے اور رمضان کیلنڈر بنانے کے بارے میں راہنمائی

سوال: میر پور آزاد کشمیر سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ لاعلاج مریضوں پر پڑھ کر دم کرنے والی ایک دعا’’یا من اسمہ دوا و ذکرہ شفاء‘‘ہے اس دعا کا حوالہ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۹؍ اپریل ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:میرے علم میں تو ایسی کوئی دعا نہیں ہے جو آپ نے اپنے خط میں تحریر کی ہے۔ البتہ احادیث میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضورﷺ خود بھی اور صحابہ رسولﷺ سورت فاتحہ،معوذتین(یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) اور بعض اَور دعاؤں کے ذریعہ بخار، مختلف بیماریوں اور سانپ اور بچھو وغیرہ کے کاٹنے پر دم کر لیا کرتے تھے۔

چنانچہ احادیث میں یہ واقعہ آتا ہے کہ صحابہؓ کی ایک جماعت کسی سفر پر روانہ ہوئی اور یہ لوگ ایک قبیلہ کے پاس آکر ٹھہرے اور ان سے کچھ کھانے کے لیے طلب کیا لیکن قبیلہ والوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کردیا۔ پھر اس قبیلہ کے سردار کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا اور قبیلہ والوں نے اس کے علاج کی پوری کوشش کی لیکن سردار کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ جو باہر سے لوگ ہمارے پاس آکر ٹھہرے ہیں ان سے بھی پوچھا جائے، شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی دوا ہو۔ صحابہؓ سے پوچھنے پر ایک صحابی نے کہا کہ ہاں میں ایک دم جانتا ہوں لیکن چونکہ تم لوگوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی، اس لیے اب میں تمہارے سردار پر دم نہیں کروں گا۔چنانچہ اس قبیلہ والوں نے بکریوں کا ایک ریوڑ صحابہ کو دینے کا وعدہ کیا، جس پر اس صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر قبیلہ کے سردار پر دم کیا تو وہ سورۃ الفاتحہ کی برکت سے ٹھیک ہو کر اس طرح چلنے پھرنے لگا کہ گویا اس کو کسی چیز نے کاٹا ہی نہ ہو۔صحابہ نے قبیلہ والوں سے بکریاں لے لیں۔ ایک شخص نے کہا کہ ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، لیکن جس صحابی نے دم کیا تھا انہوں نے مشورہ دیا کہ جب تک ہم حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان نہ کرلیں اور معلوم نہ کرلیں کہ حضوؐر ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، اس وقت تک ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ پھر یہ لوگ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضورﷺ نے فرمایا تمہیں کس طرح علم ہوا کہ سورت فاتحہ دم کرنے والی سورت ہے۔ تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے، ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرلو اور میرا بھی ایک حصہ مقرر کرو۔ اور یہ فرما کر حضورﷺ مسکرا دیے۔(بخاری کتاب الطب بَاب النَّفْثِ فِي الرُّقْيَةِ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورﷺ أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِيَدِكَ الشِّفَاءُ لَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا أَنْتَ۔(یعنی اے لوگوں کے رب! تو اس تکلیف کو دور فرما دے، شفا تیرے ہی ہاتھ میں ہے، تیرے سوا کوئی اس تکلیف کو دور نہیں کر سکتا)کی دعا پڑھ کر دم کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم کتاب السلام بَاب اسْتِحْبَابِ رُقْيَةِ الْمَرِيضِ )

اسی طرح احادیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضورﷺ دم کرتے وقت پھونک بھی مارا کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَاب النَّفْثِ فِي الرُّقْيَةِ)

یہی طریق ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے صحابہ کا بھی ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ عاجز راقم لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور جماعت لاہور کے چند اَوراصحاب بھی ساتھ تھے۔ صوفی احمد دین صاحب مرحوم نے مجھ سے خواہش کی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں سفارش کرکے صوفی صاحب کے سینہ پر دَم کرادوں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ کوچہ بندی میں سے اندرون خانہ جا رہے تھے جبکہ میں نے آگے بڑھ کر صوفی صاحب کو پیش کیا اوران کی درخواست عرض کی۔ حضورؑنے کچھ پڑھ کر صوفی صاحب کے سینے پر دَم کردیا۔ (پھُونک مارا) اورپھر اندر تشریف لے گئے۔(ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، صفحہ ۱۳۷) اسی طرح حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان فرماتے ہیں:ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں سرساوہ سے چل کر قادیان شریف حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا مرشدنا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح علیہ السلام بھی آئے ہوئے تھے اور صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے اورحضرت اقدس علیہ السلام بھی تشریف رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ پیر صاحب بہت سے پیر دیکھے کہ وہ عملیات اور تعویذ کرتے ہیں کوئی عمل آپ کو بھی یاد ہے جس کو دیکھ کر ہمیں بھی یقین آجائے کہ عمل ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں یاد ہے۔ فرمایا دکھاؤ اورمیں نے عرض کی کہ ہاں وقت آنے دیجئے۔ دکھلا دوں گا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ضرور صاحبزادہ صاحب کو یاد ہوگا ان کے بزرگوں سے عمل چلے آتے ہیں۔ کوئی دو گھنٹہ کے بعد ایک شخص آیا جس کوذات الجنب یعنی پسلی کا درد شدت سے تھا میں نے عرض کی کہ دیکھئے اس پر عمل کرتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ ہاں عمل کرو۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ہاں عمل کرو۔ میں نے اسی شخص پر دَم کیا اس کو درد سے بالکل خدا تعالیٰ نے آرام کردیا اور شفا دی۔ جب اس کو آرام ہوگیا تو حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ مسمریزم ہے میں نے اس زمانہ میں مسمریزم کا نام بھی نہیں سُنا تھا۔ اور نہ میں جانتا تھا کہ مسمریزم کیا چیز ہوتا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایاصاحبزادہ صاحب تم نے کیا پڑھا تھا میں نے عرض کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد میں نے الحمد شریف پڑھی تھی۔(تذکرۃ المہدی صفحہ ۱۸۶، مطبوعہ ۱۹۱۴ء، ٹائیٹل ضیاء الاسلام پریس قادیان)

پس آنحضورﷺ ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام علیہم السلام سے دم کرنا ثابت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے، ان قرآنی سورتوں اور ان پاکیزہ اذکار کی برکت اور بزرگوں کی دعا کے نتیجہ میں مریض کو شفا عطا فرما دیتا ہے۔

سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا کہ روزہ کے بغیر رمضان کا اعتکاف بدعت تو شمار نہیں ہوتا اور کیا روزہ کے بغیر اعتکاف کی کوئی سنت یا اصحاب رسولﷺ سے کوئی مثال ملتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: آنحضورﷺ کی سنت سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ رمضان کا اعتکاف روزوں کے ساتھ ہی فرمایا کرتے تھے۔ اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُوْدَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ۔(سنن ابی داؤد کتاب الصوم بَاب الْمُعْتَكِفِ يَعُودُ الْمَرِيضَ)یعنی سنت یہ ہے کہ معتکف کسی مریض کی عیادت اور نماز جنازہ کے لیے مسجد سے باہر نہ جائے۔ اوربیوی کو(شہوت کے ساتھ) نہ چھوئے، اور نہ اس کے ساتھ مباشرت کرے۔اور سوائے انسانی ضرورت (قضائے حاجت وغیرہ) کے کسی اَورضرورت کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اور روزوں کے بغیر اعتکاف درست نہیں۔ اور جامع مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف درست نہیں۔

پس مسنون اعتکاف کے بارے میں صحابہ رسولﷺ اور علماء و فقہاء کا یہی موقف ہے کہ اس کے لیے روزے رکھنے ضروری ہیں اور حضورﷺ کی سنت متواترہ یہی تھی کہ آپﷺ رمضان کے آخری دس دن مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔(صحیح مسلم کتاب الاعتکاف بَاب اعْتِكَافِ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)

باقی جہاں تک رمضان کے مسنون اعتکاف کے علاوہ عام اعتکاف کرنے یا کسی نذر کا اعتکاف کرنے کی بات ہے تو ایسا اعتکاف روزہ کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ اعتکاف چند دنوں یا چند گھنٹوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں ایک رات کے لیے مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر کو پورا کرو۔ (سنن ترمذی کتاب النذور والایمان بَاب مَا جَاءَ فِي وَفَاءِ النَّذْرِ)

پس خلاصہ کلام یہ کہ رمضان کا مسنون اعتکاف روزوں کے ساتھ، رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں ہو سکتا ہے۔ جبکہ رمضان کے علاوہ عام اعتکاف روزوں کے بغیر اور کم یا زیادہ وقت کے لیے ہو سکتا ہے۔

سوال: جامعہ احمدیہ کینیڈا کے ایک طالبعلم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ عموماً سوموار اور جمعرات کو نفلی روزے رکھنے میں کیا حکمت ہے، نیز ان دو ایام کے علاوہ اَور دنوں میں بھی نفلی روزے رکھے جا سکتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے کی مختلف وجوہات احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کے دن انسانوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال ایسی حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔ (سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)اسی طرح ایک اور حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو بخش دیا جاتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔ (سنن ترمذی کتاب البر و الصلۃ بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُتَهَاجِرَيْنِ)پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ سوموار کے روزہ کی بابت حضورﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس روز میں پیدا ہوا تھا اور اسی روز مجھ پر وحی کا نزول شروع ہوا تھا۔(صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)

سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنا حضورﷺ کی عمومی سنت تھی۔ (سنن نسائی کتاب الصیام باب صَوْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذٰلِكَ) اسی طرح ایام بیض یعنی ہر مہینہ میں چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو بھی حضورﷺ بڑی باقاعدگی کے ساتھ روزہ رکھا کرتے تھے۔(سنن نسائی کتاب الصیام صَوْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذٰلِكَ)

علاوہ ازیں یوم عرفہ (نو ذی الحجہ) اوریوم عاشوراء(دس محرم) کے روزہ کی بھی حضورﷺ نے بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔(صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ) البتہ جو شخص حج پر موجود ہو اس کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَاب صِيَامِ يَوْمِ عَرَفَةَ)

پس دونوں عیدوں کے دنوں اور ایام تشریق(گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ) جو کہ اہل اسلام کے لیے عید اور کھانے پینے کے دن ہیں۔(سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ) کے علاوہ انسان کسی بھی دن نفلی روزہ رکھ سکتا ہے۔ تاہم صرف جمعہ کا دن نفلی روزہ کے لیے خاص کرنا منع ہے۔ (سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَحْدَهُ)اور جو شخص حج پر ہو اور اس نے حج کے ساتھ عمرہ کا بھی فائدہ اٹھایا ہو اور اس میں قربانی کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ ایام تشریق کے تین روزے حج کے ایام میں رکھے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم بَاب صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ)

نفلی روزوں کے بارے میں حضورﷺکی ایک تفصیلی ہدایت کا ذکر حدیث میں یوں ملتا ہے۔ حضرت ابوقتادہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺسے صوم دہر ( یعنی ساری عمر کے روزہ) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایسے شخص نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا(گویا ایسے روزہ کو آپ نے ناپسند فرمایا)۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ سے دو دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپؐ سے ایک دن روزہ رکھنےاور دو دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی طاقت عطا فرمائے۔ پھرآپ سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایایہ روزے میرے بھائی حضرت داؤد علیہ السلام کے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپؐ سے سوموار کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں مجھے پیدا کیا گیا، اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا اور اسی دن مجھ پر (قرآن) نازل کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ہر مہینہ میں تین روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا ساری عمر کے روزوں کے برابر ہے۔ راوی کہتے ہیں آپؐ سے عرفہ کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا گزرے ہوئے سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ سے عاشورہ کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا یہ روزہ رکھنا گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)

سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ سود لینا اور دینا حرام ہے، مغربی دنیا میں جب کوئی اپنا مکان خریدنا چاہتا ہے تو اسے اس پر بھی سود دینا پڑتا ہے۔ تو کیا ایک مسلمان ان ممالک میں اپنا گھر نہیں خرید سکتا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: مغربی دنیا میں مارگیج کے ذریعہ جو مکان خریدے جاتے ہیں، ان میں عموماً بینک یا کسی مالیاتی ادارہ سے قرض حاصل کیا جاتا ہے، اور جب تک یہ قرض واپس نہ ہو جائے ایسا مکان قرض دینے والے بینک یا اس مالیاتی ادارہ ہی کی ملکیت رہتا ہے۔ اور بینک یا مالیاتی ادارہ اپنے اس قرض پر کچھ زائد رقم بھی وصول کرتا ہے۔ جس کی وجہ وہ پیسہ کی Devaluation بتاتے ہیں۔

چونکہ ان ممالک میں ہر انسان اپنے رہنے کے لیے بھی مکان آسانی سے نہیں خرید سکتا، اس لیے یا تو اسے ساری زندگی کرایہ کے مکان میں رہنا پڑتا ہے، جس میں اسے زندگی بھر ادا کیے گئے کرایہ کا اس مکان میں رہنے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ کی اتنی بڑی رقم ادا کرنے کے باوجود یہ مکان کبھی بھی اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ یا پھر وہ ان مجبوری کے حالات میں مارگیج کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنی رہائش کے لیے ایک گھر خرید لیتا ہے۔ جس پر اسے تقریباً اتنی ہی مارگیج کی قسط ادا کرنی پڑتی ہے جس قدر وہ مکان کا کرایہ دے رہا ہوتا ہے، لیکن مارگیج میں اسے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان اقساط کی ادائیگی کے بعد یہ مکان اس کی ملکیت ہو جاتا ہے۔

پس مارگیج کے ذریعہ مکان خریدنا ایک مجبوری اور اضطرار کی کیفیت ہے، جس سے صرف اپنی رہائش کے لیے ایک مکان کی خرید تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن مارگیج کے اس طریق کار کے ذریعہ کاروبار کے طور پر مکان در مکان خریدتے چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں اور جماعت اس امر کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اس سے منع کرتی ہے۔

سوال: محترم ناظم صاحب دارالافتاء ربوہ نے ایک استفتا بابت کرسمس کی طرز پر رمضان میں گھروں کو سجانے اور رمضان کیلنڈر بنا کر عید تک دنوں کی گنتی کرنے کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے راہنمائی چاہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۲ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اصل بات یہ ہے کہ اس امر میں بھی ہمیں آنحضورﷺ کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اگر تو رمضان میں گھروں کو سجانے اور رمضان کیلنڈر بنانے میں نیت یہ ہو کہ اہل خانہ اور بچوں کو رمضان کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی جائے، گھر میں ایسا ماحول بنا کر گھر والوں اور خاص طور پر بچوں کو رمضان کی عبادات اور دعاؤں کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا جائے تا کہ سحری اور افطاری کے وقت وہ اس ماحول کو دیکھ کر دعا اور عبادات میں مشغول ہو سکیں۔ اور اس طرح رمضان کے ہر دن کا ایک جوش اور ولولہ کے ساتھ وہ استقبال کر کے اس میں نازل ہونے والی برکتوں سے استفادہ کر سکیں تو اس نیت کے ساتھ ایسا کرنے میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں۔

لیکن اگر صرف دکھاوا مطلوب ہو اور یہ سارے پاپڑ صرف ریا اور نمود و نمائش کے لیے بیلے جائیں اور ایک ایک دن اس سوچ کے ساتھ گزارا جائے کہ چلو اچھا ہوا اتنے دن گزر گئے، جن سے جان چھوٹ گئی، باقی دن بھی جلد گزر جائیں گے اور پھر عید منائیں گے اور عید میں بھی حقیقی خوشیاں تلاش کرنے کی بجائے صرف ظاہری خوشیوں کا خیال رکھا جائے تو اس نیت کے ساتھ گھروں کو سجانا اور رمضان کیلنڈر بنانا ہرگز جائز نہیں۔

پس خلاصہ کلام یہ کہ اگر اس کام سے اہل خانہ میں کوئی پاک تبدیلی پیدا ہو رہی ہو اور انہیں رمضان کی برکات کی طرف توجہ پیدا ہو کر اس سے استفادہ کرنے کا موقع ملے تو یہ سجاوٹ اور کیلنڈر بنانا جائز ہے۔ لیکن اگر صرف دکھاوا کرنا اور رمضان کو ایک چٹی سمجھ کر گزارنا مقصود ہو تو یہ سجاوٹ کرنا اور ایسے کیلنڈر بنانا ناجائز ہے اور بدعت شمار ہو گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button