مہمان نوازی

(م۔ ا۔ شہزاد)

خداتعالیٰ کی پیدا کردہ اس حسین کائنات کا اصل حسن اس میں بسنے والی اشرف المخلوقات کے وہ بہترین اخلاق ہیں جو ابن آدم کے لیے جائے فخر اور انسانیت کا زیور ہیں۔انہی نمایاں اخلاق میں سے ایک خلق مہان نوازی ہے۔اس عظیم خلق کے بارے میں خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتاہے:فَرَاغَ اِلٰی اَھْلِہٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْن…(الذاریات:۲۷)ترجمہ:وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔

جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ

حضرت ابوہریرؓہ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے کہ جس پر عمل کرنے لگوں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ سلام کو رواج دو، کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور اس وقت نماز پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں تو پھر سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤگے۔(ترمذی ابواب صفة القیمة حدیث نمبر ۲۴۸۵)

مشرک مہمان مسلمان ہوگا

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں : کوئی شخص عیسائی ہمارے نبیﷺ کے پاس آیا۔ حضرت نے اس کی بہت تواضع و خاطرداری کی۔ وہ بہت بھوکا تھا۔ حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا۔ رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی۔ جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا اور رضائی میں ہی کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے۔ شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کر گیا ہے…. حضرت نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ مَیں صاف کروں۔لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ہم جو حاضرہیں، ہم صاف کر دیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا، اس لئے میرا ہی کام ہے اور اٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف کرنے لگے۔ وہ عیسائی جب کہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیا کہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چارپائی پر بھول آیا ہوں۔ اس لئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں۔ اس کو ندامت آئی اور کہاکہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو مَیں کبھی اس کو نہ دھوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔پھر وہ مسلمان ہو گیا۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ۳۷۱-۳۷۰ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

عرش کا خدا بھی مہمان نوازی سے خوش ہو گیا

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمﷺکے پاس آیا۔ آپ نے اپنی ازواج کی طرف پیغام بھجوایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں۔اس پررسول اللہؐ نے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جوآج رات اس شخص کی مہمان نوازی کرے اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پائے۔ایثار پیشہ ابو طلحہؓ انصاری کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے خد اکے رسول! میں اس مہمان کی ضیافت کے لیے حاضر ہوں۔ چنانچہ اس مہمان کو وہ اپنے گھر لے گئے۔ اپنی بیوی حضرت اُم سُلیم سے کہا یہ رسول خداﷺ کا مہمان ہے۔ اس کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا اور اس کا پورا پورا اکرام کرنا۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم !آج تو بمشکل بچوں کے لیے کھانا موجودہے ہمارے اپنے کھانے کو بھی کچھ نہیں۔حضرت ابو طلحہؓ نے کہا کوئی بات نہیں آج بچوں کو بھوکا رکھ لیں گے۔ جب وہ کھانا مانگیں تو انہیں بہلا پھسلا کر سلا دو اور مہمان کے لیے کھانا بچا رکھو۔ ساتھ یہ ہدایت کی کہ جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو حکمت عملی سے دیا بجھا دینا تاکہ خداکے رسول کا مہمان سیر ہوکر کھا سکے ہم بھوکے گزارا کرلیں گے۔ مہمان کی عزت کی خاطر اس کا ساتھ دینے کے لیے ہم خالی منہ ہلاتے رہیں گے۔ پردہ کے حکم سے پہلے عربوں میں اہل خانہ کے ساتھ کھانے میں شرکت کو اکرام ضیف کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔چنانچہ میاں بیوی مہمان کے ساتھ بیٹھ تو گئے کہ اس پہلو سے بھی مہمان کے اکرام میں فرق نہ آئے مگر کھانا ایک آدمی کا تھا۔ حضرت امّ سُلیمؓ کھانا رکھ کر چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے اُٹھیں اور اسے بجھا دیا۔ پھر دونوں میاں بیوی مہمان کے ساتھ خالی منہ ہلا کر یہ ظاہر کرتے رہے کہ کھانا کھارہے ہیں حالانکہ خالی مچاکے لیتے رہے مہمان کو خدا اور اس کے رسول کی خاطر پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اور خود بھوکے پیٹ رات بسر کی۔ایثار و قربانی او ر اخلاص و فدائیت کا یہ عظیم الشان نمونہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی ان سے اتنا خوش ہوا کہ آنحضرتﷺ کو اس واقعہ کی خبر کردی۔صبح ہوئی اور ابو طلحہؓ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا آج رات عرش کا خدا تم دونوں میاں بیوی کے اخلاص و ایثار اور محبت کا یہ نمونہ دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں۔اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ (بخاری، کتاب المناقب قول اللہ باب و یوثرون علی انفسہم….)

مہمان کے لیے خود کو قربان کر دیا

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں:ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنین حیران ہو رہی تھیں کہ سارا مکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پُر ہے اب ان کو کہاں ٹھہرایا جائے۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصّہ سنایا۔ چونکہ مَیں بالکل ملحقہ کمرے میں تھا اور کواڑوں کی ساخت پرانے طرز کی تھی جن کے اندر سے آواز بآسانی دوسری طرف پہنچتی رہتی ہے۔ اس واسطے مَیں نے اس سارے قصّہ کو سنا۔ فرمایا۔ دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہوگئی۔ رات اندھیری تھی۔ قریب کوئی بستی اُسے دکھائی نہ دی اور وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ رہا۔ اُس درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا۔ پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو! یہ مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمین پر آ بیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کرکے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈی رات ہے اور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں، ہم اپنا آشیانہ ہی توڑ کر نیچے پھینک دیں تاکہ وہ ان لکڑیوں کو جلاکر آگ تاپ لے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور سارا آشیانہ تنکا تنکا کرکے نیچے پھینک دیا۔ اس کو مسافر نے غنیمت جانا اور اُن سب لکڑیوں کو تنکوں کو جمع کرکے آگ جلائی اور تاپنے لگا۔ تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے اپنے مہمان کو بہم پہنچائی اور اُس کے واسطے سینکنے کا سامان مہیا کیا۔ اب ہمیں چاہئے کہ اُسے کچھ کھانے کو بھی دیں۔ اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں۔ہم خود ہی اس آگ میں جا گریں اور مسافر ہمیں بھون کر ہمارا گوشت کھالے۔ چنانچہ اُن پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا۔‘‘(ذکرحبیب صفحہ ۸۵ تا ۸۷ مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ)

مہمان نوازی یہی ہے

حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:مہمان نوازی ایک ایسا وصف ہے جس کا خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کی مہمان نوازی کے ذکر میں فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوا سَلٰمًا۔ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ(ھود:۷۰)اور یقیناً ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوشخبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کہا، اس نے بھی سلام کہا اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ پس مہمان نوازی یہی ہے کہ اپنے عمل سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہ ہو کہ مہمان آ گیا تو مصیبت پڑ گئی۔ بلکہ مہمان کو پتہ بھی نہ چلے اور اس کی خاطر مدارات کا سامان تیار ہو جائے۔ جو بہترین کھانا میّسر ہو، جو بہترین انتظام سامنے ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے۔رہائش کاجو بہترین انتظام مہیا ہو سکتا ہے، مہمان کے لئے مہیا کیا جائے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ضروراتنی خاطر داری ہو کہ ایک دو مہمان آئے ہیں تو بے تحاشا کھانا تیار کیا جائے، بچھڑے کی مہمان نوازی کے بغیر اس کا حق ادانہیں ہو سکتا یا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔ اُس زمانے میں وہ لوگ بھیڑ بکریاں پالنے والے تھے، بازار تو تھے نہیں کہ بازار گئے اور چیز لے آئے، بھیڑیں موجود تھیں اور وہی فوری طور پر میسر آ سکتی تھیں تو اصل چیز اس میں یہ ہے کہ مہمان سے بغیر پوچھے کہ کھانا کھا ئیں گے یا نہیں اس کی مہمان نوازی کے سامان تیار کر لئے جائیں۔…. آپ کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے۔ کھجوریں میسر ہوئیں تو وہ بھی پیش کیں۔ اگر گوشت یاکوئی اور اچھا کھانا ہے تو وہ مہمانوں کو کھلا دیا۔ تو اصل اسلامی خلق جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے خوش دلی سے مہمان نوازی کرنا ہے۔ مہمان کو یہ احساس نہ ہو کہ میرا آنا میزبان کے لئے بوجھ بن گیا ہے۔ بلکہ حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں نے تو یہ محسوس کیا کہ کھانے کی طرف ہمارا ہاتھ نہ بڑھنا حضرت ابراہیمؑ کے دل میں تنگی پیدا کر رہا ہے۔ جس کی پھر انہوں نے وضاحت بھی کی کہ ہم لوطؑ کی طرف جا رہے ہیں۔ تو یہ اسلامی خلق ایسا ہے کہ ہر مسلمان کو اس کو اپنانا ضروری ہے۔ مختلف رنگ میں دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ پس یہ ایسی تعلیم ہے جس کا ایک احمدی کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍جولائی ۲۰۰۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ ۱۰؍اگست ۲۰۰۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button