حضرت مصلح موعود ؓ

خلافت سے وابستہ ہونے میں بڑی برکات ہیں

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۳؍ اگست ۱۹۱۵ء )

جو لوگ خلیفہ کے متعلق مامور غیر مامور کی بحث شروع کر دیتے ہیں اپنے گھرہی میں غور کریں
کہ کیا ایک شخص کے بغیر گھر کا انتظام قائم رہ سکتا ہے؟

۱۹۱۵ء کےاس خطبہ جمعہ میں حضورؓنے خلافت کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ آپؓ نے خلافت کی اغراض کو بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ہر قسم کی ترقی کے لیے خلافت بہت ضروری ہے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:

قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ۔ مِنۡ شَرِّمَاخَلَقَ۔ وَمِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۔ وَمِنۡ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ۔ وَمِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔ (الفلق: ۲تا ۶)

پھر فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں دو عیدیں نصیب ہوئی ہیں۔ ایک عید الفطر اور دوسری جمعہ کی عید۔ دونوں نمازوں کے ساتھ خطبے بھی ہیں۔ عید کے بعد خطبہ ہے اور جمعہ سے پہلے۔ آنحضرت ﷺ کا یہی طرز عمل تھا۔ میری عادت ہے کہ مَیں تقریر کرنے آتا ہوں تو کوئی مضمون سوچ کر نہیں آتا بلکہ اس وقت جو خداتعالیٰ دل میں ڈال دیتا ہے وہی سنادیتا ہوں۔ ابھی ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ کچھ غیر مبائعین عید و جمعہ کے لئے آئے ہوئے ہیں اس لئے میں ان کے متعلق کچھ کہہ دوں۔

ہم تو صرف بڑے آدمیوں ہی کو نہیں بلکہ ایک ضعیف غریب اور ناکارہ انسان کو بھی جو نہایت ہی بدترین مخلوق سمجھا جاتا ہو سمجھانے کے لئے تیار ہیں بلکہ وہ غریب ایک منکر بادشاہ سے بہتر ہے کیونکہ وہ خدا کی باتوں پر زیادہ غورو فکر کرتا ہے۔ بہر حال میں اللہ کے لئے سناتا ہوں اگر غیر مبائعین فائدہ نہ اٹھائیں تو ممکن ہے کوئی اور ہی فائدہ اٹھائے اور ہدایت پائے۔ حقیقت میں ہدایت دینا تو خدا ہی کا کام ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَیْطِرٍ(الغاشیہ:۲۳)کہ تُو ان پر داروغہ نہیں تیرا کام تو سنادینا ہے منوانا نہ منوانا خدا کا کام ہے۔ اس طرح خلافت کے متعلق مجھے تعجب آتا ہے کہ

خلافت کے لئے کس بات کا جھگڑا ہے۔ کیا یہ کوئی سیاست کا نزاع ہے،

کوئی ایسی چیز میری تو سمجھ میں نہیں آتی۔ جھگڑے یا تو عقائد پر ہوتے ہیں یا شریعت پر کہ خدا کا فلاں حکم یوں ہے اور یوں کرنا چاہیے۔ پھر جھگڑے ملکوں پر ہوتے ہيں، مال و دولت پر ہوتے، مکانات پر اور مختلف اشیاء پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ دیکھو جیسے فرانس، جرمن، بیلجیم، آسٹریا یہ سب ملکوں کے لئے لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن خلافت کسی ملک کا نام نہیں، خلافت کوئی مال کی تھیلی نہیں، خلافت کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں۔

خلافت کی دو ہی اغراض ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ جماعت پراگندہ نہ ہو، جماعت کو تفرقہ سے بچایا جائے اور ان کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے۔ یہی تفرقہ کو مٹانے، پرا گندگی کو دور کرنے کے لئے ایک خلیفہ کی ضرورت ہوتی ہے نیز اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جماعت کی طاقت متفرق طور پر رائیگاں نہ جائے بلکہ ان کو ایک مرکز پر جمع کر کے ان کی قوت کو ایک جگہ جمع کیا جائے۔

اب ایک فریق کہتا ہے کہ آیت استخلاف کے ماتحت خلافت ضروری ہے اور ایک کہتا ہے کہ خلافت ضروری نہیں۔ فیصلہ کے لئے ایک آسان راہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہر شخص يہی سوچ لے کہ جو کام میں کرتا ہوں جماعت کے لئے کس قدر مفید ہے اور کس قدر مضر اگر اس کام کےکرنے سے جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے تو کرے ورنہ اسے چھوڑ دے۔ اب دیکھو کہ جماعت کا کثیرحصہ خلافت کے وجود کو جماعت کے لئے رفع تفرقہ کے لئے ضروری سمجھتا ہے اور دوسرا فریق اسےغیر ضروری خیال کرتا ہے۔ بحثوں کا فیصلہ تو کبھی ہو نہیں سکتا۔ دیکھو خدا کی ہستی ہے اس میںاختلاف ہے۔ پھر اس کی صفات میں اختلاف ہے۔ ملائکہ کا وجود ہے اختلاف اس میں بھی موجود ہے۔ اختلاف تو رہے گا۔ اب دونوں فریق میں سے کس کا فرض ہے کہ اپنی ضد اور ہٹ کوچھوڑ دے۔ اگر فریق مخالف یہ کہے کہ خلافت ثابت نہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے خلاف بھی تو ثابت نہیں۔ خلافت کو ماننے والے اگر خلافت کو چھوڑ دیں تو خدا کے نزدیک مجرم ہیں کیونکہ وہ آیت استخلاف کے ماتحت خلافت کو مانتے ہیں۔مگر خلافت کا ہونا یا نہ ہونا یکساں سمجھنےوالے اگر اتفاق کے لئے خلافت کو مان لیں تو جماعت سے وہ تفرقہ مٹ سکتا ہے جس کی وجہ سے اتنا فتور پڑرہا ہے۔ حضرت مولوی صاحب کی وفات کے روز مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سےکہا کہ میاں صاحب! آپ ایثار کریں۔ میں نے کہا کہ کیا خلافت کا ہونا گناہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے نہیں جائز ہے۔ مَیں نے کہا کہ میرے نزدیک ضروری اور واجب ہے۔ اب جب وہ دونوں گروہ ایک بات پر قائم ہیں ایک کے نزدیک فعل اور عدم فعل برابر ہے اور دوسرے کے نزدیک واجب، تو اس فریق کو جو جواز کا قائل ہے چاہیے کہ وہ اپنی ضد کو چھوڑ دے۔ خدا تعالیٰ ضرور اس سے پوچھے گا کہ جب ایک فعل کا کرنا اور نہ کرنا تمہارے نزدیک برابر تھا تو تم نے کیوں اپنی ضد کو نہ چھوڑا۔ پس اس فریق کو خدا کے حضور جواب دینا پڑے گا۔ پھر میں بتاتا ہوں کہ اسلام نے جتنی اس زمانہ میں ترقی کی ہے جبکہ اس کے ماننے والے ایک خلیفہ کے ماتحت تھے، اتنی پھر کسی زمانے میں نہیں کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کے زمانے کے بعد کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر بنی عباس کے زمانہ میں بھی ترقی ہوئی۔ جس وقت خلافتیں پراگندہ ہو گئیں اسی وقت سے ترقی رک گئی جو لوگ خلیفہ کے متعلق مامور غیر مامور کی بحث شروع کر دیتے ہیں اپنے گھرہی میں غور کریں کہ کیا ایک شخص کے بغیر گھر کا انتظام قائم رہ سکتا ہے؟ یورپ کے کسی مصنف نے ایک ناول لکھا ہے جس میں اس نے ان لوگوں کا خوب خاکہ اڑایا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ دو لڑکیوں نے اپنے باپ کے اس اصول کو حجت قرار دے کر کہ مرد عورتوں کے حقوق و فرائض یکساں ہیں اور گھر کا ایک واجب الاطاعت سربراہ ہونے کی ضرورت نہیں اپنے اپنے دل پسند مشاغل میں مصروف رہ کر اور انتظام خانہ داری میں اپنی خود سری سے ابتری ڈال کر باپ کو ایسا تنگ کیا کہ اسی کو معافی مانگنی پڑی۔ الغرض

ایک مرکز اور ایک امام کے بغیر کبھی کام نہیں ہو سکتا

جنگ میں بھی ایک آفیسر کے ماتحت فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے اور اگر کوئی ذرا نافرمانی کرے تو فورا ًگولی سے اُڑا دیا جاتا ہے۔ بعض وقت آفیسر غلطی سے حکم دے دیتے ہیں تو بھی فوج کو ماننا پڑتا ہے۔

اسلامی شریعت نے مسلمانوں کو بتایا کہ اگر امام بھول جائے اور بجائے دو رکعت کے چار پڑھ لے تو تم بھی اس کے ساتھ چار ہی رکعت ادا کرو۔ اگر وہ چار کی بجائے پانچ پڑھ لے تو تم بھی اس کی اتباع کرو حالانکہ وہ کوئی نیا حکم نہیں لاتا۔ پھر امام کا اتنا ادب ملحوظ رکھا کہ اس کو غلطی پر ٹوکنے کی بجائے سبحان اللہ کا کلمہ سکھایا جس کے معنے یہ کہ سہو وخطا سے پاک تو اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہو سکتی ہے۔ پھر یہ بات کہ غیر مامور خلیفہ غلطی کر سکتا ہے لہٰذا اس کی یا اس کا حکم ماننے کی ضرورت ہی نہیں، کیسا خطرناک خیال ہے۔ در حقیقت غلطی کرنے سے پاک کوئی انسان نہیں ہو سکتا۔ دیکھو نبی کریم ﷺ بھی کہتے ہیں کہ تم میں سے دو آدمی میرے پاس ایک فیصلہ لاتے ہیں لیکن ایک انسان زبان کی چالاکی سے اپنے حق میں فیصلہ کر لیتا ہے حالانکہ وہ حقدار نہیں ہوتا۔ پس اس طرح پر ایا حق لینے والا آگ کا ٹکڑا لیتا ہے۔ (بخاری کتاب الاحکام باب موعظۃ الامام للخضوم) جب نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں غلطی کر سکتا ہوں تو دوسرا کون ہے جو یہ کہے کہ میں غلطی سے پاک ہوں۔ اگر ایک شخص علیحدہ نماز پڑھے اور یہ کہے کہ میں امام کے پیچھے اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ وہ غلطی کرتا ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اکیلا نماز پڑھے تو کیا وہ غلطی نہیں کر سکتا؟ جس طرح امام بتقاضائے بشریت غلطی کر سکتا ہے اسی طرح پر وہ شخص بھی جو اکیلا نماز پڑھتا ہے غلطی سے نہیں بچ سکتا۔

پس جماعت جماعت ہے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے والا اور اکیلا پڑھنے والا دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

جو خلیفہ کی مخالفت کرتے ہیں ان کو واضح رہے کہ حضرت عثمانؓ کے وقت میں جب لوگ مخالفت کے لئے اٹھے تو آپ نے فرمایا تم خوب یاد رکھو! تم یہ فتنہ مت پھیلاؤ اس فتنہ سے تم میں کبھی صلح نہیں ہوگی، تم میں کبھی اتفاق نہیں ہوگا۔ چنانچہ آج تک مسلمانوں میں صلح نہیں ہوئی۔ عبداللہ بن سلام کا یہ قول سن کر کہ آخری وقت میں فتنہ ہوگا ابن عباس نے کہا کہ تم جماعت کو اختیار کرنا۔ لوگوں نے کہا اگرچہ قاتل ہی ہو۔ انہوں نے کہا ہاں اگر چہ قاتل ہی ہو۔ (ایسے ہی تین بار کہا) لوگ موازنہ کر کے دیکھ لیں کہ کس طرف زیادہ فوائد ہیں۔ تم کہتے ہو بیعت ضروری نہیں لیکن ہم کہتے ہیں اتفاق تو ضروری ہے۔ پس کیوں اس طریق کو اختیار کرتے ہو جو اتفاق سے دور کرنے والا ہے۔ میں کل ہی ذکر کر رہا تھا۔ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُريَّا لَنَا لَهُ رِجَالٌ مِنْ أَبْنَاءِ فَارَسْ(المعجم الکبیر للحافظ ابی القاسم سلمان بن احمد الطبرانی جلد ۱۸ صفحہ ۳۵۳ مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ ۱۳۹۷ھ) اس میں رِجال کا لفظ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے کہ اگر ایمان معلق بالثریا ہو گا تو ابنائے فارس میں سے بعض رجال ایمان کو لائیں گے۔ تو اب ضروری ہے کہ ابناء فارس یعنی حضرت کے خاندان سے ہوں اور اگر کسی دوسرے خاندان سے ہوں تو وہ ابنائے فارسی سے نہیں کہلا سکتے۔ اور پھر یہ پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے۔ رَجُلٌ مِنْ فَارَسٍ نے بتایا کہ اصل بانی سلسلہ ایک ہی ہے مگر رِجال نے بتادیا کہ اس کے ممد و معاون اور بھی ابناء فارس سے ہوں گے۔ غرض میرا کام فساد کو بڑھانا نہیں۔ کسی انسان کے بنانے سے کچھ نہیں بن سکتا۔

چونکہ اس وقت دنیا میں شرک حد سے بڑھ چکا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک کمزور انسان کوکھڑا کر کے بتادیا کہ کسی کام کا کرنا میرے ہاتھ میں ہے۔

جب خدا نے مجھے پکڑ کر کھڑا کردیا تو میرا اس میں کیا دخل ہے۔ میرے مخالفوں کو علم میں، تجربہ میں، جذبات میں مجھ سے بڑے ہونے کا دعویٰ ہے مگر خدا نے سب سے کمزور سے کام لیا۔ میں تو اپنی حیثیت کو کچھ نہیں سمجھتا۔ خدا یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں کمزور سے کمزور کو بڑی طاقت دے سکتا ہوں۔ خلافت سے پہلے میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میرا ایک ہم جماعت ہے وہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں تمہارے لیکچر کے خلاف لیکچر دوں گا۔ تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تم میرے خلاف لیکچر دو گے اور مجھ پر سچا الزام بھی لگاؤ گے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے۔ پس یاد رکھو خدا کے کاموں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ خدا تمہیں ان باتوں کی سمجھ دے۔ آمین

(الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۱۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button