یادِ رفتگاں

مکرم محمد داوٴد صاحب مرحوم سابق سیکرٹری اُمورعامہ جرمنی کا ذکر خیر

(عطاالقدوس اُسامہ۔ کینیڈا)

مکرم محمد داوٴد صاحب کی پیدائش ۱۹۲۸ء میںضلع سیالکوٹ کی ہے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے تایا حضرت نبی بخش صاحب ؓکے ذریعہ آئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ داوٴد صاحب کے بچپن میں ان کے والدین ہجرت کر کے قادیان چلے گئے تھے۔ اس طرح آپ کا بچپن قادیان کے روح پرور ماحول میں گزرا۔ آپ نے تعلیم قادیان سے مکمل کی اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے دفترپرائیویٹ سیکرٹری میں خدمت دین شروع کی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ پہلے لاہورپھر ربوہ منتقل ہوگئےاور خدمت دین کا سلسلہ جاری رکھا۔

آپ ۱۹۸۷ء میں جرمنی آئے اور حلقہ ڈٹسسن باخ میں رہائش اختیار کی۔ میرا ان سے تعارف و تعلق سنہ ۱۹۹۵ء سے ہے جب آپ محمد عاقل خان صاحب کے ساتھ دفتر اُمورعامہ میں خدمت کے لیے آتے تھے۔ بعد اَزاں آپ سیکرٹری اُمورعامہ منتخب ہو گئے۔ شعبہ اُمور عامہ کی زندگی میں مختلف دفتری معاملات کو دیکھنا، سمجھنا، اور مختلف طرح کے لوگوں سے بات چیت کرنا، اسی طرح مرکز سے خط و کتابت کرنا یہ سب کام بہت مشکل نوعیت کے ہوتے تھے جنھیں آپ بہت خوش اسلوبی سے کرتے تھے۔

مکرم محمد داوٴد صاحب کی شخصیت ایک ایسے اُستاد کی مانند تھی جو اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو دفتری کام اس خوش اسلوبی سے سمجھاتے تھے کہ شاگرد کو اپنی کم فہمی کا احساس بھی نہیںہوتا تھا۔ ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ان کی شاگردی میں گزارے اور زندگی گزارنے کے کئی اسلوب ان سے سیکھے۔ بعض اوقات اپنے انداز خطابت سے ایسی سمجھانے والی بات کہہ دیتے کہ سننے والا یک دم عقل کو ہاتھ مارتا۔ لیکن ان کا بات کرنے کا انداز ہمیشہ ہلکا پھلکا ہوتاجس میں حُسن ظرافت کا پہلو ہمیشہ نمایاں رہتا تھا۔ بات ہمیشہ مسکراتے ہوئے کرتے سنجیدہ سے سنجیدہ بات بھی اس طرح کرتے کہ دوسرے انسان کو سمجھ آجاتی۔ ان کی یہ مسکراہٹ ان کے ماتحت کام کرنے والوں میں مزید تقویت کا باعث بنتی تھی۔

ان کی شخصیت میں بہت سادگی تھی۔ ہمیشہ سچے دل سے خدمت کو بجا لانا ان کا وصف تھا۔ ہمیشہ یہ رسول کریمﷺ کے فرمان سَیِّدُ القَومِ خادِمُهُم یعنی قوم کا سردارقوم کا خادم ہوتا ہےاس روح کے ساتھ خدمت کرتے تھے۔ ان کی اصل نظر خدمت اور خلافت کی اطاعت پر ہوتی تھی۔ ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ محبت کے جذبہ سے سرشاراور سچے خادم بن کر جماعت کی خدمت کرو۔ خدمت چاہے چھوٹی ہو یا بڑی آپ کا یہ فرض ہے کہ بس جماعت کی خدمت کرو! قبول اللہ نے کرنی ہے۔ یہ سب آپ کی شخصیت میں قادیان کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے تھا جہاں آپ نے اپنا بچپن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور اُس دور کے بزرگوں کی صحبت میں گزارااور قدرتی طور پر یہ تمام اچھے اوصاف آپ کی شخصیت میںجھلکتے تھے۔ بعض اوقات دفتر اُمور عامہ میں مختلف تنازعات میں گھرے ہوئے لوگ اپنی کم فہمی کی بنا پر سخت جملے بول جاتے تھے مگرآپ سختی کا جواب ہمیشہ نرمی سے دیتےاور درگزر فرماتے۔اس اُصول پر خدمت بجا لاتے کہ اگر کوئی سخت بول بھی گیا ہےتو کوئی بات نہیں میرا کام تو بس خدمت کرنا ہے۔

بحیثیت سیکرٹری اُمورعامہ طرح طرح کے مزاج رکھنے والے لوگوں سے ملنا اور بات چیت کرنا اور فریقین کو قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل جواب عنایت کرنا اس سلسلہ میں مکمل طور پر انسانی نفسیات کو سمجھنے پرکھنے کا آپ کو وسیع تجربہ تھا۔

آپ کا دفتری طرزتحریر بہت ہی دلچسپ ہوتا تھا۔ ایک کہنہ مشق اُستاد کی طرح خط و کتابت کرتے وقت ادب و شائستگی کے ساتھ ایسے سِکہ بند جملے تحریر کرتے کہ بعض اوقات گمان ہوتا تھا کہ اُردو ادب لکھنو سے اُٹھ کر جرمنی چلا آیا ہے۔ ادب و شائستگی آپ کی تحریر کا نمایاں پہلو ہوتا تھا۔

اپنے کام بہت ذمہ داری سے کرتے ۔ جن دنوں دفتر اُمورعامہ ناصر باغ گرؤس گیراؤ میں ہوا کرتا تھا یہ دو گھنٹے کا طویل سفر بذریعہ ٹرین اور پھر اسٹیشن سے ناصر باغ چار سے پانچ کلو میٹر پیدل چل کر دفتر آتے ۔ اپنے فرائض کی ادئیگی کے واسطے کبھی سُست نہ پڑتے اور بلا ناغہ دفتر آتے۔ جب دفتر آتے تو سب سے پہلے با آواز بلند السلام علیکم ورحمة اللہ کہتے چاہے کوئی دفتر میں موجود ہو یا نہ ہو۔

قرآن کریم سے بے انتہا لگاؤتھا اور صوم وصلوٰة کے بہت پابند تھے ۔کہتے تھے کہ نماز پڑھنے کے واسطے کوئی عُذر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیشہ یہ کہتے کہ نماز کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ مہمان نواز بھی بہت تھے۔ جب کبھی ہم ان کے ہاں مہمان ہوتے تو واپسی پر دروازے تک رُخصت کرنے آتے اور جب تک ہماری گاڑی دُور تک چلی نہ جاتی ہاتھ ہلا کر الوداع کرتے رہتے۔

خلافت سے آپ کا بہت گہرا تعلق تھا جب کبھی کوئی اِنہیں دُعا کے واسطے کہتا تو فوراََ کہتے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں دُعا کا خط لکھیں۔ خود بھی بہت دُعا گو انسان تھے۔ ہمیشہ اپنے خاتمہ بالخیر کے واسطے دُعا کے لیے کہتے۔ اپنی وفات سے قبل آپ کچھ عرصہ بیمار رہے اور پانچ جنوری کو اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ

خاکسار کو قریبا ًسات سال ان کے ساتھ دفتر میں خدمت کا موقع ملا، ان کی جماعتی خدمات اس امر کی محتاج ہیں کہ ان کی خدمات اور اچھے اوصاف اور خدمت کے طریقے ہماری موجودہ اور آنےوالی نسلوں کے واسطے ایک مشعل راہ کی حیثیت میں ہمیشہ زندہ رہیں۔ یقیناً داوٴد صاحب جماعتی زندگی میں ایک عملی نمونہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماے۔ آمین ثم آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button