یورپ (رپورٹس)

جمہوریہ ترکیہ میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے نتائج ‎‎

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

کیا طیب اردوان مغربی دنیا کی مخالفت کے باوجود دوسرا راؤنڈ جیت سکیں گے، اس کے لیے ہمیں ۲۸؍ مئی کا انتظار کرنا پڑے گا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ترکیہ کو سیاسی جھگڑوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا طیب اردوان کا کارنامہ ہے

جمہوریہ ترکیہ میں ۱۴؍ مئی کو جو پارلیمانی انتخابات اور مملکت کے صدر کا چناؤ ہوا اس پر یورپی یونین اور امریکہ کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس کی وجہ موجودہ صدر طیب اردوان کی وہ پالیسیاں ہیں جن کی بدولت ترکیہ اور مغربی دنیا کے درمیان فاصلے پیدا ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ ان انتخابات کے وہ نتائج تو نہ نکل سکے جن سے طیب اردوان کے حریف خوش ہو سکتے لیکن گزشتہ ایک سو سال کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پہلے صدارتی راؤنڈ میں صدر کا فیصلہ نہ ہو سکا اور اب ۲۸؍ مئی کو دوبارہ صرف دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ ۱۴؍.مئی کے نتائج سے طیب اردوان کو سیاسی دھچکا لگا اور ان کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچی۔ ترکیہ کے سیاسی انتخابی ماحول میں موجود گرما گرمی جن ممکنات کا پتہ دے رہی تھی ان کو طیب اردوان قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ حالانکہ اپنے بیس سالہ اقتدار میں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ان کو موجودہ انتخابی مہم کے دوران کرنا پڑا ہے۔ اتوار کی شام جب ابھی نتائج آنا شروع نہ ہوئے تو انہوں نے انقرہ میں پارٹی آفس کی بالکونی سے اپنے پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوے دعویٰ کیا تھا کہ ہم یہ الیکشن جیت لیں گے۔ اور اگر ہمیں دوسری بار الیکشن میں جانا پڑا تو عوام کے فیصلہ کو عزت دیں گے لیکن مجھے اعتماد ہے کہ مجھے ایک ٹرم اور ترکیہ کے عوام کی خدمت کا موقع ملے گا۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

۱۴؍ مئی کے پارلیمانی انتخاب میں چھ سو کے ایوان میں طیب اردوان کی جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی نے ۲۶۷سیٹیں حاصل کر کے ایوان کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز برقرار رکھا ہے لیکن اپنی مقبولیت کے زمانہ ۲۰۱۷ء میں طیب اردوان نے ترکیہ کی پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی نظام میں بدل دیا تھا جس کے بعد ترکیہ میں کرپشن کا جو دور شروع ہوا اس کے آگے پارلیمنٹ بے بس نظر آئی اور اب خود طیب اردوان کو اس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ سپریم الیکٹوریل بورڈ کے صدر Ahmet Yener کے جاری کردہ ۱۴؍ مئی کے انتخابی نتائج کے مطابق انہتر سالہ Tayyip Erdogan نے 49.51 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ 6 سیاسی پارٹیوں کے مشترکہ امیدوار اور سیکولر رپبلکن پارٹی (CHP) کے صدر 74 سالہ Kemal. Kilicdaroglu نے 44.88 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ تیسرے صدارتی امیدوار نیشنلسٹ پولیٹیشن Sinan Ogan نے 5.17 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ایک چوتھے امیدوار Muharram Ince محض 0.44 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 88 فیصد رہا۔ ترکیہ کے آئین کے مطابق دوسرے صدارتی انتخاب میں وہ امیدوار حصہ لے سکتا ہے جس نے پہلے راؤنڈ میں دس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہوں۔

پارلیمنٹ کا ایوان جو 600 ممبران پر مشتمل ہے چھ سیاسی پارٹیوں میں کچھ اس طرح تقسیم ہو کر رہ گیا ہے

Justice and development party (AKP) 267

Nationalist movement party (MHP) 50

Republic Peoples party (CHP) 169

Good party (IYI) 44

Green left party ( YSP) 61

Independent. (IND) 9

طیب اردوان نے اپنا سیاسی سفر استنبول کی لارڈ مئیرشپ سے شروع کیا اور پھر بلندیوں کو چھوتے چلے گئے۔ دو اہم کام جو ان کی شہرت کا باعث بنے ان میں ایک سنٹرل ایشین ممالک کے ساتھ فری تجارت کا راستہ کھولنے میں کامیابی حاصل کرنا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمہ پر جب یہ ممالک روس کے تسلط سے آزاد ہوئے تو ترکیہ پہلا ملک تھا جس نے ان ممالک میں اپنے کلچرل مراکز کھولنے کی ابتدا کی جہاں فری ترکی زبان سکھائی جاتی تھی۔ ۱۹۹۳ء میں ایک کلچرل معاہدہ ان ممالک کے ساتھ TURKSOV کے نام سے کیا گیا۔ ترکیہ نے سنٹرل ایشین ممالک کے عوام کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ سستے ٹور ازم کی بدولت ترکیہ کی بنی اشیا ان ممالک میں پہنچیں تو تجارت کے نئے راستے کھلے۔ ترکیہ نے ان ممالک کے ساتھ ( one nation six states (OTSمعاہدہ کیا جس میں ترکی، آذربائیجان، ازبکستان، قزاخستان، قرغیزستان، اور ترکمانستان شامل ہیں۔ ان ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت بغیر کسی کسٹم ڈیوٹی کے ہو رہی ہے جس کا نقصان پاکستان کو بھی پہنچ رہا ہے۔ دنیا میں تولیہ بنانے کے سب سے زیادہ کارخانے اس وقت ترکیہ میں ہیں۔ وہاں سنٹرل ایشین ممالک سے درآمد کیا جانے والا دھاگہ کسٹم ڈیوٹی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی نسبت کہیں سستا ہے۔ پاکستان سے برادرانہ تعلقات ہونے کے باوجود ترکیہ پاکستانی یارن پر ڈیوٹی ختم نہیں کر سکتا۔ سنٹرل ایشین ممالک سے کیا جانے والا معاہدہ اس میں آڑے آتا ہے۔ پھر تجارتی اداروں کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار سے یہی پتہ چلتا ہے کہ Shanghai cooperation organization معاہدہ کا سب سے زیادہ فائدہ بھی ترکیہ کو پہنچ رہا ہے۔ ان اقدامات نے ترکیہ کی اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور ترکیہ ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمار کیا جانے لگا ہے۔

طیب اردوان نے دوسرا اہم قدم اور کوشش یورپی یونین کی ممبر شپ حا صل کرنے کے لیے کی۔ ترکیہ کے عوام اور سیاست دانوں میں یہ خواہش رہی ہے کہ ان کا شمار یورپی ممالک میں کیا جائے۔ ایک وقت تک جرمنی بھی اس کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس بارے میں یورپی یونین جو بھی شرائط عائد کرتا رہا وہ طیب اردوان نے پوری کیں۔ حتی کہ یورپ آنے کے خواہشمند پناہ گزینوں کو ترکیہ میں روکے رکھنے کے لیے بھی ترکیہ کی حکومت تیار ہو گئی۔ اس کے عوض معاوضہ کی رقم بھی طے پا گئی اور ادائیگیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ لیکن ترکیہ کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا گیا۔ طیب اردوان کو جب یقین ہو گیا کہ مجھے محض بہلایا جا رہا ہے تو اس نے جرأت مندانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف پناہ گزینوں کے لیے کیے جانے والے معاہدے سے ہاتھ اٹھا لیے اور مغربی ممالک کی بجائے روس کا ساتھ دینے لگا۔ یہ بات یورپی یونین کو بہت ناگوار گزر رہی ہے۔ ترکیہ کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لیے یورپی یونین اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ترکی کرنسی لیرا گراوٹ کا شکار ہے اور ملک میں افراطِ زر بڑھ رہا ہے۔ کرپشن کے الزامات کو یورپی یونین کی جانب سے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پورپ سے چالیس سے زیادہ میڈیا ٹیمیں انتخابات سے قبل ترکیہ میں موجود تھیں جو زیادہ تر فروری میں آنے والے زلزلہ پر حکومت کی طرف سے کی جانے والی امدادی کوششوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرتی رہیں۔ اس کا مقصد طیب اردوان کو ہروانا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یورپی ممالک میں رہنے والے ترک عوام انتخابات میں بڑے زور و شور سے حصہ لیتے ہیں۔ ان کے لیے بیرونی ممالک میں پولنگ اسٹیشن قائم کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم صرف جرمنی کی مثال لیں تو جرمنی کے سولہ شہروں میں پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔ جہاں ۲۷؍ اپریل سے ۹؍ مئی تک ووٹ ڈالا جا سکتا تھا۔ جرمنی میں اٹھائیس لاکھ ترکی نژاد لوگ رہائش رکھتے ہیں جن میں پندرہ لاکھ ترکی پاسپورٹ رکھنے کی بدولت اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔ ۲۰۱۸ء کے انتخاب میں طیب اردوان نے 52.6 فیصد ووٹ کی اکثریت پر انتخاب جیتا تھا جس میں بڑی اکثریت ترکیہ سے باہر کے ووٹر کی تھی۔ مثلاً جو ووٹ باہر کے ممالک میں ڈالے گئے ان میں جرمنی میں 64.8، امریکہ میں 17، برطانیہ میں 21، ایران 35 اور قطر میں 29 فیصد ووٹ طیب اردوان نے حاصل کیے تھے۔

میرا ذاتی مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ ترکیہ کی شہری آبادی سیاسی لیڈر شپ میں تبدیلی کی خواہشمند ہے۔ البتہ دیہاتوں اور خصوصاً قدامت پسند علاقوں میں طیب اردوان ابھی بھی مقبول لیڈر ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ترک قوم مختلف سیاسی نظریات رکھنے کے باوجود ایک متحد قوم ہے۔ ان میں قومیت کا مثالی جذبہ پایا جاتا ہے۔ مشکل وقت میں اپنے ملک اور ہم وطن پر قربان ہونے کی خصوصیت ترک قوم کا طرۂ امتیاز ہے۔ کیا طیب اردوان مغربی دنیا کی مخالفت کے باوجود دوسرا راؤنڈ جیت سکیں گے، اس کے لیے ہمیں ۲۸؍ مئی کا انتظار کرنا پڑے گا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ترکیہ کو سیاسی جھگڑوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا طیب اردوان کا کارنامہ ہے۔ ایسا ہی وہ پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے ایک بار پاکستان کی ایک اہم سیاسی شخصیت نے بتایا تھا کہ ایک بار ہم کشمیر کے بارے میں پاکستانی موقف پر دنیا کی حمایت حاصل کرنے نکلے تو طیب اردوان سے ملاقات کے دوران انہوں نے ہماری بات سن کر کہا کہ میں پاکستان دو بار جا چکا ہوں۔ دونوں بار مجھے افغان مہاجرین کے کیمپ میں لے جایا گیا۔ دوسری بار میں نو سال کے وقفہ کے بعد گیا تھا۔ ان نو سالوں میں مجھے وہ راستے زیادہ بد حال لگے جن پر میں نو سال پہلے گزرا تھا۔ جب تک آپ اقتصادی ترقی نہیں کریں گے کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا۔ کوئی آپ کے موقف کی تائید کرنا ضروری نہیں سمجھے گا۔ ملک میں اقتصادی ترقی لائیں۔ اگر پاکستان اقتصادی طور پر کمزور رہا تو کشمیر پر آپکا موقف بے وزن ہو کر رہ جائے گا۔ اور یہی ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اپنی صلاحیتیں اقتصادی پروگراموں کی بجائے عقیدوں اور نکاح ناموں پر مرکوز کر کے ملک کو اس منزل پر پہنچا دیا ہے کہ ممتاز وکیل علی ظفر کو سپریم کورٹ میں روسٹر روم پر اقرا کرنا پڑا کہ ہمارے ملک کا آئین انتقال کر چکا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button