حضرت مصلح موعود ؓ

صفائی نیت سے السلام علیکم کہو

(خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعودؓ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۱۹۲۱ءبمقام سری نگر)

۱۹۲۱ء کے اس خطبہ جمعہ میں حضورؓنے السلام علیکم کے معنی بیان فرمائے کہ کس طرح حقیقی سلامتی حاصل ہو سکتی ہے اور نیت کا اعمال میں کیسے عمل دخل ہوتا ہے ۔ حضورؓ نے مختلف مثالوں کے ذریعہ ان امور پر روشنی ڈالی ہے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ جمعہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورؓ نے فرمایا:

میں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ نیتوں کا اعمال پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ اس بات کے واضح کرنے کے لئے میں ایک ایسی مثال بیان کرتا ہوں جو ہر ایک مسلمان کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اور اس ملک میں خصوصاً بہت رائج ہے۔ نبی کریم ﷺفرماتے ہیں کہ افشاء سلام آپس کی محبت اور تعلق کو بڑھاتا ہے۔ (مشکوۃ کتاب الآداب باب السلام) اس کی اہمیت پر آپ نے بہت زور دیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہؓ کے دلوں میں اس مسئلہ کی خاص عظمت گڑگئی تھی۔

بعض بازار میں صرف اس غرض سے جاتے تھے کہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہیں

ایک دفعہ ایک صحابی نے دوسرے کو کہا چلو بازار چلیں۔ اس نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا لوگوں کو ہم سلام کریں گے اور وہ ہم کو۔ (مشکوۃ کتاب الآداب باب السلام)وہ لوگ اس کی غرض اور حقیقت کو خوب سمجھتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہ سلام آپس کی محبت اور پیار بڑھاتا ہے اور فتنوں کو دور کرتا ہے یونہی نہیں تھا۔السلام علیکم وہ سلامتی ہے جس کا خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور جو ملا ئکہ چاروں طرف سے جنتیوں کو دیں گے۔ اس سے اسی سلامتی کی طرف اشارہ ہے۔

مومن جب فوت ہوتا ہےتو اس پر سلامتی کے دروازے چاروں طرف سے کھل جاتے ہیں۔

یوں تو بیماری سے بچنا بھی سلامتی ہے مگر کامل سلامتی موت کے بعد ہی ہوتی ہے۔ دنیا میں کامل سلامتی کبھی نہیں مل سکتی۔ یہاں جتنی راحتیں اور آرام ہوتے ہیں وہ تمام دکھ کے ساتھ ملوث ہیں مگر مرنے کے بعد جو سلامتی مومن کو حاصل ہوتی ہے وہ کامل ہے۔ جنت میں مومن کو اس کی خواہشات سے بڑھ چڑھ کر ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے نچلے درجے کے مومن کو خدائے تعالیٰ فرمائے گا کہ مانگ جو مانگتا ہے۔ تو وہ مانگے گا۔ پھر حکم ہو گا کہ اَور مانگ۔ آخرکار وہ مانگنے سے قاصر ہو جائے گا۔ یعنی اسے معلوم نہ ہو گا کہ کیا مانگے۔ پھر خداتعالیٰ خود اس کو بہت سی نعمتیں عطا فرما دے گا۔(مشکوٰة كتاب الفتن باب الحوض و الشفاعة)

السلام علیکم کے معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ تجھے موت کے بعد اپنی تمام نعمتیں اور ہر قسم کی راحتیں عطا فرماوے

اکثر لوگ السلام علیکم کہتے ہیں مگر اس کے معنی نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ ظاہر میں تو السلام علیکم کہتے ہیں مگر دل میں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کا بیڑا غرق کرے۔ یہاں کشمیر کے لوگوں میں سلام کا بہت رواج ہے۔ یہاں تک کہ عورتیں بھی بکثرت السلام علیکم کہتی ہیں۔ اس کی اشاعت یہاں دیگر ممالک سے کہیں بڑھ کر ہے۔ مگر کیا سلامتی اور آپس میں محبت و پیار زیادہ ہے؟نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اصدق الناس تھے۔ آپؐ کی بتائی ہوئی بات بھلا کس طرح غلط ہو سکتی ہے۔ آپؐ کا مرتبہ تو وہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران : ۳۲) اگر تم خدا کے عاشق بننا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔ پھر تم خدا کے نہ صرف عاشق بلکہ معشوق بھی ہو جاؤ گے۔ سو جو کچھ بھی آپ نے فرمایا ہےسچ ہے پھر

اس کی کیا وجہ ہے کہ گو یہاں سلام کی اشاعت بہت ہے مگر تفرقہ بھی بہت ہے۔

اس بات کا جواب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ انما الا عمال بالنیات (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف كان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )۔ ہر ایک کام کا معیار انسان کے ذہن میں ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اچھے کھانے کا ذکر ہے اس سے ہر ایک اپنے ملک کے معیار کے مطابق ایک اندازہ مقرر کر لیتا ہے۔ اچھا اور اعلیٰ ایک اندازہ پیدا کرا دیتا ہے۔

اعمال کا کمال وہ ہوتا ہے کہ ان سے وہ نتائج پیدا ہوں جو ان سے غرض تھی۔

جو شخص اس نیت سے گھر سے چلا تھا کہ میں نماز پڑھوں اور دوسرا جو لوگوں کو دیکھ کر کھڑا ہو جاوے اور نماز شروع کر دے ان دونوں کے اعمال میں بڑا فرق ہے۔ یہی بات عام کاموں میں بھی ہے۔ یہ بات طب نے بھی ثابت کر دی ہے۔ مثلاً کہتے ہیں کہ موٹا کرنے کے لئے ہر ایک عضو پر پانی پڑتے وقت آدمی خیال کرے کہ جوں جوں پانی پڑتا ہے۔ اس کو صحت ہوتی جاتی ہے۔ تو اس طرح اس کو واقعی فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔سو نیتوں اور خیالات کا اثر انسان کے اعمال پر بہت پڑتا ہے۔ایک عام مثال بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ کے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے صرف سورۃ براءت کے پہلے نہیں مگر وہ بھی سورہ انفال کا حصہ ہے بسم اللہ میں خدا کے حضور دعا کی جاتی ہے کہ اس کام کو تیرے نام اور مدد سے شروع کرتا ہوں۔ اسی طرح یہ حکم کہ فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ(النحل : ۹۹) کیوں دیا گیا ہے۔

نیکی کا کام کرتے وقت اعوذ کے کیا معنی۔ یہ اس لئے کہ انسان کی نیت کا اثر اچھا پڑے۔

جو لوگ اعوذ باللہ۔ بسم اللہ کے ساتھ قرآن مجید نہیں پڑھتے۔ جیسے پنڈت دیانند صاحب نے پڑھا تھا یا پادری وغیرہ پڑھتے ہیں وہ اس کے برکات سے محروم رہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں ابو جہل بھی جاتا تھا اور حضرت ابو بکرؓ بھی۔ مگر دونوں نے جو فائدہ اٹھایا وہ عیاں ہے۔

ایک آدمی کا ایمان ہر آیت پر بڑھتا ہے اوردوسرے کا ہر ایک آیت پر بگڑتا ہے۔

اور اس کو اعتراض سوجھتے ہیں۔ ایک ہی پانی سے حنظل کڑوا ہو جاتا ہے اور بعض اَور پھل شیریں۔ اعوذ سے انسان شیطان سے خدا تعالیٰ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ اور بسم اللہ میں خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے۔ سو ہمیشہ نیتوں کو پاک و صاف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ نیک نتائج پیدا ہوں۔

(الفضل ۵؍ستمبر ۱۹۲۱ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button