حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رشتہ کے متعلق رائے اور دعا
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میری پہلی شادی کی تیاری ہوئی تو میں دہلی کے شفاخانہ میں ملازم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے متعلق خط و کتابت ہوتی تھی۔ مَیں پہلے اس جگہ راضی نہ تھا۔ آپ نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ لڑکی کے اخلاق اچھے نہیں ہیں تو پھر بھی تم اس جگہ کو منظور کر لو۔ اگر اس کے اخلاق پسندیدہ نہ ہوئے تو میں ان شاء اللہ اس کے لئے دعا کروں گا۔ جس سے اس کے اخلاق درست ہو جائیں گے۔
حضور کے خط کی نقل یہ ہے:
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
۳۱ /اگست ۱۹۰۵ء
عزیزی میر محمدؐ اسمٰعیل سلمہ تعالےٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ: میں نے تمہارا خط پڑھا۔ چونکہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ بات ضروری ہے کہ جو امر اپنے نزدیک بہتر معلوم ہو اس کو پیش کیا جائے۔ اس لئے میں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو طرح طرح کی بدچلنیوں کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نسل خراب ہو گئی ہے۔ لڑکیوں کے بارے میں مشکلات پیدا ہوگئی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ بڑی بڑی تلاش کے بعد بھی اجنبی لوگوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے کئی بد نتیجے نکلتے ہیں۔ بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے باپ یا دادوں کو کسی زمانہ میں آتشک تھی اور کئی مدت کے بعد وہ مرض ان میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض لڑکیوں کے باپ دادوں کو جذام ہوتا ہے تو کسی زمانہ میں وہی مادہ لڑکیوں میں بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض میں سل کا مادہ ہوتا ہے۔ بعض میں دِق کا مادہ اور بعض کو بانجھ ہونے کی مرض ہوتی ہے اور بعض لڑکیاں اپنے خاندان کی بدچلنی کی وجہ سے پورا حصہ تقویٰ کا اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ ایسا ہی اور بھی عیوب ہوتے ہیں کہ اجنبی لوگوں سے تعلق پکڑنے کےوقت معلوم نہیں ہوتے۔ لیکن جو اپنی قرابت کے لوگ ہیں۔ ان کا سب حال معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے میری دانست میں آپ کی طرف سے نفرت کی وجہ بجُز اس کے کوئی نہیں ہو سکتی کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ بشیر الدین کی لڑکی دراصل بد شکل ہے یا کانی یعنی یک چشم ہے یا کوئی ایسی اور بدصورتی ہے جس سے وہ نفرت کے لائق ہے لیکن بجُز اس کے کوئی عذر صحیح نہیں ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکیوں کے اپنے والدین کے گھر میں اور اخلاق ہوتے ہیں اور جب شوہر کے گھر آتی ہیں تو پھر ایک دوسری دُنیا ان کی شروع ہوتی ہے۔ ماسوا اس کے شریعت اسلامی میں حکم ہے کہ عورتوں کی عزت کرو اور ان کی بد اخلاقی پر صبر کرو اور جب تک ایک عورت پاک دامن اور خاوند کی اطاعت کرنے والی ہو۔ تب تک اس کے حالات میں بہت نکتہ چینی نہ کرو۔ کیونکہ عورتیں پیدائش میں مردوں کی نسبت کمزور ہیں۔ یہی طریق ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی بد اخلاقی برداشت کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنی عورت کو تیر کی طرح سیدھی کر دے وہ غلطی پر ہے۔ عورتوں کی فطرت میں ایک کجی ہے۔ وہ کسی صورت سے دُور نہیں ہو سکتی۔ رہی یہ بات کہ سید بشیرالدین نے بڑی بداخلاقی دکھلائی ہے۔ اس کا یہ جواب ہے کہ جو لوگ لڑکی دیتے ہیں۔ ان کی بداخلاقی قابل افسوس نہیں۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیشہ سے یہی دستور چلا آتا ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے اوائل میں کچھ بد اخلاقی اور کشیدگی ہوتی ہے اور وہ اس بات میں سچے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگر گوشہ لڑکی کو جو ناز و نعمت میں پرورش پائی ہوتی ہے۔ ایک ایسے آدمی کو دیتے ہیں۔ جس کے اخلاق معلوم نہیں۔ اور وہ اس بات میں بھی سچے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکی کو بہت سوچ اور سمجھ کے بعد دیں۔ کیونکہ وہ ان کی پیاری اولاد ہے اور اولاد کے بارہ میں ہر ایک کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے اور جب تم نے شادی کی اور کوئی لڑکی پیدا ہوئی۔ تو تم بھی ایسا ہی کرو گے۔ لڑکی والوں کی ایسی باتیں افسوس کے لائق نہیں ہوا کرتیں۔ ہاں جب تمہارا نکاح ہو جائے گا۔ اورلڑکی والے تمہارے نیک اخلاق سے واقف ہو جائیں گے تو وہ تم پر قربان ہو جائیں گے۔ پہلی باتوں پر افسوس کرنا دانائی نہیں۔ غرض میرے نزدیک اور میری رائے میں یہی بہتر ہے کہ اس رشتہ کو مبارک سمجھو۔ اور اس کوقبول کر لو۔ اور اگر ایسا تم نے کیا تو میں بھی تمہارے لئے دُعا کروں گا۔ اپنے کسی مخفی خیال پر بھروسہ مت کرو۔ جوانی اور نا تجربہ کاری کے خیالات قابلِ اعتبار نہیں ہوتے۔ موقعہ کو ہاتھ سے دیناسخت گناہ ہے۔ اگر لڑکی بداخلاق ہوگی تو میں اس لئے دعا کر دوں گا کہ اس کے اخلاق تمہاری مرضی کے موافق ہو جائیں گے اور سب کجی دُور ہو جائے گی۔ ہاں اگر لڑ کی کو دیکھا نہیں ہے تو یہ ضروری ہے کہ اول اس کی شکل و شباہت سے اطلاع حاصل کی جائے۔ لڑکپن اور طفولیت کے زمانہ کی اگر بدشکلی بھی ہو تو وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ اب شکل وصورت کا زمانہ ہے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ شکل پر تسلی کر کے قبول کر لینا چاہئے۔ مولود بےشک پڑھے۔ آخر وہ تمہارا ہی مولود پڑھے گی حرج کیا ہے۔
والسلام مرزا غلام احمد
(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم روایت نمبر۸۰۹ صفحہ نمبر ۷۳۶-۷۳۸)
(مرسلہ:م۔ا۔شاہد)