از افاضاتِ خلفائے احمدیت

خدا تعالیٰ کی صفت السلام

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍ مئی ۲۰۰۷ء)

اللہ تعالیٰ کا ایک نام اَلسَّلَام ہے۔ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے اس لفظِ سَلَامکو مختلف پیرایوں میں استعمال فرمایا ہے۔ اپنی صفت کے حوالے سے بھی بیان فرمایا ہے اور مومنوں کو اس صفت کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بھی فرمایا ہے۔

اس کے معانی مختلف مفسرین اور اہل لغت نے کئے ہیں، تفسیر الطبری میں علامہ ابو جعفر محمد کہتے ہیں کہ اَلسَّلَام وہ ذات ہے جس کی مخلوق اس کے ظلم سے محفوظ رہے۔

پھر ابوالحسن الترمذی کے نزدیک اَلسَّلَاماللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اَلسَّلَاماس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر نقص، عیب اور فنا سے سلامت ہے۔ جبکہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک وجہ تسمیہ یہ ہے یعنی اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان آفتوں سے سلامت ہے جو دوسروں کو تغیر اور فنا وغیرہ کی پہنچتی رہتی ہیں۔ نیز یہ کہ وہ ایسا باقی رہنے والا دائمی وجود ہے کہ تمام مخلوقات فنا ہو جائیں گی مگر اس پر فنا نہیں۔ وہ ہر ایک چیزپر دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔

پھر تفسیر رُوح البیان میں لکھا ہے اَلسَّلَامہر قسم کی آفت اور نقص سے محفوظ ہے، تمام تر نقائص سے پاک ہونے کی وجہ سے اور سلامتی عطا کرنے میں بڑھا ہوا ہونے کی وجہ سے اُسے اَلسَّلَامکہا گیا ہے۔ اور اَنْتَ اَلسَّلَامحدیث میں آتا ہے، (ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما یقول اذا سلم من الصلاۃ حدیث:300) نماز کے بعدجو دعا پڑھتے ہیں اس میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تُو وہ ذات ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور ہر قسم کے نقص اور کمی سے مبرّا ہے۔ اور حدیث میں جو یہ ہے کہ مِنْکَ اَلسَّلَامتو اس سے مراد یہ ہے کہ تُووہ ذات ہے جو ایک بے کس شخص کو ناپسندیدہ اور تکلیف دِہ امور سے محفوظ کرتی ہے اور دونوں جہانوں کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے چھٹکار ادلاتی ہے اور تُو وہ ذات ہے جو ایمان لانے والوں کے گناہوں اور عیوب کی پردہ پوشی کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت والے دن کی رسوائی سے سلامتی میں ہوں گے۔ یہ لکھتے ہیں کہ مِنْکَ اَلسَّلَاما ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں مومنوں پر سلامتی کا تحفہ عطا کرتاہے۔ جیسا کہ فرمایا سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْم یعنی ان کو سلام کہا جائے گا جو بار بار کرم کرنے والے ربّ کی طرف سے ان کے لئے پیغام ہو گا۔ تو اس لفظ سَلَام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مکمل حفاظت کا پیغام اور وعدہ دے دیا ہے۔ اُس خدا کی طرف سے جو رحم کرنے والا خدا ہے اور بار باررحم کرنے والا خداہے۔ یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے لیکن ایک عظیم پیغام اپنے اندر رکھتی ہے کہ اس سلامتی کے تحفے کو حاصل کرنے کے لئے، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بننے کے لئے اور اگلے جہان میں بھی اس سے فیض پانے کے لئے تم بھی اپنے اندر، آپس میں، یہ روح پیدا کرو۔ آپس کے تعلقات میں یہ روح پیدا کرو۔ ایک دوسرے کو سلامتی بھیجو تو یہ تحفہ تمہیں ملتا رہے گا۔ پھر اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپس کی سلامتی کے تحفے سے جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے جنت میں جگہ پاؤ گے وہاں اس دنیا میں بھی سلامتی کی وجہ سے اپنے روح و دماغ کو بھی امن میں رکھو گے اور تمہارے لئے، اپنی ذات کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی مکمل خوشی پہنچانے والی چیز ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بھی یہ ایک عظیم راستہ ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک سَلَام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں رکھا ہے اس لئے تم آپس میں سَلَامکو پھیلاؤ۔ (الادب المفرد لامام بخاری ؒ باب السلام من اسماء اللہ عز وجل حدیث نمبر 1019)

پس یہ سلام کو پھیلانا، آپس کی محبت پیدا کرنے کا اور معاشرے میں امن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لئے بے شمار مواقع پر، آنحضرتﷺ نے آپس کے محبت و پیار کو قائم کرنے کے لئی سَلَام کو رواج دینے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس خدا کا سَلَام حاصل کرنے کے لئے ہم اپنے معاشرے میں بھی حقیقی سلامتی پھیلانے والے بنیں گے تو تبھی اس کو حاصل کرنے والے ہو سکیں گے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کونسا اِسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا : تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ اَلسَّلَام عَلٰی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِفْ۔ پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تم کھانا کھلاؤ اور دوسری یہ ہے کہ سلام کہو ہر اُس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے۔ (بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر 12)

پھر ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’تم سے پہلی قوموں کی بیماریاں تم میں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی ہیں۔ یعنی بغض اور حسد‘‘۔

اب یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس زمانے میں بھی غور کریں تو یہ چیزیں بھی دوبارہ داخل ہو رہی ہیں بلکہ ایک انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس پیغام کو لے کے آئے تھے اس میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ تھی اس میں بھی بغض اور حسدایک بہت بڑی چیز ہے جو حقوق ادا نہ کرنے کی ایک وجہ بنتی ہے۔ تو جماعت کو ہمیشہ اس سے محفوظ رہنا چاہئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button