متفرق مضامین

حضرت مصلح موعودؓکی الہامی تفسیر القرآن

(مرزا خلیل احمد بیگ۔ مربی سلسلہ)

آج تک ایک دفعہ بھی ایسانہیں ہواکہ کسی نے میرے سامنے قرآن کریم کے خلاف کوئی اعتراض کیا ہو اور پھرا سے شرمندگی نہ ہوئی ہو بلکہ اسے ضرور شرمندہ ہونا پڑا ہے

’’قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں۔…اُس نے کئی ایسی آیات جو مجھ پر واضح نہیں تھیں اُن کے معانی بطور وحی یا القاء میرے دل میں نازل کئے اور اس طرح اپنے خاص علوم سے اُس نے مجھے بہرہ ور کیا۔‘‘(تفسیرکبیر جلد۸صفحہ۴۸۳)

رویا، کشف، دل میں ڈالا جانا، القاء ہونا، الہام اور وحی ہونا کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ ان کلمات کے بعد آنے والی بات خدائی اور ربانی علم عطا ہونے کی بابت ہے۔ ان الفاظ کا جا بجا استعمال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتب میں متعدد مقامات میں ملتا ہے اس وقت صرف تفسیر کبیر سے جوحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک معرکہ آراءتفسیر قرآن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائی گئی تفسیر کے بارے میں کچھ کا بیان اگلی سطور میں کیا جائے گا۔

راقم حروف سینکڑوں بار وحی الٰہی کےمزہ کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وحی الٰہی سے متمتع ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’آپ(حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے بعد آپ کی برکت سے ہم لوگوں نے بھی وحی الٰہی کا مزہ چکھا ہے اور راقم حروف بھی سینکڑوں بار اس کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکا ہے ‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۲۱۶)

خدا کے الہامات کا نزول

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ دہلی گیا تو وہاں مجھے علم حساب کے ایک بہت بڑے ماہر جن کا نام پروفیسر مولر تھا ملے۔ اور انہوں نے دورانِ گفتگو میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ اور نیویارک کے بعض اَور پروفیسر تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس ساری یونیورس کا ایک مرکز ہے جس کے گرد یہ سورج اور اس کے علاوہ اَور لاکھوں اور کروڑوں سیارے چکر لگا رہے ہیں۔ اورا نہوں نے کہا کہ میری تھیوری یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے۔ گویا انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ پہلے تو سائنس خداتعالیٰ کے وجود کو رد کرتی تھی۔ مگر اب ہم نے یہ ثابت کر دیا ہےکہ اس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کر رہا ہے اور وہی مرکز خدا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ نظامِ عالم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی جو تحقیق ہے مجھے اس پر اعتراض نہیں۔ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ یہ تمام دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اس کا ایک مرکز ہے۔ مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکز خدا ہے درست نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر خداتعالیٰ کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور وہ مجھے اپنے غیب سے اطلاع دیتا ہے۔ اگر آپ کا تجویز کردہ مرکز ہی خدا ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا وہ بھی کسی پر الہام نازل کر سکتا ہے کہنے لگے الہام تو نازل نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا تو پھر میں کس طرح تسلیم کر لوں کہ وہی مرکز خدا ہے۔ مجھے تو ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں۔ کوئی بات چھ مہینے کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی دو سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی چار سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر جو الہام نازل ہوا تھا وہ خداتعالیٰ کی طرف ہی سے تھا…میں اپنے ذاتی تجربہ سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے جو کئی قسم کی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پس آپ بے شک اس مرکز کو ہی خدا مان لیں۔ لیکن ہم تو ایک علیم اور خبیر ہستی کو خدا کہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ… بیسیوں قسم کی صفات اس کے اندر پائی جاتی ہیں… جب ایک طرف یہ صفات اس مرکز میں نہیں پائی جاتیں اور دوسری طرف ہم پر ایک ایسی ہستی کی طرف سے الہام نازل ہوتا ہے جو اپنی صفات کو اپنے کلام کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا مخالفت کرتی ہے پھر بھی اس کا کلام پورا ہو جاتا ہے تو اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہم آپ کی تھیوری کو کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں۔ اس پروہ کہنے لگے کہ اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ماننا پڑیگا کہ یہ تھیوری باطل ہے کیونکہ اس کلام کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایسا خدا نہیں جس کے تابع یہ تمام مرکز ہو‘‘۔(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۲۱۸ و ۲۱۹)

ہم نے تو اس دولت قرآن سے اس قدر حصہ پایا ہے کہ ہمارے گھر بھر گئے ہیں

خدا تعالیٰ کے بے نظیر فضلوں میں سےقرآن فہمی اور اس عظیم کتاب کے معارف کا حاصل ہونا ہے۔اسی طرح پھر ان معارف کو دوسروں تک پہنچانا اور بکثرت پہنچانا یہ ربانی لوگوں کا ہی کام ہے۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کوثر کے ایک معنی’’الخير الكثير‘‘ کے بھی بتائے جاچکے ہیں اور خیر کا لفظ اسلام اور دین کے معنوں میں ہی آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی ہے کہ’’ الخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ‘‘ کہ تمام قسم کی خیر اور بھلائی قرآن کریم میں ہی ہے۔پس جوشخص قرآنی معارف لٹاتا ہے وہ بالفاظ دیگر خیر تقسیم کرتا ہے اور یہی کام مسیح موعود کا بتایا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ قرآنی دولت اس قدر لٹائی ہے کہ جس کا کوئی انتہا نہیں۔اس دولت کا انکار غیروں نے تو کرنا ہی تھاخودمسلمانوں نے بھی بد قسمتی سے اس کو لینے سے انکار کر دیا۔ وہ لوگ جنہوں نے اس دولت کو نہیں لیا وہ اس کی عظمت کو کیا سمجھ سکتے ہیں۔ ہم لوگ جنہوں نے اس دولت کو قبول کیا ہے ہم جانتے ہیں کہ اس کی کیا عظمت ہےاور کتنی قیمتی اور بےمثال چیز ہے۔ ہم نے تو اس دولت سے اس قدر حصہ پایا ہے کہ ہمارے گھر بھر گئے ہیں۔ مثلاً میرا اپنا وجود ہی ہے۔ دنیوی لحاظ سے میں پرائمری فیل ہوں۔ مگر چونکہ گھر کا مدرسہ تھا اس لئے اوپر کی کلاسوں میں مجھے ترقی دے دی جاتی تھی۔ پھر مڈل میں فیل ہوا مگر گھر کا مدرسہ ہونے کی وجہ سے پھر مجھے ترقی دے دی گئی۔ آخر میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو میری ساری پڑھائی کی حقیقت کھل گئی اور میں صرف عربی اور اردو میں پاس ہوا اور اس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی،گویا میری تعلیم کچھ بھی نہیں۔ مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسانہیں ہواکہ کسی نے میرے سامنے قرآن کریم کے خلاف کوئی اعتراض کیا ہو اور پھرا سے شرمندگی نہ ہوئی ہو بلکہ اسے ضرور شرمندہ ہونا پڑا ہے اور اب بھی میرا دعویٰ ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا عالم ہو۔ وہ اگر قرآن کریم کے خلاف میرے سامنے کوئی اعتراض کرے گا تو ا سے ضرور شکست کھانی پڑے گی اور وہ شرمندہ اور لاجواب ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ میں یوروپ بھی گیا ہوں، میں مصر بھی گیا ہوں، میں شام بھی گیا ہوں اور میں ہندوستان میں بھی مختلف علوم کے ماہرین سے ملتارہا ہوں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے علمی اور مذہبی میدان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے فتح نہ پائی ہو۔ بلکہ جب بھی انہوں نے مجھ سے کوئی گفتگو کی ہے انہیں ہمیشہ میری فوقیت اورمیرے دلائل کی مضبوطی کو تسلیم کرنا پڑا ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ۳۵۷)

مجھ پر اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کے معارف کھولے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں بھی کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بے شمار معارف کھولے ہیں نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کا سارا علم میں نے حاصل کر لیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ کوئی شخص اس کے تمام معارف سمجھ لیتا تو قیامت آجاتی۔ کیونکہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہے۔ اور اس کے بعد اَور کوئی کتاب نہیں۔ جب اِس میں سے نئے نئے مضامین نکلنے بند ہو جائینگے اُس وقت قیامت آجائے گی‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۹۷)

اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کریم کی سمجھ دی اور اس کے بہت سے علوم مجھ پر کھولے اور کھولتا رہتا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک ان نوٹوں کی خوبی یہی بہت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرما کر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے متعلق بہت کچھ انکشاف فرمایا ہے۔ مگر ہر زمانہ کی ضرورت الگ ہوتی ہے اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم میں علوم موجود ہیں۔ جو اپنے موقعہ پر کھولے جاتے ہیں… ترتیب کا مضمون ان مضامین میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص طور پر سمجھائے ہیں ’’وَلَا يُحِيطُ أحَدٌ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِ اللّٰهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ‘‘…۔اب میں ان ماخذوں کا ذکر کرتا ہوں جن سے مجھے نفع ہوا اور سب سے پہلے اس ازلی ابدی ماخذ علوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے سب علوم نکلتے ہیں اور جس کے باہر کوئی علم نہیں۔ وہ علیم وہ نور ہی سب علم بخشتا ہے اسی نے اپنے فضل سے مجھے قرآن کریم کی سمجھ دی اور اس کے بہت سے علوم مجھ پر کھولے اور کھولتا رہتا ہے۔ جو کچھ ان نوٹوں میں لکھا گیا ہے ان علوم میں سے ایک حصہ ہے ’’سُبْحَانَ اللّٰه وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰه‘‘…۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس میں میرے فکر یا میری کوشش کا دخل نہیں۔ وہ صرف اس کے فضل سے ہے‘‘ (تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ا،ب ، ج)

سورہ فاتحہ کی تفسیرفرشتے نے سکھائی

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سورہ فاتحہ کے متعلق ایک سے زائد جگہوں پر اس سورہ کی تفسیرکے فرشتے کی طرف سے سکھائے جانے کا واقعہ بیان فرمایا ہے اور ہر جگہ کچھ نئی تفصیل سے آگاہ فرمایا ہے اس لیے سارے مقامات کا الگ الگ باحوالہ ذکر یوں ہے فرماتے ہیں: ’’میں اس جگہ ایک اپنا مشاہدہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ میں چھوٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور سامنے میرے ایک وسیع میدان ہے۔ اس میدان میں اس طرح کی ایک آواز پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یُوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضاء میں پھیل گئی ہے اس کے بعد اس آواز کا درمیانی حصہ متمثل ہونے لگا او راس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں پھر اس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ کیا میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں تو میں نے کہا کہ ہاں آپ مجھے ضرور اس کی تفسیر سکھائیں پھر اس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ایَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘ تک پہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں۔ اس کے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا۔ کیا میں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاؤں اور میں نے کہا ہاں جس پر فرشتہ نے مجھے ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یاد تھیں۔ لیکن معاً بعد میں سو گیا اور جب اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصّہ بھی یاد نہ تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑا اور میں نے دیکھا کہ اس کے نئے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور میں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا۔ چنانچہ اس وقت سے لیکر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں۔ جن میں سے سینکڑوں میں مختلف کتابوں اور تقریروں میں بیان کر چکا ہو ں او راس کے باوجود خزانہ خالی نہیں ہوا۔ چنانچہ دُعا کے متعلق جوگُر اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن کا ذکر میں اُوپر کر آیا ہوں وہ بھی انہی تجارب میں سے ہیں۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے وقت میرے دل میں خیال گذرا کہ اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ کوئی نئے مطالب اس سورۃ کے کھولے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سات اصول کا انکشاف ہوا جو دُعا کے متعلق اس سورۃ میں بیان ہیں۔ فالحمدللّٰہِ علیٰ ذٰلک۔ اور جو کچھ لکھا گیا ہے محض خلاصہ کے طور پر لکھا گیا ہے ورنہ ان اصول میں بہت وسیع مطالب پوشیدہ ہیں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰه یُؤْتِیْه مَنْ یَّشَاءُ‘‘ (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۶)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہی واقعہ اس طرح بھی بیان فرمایا ہے: ’’میں ابھی چھوٹا بچہ تھا کہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ جس طرح کٹورہ بجائیں تو اس میں سے ٹن کی آواز نکلتی ہے۔ اسی طرح کسی نے کٹورہ بجایا ہے اور اس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوئی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ آواز پھیلنی شروع ہوئی اور پھیلتی چلی گئی۔ جس طرح دریا میں پتھر پھینکا جائے تو اس کے بعد پانی میں ایک دائرہ سا بن جاتا ہے جو پھیلتا چلا جاتا ہے اسی طرح وہ آواز جوّ میں پھیلنی شروع ہوئی اور آخر پھیلتے پھیلتے جو کے عین وسط میں ایک خالی فریم پیدا ہو گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس فریم میں ایک تصویر بننی شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ اس تصویر نے انسان کی شکل اختیا رکر لی۔ پھر یکدم اس میں حرکت پیدا ہوئی اور تصویر میں سے ایک آدمی کود کر نکلا۔ اور میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں۔مجھے خدا نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں میں نے کہا سکھاؤ۔ چنانچہ اس نے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کر دی۔ جب وہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تک پہنچا تو کہنے لگا کہ اب تک جتنی تفسیریں لکھی گئی ہیں اسی آیت تک لکھی گئی ہیں اگر تم کہو تو تمہیں اس سے آگے بھی سکھا دوں۔ میں نے کہا ہاں آگے بھی سکھاؤ۔ چنانچہ اس نے مجھے ساری سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دی‘‘۔(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ۱۶۴ و ۱۶۵)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی واقعہ کو ایک واقعہ کے ساتھ ملا کر خدا کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’میں ابھی چھوٹا سا تھا۔ میری عمر پندرہ سولہ سال کی ہوگی کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ جیسے کوئی کٹورہ ہوتاہے اور اس کے اوپر کوئی چیز آکرگرے تو اس میں سے ٹن کی آواز نکلتی ہے اسی طرح اس میں سے ٹن کی آواز آئی۔ پھر وہ آواز پھیلنی شروع ہوئی۔ پھرمجسم ہوئی پھر وہ ایک فریم بن گئی پھر اس میں ایک تصویر بنی۔ پھر وہ تصویرمتحرک ہوگئی اور اس میں سے ایک وجو دنکل کر میرے سامنے آیا اور اس نے کہا میں خداتعالیٰ کا فرشتہ ہوں اور میں آپ کو سورہ فاتحہ کی تفسیرسکھانے کے لئے آیا ہوں میں نے کہا سکھاؤ۔ اس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھانی شروع کی جب وہإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُپر پہنچا تو کہنے لگا۔ آج تک جتنی تفسیر یں لکھی ہیں وہ اس آیت سے آگے نہیں بڑھیں، کیا میں آپ کو آگے بھی سکھاؤں۔ میں نے کہا۔ ہاں۔چنانچہ اس نے مجھے اگلی آیات کی بھی تفسیر سکھا دی۔ میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور اب اس رؤیا پر چوالیس سال گزر گئے ہیں۔ اس عرصہ دراز میں جو علوم خدا تعالےٰ نے مجھے سورۃ فاتحہ سے سکھائے ہیں ان کے ذریعہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر مذہب کا رد اس سورت سے کر سکتا ہوں اور پھر میرا دعویٰ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں دنیا کی تمام اقتصادی تھیوریوں کا جواب موجود ہے خواہ وہ بالشوزم ہو یا کیپٹل ازم ہو یا کوئی اَور ہو۔

میں نے بچپن کے ایام میں ہی یہ رؤیا سب لوگوں کو سنا دیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی ہے۔

ایک دفعہ ہم امرتسر گئے ہمارے سکول کا خالصہ کالج امرتسر سے میچ ہوا جس میں ہم نے خالصہ کالج امرتسرکوشکست دی۔ ہمار ے لڑکے اچھے فٹ بال کھیلنے والے تھے۔ویسے تو وہاں احمدیت کی بہت مخالفت تھی مگر ایسے مواقع پر مختلف فرقے اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں۔ جب ہماری ٹیم سکھوں کے مقابلہ میں جیت گئی تو وہاں کے دوسرے مسلمانوں کو بھی بہت خوشی ہوئی اور انجمن اسلامیہ امرتسرنے ہمیں ایک پارٹی دی۔ میں اس ٹیم میں شامل نہیں تھا۔ صرف میچ دیکھنے کے لئے ساتھ چلاگیا تھا لیکن تھا طالب علم ہی۔ پارٹی کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کوئی تقریر کریں۔ میں نے اس سے پہلے عام مجلس میں کبھی تقریر نہیں کی تھی۔ مدرسہ میں تقریریں کی تھیں۔ مگر وہاں بڑے بڑے لوگ بیٹھے تھے اور شہر کے رؤساء موجود تھے اس لئے میں نے عذر کیا اورکہا کہ اس وقت میں تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کچھ بھی ہو آپ کسی موضوع پر تقریر کر دیں میں نے دعا کی کہ خدایا تو نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ مجھے ہمیشہ اس سورۃ کے نئے معنے معلوم ہوتے رہیں گے اور میں اس کا لوگوں میں اظہار کر چکا ہوں اب امتحان کا وقت ہے تو مجھے اپنے فضل سے کوئی ایسا مضمون سمجھا جو اس سے پہلے کسی کے ذہن میں نہ آیا ہو۔اس دعا کے بعد میں نے تقریر شروع کی اور یکدم خدا تعالیٰ نے میرے دماغ میں ایک ایسا مضمون ڈالا جو آج تک کسی تفسیر میں بیان نہیں ہوا۔ میں نے کہا خدا تعالیٰ ہمیں سورہ فاتحہ میں ایک دعا سکھاتا ہےاور وہ یہ ہے کہ اے خدا نہ ہم مغضوب بنیں اورنہ ضال بنیں۔احادیث سے ثابت ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہودی ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ پس ہم سے یہ دعا کروائی گئی ہےکہ اے خدا تو ہمیں یہودیوں اور عیسائیوں کے نقش قدم پر چلنے سے بچا۔ دوسری طرف اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور پھر یہ ابتدائی سورتوں میں سے ایک ہے۔اب یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب یہ سورۃنازل ہوئی تھی۔ اس وقت نہ یہودی آپ کے مخالف تھے نہ عیسائی۔آپ کے مخالف صرف مکہ کے مشرکین تھے اور اس وقت آپ کو دعا یہ سکھانی چاہیئے تھی کہ اے اللہ ہمیں مشرک نہ بنا۔ مگر بجائےاس کے قرآن کریم دعا یہ سکھاتا ہے کہ اے اللہ ہمیں یہودی اور عیسائی نہ بنا اس میں کیا راز ہے اور کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا تو ذکر نہ کیا جن کی مخالفت کا مکہ میں شدید زور تھا اور یہود و نصاریٰ کا ذکر کر دیا جو وہاں آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ اس میں یہ راز ہے کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ اس کی تقدیر کے ماتحت مکہ کا مذہب ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جانے والا تھا اور آئندہ زمانہ میں اس کا نام ونشان تک نہ ملنا تھا۔ پس جو مذہب ہی مٹ جانا تھا اس سے بچنے کی دعا سکھانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جو مذاہب بچ رہنے تھے اور جن سے روحانی یامادی رنگ میں اسلام کا ٹکراؤ ہونا تھا ان کے بارہ میں دعا سکھادی گئی۔پس کفار کا ذکر ترک کر کے اس سورت میں کفار مکہ کے مذہب کے تباہ ہونے اور یہودیوں اورمسیحیوں کا ذکر کر کے ان دو مذاہب کےقائم رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جسے بعد کے واقعات نے نہایت روشن طور پر ثابت کر دیا ہے پس اس سورۃ کے ذریعہ سے ابتدائی ایام نبوت میں ہی اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی کامل تباہی کا اس سورۃ میں اعلان فرمادیا اور یہ بھی بتا دیا کہ آئندہ اسلام کا خصوصیت سے مقابلہ یہود اور نصاریٰ سے ہوگااس لئے انہی کی شرارتوں سے تمہیں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اور اس طرح قرآن کریم کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت سورۂ فاتحہ میں مہیا کر دیا گیا۔ یہ نکتہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت میرے دل میں ڈالا اور واقعہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ سے یہ استدلال ایسا عجیب ہے کہ اس سے پہلے کبھی کسی مفسر کا ذہن اس طرف نہیں گیا۔ اس کے بعد اور بھی سینکڑوں مضامین مجھے سورۃ فاتحہ سے سمجھائے گئے اور میرا دعویٰ ہے کہ اگر مجھ پر کوئی اعتراض کیا جائے اور مجھے اس وقت کوئی اور آیت یادنہ ہو تو خدا تعالےٰ مجھے اس سورت سے ہی اس کا جواب سمجھادیگا۔یہ وہ خزانہ ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دیا اور جس سے ہمارے گھر بھر گئے۔ مگر افسوس کہ دوسرے مسلمان اس دولت کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں‘‘۔ (تفسیر کبیر جلددہم صفحہ ۳۵۸ و ۳۵۹)

سورہ بقرہ کی تفسیر و ترتیب القاء ہوئی

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں سورۂ فاتحہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی تفسیر مجھے ایک فرشتہ نے رؤیا میں سکھائی تھی سورۂ بقرہ کی تفسیر مجھے اس طرح تو حاصل نہیں ہوئی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک القاء کے طو رپر مجھے اس کی تفسیر بھی سکھائی ہے اور جو شخص بھی ذرا غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو گا کہ جو نکتہ اس بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے وہ ساری سورۂ بقرہ کو ایک باترتیب مضمون کی صورت میں بدل دیتا ہے اور اس امر کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ تفہیم صرف اور صرف فضل الٰہی سے حاصل ہوئی ہے‘‘ (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۵۵)

اس کی مزید تفصیل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مجھے یاد ہے حضرت خلیفۂ اوّلؓ کے زمانہ میں ایک دفعہ بعض دوستوں نے مجھ سے خواہش کی کہ میں انہیں قرآن کریم پڑھاؤں۔ چنانچہ میں نے سورۃ بقرہ شروع کی۔ جب میں اس آیت پر پہنچا کہرَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔ تو یکدم میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا۔ کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورت کے تمام مضامین اس آیت کی تشریح ہیں۔بلکہ انہیں بیان بھی اسی ترتیب سے کیا گیا ہےجس ترتیب سے دُعائے ابراہیمی میں ان کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر مزید یہ امر کھولا کہ سورہ کوثر دعائے ابراہیمی کا جواب ہے جس کا سورۃ بقرۃ میں ذکر آتا ہے۔ چنانچہ سورۂ کوثر کی تفسیر میں میں نے ان تمام امور کا تفصیلاً ذکر کر دیا ہے‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۱۹۰ و ۱۹۱)

اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون کھولا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وَاتَّبَعُوۡا مَاتَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ (البقرة:۱۰۳)کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اگر مفسّرین کے بیان کردہ قصّے درست ہوں جن میں سے زوائدمیں نے چھوڑ دیئے ہیں تو اس کا جوڑ پچھلی آیات سے کوئی نہیں بنتا۔اور یہ آیت بے تعلق ہو جاتی ہے۔لیکن میرے اس مضمون سے جو کہ اﷲتعالیٰ نے مجھ پر کھولا ہے اس کا جوڑ پچھلی آیات سے قائم رہتا ہے اورملائکہ پر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کے واقعات کے خلاف بھی کوئی بات نہیں رہتی۔اور یہ آیت رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت بن جاتی ہے‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۶۸ و۶۹)

’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہرایک سورۃ کی کنجی ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مجھے ایک دفعہ بطور القاء بتایاگیاتھا کہ سورہ بقرہ کی کنجییَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ والی آیت ہے۔ چنانچہ میں نے اس کنجی کی مدد سے تمام بقرہ کو حل کرلیاتھا ایسا ہی ایک دفعہ خداتعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہبِسْمِ اللّٰهِ ہرایک سورۃ کی کنجی ہے۔تبھی ہر سورۃ کے ساتھ نازل ہوئی ہے(سورہ توبہ علیحدہ کوئی سورۃ نہیں بلکہ انفال کا حصہ ہے )یہ توایک ضمنی بات ہوگئی‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ۵۴ و ۵۵)

رویاء میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ کہٰیٰعص ان حروف مقطعات میں تمہارا بھی ذکر آتا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میری ایک پرانی رویاء بھی اس کی تصدیق کرتی ہے میں ایک دفعہ سندھ سے آ رہا تھا۔ کہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ قرآن کریم میں جو کہٰیٰعصآتا ہے ان حروف مقطعات میں تمہارا بھی ذکر ہے …اور چونکہ میرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیل مسیح ناصری ہیں۔ اس لئے درحقیقت ان حروف مقطعات میں میرا ذکر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ کہٰیٰعصمیں مسیحیت کا ذکر ہے اور جب اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر ہےتو لازماً اس میں دوسرے مسیح کا بھی ذکر ہوگا۔ اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر تو اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے کافی اور ہادی ہونے اور اس کے علیم اور صادق ہونے کی صفات کو نہ سمجھ کر غلط مذہب اختیار کر لیا۔ا ور ہمارے حق میں یہ مقطعات اس لحاظ سے ہونگے کہ ہم نے انہی صفات سے کام لے کر عیسائیت کا رد کر دیا۔ گویا مراد تو دونوں سلسلے ہوں گے مسیح ناصری کا سلسلہ بھی اور مسیح موعودؑ کا سلسلہ بھی مگر عیسائیت کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ان صفات کو مدنظر نہ رکھ کر وہ صحیح راستہ سے بھٹک گئے اور ہمارے لئے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات نے ہماری تائید کی اور ہم نے ان کے ذریعہ سے عیسائیت کا کو کچل دیا‘‘ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ۱۱۶)

اس جگہ انبیاء کی ترتیب۔یہ وہ علم ہے جوخداتعالیٰ نے صر ف مجھے ہی عطافرمایا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مسیحؑ کے بعد ابراہیم کا ذکر قابل اعتراض نہیں بلکہ طبعی ترتیب یہی تھی کہ ابراہیم کاذکر کیا جاتا اور یہ ترتیب دووجوہ سے اختیا رکی گئی ہے۔ اول یہ بتانے کے لئے کہ بانی سلسلہ موسویہ یا اسرائیلی شرک کا دشمن تھا۔ پھر اس کی نسل کا ایک فرد شر ک کا قائم کرنے والا کس طرح ہوسکتاہے۔ دوم یہ بتانے کے لئے کہ ابراہیمؑ نے دو بیٹوں کے متعلق خبر دی تھی ایک اسحاق کی جس میں سے موسیٰؑ نے سلسلہ کی بنیاد رکھی دوسرے اسماعیل کی موسوی سلسلہ کو کبھی ختم ہونا چاہئے تھاتاکہ اسماعیلی سلسلہ کے وعدے شروع ہوتے۔پس مسیح کی آمد سے جو بغیر باپ کے تھا اسرائیلی سلسلہ ختم ہوا تاکہ اسماعیلی سلسلہ شروع ہو۔ اسی وجہ سے اس سورۃ میں پہلے زکریا کا ذکر کیا جو مسیح کے لئے بطو ر ارہاص آنے والے وجود کے والد تھے۔پھر حضرت یحییٰ کا ذکر کیا کیونکہ وہ مسیح کے لئے بطور ارہاص آئے تھے۔ پھر مسیح کا ذکر کیا اور اس بات کے دلائل دئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل تھے۔ اس کے بعد ابراہیم کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب مسیحیت ایک شاخ ہے ابراہیمی سلسلہ کی تو تم سوچو کہ کیا یہ شرک کی تعلیم جڑمیں بھی پائی جاتی تھی یا نہیں جب ابراہیم جس کی تم ایک شاخ ہو موحد تھا تو اس کی نسل کا ایک فردشرک کو قائم کرنے والا کس طرح ہوگیا۔ اس کے بعد اسحاق ؑاور یعقوبؑ اور موسیٰؑ کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ وعدے جو اسحاق کے ساتھ کئے گئے تھے پورے ہوگئے اور تمہارا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب ہم تمہیں ان وعدوں کی طر ف توجہ دلاتے ہیں جو ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسماعیل کے متعلق کئے گئے تھے اور تمہیں بتاتے ہیں کہ انہی وعدوں کے مطابق اسماعیل کی نسل میں سے محمد رسول اللہ ﷺ آگئے ہیں پھر تمہیں ان پر کیا اعتراض ہے۔ اگر اوپر کا مضمون مد نظر نہ ہوتا تو اس ترتیب کا کوئی مفہوم نہ تھا۔کیونکہ مسیحؑ کے بعد ابراہیمؑ نہ تھے اور موسیٰؑ کے بعد اسماعیل نہ تھے پس مسیح کے بعد ابراہیم پھر موسیٰ اور پھر اسماعیل کی طرف چلے جانا صاف بتاتاہے کہ اس جگہ وہی مضمون مراد ہے جو میں نے بیان کیا ہے دوسر اکوئی مضمون اس جگہ مراد نہیں انبیاء کی ترتیب کے بارہ میں یہ وہ علم ہے جوخد اتعالیٰ نے صر ف مجھے ہی عطافرمایا ہے چنانچہ تیرہ سو سال میں جس قدر تفاسیر لکھی گئی ہیں ان میں سے کسی تفسیر میں بھی یہ مضمون بیان نہیں کیا گیا اور کوئی نہیں بتا تا کہ نبیوں کا ذکر کرتے وقت یہ عجیب ترتیب کیوں اختیار کی گئی ہے صر ف مجھ پر خدا تعالیٰ نے اس نکتہ کو کھولا ہے جس سے اس ترتیب کی حکمت اور اہمیت بالکل واضح ہوجاتی ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ۲۶۳ و ۲۶۴)

قرآن کریم کے کئی بطن۔ یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطافرمایاہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں۔ایک بطن توقرآن کریم کایہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے سیاق و سباق کی تما م آیات کو دیکھاجاتاہے اوراس کے معنے سیاق و سباق کی آیات کومدنظر رکھ کرکئے جاتے ہیں۔کیونکہ اگر سیاق وسباق کو مد نظر نہ رکھاجائے تو معنوں میں غلطی کا امکان ہوتاہے۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے کچھ آگے آنے والی آیتوں او رکچھ پیچھے آنے والی آیتوں کودیکھاجاتاہے اوران کے معنوں میں تطابق کا لحاظ رکھاجاتاہے۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ جس آیت کے معنے مطلوب ہوں اس ساری سورۃ کو دیکھا جاتاہے۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ کئی سورتوں کو ملا کر اس کے معنے اخذ کئے جاتے ہیں۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ سارے قرآن مجید کو پیش نظر رکھنا پڑتاہے۔اسی طرح اوربھی بعض بطن ہیں۔یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطافرمایاہے۔بعض دفعہ ایک مضمون کاتعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتاہے اوربعض دفعہ بعد والی سورتوں کے ساتھ۔ پھر ایک معنے کسی آیت کے منفردًاہوتے ہیں اورایک معنے دوسری آیتوں کے ساتھ ملا کرکئے جاتے ہیں‘‘ (تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ۲۹۲-۲۹۳)

خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے سورہ نجم کے مسئلے کا حل سمجھا دیا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اس کا حل سمجھا دیا ہےجو یہ ہے کہ جب مسلمان ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تو مکہ والوں کو ان کا حبشہ جانا بڑا برا لگا اور انہوں نے اپنے بعض آدمی نجاشی شاہ حبشہ کےپاس بھیجے کہ کسی طرح ان کو سمجھا کر واپس مکہ لےآئیں۔(سیرۃ الحلبیہ ) اور تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہےکہ جس وقت یہ سجدہ والا واقعہ ہوا۔ اس وقت کچھ مہاجرین حبشہ سے لوٹ کر مکہ آ گئے۔ اورجب ان سے لوگوں نے پوچھا کہ تم لوگ واپس کیوں آگئے ہو تو انہوں نے کہا۔ ہمیں تو یہ اطلاع پہنچی تھی کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں (ابن خلدون)۔ مکہ کے جو لوگ ان سے ملے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مکہ والے تو کوئی مسلمان نہیں ہوئے۔ بات یہ ہے کہ تمہارے رسول نے قرآن کی کچھ آیتیں ایسی پڑھی تھیں جن سے شرک کی تائید ہوتی تھی۔ اس لئے تمہارے رسول کے ساتھ مل کر مکہ والوں نے بھی سجدہ کر دیا مگر جبکہ بعد میں تمہارے رسول نے ان آیتوں کو منسوخ قرار دے دیا تو مکہ والے پھر اپنے دین کی طرف لوٹ آئے۔ یہ باتیں سن کروہ مہاجر پھر واپس حبشہ چلے گئے (سیرۃ الحلبیہ)۔ سورہ نجم کی تلاوت کا واقعہ اور مسلمانوں کے حبشہ سے آنے کا واقعہ اتنا قریب قریب ہے کہ خود جغرافیہ اس کو رد کرتا ہے۔ مکہ سے اس زمانہ کی بندرگاہ شعیبہ کا فاصلہ اکیلےسوار کے لئے کم از کم چار پانچ دن کا بنتا ہے۔ چنانچہ زرقانی میں لکھا ہےمسافتها طويلة جدَّا کہ مکہ سے شعیبہ کا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ اور وہاں سے حبشہ کی بندرگاہ کا فاصلہ بھی کوئی چار پانچ دن کا بنتا ہے۔ کیونکہ اس زمانہ میں لوگ صرف بادبانی کشتیوں میں سفر کرتے تھے اور وہ بھی ہر وقت نہیں چلتی تھیں کیونکہ کوئی جہاز رانی کی کمپنیاں نہیں ہوتی تھیں جب کسی ملاح کو فرصت ہوتی تھی وہ اپنی کشتی ا دھر لے آتا تھا جس میں بعض دفعہ مہینوں کا فاصلہ ہو جاتا تھا۔ اور حبشہ کی بندرگاہ سے لے کر اس زمانہ کے حبشہ کے دارالحکومت کا فاصلہ کوئی دو مہینہ کے سفر کا ہے۔ گو یا اگریہ خبر سورہ نجم کی تلاوت کے بعدمکہ سے جاتی اور پھر مسلمان وہاں سے روانہ ہوتے تو مختلف فاصلوں اور دربار حبشہ کی اجازت وغیرہ کے زمانہ کو ملا کر کوئی اڑھائی تین ماہ میں لوگ واپس آ سکتے تھے۔ مگروہ سجدہ والے واقعہ کے بعد پندرہ بیس دن کے اندر اندر واپس آ گئے۔ کیونکہ مسلمان حبشہ جانے کے لئےر جب میں روانہ ہوئے تھے اور شعبان و رمضان حبشہ میں ٹھہرے اور شوال میں واپس پہنچ گئے (زرقانی) اورحبشہ ٹھہرنے اور واپس مکہ پہنچنے کا کل عرصہ تین ماہ سے بھی کم بنتا ہے (سیرۃ الحلبیہ ) اس سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ نجم کی تلاوت والا واقعہ بنایا گیا ہے یعنی بعض مکہ کے سرداروں نے پہلے سے یہ تدبیر سوچی اور کوئی سوا رحبشہ دوڑا دیا کہ مسلمانوں میں جاکر مشہور کر دو کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور انہوں نے محمد رسول اللہؐ کے ساتھ مل کر سجدہ کیا ہے۔ لیکن جب انہوں نے اندازہ کیا کہ اب حبشہ والے آنے ہی والے ہونگے تو سوچا کہ ان کے آنے پر ہم کیا جواب دیں گے کیونکہ آکر وہ دیکھیں گے کہ مکہ وا لے تو ابھی تک کا فر ہیں اس لئے یہ مشہور رکردیا کہ سجدہ کرنا (نعوذ باللہ) شرکیہ آیتوں کی وجہ سے تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاان آیتوں کو منسوخ کرنا جو درحقیقت منسوخ کرنا نہ تھا بلکہ یہ اعلان کرنا تھا کہ ایسی کوئی آیتیں میں نے نہیں پڑھیں کفار مکہ کے واپس کفر پر آ جانے کی وجہ تھا۔اب یہ تدبیرتبھی کامیاب ہوسکتی تھی جبکہ کوئی شرکیہ آیتیں اس مجلس میں کہلائی جاتیں جس میں آپ نےتلاوت کی تھی۔معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺنے نہیں بلکہ کسی خبیث کا فرنے اپنے سرداروں کے مشورہ سے پیچھے سے یہ فقرے پڑھ دیئے۔ اور بوجہ اس کےکہ سینکڑوں آدمی موجود تھے اورمکہ کے سارے رؤساء جمع تھے شور میں پہچانا نہیں گیا کہ یہ آواز کس کی ہے۔ اور کفار نے مشہور کر دیا کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرے کہے ہیں اس لئے ہم نے سجدہ کر دیا تھا۔ جو لوگ مجلس کے کناروں پر بیٹھے تھےانہوں نے بھی چونکہ یہ فقرے اس متفنی شیطان کے منہ سے سنے تھے جس نے یہ فقرے آپؐ کی تلاوت کے وقت بآواز بلند کہہ دیئے تھے۔ اس لئے ان لوگوں نے بھی یہ خیال کیا کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی یہ فقرے کہے ہوں۔ پس اس کہانی کا حل تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے وقت کفارنے پہلے سے سوچے سمجھے ہوئے منصوبہ کے مطابق کسی خبیث سے یہ فقرے بلند آواز سے کہلا دیئے۔ اوران کی سکیم کا ثبوت یہ ہے کہ مہاجرین حبشہ اس وقت سے پہلے مکہ پہنچ گئے جبکہ سورہ نجم والے واقعہ کو سنکر وه مکہ آ سکتے تھے۔ بلکہ اگر اس وقت ہوائی جہاز بھی ہوتے تو جتنے وقت میں وہ آ سکتے تھے اس سے بھی پہلے پہنچ گئے۔ پس ان کا وقت سے پہلے مکہ آجانا بتاتا ہے کہ وقت سے پہلے ان کوکہلابھیجا گیا تھا کہ مکہ والے مسلمان ہو گئے ہیں اورعین ان دنوں میں جبکہ وہ سکیم کے ماتحت آ سکتے تھے مکہ والوں نے یہ اوپر کے الفاظ کسی خبیث کے منہ سے بلند آواز سے کہلوا دیئے۔پھر اگر ان حدیثوں کو نظر انداز کر دیا جائے جو صراحتاً قرآن کریم کے خلاف ہیں تو یہ سورۃ ہی اس واقعہ کی تردید کرتی ہے کیونکہ ان آیتوں سے پہلے جن میں کہا گیا ہے کہ شیطان نے شرکیہ مضمون ملا دیا تھا یہ ذکر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا ہے بلکہ یہ بھی کہ دو دفعہ دیکھا ہے۔ چنانچہ پہلے فرمایا : وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىیعنی اس نے یقیناً اپنے خدا کو ایک دفعہ اور دیکھا ہے۔ اور پھرفرمایا: لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات دیکھے ہیں اس کے مقابلہ میں کافروں کو کہا گیا ہے کہ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰىیعنی بتاؤتوسہی که کیا تم نے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنے بتوں کا کوئی نشان دیکھا ہے یعنی تم نے نہیں دیکھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدا کے بڑے بڑے نشانات دیکھے ہیں۔ یہ تو شرکیہ آیات سے پہلے کی آیتیں ہیں۔ اور ان شرکیہ آیات کے بعد کی یہ آیت ہے کہ اِنۡ ہِیَ اِلَّاۤ اَسۡمَآءٌ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَاٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ یعنی یہ بتوں کے نام تو تم نے خود رکھ لئے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے کوئی دلیل نہیں اتاری۔اب بتاؤ کہ کیا یہ ممکن ہے کہ شرک کے اقرارسے پہلے بھی شرک کی تردید کی آیتیں ہوں اور ان کے بعد بھی شرک کی تردید کی آیتیں ہوں۔ باوجود اس کے کوئی شخص کہدے کہ ان دو تردیدوں کے درمیان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پرشیطان نے شرک کے کلمات جاری کر دیئے تھے۔ شیطان کو تو ہمارے مفسر عقلمند کہتے ہیں یہاں تک کہ سورۂ بقرہ کی آیات میں شیطان کو فرشتوں کا استادقرار دیتے ہیں۔ اور شیطان اور خدا تعالیٰ کے مباحثے میں خدا کو ہرایا گیا ہے مگر اس کہانی والا شیطان تو کوئی گدھا معلوم ہوتا ہے کہ اس کو شرکیہ کلمات کے لئے دو زبردست توحیدی آیات کے درمیان ہی مقام ملا۔ اس شیطان کوتوپاگل خانہ میں داخل کرنا چاہیے۔ ایسا الّو خدا کے بندوں کو بہکاتا کس طرح ہے ؟

پھر یہ لطیفہ دیکھو کہ یہ سورۃ اس آیت پر ختم ہوئی ہےفَاسْجُدُوا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوا کہ اے لوگو! اللہ کے سامنے سجدہ کرو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ اس آیت کوسن کر کون گدھا تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ محمدؐ رسول اللہ نے کوئی شرکیہ کلمات کہہ دیئے ہیں۔غرض اس سورۃ کی آیت آیت ہی اس کہانی کو رد کررہی ہے۔ یہ اندرونی شہادت ہے اور بیرونی شہادت یہ ہے کہ مہاجرین حبشہ اس کہانی کو سنکر اس وقت مکہ میں واپس نہیں آ سکتے تھے جس وقت وہ آئے۔جیسا کہ میں پہلے ثابت کر چکا ہوں ‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۶۸تا ۷۱)

قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین جو اللہ تعالیٰ نے اپنے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مَیں اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی تائید کے ایک تازہ واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں اور میں اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا جس قدر بھی شکر اداکروں کم ہے۔ اُس نے کئی ایسی آیات جو مجھ پر واضح نہیں تھیں اُن کے معانی بطور وحی یا القاء میرے دل پر نازل کئے اور اس طرح اپنے خاص علوم سے اُس نے مجھے بہرہ ور کیا۔ مثال کے طور پر میں سورۂ بقرہ کی ترتیب کو پیش کرتا ہوں۔ میں ایک دن بیٹھا ہؤا تھا کہ یکدم مجھے القاء ہؤا کہ فلاں آیت اس کی کنجی ہے اور جب میں نے غور کیا تو اس کی تمام ترتیب مجھ پر روشن ہو گئی۔ اِسی طرح سورۂ فاتحہ کے مضامین مجھے القاءً اور الہامًا اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویاء میں بتائے گئے تھے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا سینہ سورۂ فاتحہ کے حقائق سے لبریز فرما دیا۔ قرآن کریم کی ترتیبیں بیسیوں آیات کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء مجھے سمجھائی گئی ہیں مثلًا سورۂ بروج اور سورۂ طارق کا یہ جوڑ کہ ان میں سے ایک سورۃ میں مسیحیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری سورۃ میں مہدویت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی اُن مضامین میں سے ہے جو لوگوں کی نگاہ سے مخفی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اُن کو ظاہر فرما یا اور مجھے وہ دلائل دئیے جن سے میں اپنے اس استدلال کو پوری قوت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں اور کوئی منصف مزاج اُن دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ عقلی طور پر اُسے بہرحال ماننا پڑے گا کہ میرا دعویٰ دلائل پرمبنی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں اِن دلائل کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اُسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ میں نے جو دعویٰ کیا ہے اُس کے دلائل اور وجوہ موجود ہیں۔

غرض قرآن کریم کی کئی مشکل آیات کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنے القاء اور الہام کے ذریعہ مجھ پر منکشف فرمائے ہیں اور اس قسم کی بہت سی مثالیں میری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ اُنہی مشکل آیات میں سے میرے لئے ایک یہ سورۃ [سورۃ الفجر] بھی تھی۔ میں جب بھی سوچتا اور غور کرتا مجھے اس کے معانی کے متعلق تسلّی نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ دل میں ایک خلش سی پائی جاتی تھی اور مجھے بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ جو معانی بتائے جاتے ہیں وہ قلب کو مطمئن کرنے والے نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مفسّرین نے بہت سے معانی کئے ہیںجو لوگوں کی نگاہ میں اس سورۃ کو حل کر دیتے ہیں مگر میری اپنی نگاہ میں وہ اطمینان بخش معانی نہیں تھے اور اس لئے ہمیشہ ایک بے چینی سی میرے اندر پائی جاتی تھی میں سوچتا اور غور کرتا مگر جو بھی معنے میرے ذہن میں آتے جن کو مزید غور کے بعد میں خود ہی ردّ کر دیتا کہ کہتا کہ یہ درست نہیں ہیں آخر بڑی مدتوں کے بعد ایک دفعہ جب میں عورتوں میں قرآن کریم کے آخری پارہ کا درس دینے لگا تو اس کا ایک حصّہ حل ہو گیا مگر پھر بھی جو حل ہؤا وہ صرف ایک حصّہ ہی تھا مکمل مضمون نہیں تھا جو معنے مجھ پر اُس وقت روشن ہوئے اُن سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے دو تو بن جاتے تھے مگر دو رہ جاتے تھے یہ حالت چلتی چلی گئی اور مجھے کامل طور پر اس کے معانی کے متعلق اطمینان حاصل نہ ہؤا۔

اب جو میں نے درس دیناشروع کیا تو پھر یہ سورۃ میرے سامنے آ گئی اور میں نے اس پر غور کرنا شروع کر دیا۔ میں نے آخری پارہ کا درس جولائی ۱۹۴۴ء میں شروع کیا تھا اور ڈلہوزی میں اس کی ابتداء کی تھی اُس وقت سے لے کر اب تک کئی دفعہ میں نے اس سورۃ پر نظر ڈالی اور مجھے سخت فکر ہؤا کہ اس سورۃ کا درس تو قریب آ رہا ہے مگر ابھی اس کے معانی ترتیبِ سُور کے لحاظ سے مجھ پر روشن نہیں ہوئے۔ بار بار میں اس سورۃ کو دیکھتا۔ اس کے مطالب پر غور کرتا اور کوئی مضمون میرے ذہن میں بھی آ جاتا مگر پھر سوچتے سوچتے میں اُس کو ناکافی قرار دے دیتا۔ غرض بیسیوں دفعہ مَیں نے اس سورۃ پر نگا ہ دوڑائی مگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی یہاں تک کہ سورۃ الغاشیہ کے درس کا وقت آ گیا اور مَیں اس کے نوٹ لکھنے لگا مگر اُس وقت بجائے غاشیہ پر نگاہ ڈالنے کے میری نظر بار بار آگے کی طرف نکل جاتی اور سورۃ الفجر میرے سامنے آ جاتی۔ غاشیہ کے متعلق میں سمجھتا کہ یہ تو حل شدہ ہی ہے اور اگر کوئی مشکل آیت بھی ہوئی تو ترتیب میں آ کر وہ خودبخود حل ہو جائے گی۔ جس طرح ایک انسان جب گیند پھینکتا ہے تو اُسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ گیند اتنی دُور جائے گا۔ اسی طرح جو شخص قرآن کریم کی تفسیر ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سُور کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس ترتیب کے مطابق فُلاں آیت کے فلاں معنے بنیں گے مگر اس بات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی عمر اس فن میں صرف کر دی ہو…غرض جوں جوں سورۂ فجر کا درس نزدیک آتا گیا میرا اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا۔ میں نے کہا جب اس سورۃ کے متعلق میری اپنی تسلی ہی نہیں ہوئی تو میں دوسروں کو کیسے مطمئن کر سکتا ہوں۔ مفسرین نے جو معانی بیان کئے ہیں وہ میں بیان کر سکتا تھا مگر جو ترتیب گزشتہ سورتوں سے میں بتاتا آ رہا ہوں اُس کے لحاظ سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے۔ پہلے خیال آیا کہ میں دوسروں کے معانی ہی نقل کر دوں کیونکہ یہ درس اب جلد کتابی صورت میں چھپنے والا ہے کب تک میں اِن معانی کا انتظار کروں جو ترتیب کے مطابق معنےہوں شاید ترتیب کے مطابق اللہ تعالیٰ پھر کسی وقت کھول دے آخر پُرانے مفسروں نے کوئی نہ کوئی معنے ان آیات کے کئے ہی ہیں۔ رازیؔ نے بھی ان کے معنے لکھے ہیں۔ بحرِ محیط والوں نے بھی معنے لکھے ہیں۔ حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ نے بھی معنے کئے ہوئے ہیں اور اُن تمام معانی کو ملحوظ رکھ کر کچھ نہ کچھ بات بن ہی جاتی ہے مگر چونکہ میرا دل کہتا تھا کہ ترتیب آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ معانی پوری طرح باہم منطبق نہیں ہوتے مجھے اطمینان نہ ہؤا۔ یہاں تک کہ ۱۷؍ ماہ صلح ۱۳۲۴ہش مطابق ۱۷؍جنوری۱۹۴۵ءبروز بُدھ میں سُورۂ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجد مبارک میں آیا۔ میں نے درس سورۂ غاشیہ کا دینا تھا مگر میں غور سورۂ فجر پر کر رہا تھا اِسی ذہنی کشمکش میں مَیں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میرے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب میں عصر کی نماز کے آخری سجدہ سے سر اُٹھا رہا تھا تو ابھی سر زمین سے ایک بالشت بھر اونچا آیا ہو گا کہ ایک آن میں یہ سورت مجھ پر حل ہو گئی۔ پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصًا نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھ پر حل کر دیا۔ مگر اس دفعہ بہت ہی زبردست تفہیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون پر حاوی تھی چنانچہ جب مَیں نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشہ میری زبان سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کے الفاظ بلند آواز سے نکل گئے‘‘ (تفسیر کبیر جلدہشتم صفحہ ۴۸۳تا ۴۸۵)۔

وہ مضمون۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں صرف مجھ پر کھولا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: ’’یہاں وہ مضمون آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں صرف مجھ پر کھولا ہے اور جس کی طرف تیرہ سوسال تک مسلمانوں کی توجہ نہیں گئی۔ وہ مضمون یہ ہے کہ یہ دو سورتیں یعنی سورۃ الفیل اور سورۂ ایلاف اس حقیقت کا اظہار کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بلکہ آپؐ کی پیدائش سے بھی پہلے آپؐ کے دشمنوں اور دوستوں کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں یعنی آپؐ کی آمد کی انتظارمیں اگر ایک طرف آپؐ کے دشمنوں نے تیاری شروع کر دی تھی تو دوسری طرف آپؐ کے دوستوں نے بھی تیاری شروع کر دی تھی۔ کہتے ہیں:’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘۔یعنی ترقی کرنے والے وجود کی طرف شروع میں ہی نظریں اٹھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ تو ایک دنیوی ضرب المثل ہے اللہ تعالیٰ کی بھی ہمیشہ سے یہی سنت چلی آئی ہے کہ جب بھی کوئی مامور آنے والا ہوتا ہے اس کی بعثت سے پہلے اس کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں جو ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ اب وہ زمانہ بالکل قریب آگیا ہے جس میں اللہ تعالےٰ کی طرف سے کسی موعود نے مبعوث ہونا ہے‘‘ ۔(تفسیر کبیر جلددہم صفحہ ۲۷)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان قرآنی علوم سے بہرہ ور ہونے کی توفیق دیتا چلا جائے اور اس علمی خزانے کا مطالعہ کرنے اور اس کی تعلیمات کو حرز جان بنانے کی توفیق سے نوازے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button