یادِ رفتگاں

حضرت ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کینیا (مشرقی افریقہ)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

حضرت سید ولایت شاہ صاحب رضی اللہ عنہ ولد پیر حسین شاہ صاحب قوم سید فاروقی، اصل میں میراں پنڈی ڈاک خانہ سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔تقریباً ۱۸۸۲ء میں پیدا ہوئے۔۱۸۹۷ء میں آپ امریکن مشن ہائی سکول میں پڑھتے تھے جہاں آپ کو جماعت احمدیہ سے آگاہی ہوئی اور احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ ابتدا میں آپ سکول ماسٹر تھے بعد میں ذاتی محنت اور جدوجہد سے ڈاکٹری کی طرف توجہ کی اور لاہور میڈیکل سکول سے ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۱۳ء میں آپ کینیا (مشرقی افریقہ) چلے گئے اور باقی ساری عمر وہیں گذاری، درمیان میں چند سال قادیان میں بھی قیام کیا۔ آپ اپنی قبول احمدیت کی ایمان افروز داستان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’میں۱۸۹۷ءمیں شہر سیالکوٹ کے امریکن مشن ہائی سکول کی پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کرتا تھا پہلے بورڈنگ ہاؤس میں رہتا تھا پھر اپنے انگریزی کے استاد کی سفارش پر آغا محمد باقر خان صاحب قزلباش رئیس کے ہاں ان کے دو برادران خورد کا ٹیوٹر مقرر ہوا اور ایک الگ چوبارہ رہائش کے واسطے دیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی کی نسبت سنا ہوا تھا لیکن چونکہ یہ اپنے پرانے رسمی عقائد کے مطابق نہ تھے اس لیے تحقیق کی طرف بھی توجہ نہ دی علاوہ ازیں عوام کچھ ایسے غلط پیرائے میں حضرت اقدس کی تعلیم پیش کرتے تھے کہ دل میں نفرت پیدا ہوگئی تھی۔

کچھ دنوں کے بعد شہر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور کثرت سے لوگ مرنے لگے۔ ایک دن نیچے بازار میں دیکھا تو کئی جنازے اور ارتھیاں گذر رہی تھیں اور ان کے لواحقین ماتم کرتے جا رہے تھے۔ اس عبرت ناک نظارے سے مجھے خیال آیا کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے ممکن ہے کہ مجھ پر بھی حملہ کردے اور اگر خدا نخواستہ موت آجائے تو مجھ جیسا نالائق انسان خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سے نیک اعمال پیش کرے گا پھر اعمال حسنہ تو ایک طرف رہے چھوٹی سی عمر میں اپنے گاؤں کی مسجد میں پڑھا ہوا قرآن کریم بسبب تلاوت نہ جاری رکھنے کے بھول چکاہے، یہ درست ہے کہ میں اپنی کلاس میں اوّل ہوں لیکن عقبیٰ میں یہ تو نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے انگریزی و حساب وغیرہ میں کتنے نمبر حاصل کیے؟ اس خیال سے اتنی ندامت محسوس ہوئی کہ دل میں مصمم ارادہ کرلیا کہ قرآن شریف کو از سرِ نو کسی نہ کسی سے ضرور صحیح طور پر پڑھوں گا۔ پہلے خود قرآن کریم کو کھول کر پڑھا لیکن یقین نہ آیا کہ میں بالکل صحیح پڑھ رہا ہوں اس کے بعد سوچا کہ کسی مسجد کے ملاں سے پڑھوں لیکن ساتھ ہی یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ وہ کہے گا کہ تم اتنے بڑے ہوگئے ہو قرآن شریف بھی پڑھنا نہیں جانتے! آخرکار یہ ترکیب سوجھی کہ اگر کہیں کلام اللہ کا درس دیا جاتا ہو تو وہاں جاکر میں بھی بیٹھ کر قراءت سنتا رہوں اور صحیح قراءت کے علاوہ ترجمہ بھی سیکھ جاؤں۔ اِدھر اُدھر سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سوائے احمدیہ مسجد کے اور کہیں درس نہیں ہوتا۔ میں نے دل میں کہا کہ خیر قرآن کریم سن لیا کروں گا ان کے عقائد اور تعلیم کے بارہ میں بالکل توجہ نہیں دوں گا۔ جب میں جانے لگا تو آغا صاحب نے روکا اور کہنے لگے کہ اگر تم وہاں گئے تو ضرور مرزائی ہوجاؤ گے۔میں نے اُن کو یقین دلایا کہ میں مرزائی بننے نہیں جارہا صرف قرآن شریف سننے جا رہا ہوں، وہ نہ مانے۔ لیکن اگلے دن موقعہ پاکر میں مسجد احمدیہ میں پہنچ گیا، حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم ان دنوں درس دیا کرتے تھے میں بلا ناغہ ہر روز درس میں حاضر ہوجاتا تھا اور حقائق و معارف سنتا رہتا تھا۔ جب کبھی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم قادیان سے آکر درس دیتے تھے تو ان کے رعب کی وجہ سے ہمارے غیر احمدی استاد بھی درس میں حاضر ہوجاتے تھے۔ گو مجھے خاص طور پر تبلیغ نہیں کی گئی لیکن قرآن کریم کے درس کے دوران میں ہی میرے سب شکوک رفع ہوگئے اور معلوم ہوگیا کہ سلسلۂ احمدیہ پر سب الزامات بے بنیاد ہیں۔ ان میں ذرا بھی صداقت نہیں۔ آخر میں نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ چند دنوں کے (بعد) منظوری کا جواب آگیا اور میں خوش قسمتی سے احمدیت کی آغوش میں آگیا۔

میں تحدیث نعمت کے طور پر عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے مجھے شریف خاندان میں پیدا کیا، ڈاکٹری ایسا شریف پیشہ سیکھنے کی توفیق دی، میری اکثر دعائیں قبول فرمائیں سب مرادیں پوری کیں، رزق دیا، اولاد دی اور سب سے بڑھ کر جو نعمت عطا فرمائی وہ نبی آخر الزماں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی شناخت تھی جس سے احمدی بننے کا فخر حاصل ہوا، آغا صاحب کی بات سچی نکلی لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں سیدھے رستے پڑ گیا۔اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلمات طیبات جو حضرت کی زبان مبارک سے سنے،کی نسبت کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ۱۹۰۶ء میں جب میں بلوچستان سے سکول ماسٹری چھوڑ کر لاہور میڈیکل سکول میں داخل ہونے کے لیے آیا تو داخلہ ہوچکا تھا لیکن ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی سفارش سے ڈاکٹر پَیری نے ملٹری کلاس میں داخل کرنا منظور کر لیا، پڑھائی شروع ہوئی ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ سیکنڈ، تھرڈ اور فورتھ ایئر والوں نے بعض شکایات کی وجہ سے ہڑتال کردی اور سکول جانا چھوڑ دیا جب میں نے کہا کہ ہم فرسٹ ایئر والوں کو کوئی شکایت نہیں تو ہم کس طرح ہڑتال میں شامل ہوں تو وہ قہر کی نظروں سے دیکھنے اور دھمکانے لگے اس پر ہمیں بھی شمولیت کے لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ نہ شامل ہونے والوں کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاتا تھا، پرنسپل صاحب نے جب بورڈنگ ہاؤس سے نکال دیا تو رائے میلارام نے ہم کو اپنی ایک کوٹھی رہنے کے واسطے دے دی۔ جب ہڑتال طول پکڑ گئی تو میں نے اور شیخ عبدالحکیم صاحب بسمل نے جو میرے ہم جماعت تھے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب سے پوچھا کہ داخل ہوجائیں یا نہ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم کچھ نہیں کہتے بڑے گھر جاؤ اور پوچھ آؤ۔ ہم رات کے دو بجے چوری چوری کوٹھی سے بھاگے اور اگلی صبح قادیان روانہ ہوگئے مسجد مبارک میں پہنچے تو اپنا ماجرا بیان کیا، حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی گئی تو حضور تشریف لائے اور ہمیں مخاطب کر کے فرمایا کہ میں ہڑتال کو بغاوت خیال کرتا ہوں اگر تم لوگوں کو کچھ شکایات ہیں تو لکھ کر با ادب پیش کرو، اگر تم میرے مرید ہو تو واپس جاؤ اور سکول میں داخل ہوجاؤ ہم دونوں واپس آگئے اور اگلے دن کالج کے احاطہ کی پچھلی دیوار پر چڑھ کر اندر داخل ہوئے اور اپنے نام پھر درج رجسٹر کرائے، سامنے پھاٹک سے اندر جانا ناممکن تھا اگر کوئی بند گاڑی میں بھی بیٹھ کر جاتا تھا تو پکٹنگ والے ڈنڈوں سے گھوڑے، کوچوان اور سواریوں کا منہ توڑ دیتے تھے۔ چند دنوں کے بعد سارے طلباء داخل ہوگئے، سرغنے اور مانیٹر سکول سے نکال دیے گئے اور پڑھائی پھر شروع ہوگئی یہ ہڑتال کامیاب ہوئی سب شکایات رفع کردی گئیں۔‘‘(رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱ صفحہ ۱۷۳-۱۷۷ )

۱۹۱۳ء میں آپ کینیا مشرقی افریقہ تشریف لے گئے وہاں پر ہی گورنمنٹ ملازمت سے بطور اسسٹنٹ سرجن ریٹائر ہوئے اور پھر وہیں رہے۔ ۱۹۳۰ء میں نیروبی میں مسجد احمدیہ کی تعمیر ہوئی جس کے اخراجات میں مقامی احباب نے بڑی فراخ دلی سے حصہ لیا حضرت ڈاکٹر صاحب نے بھی اس سلسلے میں ۴۰۰ شلنگ ادا کیے۔(الفضل ۲۸؍فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰) حضرت ڈاکٹر صاحب نے ۲۸؍نومبر ۱۹۶۵ء کو تقریباً ۸۳ سال کی عمر میں نیروبی (کینیا) میں وفات پائی اور نیروبی کے احمدیہ قبرستان میں دفن ہوئے۔ (الفضل ۵؍ دسمبر ۱۹۶۵ء) آپ خدا کے فضل سے تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے آپ کا نام اسماء مجاہدین نیروبی (مشرقی افریقہ) کے تحت ۵۴۸۵ نمبر پر درج ہے آپ کے اُنیس سالہ چندے کی کُل رقم ۸۳۴۰ روپے ہے آپ کے ساتھ ہی ۵۴۸۶ نمبر پر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے ۱۸۹۵روپے چندے کا ذکر ہے۔ آپ کی اہلیہ کا نام محترمہ امیر بیگم صاحبہ تھا جنہوں نے ۲۷؍ مئی ۱۹۷۹ء کو انگلستان میں وفات پائی، آپ کی اولاد میں: ۱۔ سید محمد اقبال شاہ صاحب ۲۔ ڈاکٹر سید محمد انور شاہ صاحب ۳۔ سید محمد سرور شاہ صاحب ۴۔ سید بشیر احمد شاہ صاحب ۵۔ سید نصیر احمد شاہ صاحب ۶۔ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ ۷۔ محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید ناصر احمد شاہ صاحب ابن حضرت سید ناصر شاہ صاحب یکے از ۳۱۳ اصحاب احمد شامل ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button