از افاضاتِ خلفائے احمدیت

اللہ تعالیٰ کی صفت قدوس

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍ اپریل ۲۰۰۷ء)

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدّوس ہے۔ مختلف لغات میں اس لفظ کے جو معنی لکھے ہیں اور پرانے مفسرین نے جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے چند مشہور مفسرین کی مختصر تفسیر اور معانی مَیں پیش کرتا ہوں۔ تاج العروس میں لکھا ہے کہ اَلْقُدُّوْس اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک اسم ہے اور اَلْقُدُّوْس کے معنی ہیں اَلَطَّاہِرتمام عیوب و نقائص سے منزہ ہستی۔ اور اَلْمُبَارک، بابرکت جس میں تمام قسم کی برکات جمع ہیں۔ اور اَلتَّقْدِیْس کا مطلب ہے اَلتَّطْہِیْر، اللہ عزّو جل کو پاک اور بے عیب قرار دینا۔

مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اَلتَّقْدِیْساللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی وہ طہارت ہے، وہ پاکیزگی ہے جس کا ذکر ارشاد ربانی وَیُطَھِّرُکُمْ تَطْھِیْرًا میں ہوا ہے اور اس سے مراد ظاہری نجاست کا دُور کرنا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ دوسری آیات سے ثابت ہے، نفس انسانی کی تطہیر کرنا ہے۔

پھر اقرب الموارد میں لکھا ہے کہ قدّوس ایسی ہستی ہے جو پاک اور تمام عیوب و نقائص سے منزّہ و مبرّا ہے۔ بالکل پاک صاف ہے۔ ہر لحاظ سے پاک کی ہوئی ہے۔ پھر اَلْقُدْس کے معنی لکھتے ہیں پاکیزگی اور برکت۔ تقریباً یہی ملتے جلتے معنی لسان العرب میں لکھے ہیں، یہ چند مشہور لغات ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام لغات سے جو معنی اخذ کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اَلْقُدُّوْستمام پاکیزگیوں کا جامع ہے یعنی صرف عیوب سے ہی مبرّا نہیں ہے، صرف عیوب سے ہی پاک نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی خوبیاں بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ وہ پاک ذات ہے جس میں ہر قسم کی پاکیزگی جمع ہے، ہر قسم کے عیب سے وہ پاک ہے، اللہ تعالیٰ کی ہستی میں کسی بھی قسم کے عیب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور کوئی ایسی خوبی نہیں جس کا انسانی عقل احاطہ کر سکے اور اس میں موجود نہ ہوبلکہ وہ تو اُن خوبیوں کا بھی جامع ہے جو اس میں جمع ہیں، جو موجود ہیں اور وہ تمام خوبیاں بھی جن کا انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی اور یہی اس قدوس ذات کی عظمت ہے۔

اب بعض مفسرین کی تفسیر پیش کرتا ہوں جو انہوں نے اس صفت کے تحت کی ہے۔

قرآن کریم میں آتا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو کہا نُقَدِّسُ لَکَ (البقرۃ:31) اس کی وضاحت کرتے ہوئے تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے کہ نُقَدِّسُ لَکَ کا معنی ہے اے اللہ! تمام وہ صفاتِ نقص جو تیرے شایان شان نہیں ہم تجھے ایسی تمام صفات سے پاک قرار دیتے ہیں اور کوئی بھی قبیح بات تیری طرف منسوب نہیں کرتے۔ اس معنی کے اعتبار سے نُقَدِّسُ لَکَ میں لام زائدہ ہے یعنی مضمون کی تاکید کرنے کے لئے ہے۔ اور اگر اس لام کا ترجمہ بھی شامل کیا جائے تو پھر بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ ہم تیری خاطر نماز پڑھتے ہیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اے اللہ! ہم اپنے نفوس کو تیری خاطر یعنی تیری رضا حاصل کرنے کے لئے خطاؤں اور گناہوں سے پاک صاف کرتے ہیں۔ اسی طرح اس بارے میں علامہ فخرالدین رازی لکھتے ہیں وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ(البقرۃ:31) کہ بعض لوگوں نے یہ شبہ اٹھایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کو خلق آدم کے وقت اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا (البقرۃ:31) کہہ کر اللہ تعالیٰ پر اعتراض کیا تھا۔ علامہ فخرالدین رازی اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ شبہ دو وجہ سے باطل ہے، غلط ہے۔ نمبرایک، فرشتوں نے فساد اور خون خرابہ کو مخلوق کی طرف منسوب کیا ہے نہ کہ خالق اللہ تعالیٰ کی طرف۔ اور دوسرے فرشتوں نے اپنے اس قول کے معاً بعد کہا وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ (البقرۃ:31) اور تسبیح کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مادی اجسام والی ہر صفت سے منزّہ قرار دینا، پاک قرار دینا اور تقدیس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے افعال کو مذمت اور نادانی کی صفت سے منزّہ قرار دینا۔

اسی طرح علامہ رازی صفت القدوس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اَلْقُدُّوْس اور القَدُّوس (قاف کی زبر اور پیش دونوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے) یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، افعال و احکام اور اسماء کی پاکیزگی اور بے عیبی کو بیان کرنے کے اعتبار سے بڑا بلیغ ہے۔ اس میں بڑی بلاغت ہے، بڑا وسیع لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بے عیب ہے جیسا کہ لغت میں بھی دیکھا ہے۔ اس کی صفات کو اگر پرکھنا ہے تو صفت قدوس ذہن میں رکھنی چاہئے۔ صفت قدوس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کی اور وضاحت ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ فرمایا کہ قرآن کریم کے معنی کرتے ہوئے (اگر صحیح معنے کرنے ہیں تو) اللہ تعالیٰ کی صفات ضرور دیکھو۔ لیکن ایک گُر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت پر حرف نہ آئے۔ کوئی بھی قرآن کریم کی تشریح کرنی ہے، صفت قدوسیت کو ہمیشہ سامنے رکھو۔ یعنی ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب ہے۔ کوئی ایسی تشریح نہ ہو، کوئی ایسی تفسیر نہ ہو جس سے اللہ تعالیٰ کے بے عیب ہونے پر حرف آتا ہو۔ اس کا ہر فعل اور ہر حکم اسی صفت کے تحت بے عیب اور پاک ہے۔ تفسیر روح البیان میں وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَکے تحت لکھا ہے، ہم قسم ہا قسم کی نعمتوں پر جن میں سے ایک نعمت اس عبادت کی توفیق ملنا بھی ہے، تیری حمد کرتے ہوئے تجھے ہر اس بات سے پاک قرار دیتے ہیں جو تیرے شایان شا ن نہیں۔ اس اعتبار سے تسبیح صفات جلال کے اظہار کے لئے اور حمد صفات انعام کے اظہار کے لئے ہے۔ وَنُقَدِّسُ لَکَ کے معنی لکھتے ہیں یعنی رفعت و عزت کا جو بھی معنی تیرے لائق شان ہے اسے ہم تیرے حق میں بیان کرتے ہیں اور جو تیرے لائق شان نہیں، اس سے تجھے منزّہ قرار دیتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button