متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعائیں اور قبولیت دعا کے واقعات

(طاہر محمود۔ ہیمبرگ، جرمنی)

ان کو میں نے یہ لکھا کہ دعائیں کرو میں بھی دعا کروں گا خدا تعالیٰ کے آگے تو کوئی چیز انہونی نہیں ہےجو وہ چاہتا ہے کرتا ہے

دعا کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب’’برکات الدعا‘‘بہترین کتاب ہے جو آپ نےمنکرین دعا بالخصوس سر سید احمد خان صاحب کے لیے تصنیف فرمائی تھی۔

حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاوّلؓ)فرماتے ہیں: ’’سید احمد خاں مجھے جانتے تھے اور میں ان کو اچھی طرح جانتا تھا۔ ان کی’’الدعا والاستجابت ‘‘پر میری تحریک سے’’برکات الدعا‘‘رسالہ نکالا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے خط و کتابت کا سلسلہ مجھ سے زیادہ کر لیا اور قریب ایام مرگ مجھے لکھا کہ بدون نصرت الٰہیہ اور دعا کے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (ارشادات نور جلد اول صفحہ ۸۷)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبولیت دعا کا نشان عطا کیا گیا اور آپ نے مخالفین کو قبولیت دعا کا چیلنج بھی دیا اور دعا کے مضمون کو واضح کرتے ہوئےفرمایا ’’ مقبولوں کی دعائیں ہی کثرت سے قبول ہوتی ہیں…ان کے انفاس پاک سے اور ان کی برکات سے یہ جہان آباد ہو رہا ہے انہیں کی برکت سے بارشیں ہوتی ہیں اور انہیں کی برکت سے دنیا میں امن رہتا ہے اور وبائیں دور ہوتی ہیں اور فساد مٹائے جاتے ہیں…‘‘ (آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۵۲)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اپنے اپنے دور میں آپ کے خلفاء کو بھی قبولیت دعا کا نشان دیا گیاجس کا اظہار مختلف مواقع پر ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’میں نے آپ کی تسکین قلب کے لئے، آپ کا بار ہلکا کرنے کے لئے، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور مجھے پورا یقین اور پورا بھروسہ ہے اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رد نہیں کرے گا۔‘‘(جلسہ سالانہ کی دعائیں ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۵ء صفحہ۴روزنامہ الفضل ۳۰ دسمبر۱۹۶۵ء)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبولیت دعا کا نشان عطا فرمایا جس کی جھلک آپ کی خلافت کے اٹھارہ سالوں میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔اس مضمون میں اختصار کے پیش نظر آپ کی چند دعائیں اور قبولیت دعا کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔

خدائے رحمان کا دروازہ

’’ وہ دعا جو تدبیر کا حصہ بنتی اور مادی تدبیر کی کامیابی کے لئے کی جاتی ہے اور خدا کی صفت رحیمیت کو جوش میں لاتی ہے….. اگر تدبیر ناکام ہو جائے یا اگر تدبیر سوجھے ہی نہ۔ ہر دو صورتوں میں ہمیں خدائے رحمان کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے جس وقت مریض لا علاج قرار دے دیا جاتا ہے اور مادی تدبیر کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے کی گئی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر مبرم ہے اس وقت اگر رحمان کی صفت رحمانیت کے آگے عاجزی اختیار کی جائے اور اپنے رحمان خدا سے یہ کہا جائے کہ اے ہمارے رب! تو رحیم بھی ہے، تو رحمان بھی ہے، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم تیری صفت رحیمیت کا دروازہ کھلوانے میں ناکام ہوئے ہیں اب ہم تیری رحمان ہونے کی صفت کے حضور جھکتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ نہ ہمارا کوئی عمل نہ کوئی تدبیر جس طرح تو نے سورج اور چاند کو نیز بے شمار ستاروں کو ہماری فلاح اور بہبود کے لئے پیدا کیا ہے اب بھی اپنی رحمانیت کی صفت کا جلوہ دکھا اور یہ کام کر دے۔

تو جب رشتے دار مایوس ہو جاتے ہیں اور طبیب مریض کو لا علاج قرار دیتا ہے اور وہ دعائیں جو تدبیر کا ہی حصہ ہیں، تدبیر بھی ہیں، وہ بھی قبولیت حاصل نہیں کرتیں اس وقت اگر ہم رحمان خدا کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو بسا اوقات وہ ہمارے لئے کھولا جاتا ہے ہمارے رب نے جس طرح بے شمار چیزیں ہمارے اعمال سے بھی پہلے ہمارے لئے پیدا کر دی تھیں اور ان کو ہماری خدمت میں لگا دیا تھا وہ خدائے رحمان اپنی تمام قدرتوں اور طاقتوں کے ساتھ آج بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح آج سے پہلے تھا۔

غرض جب رحیمیت کا دروازہ نہ کھلے تو ہمیں رحمانیت کے دروازے پہ جا کے کھڑے ہو جانا چاہیے کہ تدبیریں تو نے پیدا کیں ان کے استعمال کا ہمیں حکم دیا تدبیروں کو کمال تک پہنچانے کے لئے تدبیر کا ہی ایک حصہ بنا کر تدبیر کی کامیابی کے لئے دعا کا ہم کو حکم دیا، ہم نے اپنے جتن کئے، ہم کامیاب نہیں ہوئے اس لئے تو ہمارے لئے اپنی صفت رحمانیت کو جوش میں لا اور ہماری ضرورت کو پورا کر جس طرح بے شمار ضرورتیں تو نے ہمارے بغیر کسی عمل اور استحقاق کے اس سے پہلے پوری کر دیں ۔‘‘(انوار القرآن جلد اول صفحہ ۱۵،۱۴)

خدا کے فرشتوں نے جھنجھوڑا

’’ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ اس کے ایک عزیز پر قتل کا مقدمہ ہو گیا ہے۔ قتل ہوا تھا کوئی، قاتلوں کے نام بھی بیچ میں آئے کئی معصوموں کے نام بھی آجاتے ہیں، غلط فہمیاں بھی ہو جاتی ہیں پیدا۔ لکھا میرا عزیز جو ہے وہ بالکل بےگناہ ہے لیکن قتل کے مقدمے میں ملوث ہو گیا ہے اور سیشن جج نے پھانسی، پنجاب کے ہائی کورٹ نے پھانسی، سپریم کورٹ نے پھانسی سنادی گورنر نے ہماری اپیل رد کر دی ہے اور اب ہم پریذیڈنٹ صاحب کے پاس اپیل کر رہے ہیں اور وکلا کہتے ہیں کہ آج تک تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ ان حالات میں صدر مملکت اس قسم کی اپیل کو منظور کر لے۔

اتنا بھیانک نقشہ انہوں نے کھینچا ہوا تھا اپنے خلاف کہ میرے دماغ میں پہلا جو خیال آیا وہ غلط تھا دماغ میں یہ فقرہ بنا کہ ان حالات میں پھر جو اللہ چاہتا ہے اس کی رضا پہ راضی رہو تو اس وقت مجھے خدا کے فرشتے نے جھنجھوڑا کہ اپنے ایک احمدی کو تم اس وقت یہ سبق دینا چاہتے ہو کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ خیر میں کانپ اٹھا بڑی استغفار کی اور ان کو میں نے یہ لکھا کہ دعائیں کرو میں بھی دعا کروں گا خدا تعالیٰ کے آگے تو کوئی چیز انہونی نہیں ہے جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے۔

میرا خط چلا گیا کوئی دس پندرہ دن کے بعد ان کا خط آیا کہ وہ چھٹ کر ہمارے گھر آگیا ہے تو قرآن نے و ہ اعلان کیا تھا وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق : ۴)

ضمانت پر رہا ہو کے گھر نہیں آئیں گے بری ہوکر آجائیں گے

’’ ایک اور دوست ہیں اچھے زمیندار وہ اسی طرح کسی کیس میں ملوث ہوئے ان کا پرچے میں نام آگیا ان کےگھر سے بڑی فکر مند ان کی اہلیہ صاحبہ آئیں اور بار بار کہیں دعا کریں ضمانت پہ رہا ہوکے گھر آجائیں بہت پیچھے پڑی رہیں میں نے کہا دعا کریں گے۔

میں نے دعا کی تو مجھے بتایا گیا کہ ضمانت پر رہا ہو کے گھر نہیں آئیں گے بری ہو کے آ جائیں گے۔دوسری دفعہ آئیں تو میں نے انہیں کہا ضمانت کی ساری کوششیں چھوڑ دو پندرہ دن مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے ضمانت پہ یہ شخص رہا نہیں ہوگا بری ہوگا اور انہوں نے میرے کہنے کے باوجود بڑی کوششیں کیں ادھر ادھر سے ساری کوششیں ناکام۔ ضمانت پہ رہا نہیں ہوئے بری ہو کے گئے گھر میں۔‘‘( انوار القرآن جلد سوم صفحہ ۳۳۱)

استعدادوں کی نشو ونما کی دعا

’’اےخدا! جو تو نے مجھے قوتیں اور استعدادیں دی ہیں اپنےفضل سے مجھے یہ توفیق عطا کر کہ میں اپنی ہر قوت اور استعداد کی نشو ونما کروں اور اسے کمال تک پہنچاؤں اور ان سے بہترین فائدہ تیری رضا کےحصول کے لئے حاصل کروں اور اپنے نفس کی اس کامل اورصحیح نشوونما کےبعد جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے انسان کے، تو جو دنیا کی نعمتیں ہیں ان کو حاصل بھی کروں اس رنگ میں جو تجھے پسند ہو اور استعمال بھی کروں اس طریق پر جو تیری رضا کے حصول میں ممد اور معاون ہو۔‘‘(انوار القرآن جلد اول صفحہ ۲۶۹)

مذہبی آزادی کی دعا

’’ اے واحد و یگانہ رب! ہم صرف تیرے ہی بندے ہیں صرف تجھ پر ہمارا توکل ہے اور تجھ سے ہی ہم دعا کرتے ہیں کہ تنگی اور ظلم کے ان ایام کو دور فرما اور آزادی اور کامیابی کا راستہ نکال ‘‘(قلمی نوٹس سورۃ الکہف)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button